پی ٹی آئی پنجاب میں جیت جاتی ہے تو وہ اسمبلیاں تحلیل نہی کرے گی۔ انہیں اس کی ضرورت ہی نہی پڑے گی۔ کیونکہ اگر مرکزی حکومت کے پاس صوبائی حکومت نہ ہو تو اس کا چلنا ہی محال ہو جائے گا اور انہیں خود ہی الیکشن میں جانا پڑ جائے گا۔ جہاں تک بات پرویز الہی کی ہے تو عمران خان کے فیصلے پر اسے اسمبلی توڑنی ہی پڑے گی۔ اس میں کوئی شک نہی کہ وہ وزارتِ اعلی انجوائے کرنے کا خواہشمند تو ہو گا اور اس کے اندر کی پرانی عادتیں اسے اس بات پر ابھاریں گیں کہ اسمبلی توڑنے سے انکار کردے لیکن اسے یہ بھی معلوم ہوگا کہ پی ٹی آئی اسے ہٹا بھی سکتی ہوگی۔
یہ بھی یاد رہے کہ اگر پی ٹی آئی کو اکثریت مل جاتی ہے تو سپیکر ان کا آئے گا اور ڈپٹی سپیکر کے خلاف عدم اعتماد آئے گا۔
۔
لیکن پتے کی ایک بات بتاؤں آپ کو ؟ یہ شیخ چلی والے خواب ہیں سارے۔ اسٹیبلشمنٹ جب کسی ایک کی حمایت کا فیصلہ کر لیتی ہے تو اس کے خلاف الیکشن رزلٹ کبھی نہی آتا۔ نوٹ کرلیں کہ یہ الیکشن ظاہراً تو پی ٹی آئی جیتے گی لیکن اکثریت حمزہ ہی کی ہوگی۔
ان کا پلان یہ ہو سکتا ہے کہ سات آزاد امیدوار جتوا دئیے جائیں، آٹھ سیٹیں پی ٹی آئی کو جتوائی جائیں اور پانچ پی ڈی ایم کو۔ اور جن لوٹے امیدواروں پر پی ٹی آئی کارکن کو بہت زیادہ غصہ ہے انہیں بھی ہروا دیا جائے ۔میرا خیال ہے ساری گیم آزاد امیدواروں کے گرد کھیلی جائے گی۔