آفاق صاحب کی بےتحاشا تھریڈز جو پچھلے چند دن میں انہوں نے ہم پہ انڈیلے ہیں
اور جن میں پردے سے لیکر ویلنٹائں ڈے اور پھر لبرلزم سے فحاشی تک' ہر چیز
کو آپس میں جوڑ کہ دردمندانہ اپیلیں کی ہیں کہ ہم ان سب "برائیوں" سے دور رہیں
لازم تھا کہ آج چھٹی کے دن کا فائدہ اٹھاؤں اور اپنی شکستہ اور بے ربط سوچوں سے آپ
کی سر گرانی کا باعث بنوں
ہمنوا' میں بھی کوئی گل ہوں کہ خاموش رہوں
کوشش ہے کہ لفاظی سے پرہیز کرتے ہوئے صاف اور سیدھے الفاظ میں مدعا لکھوں
ہم کہ اے دل سخن سراپا تھے
پردے کے بارے میں ایک بڑی غلط فہمی یہ ہے کہ یہ مسلمانوں کی ایجاد ہے
یا یہ کوئی اسلام کا امتیاز یا نشان ہے- حقیقت یہ ہے کہ ایشین کلچرز میں اسلام سے
سینکڑوں سال پہلے سے ہی بعض کلچرز میں سر اور بعض میں سر اور منہ ڈھانپنے
کا رواج تھا- خصوصا بازنتینیوں کے ہاں- بازنتینیوں سے پہلے قدیم ایرانی بادشاہت
آکیمینا ئیڈ جو ٦٠٠ قبل مسیح میں بنی تھی وہاں بھی پردے کا رواج تھا
طرطو لین نے ١٥٠ میں لکھا کہ اس نے عربوں میں کفار خواتین کو پردے میں دیکھا ہے
طرطو لین اولین عیسائی تھا اور اسکے خیال میں جو عیسائی نہیں وہ کافر ہے- یاد رہے
کہ اسلام طرطو لین کے ٥٠٠ سال بعد آیا
فارسی کا لفظ "چادر" قریب قریب ٢١٠٠ سال پرانا ہے- اسی طرح "گھونگھٹ" قدیم سنسکرت
کا لفظ ہے جو ہزاروں سال پرانا ہے- ہندوستان میں زمانہ قدیم سے لے کر آج تک خواتین
پردے کا استمعا ل کرتی ہیں- آج بھی راجستھانی خواتین لمبے لمبے گھونگھٹ نکلتی ہیں
اور وہ مسلمان نہیں ہیں- بدھوں کی ہزاروں سال پرانی کتابوں میں پردے کا ذکر ملتا ہے
خاص طور پر مہایانا بدھوں کے ہاں- جنہوں نے اسکی مخالفت بھی کی تھی
قدیم یونان میں سر ڈھانپنا "شاید" ایک عام رواج تھا- یونانی آرٹ میں خواتین کے سر ڈھانپے
ہوئے مجسمے اسکا ثبوت ہیں-
ہم جانتے ہیں کہ سائنس کی غیر موجودگی میں' زمانہ قدیم میں انسانی ثقافت و تہذیب پہ
مذہب کی اور بادشاہت کی گہری چھاپ تھی- گو سائنس بعد میں ثقافت کے ارتقا کا سب سے
بڑا عامل بن گئی- مگر اس سے پہلے مذہب اور بادشاہ ہی انسانی زندگی' ادب' علوم' اور
ارتقا کی نگرانی کرتے تھے- اس لئے بھی یہ دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ پردے کو مذاہب
عالم کی آنکھ سے بھی دیکھا جائے-
سب سے پرانا پردے کا رواج (ابھی تک کی معلومات کی بنیاد پہ) زرتشتوں میں ملتا ہے
یہ ایک قدیم ایرانی مذہب ہے جسکی کتاب" گاتھا" ہے (جوایک خوبصورت کتاب ہے )
جب مسلمانوں نے سمرقند پہ حملے کا ارادہ کیا اور سمرقند کے باشاہ نے
ہتھیار ڈال دے- جس پر لوگوں نے اسے معزول کر کہ مسلما نوں کے ساتھ جنگ کی- وہ لوگ
زرتشت تھے اور انکی خواتین اردہ کرتی تھیں- یہ عجیب بات ہے کہ محمود غزنوی نے جب
سومناتھ پہ حملہ کیا تو اس شہر "تھینسر" کی خواتین بھی پردہ کیا کرتی تھیں- ان جنگوں میں
محمود نے ٢٠٠٠ سے زیادہ انسانوں کو غلام بنا کہ بیچ دیا (اس وقت کب آبادی بہت کم تھی دنیا کی)
یہ بات فرشتہ نے لکھی ہے- محمود کے معتمد خاص عرب تاریخ دان ال عطبی نے لکھا کہ محمود نے
اتنے زیادہ غلام بنائے اور بیچے کہ غلاموں کی قیمت ٢ درہم تک گر گئی- خیرتو زرتشت بھی ایسے
ہی شدّت سے پردہ کرتے تھے حس شدت سے اسلام اصرار کرتا ہے
سارے ابراہیمی مذاہب میں پردہ اہمیت رکھتا ہے- یہودیت' عسائییت' اسلام ان تینوں میں نہ صرف
عورت بلکہ مرد کے مقدس جگہوں پہ سر ڈھانپنا ضروری ہے- ورجن میری پردہ کرتی تھیں-
بائبل سے لے کر "کلیمنٹ آف روم" تک ہر طرف پردے کا چرچا ہے- کتھولک نن آج بھی
سر ڈھانپتی ہیں- ابراہیمی مذاہب میں پردے کی سب سے زیادہ شدّت اسلام میں ہے- گو کہ اسلامی
سکالرز اس بات پہ متفق نہیں کہ چہرہ ضرور چھپانا چاہیے- مجھے یاد ہے کہ جب میں چھوٹا تھا
تو ارشاد احمد حقانی جو جنگ اخبار کے ایڈیٹر تھے اور اسلام کے ممتاز اسکالر بھی- انہوں نے
جنگ میں دس' گیارہ کالموں کی ایک ترتیب لکھی جس میں انہوں نے علما کے اس
مکتبہ فکر کی ترجمانی کی جسکے نزدیک چہرہ ڈھانپنا فرض نہیں ہے- مگر قطع نظر' پردہ
اسلامی تعلیم میں ایک اہم ترین حثیت رکھتا ہے
اب ہم اس نتیجے پہ پہنچ چکے کہ پردہ نہ اسلام سے عبارت تھا اور نہ ہے- کم از کم
ساؤتھ ایشیا' سینٹرل ایشیا اور مڈل ایسٹ کی حد تک- اور یہ کہ پردہ زیادہ تر ایک سماجی اور
معا شرتی چیز ہے جو آپ کے طرز زندگی' تاریخی پس منظر' سماجی اقدار' اور خاندانی روایا ت
کی غمازی کرتا ہے- اور کیوں کہ یہ ساری تبدیلی اور ارتقا سے گزرتی رہتی ہیں اسی لئے پردے
کی اشکال بھی بدلتی رہتی ہیں- کبھی برقع' کبھی چادر' کبھی گھونگھٹ' اور کبھی بس دوپٹہ- یہ
ساری تاریخ ان ذہنوں کے لئے بھی دوا ہے جو سمجھتے ہیں کہ اگر ریاست لبرل ہو گئی اور
مذہب کو ریاست سے نکل دیا گیا تو پھر بے راہ روی کی ایک سیلاب آ جائے گا- یہ ایک ایسی
لغو بات ہے جسکا کوئی سر پیر نہیں- ریاست کے لبرل ہو جانے کا مطلب مزید انفرادی
آزادی ضرور ہے مگر انفرادی سطح پر مذہب کا خاتمہ نہیں- اور ظاہر ہے تہذیب کا بھی
فرد پر اثر ہوتا ہے اور ہماری تہذیب پردے سے عبارت ہے جس پہ ہمیں فخر ہے- مگر جو
چیز سب سے اہم ہے وہ یہ کہ آپ ارتقا کی اس منزل پہ جس میں فرد کے پاس کم از کم ٹیکنا لو جی
کی حد تک میل میلاپ اور بات چیت کے لا محدود ذرائع ہیں- آپ کب تک سو چ اور رویہ کو
ریاستی جبر کے ساتھ' مذہب کے تابع رکھ سکیں گے-کیا مذہب ریاستی جبر کے بغیر اپنا وجود
قائم نہیں رکھ سکتا- بلکل رکھ سکتا ہے- ریا ست کو مذہبی دائرے سے نکلنا' مجموعی قومی شعور
کو ایک ایسے رستے پہ ڈالنا ہے- جو سماجی' شعوری' علمی' اور معاشی نمو میں
مدد گار ثا بت ہو
میرے خیال میں مسلمانوں کو تبدیلی سے خوف زدہ ہونے کی بجائے اسے کھلے دل سے قبول
کرنا چاہئیے- آگے بڑھ کے گلے لگانا چاہیے اور اپنی تاریخ، سماجیات' اور اقدار پہ بھروسہ
کرنا چاہیے- یہ اس لئے بھی ضروری ہےکہ تبدیلی اور ارتقا روکنے سے رکیں گے نہیں
تبدیلی اور ارتقا' وقت سے عبارت ہیں اور انسانی فطرت ہی انسانی ارتقا کی بھی پاسباں ہے
وقت کسی بھی فرد' سوچ' اور مذہب سے زیادہ طاقتور ہے اور یہی طاقت 'ارتقا' وقت سے
مستعار لیتا ہے- کہنے کا مطلب یہ ہے کہ تبدیلی ناگزیر ہے- تو کیوں نہ ہم طرز کہن کے
چنگل سے نکلیں اور آئینن نو کی طرف قدم بڑھا ئیں- مجھے پتا ہے کہ ذہنی زنجیریں' کسی
بھی اور طرح کی زنجیروں سے زیادہ مظبوط اور زیادہ پائیدار ہوتی ہیں اور انہیں توڑنا آسان
نہیں-کم از کم ہر کسی کے لئیے نہیں
مگر تنگ نظری کا یہ عالم بھی کیا کہ باہر سے آئی ہوئی ہر چیز کو شک و شبہ سے دیکھنا اور
اختراز کرنا- پتنگ بازی کو ہندؤں کی رسم قرار دے دینا اور ویلنٹائں کو عسائییوں کا کہہ کر
مخالفت شروع کر دینا- یہ سب کیا ہے ؟ یہ احساس عدم تخفظ کی شدت کی علامت ہے اور ساتھ
ساتھ ایک بیمار ذھن کی بھی جو صرف ایک حصار کہ اندر بند رہنا چاہتا ہے- جو تہذیبی ارتقا
اور سائنسی ترقی کی نہ صرف منازل سے بے خبر ہے بلکہ انکی اثر پذیری اور سرفرازی سے
خوف زدہ بھی ہے- ویلنٹائں پر اگر کوئی لڑکی اور لڑکا ملتے ہیں یا پھولوں کا تبادلہ کرتے ہیں
تو سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا یہ سب آج کے آج ہی شروع ہوا- کیا وہ لڑکی اور لڑکا آج
ویلنٹائین کے دن ہی ملے ہیں؟ یا بس آج مل چکنے کے بعد وہ پھر کبھی نہیں ملیں گے؟ ہم
جانتے ہیں کہ لڑکے اور لڑکیوں کا میلاپ کسی خاص دن کا مختاج نہیں ہوتا- یہ لوگ پہلے
سے آج دوسرے کو جانتے ہوتے ہیں- انکی ایک کہانی ہوتی ہے- ایک تاریخ ہوتی ہے
ایک پس منظر ہوتا ہے- ویلنٹائں آئے نہ آئے یہ ڈیٹ پہ بھی جاتے ہیں اور آزادانہ میلاپ
پہ بھی یقین رکھتے ہیں- مگر اس میں محبت کے اس دن کا کیا قصور؟ اسی دن ایک
شوہر اپنی بیوی یا ایک بیٹا اپنی ماں سے اظہار محبت کرتا ہے- یا دوست دوستوں کو
کھانے پہ بلاتے ہیں تو اس میں فحاشی کا ذکر کہاں سے آ گیا؟ یہ دن اسلام سے ٹکراؤ
میں کیسے آ گیا؟ اسکے خلاف ایسی میڈیا کمپین کیوں چلائی جاتی ہے؟ کیا یہ اپنی اقدار
کے کمزور ہونے کا خوف ہے یا تاریخ اور مذہب سے عمومی بے خبری؟
اور جن میں پردے سے لیکر ویلنٹائں ڈے اور پھر لبرلزم سے فحاشی تک' ہر چیز
کو آپس میں جوڑ کہ دردمندانہ اپیلیں کی ہیں کہ ہم ان سب "برائیوں" سے دور رہیں
لازم تھا کہ آج چھٹی کے دن کا فائدہ اٹھاؤں اور اپنی شکستہ اور بے ربط سوچوں سے آپ
کی سر گرانی کا باعث بنوں
ہمنوا' میں بھی کوئی گل ہوں کہ خاموش رہوں
کوشش ہے کہ لفاظی سے پرہیز کرتے ہوئے صاف اور سیدھے الفاظ میں مدعا لکھوں
ہم کہ اے دل سخن سراپا تھے
پردے کے بارے میں ایک بڑی غلط فہمی یہ ہے کہ یہ مسلمانوں کی ایجاد ہے
یا یہ کوئی اسلام کا امتیاز یا نشان ہے- حقیقت یہ ہے کہ ایشین کلچرز میں اسلام سے
سینکڑوں سال پہلے سے ہی بعض کلچرز میں سر اور بعض میں سر اور منہ ڈھانپنے
کا رواج تھا- خصوصا بازنتینیوں کے ہاں- بازنتینیوں سے پہلے قدیم ایرانی بادشاہت
آکیمینا ئیڈ جو ٦٠٠ قبل مسیح میں بنی تھی وہاں بھی پردے کا رواج تھا
طرطو لین نے ١٥٠ میں لکھا کہ اس نے عربوں میں کفار خواتین کو پردے میں دیکھا ہے
طرطو لین اولین عیسائی تھا اور اسکے خیال میں جو عیسائی نہیں وہ کافر ہے- یاد رہے
کہ اسلام طرطو لین کے ٥٠٠ سال بعد آیا
فارسی کا لفظ "چادر" قریب قریب ٢١٠٠ سال پرانا ہے- اسی طرح "گھونگھٹ" قدیم سنسکرت
کا لفظ ہے جو ہزاروں سال پرانا ہے- ہندوستان میں زمانہ قدیم سے لے کر آج تک خواتین
پردے کا استمعا ل کرتی ہیں- آج بھی راجستھانی خواتین لمبے لمبے گھونگھٹ نکلتی ہیں
اور وہ مسلمان نہیں ہیں- بدھوں کی ہزاروں سال پرانی کتابوں میں پردے کا ذکر ملتا ہے
خاص طور پر مہایانا بدھوں کے ہاں- جنہوں نے اسکی مخالفت بھی کی تھی
قدیم یونان میں سر ڈھانپنا "شاید" ایک عام رواج تھا- یونانی آرٹ میں خواتین کے سر ڈھانپے
ہوئے مجسمے اسکا ثبوت ہیں-
ہم جانتے ہیں کہ سائنس کی غیر موجودگی میں' زمانہ قدیم میں انسانی ثقافت و تہذیب پہ
مذہب کی اور بادشاہت کی گہری چھاپ تھی- گو سائنس بعد میں ثقافت کے ارتقا کا سب سے
بڑا عامل بن گئی- مگر اس سے پہلے مذہب اور بادشاہ ہی انسانی زندگی' ادب' علوم' اور
ارتقا کی نگرانی کرتے تھے- اس لئے بھی یہ دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ پردے کو مذاہب
عالم کی آنکھ سے بھی دیکھا جائے-
سب سے پرانا پردے کا رواج (ابھی تک کی معلومات کی بنیاد پہ) زرتشتوں میں ملتا ہے
یہ ایک قدیم ایرانی مذہب ہے جسکی کتاب" گاتھا" ہے (جوایک خوبصورت کتاب ہے )
جب مسلمانوں نے سمرقند پہ حملے کا ارادہ کیا اور سمرقند کے باشاہ نے
ہتھیار ڈال دے- جس پر لوگوں نے اسے معزول کر کہ مسلما نوں کے ساتھ جنگ کی- وہ لوگ
زرتشت تھے اور انکی خواتین اردہ کرتی تھیں- یہ عجیب بات ہے کہ محمود غزنوی نے جب
سومناتھ پہ حملہ کیا تو اس شہر "تھینسر" کی خواتین بھی پردہ کیا کرتی تھیں- ان جنگوں میں
محمود نے ٢٠٠٠ سے زیادہ انسانوں کو غلام بنا کہ بیچ دیا (اس وقت کب آبادی بہت کم تھی دنیا کی)
یہ بات فرشتہ نے لکھی ہے- محمود کے معتمد خاص عرب تاریخ دان ال عطبی نے لکھا کہ محمود نے
اتنے زیادہ غلام بنائے اور بیچے کہ غلاموں کی قیمت ٢ درہم تک گر گئی- خیرتو زرتشت بھی ایسے
ہی شدّت سے پردہ کرتے تھے حس شدت سے اسلام اصرار کرتا ہے
سارے ابراہیمی مذاہب میں پردہ اہمیت رکھتا ہے- یہودیت' عسائییت' اسلام ان تینوں میں نہ صرف
عورت بلکہ مرد کے مقدس جگہوں پہ سر ڈھانپنا ضروری ہے- ورجن میری پردہ کرتی تھیں-
بائبل سے لے کر "کلیمنٹ آف روم" تک ہر طرف پردے کا چرچا ہے- کتھولک نن آج بھی
سر ڈھانپتی ہیں- ابراہیمی مذاہب میں پردے کی سب سے زیادہ شدّت اسلام میں ہے- گو کہ اسلامی
سکالرز اس بات پہ متفق نہیں کہ چہرہ ضرور چھپانا چاہیے- مجھے یاد ہے کہ جب میں چھوٹا تھا
تو ارشاد احمد حقانی جو جنگ اخبار کے ایڈیٹر تھے اور اسلام کے ممتاز اسکالر بھی- انہوں نے
جنگ میں دس' گیارہ کالموں کی ایک ترتیب لکھی جس میں انہوں نے علما کے اس
مکتبہ فکر کی ترجمانی کی جسکے نزدیک چہرہ ڈھانپنا فرض نہیں ہے- مگر قطع نظر' پردہ
اسلامی تعلیم میں ایک اہم ترین حثیت رکھتا ہے
اب ہم اس نتیجے پہ پہنچ چکے کہ پردہ نہ اسلام سے عبارت تھا اور نہ ہے- کم از کم
ساؤتھ ایشیا' سینٹرل ایشیا اور مڈل ایسٹ کی حد تک- اور یہ کہ پردہ زیادہ تر ایک سماجی اور
معا شرتی چیز ہے جو آپ کے طرز زندگی' تاریخی پس منظر' سماجی اقدار' اور خاندانی روایا ت
کی غمازی کرتا ہے- اور کیوں کہ یہ ساری تبدیلی اور ارتقا سے گزرتی رہتی ہیں اسی لئے پردے
کی اشکال بھی بدلتی رہتی ہیں- کبھی برقع' کبھی چادر' کبھی گھونگھٹ' اور کبھی بس دوپٹہ- یہ
ساری تاریخ ان ذہنوں کے لئے بھی دوا ہے جو سمجھتے ہیں کہ اگر ریاست لبرل ہو گئی اور
مذہب کو ریاست سے نکل دیا گیا تو پھر بے راہ روی کی ایک سیلاب آ جائے گا- یہ ایک ایسی
لغو بات ہے جسکا کوئی سر پیر نہیں- ریاست کے لبرل ہو جانے کا مطلب مزید انفرادی
آزادی ضرور ہے مگر انفرادی سطح پر مذہب کا خاتمہ نہیں- اور ظاہر ہے تہذیب کا بھی
فرد پر اثر ہوتا ہے اور ہماری تہذیب پردے سے عبارت ہے جس پہ ہمیں فخر ہے- مگر جو
چیز سب سے اہم ہے وہ یہ کہ آپ ارتقا کی اس منزل پہ جس میں فرد کے پاس کم از کم ٹیکنا لو جی
کی حد تک میل میلاپ اور بات چیت کے لا محدود ذرائع ہیں- آپ کب تک سو چ اور رویہ کو
ریاستی جبر کے ساتھ' مذہب کے تابع رکھ سکیں گے-کیا مذہب ریاستی جبر کے بغیر اپنا وجود
قائم نہیں رکھ سکتا- بلکل رکھ سکتا ہے- ریا ست کو مذہبی دائرے سے نکلنا' مجموعی قومی شعور
کو ایک ایسے رستے پہ ڈالنا ہے- جو سماجی' شعوری' علمی' اور معاشی نمو میں
مدد گار ثا بت ہو
میرے خیال میں مسلمانوں کو تبدیلی سے خوف زدہ ہونے کی بجائے اسے کھلے دل سے قبول
کرنا چاہئیے- آگے بڑھ کے گلے لگانا چاہیے اور اپنی تاریخ، سماجیات' اور اقدار پہ بھروسہ
کرنا چاہیے- یہ اس لئے بھی ضروری ہےکہ تبدیلی اور ارتقا روکنے سے رکیں گے نہیں
تبدیلی اور ارتقا' وقت سے عبارت ہیں اور انسانی فطرت ہی انسانی ارتقا کی بھی پاسباں ہے
وقت کسی بھی فرد' سوچ' اور مذہب سے زیادہ طاقتور ہے اور یہی طاقت 'ارتقا' وقت سے
مستعار لیتا ہے- کہنے کا مطلب یہ ہے کہ تبدیلی ناگزیر ہے- تو کیوں نہ ہم طرز کہن کے
چنگل سے نکلیں اور آئینن نو کی طرف قدم بڑھا ئیں- مجھے پتا ہے کہ ذہنی زنجیریں' کسی
بھی اور طرح کی زنجیروں سے زیادہ مظبوط اور زیادہ پائیدار ہوتی ہیں اور انہیں توڑنا آسان
نہیں-کم از کم ہر کسی کے لئیے نہیں
مگر تنگ نظری کا یہ عالم بھی کیا کہ باہر سے آئی ہوئی ہر چیز کو شک و شبہ سے دیکھنا اور
اختراز کرنا- پتنگ بازی کو ہندؤں کی رسم قرار دے دینا اور ویلنٹائں کو عسائییوں کا کہہ کر
مخالفت شروع کر دینا- یہ سب کیا ہے ؟ یہ احساس عدم تخفظ کی شدت کی علامت ہے اور ساتھ
ساتھ ایک بیمار ذھن کی بھی جو صرف ایک حصار کہ اندر بند رہنا چاہتا ہے- جو تہذیبی ارتقا
اور سائنسی ترقی کی نہ صرف منازل سے بے خبر ہے بلکہ انکی اثر پذیری اور سرفرازی سے
خوف زدہ بھی ہے- ویلنٹائں پر اگر کوئی لڑکی اور لڑکا ملتے ہیں یا پھولوں کا تبادلہ کرتے ہیں
تو سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا یہ سب آج کے آج ہی شروع ہوا- کیا وہ لڑکی اور لڑکا آج
ویلنٹائین کے دن ہی ملے ہیں؟ یا بس آج مل چکنے کے بعد وہ پھر کبھی نہیں ملیں گے؟ ہم
جانتے ہیں کہ لڑکے اور لڑکیوں کا میلاپ کسی خاص دن کا مختاج نہیں ہوتا- یہ لوگ پہلے
سے آج دوسرے کو جانتے ہوتے ہیں- انکی ایک کہانی ہوتی ہے- ایک تاریخ ہوتی ہے
ایک پس منظر ہوتا ہے- ویلنٹائں آئے نہ آئے یہ ڈیٹ پہ بھی جاتے ہیں اور آزادانہ میلاپ
پہ بھی یقین رکھتے ہیں- مگر اس میں محبت کے اس دن کا کیا قصور؟ اسی دن ایک
شوہر اپنی بیوی یا ایک بیٹا اپنی ماں سے اظہار محبت کرتا ہے- یا دوست دوستوں کو
کھانے پہ بلاتے ہیں تو اس میں فحاشی کا ذکر کہاں سے آ گیا؟ یہ دن اسلام سے ٹکراؤ
میں کیسے آ گیا؟ اسکے خلاف ایسی میڈیا کمپین کیوں چلائی جاتی ہے؟ کیا یہ اپنی اقدار
کے کمزور ہونے کا خوف ہے یا تاریخ اور مذہب سے عمومی بے خبری؟
Last edited by a moderator: