پاکستان میں مسلم دنیا کے عظیم مفکر سمجھنے والے شاعر کے چند اشعار ملاحظہ کیجئے
کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسہ
مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی
---------
اللہ کو پامردی مومن پہ بھروسہ
ابلیس کو یورپ کی مشینوں کا سہارا
---------
فضائے بدر پیدا کر فرشتے تیری نصرت کو
اتر سکتے ہیں گرُدوں سے قطار اندر قطار اب بھی
--------
خیرہ نہ کرسکا مجھے جلوہِ دانشِ فرنگ
سرمہ ہے میری آنکھ کا خاکِ مدینہ و نجف
ان اشعار میں آپ کو کیا چیز مشترک نظرآرہی ہے؟ کہ اقبال نے اسباب پر انحصار کرنے کی بجائے مسلمانوں کو آسمانی مدد کی طرف دیکھنے کی تلقین کی ہے۔ اقبال وہ شخص ہے جس نے برصغیر کے مسلمانوں کی منجی ٹھوکنے میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔ اقبال کا زمانہ وہ تھا جب دنیا انڈسٹریل ریوولیوشن کی بدولت سائنس اور ٹیکنالوجی کے سیلاب میں بہے جارہی تھی، زمانہ نئی انگڑائی لے رہا تھا، مگر اقبال نے مسلمانوں کو سبق دیا کہ تمہیں افرنگ کی دانش کے اس جلوے سے متاثر ہونے کی ضرورت نہیں، تمہارے لئے تو ہر وقت گردوں سے فرشتے اترنے کو تیار کھڑے ہوتے ہیں۔ مسلمانوں نے تو پہلے بھی اسی سوچ کو اپنا رکھا تھا، اقبال نے اس سوچ کو مزید راسخ کردیا۔
قریباً ایک سال سے اسرائیل اور غزہ میں چھڑی جنگ کی روشنی میں مسلمانوں کی سوچ اور عقائد کو پرکھا جائے تو صاف نظر آتا ہے کہ آسمانوں سے کبھی کسی کیلئے کوئی مدد نہیں آتی۔ یہ آپ کو سب کہانیاں سنائی گئی ہیں کہ کعبہ پر ابرہہ نے حملہ کیا تو ابابیلوں کے غول کے غول آئے اور ہاتھیوں پر کنکر برسا کر ہاتھیوں کا بھوسہ بنادیا۔ کہاں ہیں وہ ابابیلیں؟ اگر واقعی یہ آسمانی مدد تھی تو آج وہ مدد ان مسلمانوں کیلئے کیوں نہیں آرہی جو خود کو اللہ کی سب سے محبوب مخلوق سمجھتے ہیں۔ اسرائیل پچھلے ایک سال سے غزہ میں ان مسلمانوں کو کتوں کی طرح ماررہا ہے، پورے غزہ کو کھنڈر بنادیا ہے، مگر ابھی تک تو آسمانوں سے کوئی مدد نہیں آئی۔
کل اسرائیل نے جس طرح ٹیکنالوجی کی مدد سے ایک ہی جھٹکے میں حزب اللہ کے 3000 جانبازوں کو پیجر حملے میں بری طرح زخمی کرکے ہسپتال پہنچا دیا ہے، اس نے دنیا کو حیران کردیا ہے کہ جدید دنیا میں ٹیکنالوجی سے آپ کس کس طرح کے کام لے سکتے ہیں۔ یہ زخمی ہونے والے شاید باقی زندگی نارمل طرح سے جی نہ سکیں، کیونکہ بیشتر کے منہ اور آنکھیں اڑگئی ہیں، کئیوں کے پیٹ پھٹ گئے ہیں، بہت سوں کی ٹانگیں اڑگئی ہیں۔ یہ کوئی معمولی حملہ نہیں تھا۔ اسرائیل نے اس سے پہلے بھی بہت سے کارہائے نمایاں سرانجام دیئے ہیں جیسا کہ ایرانی صدر اور حماس کے رہنما اسماعیل ہنیا کا ایران میں قتل۔ آج اسرائیل اکیلا کئی محاذوں پر لڑرہا ہے، غزہ میں لڑرہا ہے، ایران کے ساتھ پراکسی وار لڑرہا ہے، لبنان میں حزب اللہ کے ساتھ لڑرہا ہے اور سب کو اس نے ناکوں چنے چبوادئیے ہیں۔ یہ کس کی بدولت ممکن ہوا ہے؟ یہ سب سائنس اور ٹیکنالوجی کا کرشمہ ہے جس کو مسلمانوں نے حرام سمجھا ہوا ہے۔ پوری دنیا کے پونے دو ارب مسلمان پچھلے ستر سال سے اسرائیل کو بددعائیں دینے پر لگے ہیں، مگر اسرائیل کا ککھ نہیں بگاڑ سکے۔ ابھی بھی مسلمانوں کو سمجھ نہیں آرہی کہ دنیا کام کیسے کرتی ہے۔ دنیا کاز اینڈ ایفیکٹ کے اصول پر چلتی ہے۔ آسمانوں سے نہ کبھی کوئی مدد آئی ہے نہ کبھی آئے گی۔ زمین پر جو بھی ہوتا ہے اس میں کوئی آسمانی مداخلت نہیں ہوتی۔ انسان کو اپنا دفاع بھی خود کرنا پڑتا ہے، اپنی جنگیں بھی خود لڑنی پڑتی ہیں، اپنی بیماریوں کا علاج بھی خود ہی ڈھونڈنا پڑتا ہے۔ آسمانوں سے کبھی کسی بیماری کا علاج نہیں آیا۔
کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسہ
مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی
---------
اللہ کو پامردی مومن پہ بھروسہ
ابلیس کو یورپ کی مشینوں کا سہارا
---------
فضائے بدر پیدا کر فرشتے تیری نصرت کو
اتر سکتے ہیں گرُدوں سے قطار اندر قطار اب بھی
--------
خیرہ نہ کرسکا مجھے جلوہِ دانشِ فرنگ
سرمہ ہے میری آنکھ کا خاکِ مدینہ و نجف
ان اشعار میں آپ کو کیا چیز مشترک نظرآرہی ہے؟ کہ اقبال نے اسباب پر انحصار کرنے کی بجائے مسلمانوں کو آسمانی مدد کی طرف دیکھنے کی تلقین کی ہے۔ اقبال وہ شخص ہے جس نے برصغیر کے مسلمانوں کی منجی ٹھوکنے میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔ اقبال کا زمانہ وہ تھا جب دنیا انڈسٹریل ریوولیوشن کی بدولت سائنس اور ٹیکنالوجی کے سیلاب میں بہے جارہی تھی، زمانہ نئی انگڑائی لے رہا تھا، مگر اقبال نے مسلمانوں کو سبق دیا کہ تمہیں افرنگ کی دانش کے اس جلوے سے متاثر ہونے کی ضرورت نہیں، تمہارے لئے تو ہر وقت گردوں سے فرشتے اترنے کو تیار کھڑے ہوتے ہیں۔ مسلمانوں نے تو پہلے بھی اسی سوچ کو اپنا رکھا تھا، اقبال نے اس سوچ کو مزید راسخ کردیا۔
قریباً ایک سال سے اسرائیل اور غزہ میں چھڑی جنگ کی روشنی میں مسلمانوں کی سوچ اور عقائد کو پرکھا جائے تو صاف نظر آتا ہے کہ آسمانوں سے کبھی کسی کیلئے کوئی مدد نہیں آتی۔ یہ آپ کو سب کہانیاں سنائی گئی ہیں کہ کعبہ پر ابرہہ نے حملہ کیا تو ابابیلوں کے غول کے غول آئے اور ہاتھیوں پر کنکر برسا کر ہاتھیوں کا بھوسہ بنادیا۔ کہاں ہیں وہ ابابیلیں؟ اگر واقعی یہ آسمانی مدد تھی تو آج وہ مدد ان مسلمانوں کیلئے کیوں نہیں آرہی جو خود کو اللہ کی سب سے محبوب مخلوق سمجھتے ہیں۔ اسرائیل پچھلے ایک سال سے غزہ میں ان مسلمانوں کو کتوں کی طرح ماررہا ہے، پورے غزہ کو کھنڈر بنادیا ہے، مگر ابھی تک تو آسمانوں سے کوئی مدد نہیں آئی۔
کل اسرائیل نے جس طرح ٹیکنالوجی کی مدد سے ایک ہی جھٹکے میں حزب اللہ کے 3000 جانبازوں کو پیجر حملے میں بری طرح زخمی کرکے ہسپتال پہنچا دیا ہے، اس نے دنیا کو حیران کردیا ہے کہ جدید دنیا میں ٹیکنالوجی سے آپ کس کس طرح کے کام لے سکتے ہیں۔ یہ زخمی ہونے والے شاید باقی زندگی نارمل طرح سے جی نہ سکیں، کیونکہ بیشتر کے منہ اور آنکھیں اڑگئی ہیں، کئیوں کے پیٹ پھٹ گئے ہیں، بہت سوں کی ٹانگیں اڑگئی ہیں۔ یہ کوئی معمولی حملہ نہیں تھا۔ اسرائیل نے اس سے پہلے بھی بہت سے کارہائے نمایاں سرانجام دیئے ہیں جیسا کہ ایرانی صدر اور حماس کے رہنما اسماعیل ہنیا کا ایران میں قتل۔ آج اسرائیل اکیلا کئی محاذوں پر لڑرہا ہے، غزہ میں لڑرہا ہے، ایران کے ساتھ پراکسی وار لڑرہا ہے، لبنان میں حزب اللہ کے ساتھ لڑرہا ہے اور سب کو اس نے ناکوں چنے چبوادئیے ہیں۔ یہ کس کی بدولت ممکن ہوا ہے؟ یہ سب سائنس اور ٹیکنالوجی کا کرشمہ ہے جس کو مسلمانوں نے حرام سمجھا ہوا ہے۔ پوری دنیا کے پونے دو ارب مسلمان پچھلے ستر سال سے اسرائیل کو بددعائیں دینے پر لگے ہیں، مگر اسرائیل کا ککھ نہیں بگاڑ سکے۔ ابھی بھی مسلمانوں کو سمجھ نہیں آرہی کہ دنیا کام کیسے کرتی ہے۔ دنیا کاز اینڈ ایفیکٹ کے اصول پر چلتی ہے۔ آسمانوں سے نہ کبھی کوئی مدد آئی ہے نہ کبھی آئے گی۔ زمین پر جو بھی ہوتا ہے اس میں کوئی آسمانی مداخلت نہیں ہوتی۔ انسان کو اپنا دفاع بھی خود کرنا پڑتا ہے، اپنی جنگیں بھی خود لڑنی پڑتی ہیں، اپنی بیماریوں کا علاج بھی خود ہی ڈھونڈنا پڑتا ہے۔ آسمانوں سے کبھی کسی بیماری کا علاج نہیں آیا۔
- Featured Thumbs
- https://i.ibb.co/6DdkbmH/ioawr.jpg