کچھ روز قبل 25 اپریل کو کچھ اکاؤنٹس نے دعویٰ کیا کہ ”لاہور پولیس کا جعلی مواد کے خلاف کریک ڈاؤن، صرف 24 گھنٹوں میں پیکا کے تحت ان افراد کے خلاف 23 مقدمات درج کیے گئے جو سیاستدانوں اور اداروں کو نشانہ بنانے والی جعلی اور ڈیپ فیک ویڈیوز پھیلا رہے تھے۔“
یہ خبر درست ثابت ہوئی، لاہور پولیس نے واقعی 24 گھنٹوں کے اندر غیر معمولی طور پر 23 ایف آئی آرز درج کی ہیں، جن میں ان افراد پر سوشل میڈیا کے ذریعے پاکستان آرمی، ایک اعلیٰ فوجی عہدیدار اور وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف کے خلاف مبینہ ”نفرت انگیز مواد“ پھیلانے کا الزام ہے۔
ایف آئی آرز لاہور کے مختلف مختلف پولیس اسٹیشنز میں درج کی گئیں جن میں فیکٹری ایریا، غازی آباد، گلشن اقبال، ہنجروال، مغل پورہ، نصیر آباد، نواں کوٹ، پرانی انارکلی، رائے ونڈ، ستو کتلہ، شاد باغ، شفیق آباد، شاہدرہ، ڈیفنس ایریا سی، ہر بنس پورہ، نشتر کالونی، لیاقت آباد، گلبرگ، نارتھ کینٹ، گجر پورہ، نولکھا، اسلام پورہ اور ساندہ شامل ہیں۔ تمام ایف آئی آرز معزز شہریوں نے درج کرائیں،
دلچسپ امر یہ ہے کہ 23 ایف آئی آرز میں سے 12 ایف آئی آرز ایسی ہیں جن کی تحریر ایک جیسی تحریر ہے، جس میں سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر الزام لگایا گیا ہے کہ مبینہ طور پر انہوں نے پاکستان کے ایک سینئر فوجی افسر کی آرٹیفیشل انٹیلیجنس سے تخلیق شدہ تصاویر تیار کیں اور شیئر کیں۔
تمام 12 ایف آئی آرز میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ شکایت کنندہ نے اپنے دوستوں کے ساتھ 22 اپریل کو ایک ایکس اکاونٹ پر ایک سینئر فوجی افسر کی تصویر دیکھی، جس میں ”غیر اخلاقی اور غیر قانونی“ پوسٹ کے ذریعے عوام الناس کی منفی ذہن سازی کی گئی ہے اور ان کے ذریعے عوام میں ”انتشار اور بے اعتمادی“ پیدا کرنے کی سازش کی جارہی ہے۔
صحافی ثاقب بشیر نے تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ 22 اپریل کو 24 گھنٹوں میں 23 مقدمات درج کیے گئے۔ شہریوں نے ٹویٹر پر اداروں کے خلاف مواد دیکھ کر پیکا کے تحت مقدمات بنوائے۔ 12 شہریوں کی یکساں درخواستیں حیران کن اتفاق ہے۔ اس کارکردگی پر فل پیج اشتہارات کی توقع ہے
https://twitter.com/x/status/1918664287171510683
Last edited by a moderator: