ڈاکٹر شاہد مسعود کا سورس کون،پتہ چل گیا۔
زینب قتل کیس کے بعد پاکستان میں سب سے زیادہ ہلچل مچانے والے ڈاکٹر شاہد مسعود کا سورس کون ہے، کس نے ڈاکٹر شاہد مسعود کو یہ خبر دی، اس کے بارے میں سارا کچھ پتہ چل گیا ہے، یہ دعوی ہے پنجاب کے وزیر قانون رانا ثناء اللہ کا جو اس نے غریدہ نامی ایک خاتون اینکر کو آن ائر انٹرویو یا گفتگو میں بتایا۔
اینکر کے بار بار اصرار پر رانا ثنا نے اس مذکورہ سورس کا نام یا اس کے بارے میں کوئی اشارہ نہیں دیا۔
رانا ثناء کی اس گفتگو سے یہ بات واضع ہو گئی کہ پنجاب حکومت کو اس بات کا یقین ہے کہ ڈاکٹر شاہد مسعود کے پاس انتہائی اہم خبر موجود ہے، اور شاہد مسعود نے پاکستانی روائتی صحافت سے ہٹ کر اس کیس کے بارے میں تحقیق کی ہے اور تحقیق کے نتیجے میں ان کے پاس یہ اہم معلومات پہنچی ہیں۔
سوال یہ پید ہوتا ہے کہ ڈان لیکس پر پاکستانی صحافیوں نے ایسا طوفان بد تمیزی برپا نہیں تھا، ان پاکستانی صحافیوں نے بلوچستان سے ایک وزیر کے گھر ساٹھ کروڑ روپے ملنے پر ایسا شور نہیں کیا تھا، ان صحافیوں نے نواز شریف کے اس بیان کہ مجیب الرحمان سچاآدمی تھا، محب وطن تھا اور مجھے مجیب الرحمان بننے پر مجبور نہ کریں پر ایسا شدید رد عمل نہیں دیا تھا، ان صحافیوں نے اس وقت بھی ایسا شور برپا نہیں تھا جب نواز شریف اور اس کی بیٹی ججوں کے نام لے لے کر ان کو گالیاں دے رہے تھے۔
ان صحافیوں نے اس وقت بھی اپنی چونچ نہیں کھولی جب جنگ اور جیو پاکستان کے خلاف ہندوستان اور امریکہ کی مدد کر رہے تھے اور شکیل الرحمان عدالت کے باہر کھڑا ہو کر عدالت کو بے ہودہ قرار دے رہا تھا؟
لیکن کیا وجہ ہوئی کہ جونہی ڈاکٹر شاہد مسعود نے یہ کہا کہ میرے پاس کچھ معلومات ہیں جو عدالت مجھ سےلے اور اس کیس کی مزید تفتیش کرے تو پنجاب حکومت سمیت نناوے فیصد پاکستانی چینل اور صحافی ڈاکٹر شاہد مسعود کو براہ راست ٹی وی پر بیٹھ کر گالیاں دینے لگے؟
پنجاب وہ صوبہ ہےجس کی شریف حکومت ٹی وی چینلز کو پورے پاکستان سے زیادہ اشتہار دیتی ہے، اور اسی طرح یہ شریف حکومت کم وبیش ہر صحافی کو خوش بھی رکھتی ہے ، یہ وہ وجہ تھی کہ جونہی ڈاکٹر شاہد مسعود نے اپنا بیان دیا ہر طرف سے یہ مذکورہ چینلز اور صحافی گدھوں کی طرح ڈاکٹر شاہد مسعود پر ٹوٹ پڑے، حالانکہ سوال ڈاکٹر شاہد مسعود سے ان کا یہ بنتا تھا کہ ، ڈاکٹر صاحب کیا آپ اپنی تحقیق اور اس کے نتائج پر مطمعن ہیں؟ آپ کے سورس کیا ہیں؟ آپ نے کس نکتے کو سامنے رکھ کر اس کیس پر اپنی تحقیق شروع کی؟ اگر عدالت میں آپ ثابت نہ کر سکے تو اس کے نتائج کی جواب دہی آپ پر ہوگی؟
بات یہاں ختم ہوجاتی اور باقی کا کام عدالت خود کرتی، لیکن یہ ایسے گدھ ہیں جنہوں نے ڈاکٹر شاہد مسعود کو مردہ جان کر نوچنا شروع کردیا۔
سوال یہ ہے کہ اگر ہندوستانی شہریوں کے پاکستانی پاسپورٹ بن سکتے ہیں ،تو اس عمران نامی شخص کے کیوں نہیں بن سکتے؟
اگر افغان شہریوں کے(افغان پناہ گزینوں کے نہیں) پاکستانی پاسپورٹ بن سکتے ہیں تو، اس عمران نامی شخص کے کیوں نہیں بن سکتے؟
اگرہندوستانی سکھوں کے پاکستانی پاسپورٹ بن سکتے ہیں تو، اس عممران نامی مجرم کے کیوں نہیں بن سکتے؟
اگر تیس ہزار پاکستانی پاسپورٹ اور شناختی کارڈ غیر ملکیوں اور دہشت گردوں کے بن سکتے اور وہ پاکستان میں رہ اور سفر کر کتے ہیں تو، اس عمران نامی مجرم کے کیوں نہیں بن سکتے؟
سپریم کورٹ جب اس ڈارک ویب کو کھولے گی تو اس میں سے آپ دیکھے گے کہ کون کون سے طرم شاہ اور طرم خان آپ کے سامنے آئیں گے۔
ڈاکٹر شاہد مسعود کا بیرون سفر، مختلف مقامات پر مختلف لوگوں سے ملنا، اور مختلف شخصیات کے بارے میں ڈاٹا کھنگالنا، یہ سب کچھ عنقریب سامنے آ جائے گا۔
بالفرض اگر ڈاکٹر شاہد مسعود کے پاس کچھ بھی نہیں تب بھی عدالت اس بات کی پابند ہے کہ ان الزامات کی خود اپنے ماہرین سے تحقیقات کروائے۔
لیکن ایسا نہیں، بلکہ بہت کچھ ہے جو عنقریب سامنے آنے والا ہے۔
پنجاب حکومت کا خوف اور اس کی گھبراہت اور پاکستان کے نناوے فیصد صحافیوں کا ڈاکٹر شاہد مسعود کو گالیاں دینا، پھانسی کی سزا کا مطالبہ کرنا،صحافت شدید نقصان پہنچانا، مذاق میں نہیں کیا جا رہا بلکہ اس کے پیچھے رانا ثناء ، عابد شیر علی، چودری طلال اور دیگر دو تین اور ہیں ان کا خوف اور گھبراہٹ ہے۔
نون لیگ نے عمران خان کو بھلا دیا ہے، عمران خان کا نام بھی اس وقت نون لیگ کے ذہنوں میں نہیں ہے، اس وقت صرف ڈاکٹر شاہد مسعود ہے جس کو یہ اب سب سے بڑا دشمن قرار دے چکے ہیں۔
دنیاں میں بچوں کوکیوں اغوا کیا جاتا ہے، ان بچوں کے ساتھ زیادتی کے علاوہ کیا کیا کیا جاتا ہے، انشاءاللہ اس پر کسی اور وقت بات کریں گے، یہ اس لیئے کہ پاکستان کے یہ پرانے گھامڑ بڈھے صحافی حسد اور بغض میں قوم کو غلط راستوں پر ڈال رہے ہیں اور آج سے پچاس سال قبل کی صحافت کو سینے سے لگائے پھر رہے ہیں،اور ان کا مطالبہ ہے کہ ان کی صحافت کو مستند مانا جائے۔
جسٹس ثاقب نثار نے اتوار کے دن جو ہیرنگ رکھی ہے یہ انہوں نے مذاق میں نہیں رکھی، بلکہ ان کو بھی بہت کچھ پہنچ چکا ہے کہ کون کیا کر رہا ہے اور کیا ہونے والا ہے، جسٹس صاحبان کو بھی کچھ خدشات ہیں اسی لیئے انہوں نے وقت ضائع کرنا مناسب نہیں سمجھا۔
قوم کے خلاف بڑی بڑی چالیں چلی جا رہی ہیں لیکن۔ اللہ خیرالماکرین۔
زینب قتل کیس کے بعد پاکستان میں سب سے زیادہ ہلچل مچانے والے ڈاکٹر شاہد مسعود کا سورس کون ہے، کس نے ڈاکٹر شاہد مسعود کو یہ خبر دی، اس کے بارے میں سارا کچھ پتہ چل گیا ہے، یہ دعوی ہے پنجاب کے وزیر قانون رانا ثناء اللہ کا جو اس نے غریدہ نامی ایک خاتون اینکر کو آن ائر انٹرویو یا گفتگو میں بتایا۔
اینکر کے بار بار اصرار پر رانا ثنا نے اس مذکورہ سورس کا نام یا اس کے بارے میں کوئی اشارہ نہیں دیا۔
رانا ثناء کی اس گفتگو سے یہ بات واضع ہو گئی کہ پنجاب حکومت کو اس بات کا یقین ہے کہ ڈاکٹر شاہد مسعود کے پاس انتہائی اہم خبر موجود ہے، اور شاہد مسعود نے پاکستانی روائتی صحافت سے ہٹ کر اس کیس کے بارے میں تحقیق کی ہے اور تحقیق کے نتیجے میں ان کے پاس یہ اہم معلومات پہنچی ہیں۔
سوال یہ پید ہوتا ہے کہ ڈان لیکس پر پاکستانی صحافیوں نے ایسا طوفان بد تمیزی برپا نہیں تھا، ان پاکستانی صحافیوں نے بلوچستان سے ایک وزیر کے گھر ساٹھ کروڑ روپے ملنے پر ایسا شور نہیں کیا تھا، ان صحافیوں نے نواز شریف کے اس بیان کہ مجیب الرحمان سچاآدمی تھا، محب وطن تھا اور مجھے مجیب الرحمان بننے پر مجبور نہ کریں پر ایسا شدید رد عمل نہیں دیا تھا، ان صحافیوں نے اس وقت بھی ایسا شور برپا نہیں تھا جب نواز شریف اور اس کی بیٹی ججوں کے نام لے لے کر ان کو گالیاں دے رہے تھے۔
ان صحافیوں نے اس وقت بھی اپنی چونچ نہیں کھولی جب جنگ اور جیو پاکستان کے خلاف ہندوستان اور امریکہ کی مدد کر رہے تھے اور شکیل الرحمان عدالت کے باہر کھڑا ہو کر عدالت کو بے ہودہ قرار دے رہا تھا؟
لیکن کیا وجہ ہوئی کہ جونہی ڈاکٹر شاہد مسعود نے یہ کہا کہ میرے پاس کچھ معلومات ہیں جو عدالت مجھ سےلے اور اس کیس کی مزید تفتیش کرے تو پنجاب حکومت سمیت نناوے فیصد پاکستانی چینل اور صحافی ڈاکٹر شاہد مسعود کو براہ راست ٹی وی پر بیٹھ کر گالیاں دینے لگے؟
پنجاب وہ صوبہ ہےجس کی شریف حکومت ٹی وی چینلز کو پورے پاکستان سے زیادہ اشتہار دیتی ہے، اور اسی طرح یہ شریف حکومت کم وبیش ہر صحافی کو خوش بھی رکھتی ہے ، یہ وہ وجہ تھی کہ جونہی ڈاکٹر شاہد مسعود نے اپنا بیان دیا ہر طرف سے یہ مذکورہ چینلز اور صحافی گدھوں کی طرح ڈاکٹر شاہد مسعود پر ٹوٹ پڑے، حالانکہ سوال ڈاکٹر شاہد مسعود سے ان کا یہ بنتا تھا کہ ، ڈاکٹر صاحب کیا آپ اپنی تحقیق اور اس کے نتائج پر مطمعن ہیں؟ آپ کے سورس کیا ہیں؟ آپ نے کس نکتے کو سامنے رکھ کر اس کیس پر اپنی تحقیق شروع کی؟ اگر عدالت میں آپ ثابت نہ کر سکے تو اس کے نتائج کی جواب دہی آپ پر ہوگی؟
بات یہاں ختم ہوجاتی اور باقی کا کام عدالت خود کرتی، لیکن یہ ایسے گدھ ہیں جنہوں نے ڈاکٹر شاہد مسعود کو مردہ جان کر نوچنا شروع کردیا۔
سوال یہ ہے کہ اگر ہندوستانی شہریوں کے پاکستانی پاسپورٹ بن سکتے ہیں ،تو اس عمران نامی شخص کے کیوں نہیں بن سکتے؟
اگر افغان شہریوں کے(افغان پناہ گزینوں کے نہیں) پاکستانی پاسپورٹ بن سکتے ہیں تو، اس عمران نامی شخص کے کیوں نہیں بن سکتے؟
اگرہندوستانی سکھوں کے پاکستانی پاسپورٹ بن سکتے ہیں تو، اس عممران نامی مجرم کے کیوں نہیں بن سکتے؟
اگر تیس ہزار پاکستانی پاسپورٹ اور شناختی کارڈ غیر ملکیوں اور دہشت گردوں کے بن سکتے اور وہ پاکستان میں رہ اور سفر کر کتے ہیں تو، اس عمران نامی مجرم کے کیوں نہیں بن سکتے؟
سپریم کورٹ جب اس ڈارک ویب کو کھولے گی تو اس میں سے آپ دیکھے گے کہ کون کون سے طرم شاہ اور طرم خان آپ کے سامنے آئیں گے۔
ڈاکٹر شاہد مسعود کا بیرون سفر، مختلف مقامات پر مختلف لوگوں سے ملنا، اور مختلف شخصیات کے بارے میں ڈاٹا کھنگالنا، یہ سب کچھ عنقریب سامنے آ جائے گا۔
بالفرض اگر ڈاکٹر شاہد مسعود کے پاس کچھ بھی نہیں تب بھی عدالت اس بات کی پابند ہے کہ ان الزامات کی خود اپنے ماہرین سے تحقیقات کروائے۔
لیکن ایسا نہیں، بلکہ بہت کچھ ہے جو عنقریب سامنے آنے والا ہے۔
پنجاب حکومت کا خوف اور اس کی گھبراہت اور پاکستان کے نناوے فیصد صحافیوں کا ڈاکٹر شاہد مسعود کو گالیاں دینا، پھانسی کی سزا کا مطالبہ کرنا،صحافت شدید نقصان پہنچانا، مذاق میں نہیں کیا جا رہا بلکہ اس کے پیچھے رانا ثناء ، عابد شیر علی، چودری طلال اور دیگر دو تین اور ہیں ان کا خوف اور گھبراہٹ ہے۔
نون لیگ نے عمران خان کو بھلا دیا ہے، عمران خان کا نام بھی اس وقت نون لیگ کے ذہنوں میں نہیں ہے، اس وقت صرف ڈاکٹر شاہد مسعود ہے جس کو یہ اب سب سے بڑا دشمن قرار دے چکے ہیں۔
دنیاں میں بچوں کوکیوں اغوا کیا جاتا ہے، ان بچوں کے ساتھ زیادتی کے علاوہ کیا کیا کیا جاتا ہے، انشاءاللہ اس پر کسی اور وقت بات کریں گے، یہ اس لیئے کہ پاکستان کے یہ پرانے گھامڑ بڈھے صحافی حسد اور بغض میں قوم کو غلط راستوں پر ڈال رہے ہیں اور آج سے پچاس سال قبل کی صحافت کو سینے سے لگائے پھر رہے ہیں،اور ان کا مطالبہ ہے کہ ان کی صحافت کو مستند مانا جائے۔
جسٹس ثاقب نثار نے اتوار کے دن جو ہیرنگ رکھی ہے یہ انہوں نے مذاق میں نہیں رکھی، بلکہ ان کو بھی بہت کچھ پہنچ چکا ہے کہ کون کیا کر رہا ہے اور کیا ہونے والا ہے، جسٹس صاحبان کو بھی کچھ خدشات ہیں اسی لیئے انہوں نے وقت ضائع کرنا مناسب نہیں سمجھا۔
قوم کے خلاف بڑی بڑی چالیں چلی جا رہی ہیں لیکن۔ اللہ خیرالماکرین۔