
ن لیگ کے حمایتی جیو نیوز کے صحافی فخردرانی نے لکھا کہ آجکل سیاستدان تو سیاستدان، صحافی بھی پروٹوکول کے دلدادہ ہیں۔ مطلب سپریم کورٹ عمران ریاض کو سیکورٹی دے تو پھر وہ آکر حقائق بتائیں گے۔
انہوں نے مزید کہا کہ چیف جسٹس نے بالکل درست کہا کہ اس سے پہلے ابصار عالم نے میڈیا پر بات کی تو ہم نے کہا عدالت میں آکر بات کریں۔ وہ شاید اثر رسوخ والے نہیں تھے اس لیے وہ آئے۔ کیا عمران ریاض کے لیے ہم ریڈ کارپٹ بچھائیں؟ بھائی پیاسا کنویں کے پاس جاتا ہے یہ چند لوگ خود کو اتنا بڑا سمجھتے ہیں اور چاہتے ہیں کنواں خود چل کر پیاسے کے پاس آئے۔
اس پر ثاقب بشیر نے جواب دیا کہ میں اس نکتے پر بھائی جان آپ سے اختلاف کروں گا بات یہاں تک ٹھیک ہے کہ عمران ریاض خود بھی اس کیس میں پارٹی بن سکتے تھے بن جاتے تب بھی کوئی حرج نہیں تھا اپنا پوائنٹ آف ویوو سپریم کورٹ کے سامنے رکھ دیتے لیکن ساڈھے چار ماہ جبری لاپتہ رہنے والے عمران ریاض پر کیا بیتی ان کے گھر والوں پر کیا بیتی ؟کیسے انہوں نے ایک ایک دن گزارا تکلیفیں مصیبتیں مشکلات اٹھائیں ؟
https://twitter.com/x/status/1742524113951011018
انہوں نے مزید کہا کہ عدالتی سسٹم جس میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بیٹھے ہیں وہ لاپتہ عمران ریاض کی تلاش میں مکمل ناکام ہوا پولیس نے لاہور ہائیکورٹ کو کہانیاں ڈالیں بلکہ عدلیہ نے ایکسپوز ہو کر ایسی مثال قائم کرا دی جس کے بعد ہر کوئی خور کو غیر محفوظ سمجھتا ہے اب اس صورت حال میں وہ سپریم کورٹ کے سامنے آجائے ہمت کرکے سب بتا دے تو اس کی حفاظت کون کرے گا ؟
انکے مطابق یہ وہ سوال تھا جو شعیب شاہین نے عمران ریاض کو بلانے کے معاملے کے ساتھ سپریم کورٹ کے سامنے رکھا اور ہمارے ناکارہ سسٹم میں یہ جینوئن سوال تھا لیکن چیف صاحب بجائے ایک متاثرہ شخص کی دلجوئی کے دوسری طرف لے گئے مرچ مصالحہ ڈالنا شروع کردیا جو بات چیف جسٹس نے کی وہی اس طریقے سے بھی ہو سکتی تھی کہ جو عمران ریاض کے ساتھ ہوا وہ درست نہیں ہوا لیکن ہم بلا نہیں رہے وہ خود آکر بتانا چاہییں پارٹی بننا چاہییں تو بن کر بات کر لیں
ثاقب بشیر کا مزید کہنا تھا کہ چیف صاحب نے ایسے بات کی جیسے عمران ریاض کا ساڑھے چار لاپتہ رہنا کچھ وقعت نہیں رکھتا
- Featured Thumbs
- https://www.siasat.pk/data/files/s3/saqb11h3.jpg