
چلاس میں بس پر فائرنگ، بچوں اور شوہر کو بچانے والی خاتون علاج کیلئے کراچی منتقل
چلاس میں بس پر دہشت گردوں کی فائرنگ کے دوران بچوں اور شوہر کو ڈھال بن کر بچانے والی باہمت خاتون روشن بی بی کو علاج کے لئے کراچی منتقل کردیا گیا, خاتون کے جسم میں چھ گولیاں پیوست ہوگئی تھیں جن میں سے تین نکال لی گئیں بقیہ تین کو جلد نکالا جائے گا۔
رواں ماہ دو تاریخ کو کراچی آتے وقت گلگت بلتستان کے علاقے چلاس میں دہشت گردوں نے مسافر بس کو فائرنگ کا نشانہ بنایا تھا، حملے کے وقت روشن بی بی اپنے ڈیڑھ سال کے بیٹے، چارسال کی بیٹی اور شوہر کے ساتھ بس میں موجود تھیں۔
خاتون نے اپنے بچوں اور شوہر کو بس کے فرش پر لٹا دیا تھا اور خود ان کے اوپر لیٹ گئی تھیں جس کے نتیجے میں چھ گولیوں نے ان کے جسم کو چھلنی کردیا تھا۔
گلگت میں ابتدائی علاج کے دوران تین گولیاں نکال لی گئیں مگر باقی تین گولیاں نکالنے کی سہولت نہیں تھی جس کے سبب گزشتہ رات قومی ائیرلائن کی پرواز کے ذریعے انہیں کراچی منتقل کیا گیا جہاں وہ نجی اسپتال میں زیرعلاج ہیں۔
شوہر نے بتایا روشن کے جسم میں تین گولیاں ابھی موجود ہیں، آپریشن کے لیے ضروری میڈیکل ٹیسٹ کیے جارہے ہیں، بچے حادثے کے سبب خوف میں مبتلا ہوچکے ہیں۔
لی گئیں مگر باقی تین گولیاں نکالنے کی سہولت نہیں تھی جس کے سبب گزشتہ رات قومی ائیرلائن کی پرواز کے ذریعے انہیں کراچی منتقل کیا گیا جہاں وہ نجی اسپتال میں زیرعلاج ہیں۔
شوہر نے بتایا کہ روشن کے جسم میں تین گولیاں ابھی موجود ہیں، آپریشن کے لیے ضروری میڈیکل ٹیسٹ کیے جارہے ہیں، بچے حادثے کے سبب خوف میں مبتلا ہوچکے ہیں
بلبل شاہ اس دن کا واقعہ یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ فائرنگ سے تھوڑی دیر پہلے بس مغرب کی نماز کے لیے رکی تھی۔
’اس سے پہلے کوئی تین بجے کے قریب پاکستان ریسٹورنٹ پر کھانا کھایا تھا۔ اب اندھیرا پھیل چکا تھا۔ روڈ پر گاڑیاں بھی اکا دکا نظر آ رہی تھیں۔
’میں اپنے خاندان کے ہمراہ کراچی منتقل ہورہا تھا کہ غذر میں میری دکان کا کام بالکل ختم ہو چکا تھا اور کراچی میں میرا سسرال تھا جنھوں نے کہا تھا کہ وہ میری لیے کوئی ملازمت تلاش کر لیں گے۔‘
بلبل شاہ کہتے ہیں میں مستقبل کی سوچوں میں گم تھا کہ پتا نہیں کس وقت نیند آ گئی۔ اس وقت چھوٹا بچہ میری گود میں تھا جبکہ بڑی بیٹی بی بی روشن کی گود میں تھی۔ اچانک میں نے محسوس کیا کہ بی بی روشن میری اوپر گر چکی ہیں۔ اس وقت وہ مجھے کہہ رہی تھیں کہ اٹھنا نہیں بالکل بھی نہیں اسی طرح لیٹے رہو۔
ساتھ میں کہا کہ بچوں کو میں نے سیٹ کے نیچے چھوڑ دیا ہے۔ میں نے اگر سر اوپر کرنے کی کوشش کی یا اوپر ہونے کی تو وہ مجھے زور دے کر کہتیں کہ لیٹے رہو سر اوپر نہیں کرنا۔
بلبل شاہ کا کہنا تھا جب فائرنگ شروع ہوئی تو اس وقت بی بی روشن کھڑکی والی سائیڈ پر تھیں۔
وہ تو ایک ماں ہے اس موقع پر انھوں نے اپنی جان کی پروا نہ کرتے ہوئے پہلے اپنی گود میں موجود بچی کو سیٹ کے نیچے چھوڑا اور پھر میری گود میں موجود بچے کو سیٹ کے نیچے چھوڑ کر مجھ پر گرکر مجھے لٹا دیا تھا۔‘
بلبل شاہ کہتے ہیں کہ کوشش کے باوجود کہ مجھے بی بی روشن نے اٹھنے نہیں دیا۔ فائرنگ کے شروع میں ان کی آواز آئی تھی مگر اب ان کی آواز بھی بند ہو گئی تھی۔
’ڈرائیور میر عالم بس کو بھگانے کی کوشش کر رہا تھا۔ میں ڈر گیا کہ بس دریا میں نہ گر جائے۔ جب فائرنگ رک گئی تو میں اور زیادہ پریشان ہو گیا کہ اب وہ لوگ بس کے اندر آئیں گے اور معلوم نہیں کیا سلوک کریں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس موقع پر بس ٹرک کے ساتھ ٹکرا گئی اور آگ لگ گئی تھی۔ جس کے بعد فائرنگ بھی رک گئی۔
’شاید وہ لوگ یہ سمجھے کہ بس میں آگ لگی چکی ہے اب مزید فائرنگ کی ضرورت نہیں ہے۔ اس کے بعد میں نے بی بی روشن کو زور لگا کر اپنے اوپر سے سائیڈ پر کیا تو دیکھا کہ وہ زخمی تھیں۔ مجھے ان کی یہ بات یاد آ گئی کہ بچے سیٹ کے نیچے ہیں۔ انھیں بچانا ہے۔
بلبل شاہ کا کہنا تھا کہ ’میں نے دونوں بچوں کو سیٹ کے نیچے سے نکالا اور اٹھا کر بس سے باہر نکلا تو بس کی راہداری میں زخمی پڑے تھے چیخ و پکار تھی۔ کوئی سانس لے رہا تھا اورکوئی بے سدھ پڑا تھا۔
- Featured Thumbs
- https://www.siasat.pk/data/files/s3/chaall11h1.jpg