پراجیکٹ عمران خان کا انجام۔حامدمیر

Asad Mujtaba

Chief Minister (5k+ posts)
jamnsiahsah.jpg

یہ کہانی 2018ء میں شروع ہوئی اور 2023ء میں انجام کو پہنچی۔ کہانی کا نام ہے ’’پراجیکٹ عمران خان‘‘۔ پراجیکٹ ختم ہو گیا لیکن عمران خان ختم نہیں ہوا ’’پراجیکٹ عمران خان‘‘ 2011ء میں آئی ایس آئی کے سربراہ احمد شجاع پاشا نے شروع کیا تھا۔ 2012ء میں ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد اس پراجیکٹ کو ظہیر الاسلام نے آگے بڑھایا اور نواز شریف کو حکومت سے نکالنے کیلئے عمران خان کو استعمال کیا۔

عمران خان کا 2014ء میں اسلام آباد کی طرف مارچ اور پھر ڈی چوک میں دھرنا آئی ایس آئی کی پلاننگ کا نتیجہ تھا لیکن یہ پلاننگ فیل ہو گئی۔ ظہیر الاسلام کی ریٹائرمنٹ کے بعد پراجیکٹ عمران خان کی فائل وقتی طور پر بند ہو گئی۔ یہ فائل جنرل قمر جاوید باجوہ کے آرمی چیف بننے کے بعد دوبارہ کھل گئی۔ باجوہ نے اپنے سسر میجر جنرل ریٹائرڈ اعجاز امجد اور کچھ پرانے دوستوں کی مدد سے آرمی چیف بننے کیلئے لابنگ کی۔ نواز شریف نے جنرل باجوہ کو آرمی چیف بنانے کا فیصلہ میرٹ پر نہیں بلکہ سفارش پر کیا اور باجوہ کو آرمی چیف بنانے کے بعد ایک سال کے اندر اندر وزارت عظمیٰ سے فارغ ہو گئے۔

2018ء
کے انتخابات سے قبل جنرل باجوہ نے عمران خان سے ملنا جلنا شروع کیا تو وہ ان سے زیادہ متاثر نہ ہوئے۔ عمران خان نے ان کے روکنے کے باوجود بشریٰ بی بی سے شادی کرلی۔ یہ حکم عدولی باجوہ کو بہت ناگوار گزری اور انہوں نے شہباز شریف سے معاملات طے کرنے کی کوشش کی۔ باجوہ چاہتے تھے کہ شہباز شریف اپنے بھائی نواز شریف سے سیاسی علیحدگی اختیار کر لیں لیکن شہباز شریف نے وزارت ِعظمیٰ کی خاطر اپنے بھائی کو دھوکہ دینے سے انکار کر دیا۔ شہباز شریف کے انکار نے عمران خان کی قسمت بدل دی۔ جنرل باجوہ نے بادل نخواستہ دوبارہ عمران خان سے رجوع کیا اور 2018ء میں انہیں دھونس و دھاندلی کے ذریعہ وزیراعظم بنوایا۔ 2018ء میں پراجیکٹ عمران خان کے از سر نو آغاز کا مقصد پاکستان میں بہت سی آئینی و سیاسی اصلاحات لانا تھا۔

عمران خان اس پراجیکٹ کیلئے صرف ایک پاپولر فیس تھے۔ پراجیکٹ کے مقاصد میں پاکستان کو پارلیمانی نظام سے واپس صدارتی نظام کی طرف لے جانا بھی شامل تھا۔ دوسری طرف عمران خان نے اپنے سیاسی مخالفین سے انتقام لینے کیلئے فوج کو استعمال کرنا شروع کردیا۔ انہوں نے بعض فوجی افسران سے ذاتی تعلقات بنالئے جو باجوہ کو ایک آنکھ نہ بھاتے تھے۔ 2019ء میں باجوہ نے اپنی مدت ملازمت میں توسیع حاصل کرنے کے بعد عمران خان کو آنکھیں دکھانا شروع کر دیں۔

دونوں کے اختلافات نے اس وقت شدت اختیار کی، جب باجوہ نے فیض حمید کو آئی ایس آئی کی سربراہی سے ہٹانے کا فیصلہ کیا اور عمران خان نے یہ فیصلہ ماننے سے انکار کردیا۔ آرمی چیف اور وزیراعظم کے اختلافات کا مخالفین نے فائدہ اٹھایا اور تحریک عدم اعتماد کے ذریعے عمران خان کو حکومت سے نکال دیا۔

عمران خان کی حکومت کا خاتمہ اپریل 2022ء میں ہوا لیکن انہیں یقین تھا کہ پراجیکٹ عمران خان ختم نہیں ہوا اور بہت جلد وہ واپس حکومت میں آ جائیں گے۔ پراجیکٹ عمران خان کے خاتمے کا یقین انہیں 9 مئی 2023ء کو آیا جب رینجرز نے عمران خان کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے احاطے سے بڑے تضحیک آمیز انداز میں گرفتار کیا۔ ایسا پہلی دفعہ نہیں ہوا تھا، ماضی میں بھی کئی سیاست دان عدالتوں سے گرفتار کئے گئے لیکن عمران خان کی گرفتاری پر ان کی پارٹی نے جو ردعمل دکھایا اس کی مثال پہلے موجود نہیں ہے۔

سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو تختہ دار پر لٹکا دیا گیا لیکن پیپلز پارٹی نے جرنیلوں کے گھروں پر حملے نہیں کئے۔ نواز شریف بار بار گرفتار ہوئے لیکن جی ایچ کیو پر چڑھائی نہیں ہوئی۔ عمران خان کی گرفتاری پر انکی پارٹی نے فوج کے خلاف باقاعدہ اعلان جنگ کردیا۔ تحریک انصاف کا ردعمل ایک سیاسی جماعت کا ردعمل نہیں تھا بلکہ ایسے فین کلب کا ردعمل تھا جو ایک شدت پسند فرقے میں تبدیل ہوچکا ہے۔

یہ فین کلب اپنے علاوہ کسی کو درست نہیں سمجھتا۔ تحریک انصاف کے ردعمل میں بہت زیادہ شدت دراصل اس تربیت کا نتیجہ تھی جو پارٹی قیادت نے اپنے بیانات کے ذریعے کی۔ جب تک فوجی جرنیل عمران خان کے سیاسی مددگار تھے تو عمران خان ان جرنیلوں کے گن گاتے تھے، جب جرنیلوں نے منہ موڑ لیا تو عمران خان ان کے نام لیکر انہیں ڈرانے لگے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ جب عمران خان وزیر اعظم تھے تو تحریک لبیک والوں کو دھمکی آمیز انداز میں کہا کرتے تھے کہ خبردار! ریاست سے مت ٹکرانا ورنہ پاش پاش ہو جائو گے۔ آج ان کی پارٹی ریاست سے ٹکرا رہی ہے تو تحریک انصاف کے کئی اہم رہنما غائب ہوگئے ہیں۔

سیاست دانوں کی گرفتاری پر ایسا ردعمل نہیں آنا چاہئے کہ گرفتاری کو زندگی اور موت کا مسئلہ بنا لیا جائے۔ یہ سیاسی ناپختگی کی انتہا ہے تحریک انصاف والوں نے پہلے تو سوشل میڈیا پر گالی گلوچ سے سیاسی اختلاف کو ذاتی دشمنیوں میں تبدیل کیا اور پھر عمران خان کی گرفتاری پر جلائو گھیرائو کے ذریعے ریاستی اداروں میں اپنے بہت سے ہمدرد کھو دیئے۔ عمران خان نے ہمیشہ جیل میں نہیں رہنا۔ آصف زرداری، شہباز شریف، مولانا فضل الرحمان، اختر مینگل اور علی وزیر سمیت بہت سے سیاست دان جیلوں سے واپس آسکتے ہیں تو عمران خان بھی واپس آئیں گے لیکن جیل میں انہیں سوچنا چاہئے کہ انکی گرفتاری پرتحریک انصاف نے جو غم وغصہ دکھایا اس کا عمرا ن خان کو فائدہ ہوا یا نقصان؟ آج تحریک انصاف کے مخالفین کو یہ کہنے کا موقع مل گیا ہے کہ یہ کوئی سیاسی جماعت نہیں بلکہ ایک دہشت گرد تنظیم ہے جس پر پابندی لگا دینی چاہئے۔

میں سیاسی جماعتوں پر پابندیوں کے حق میں نہیں۔ سیاسی جماعتوں پر پابندیاں لگانے سے پہلے ان ریٹائرڈ جرنیلوں کے خلاف کارروائی کریں جنہوں نے پراجیکٹ عمران خان کے ذریعے پاکستان کے آئین و قانون کی دھجیاں اڑائیں۔ کاش، عمران خان سیاست میں فوج کی مداخلت ختم کرنے کیلئے جدوجہد کرتے لیکن افسوس کہ حکومت سے نکلنے کے بعد انکی کوشش یہ تھی کہ فوج انہیں دوبارہ اقتدار میں لائے اور اس مقصد کیلئے انہوں نے کچھ جرنیلوں کے نام لیکر انہیں بلیک میل کرنے کی کوشش کی۔ ان کی واحد کامیابی یہ ہے کہ انہوں نے بڑی خوبصورتی سے اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کیلئے فوج سے لڑائی کا ڈرامہ کیا۔

امید ہے کہ جیل سے واپس آکر وہ تحریک انصاف کو فین کلب سے ایک باقاعدہ سیاسی جماعت بنانے پر توجہ دیں گے۔ سیاست دانوں کو فوج کی مدد سے اقتدار حاصل نہیں کرنا چاہئے اور فوج کو سیاست میں مداخلت نہیں کرنی چاہئے ورنہ وہی نقصان ہوتا ہے جو پراجیکٹ عمران خان نے پاکستان کو پہنچایا۔
 
Last edited by a moderator:

Husaink

Prime Minister (20k+ posts)
یہ کہانی 2018ء میں شروع ہوئی اور 2023ء میں انجام کو پہنچی۔ کہانی کا نام ہے ’’پراجیکٹ عمران خان‘‘۔ پراجیکٹ ختم ہو گیا لیکن عمران خان ختم نہیں ہوا ’’پراجیکٹ عمران خان‘‘ 2011ء میں آئی ایس آئی کے سربراہ احمد شجاع پاشا نے شروع کیا تھا۔ 2012ء میں ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد اس پراجیکٹ کو ظہیر الاسلام نے آگے بڑھایا اور نواز شریف کو حکومت سے نکالنے کیلئے عمران خان کو استعمال کیا۔ عمران خان کا 2014ء میں اسلام آباد کی طرف مارچ اور پھر ڈی چوک میں دھرنا آئی ایس آئی کی پلاننگ کا نتیجہ تھا لیکن یہ پلاننگ فیل ہو گئی۔ ظہیر الاسلام کی ریٹائرمنٹ کے بعد پراجیکٹ عمران خان کی فائل وقتی طور پر بند ہو گئی۔ یہ فائل جنرل قمر جاوید باجوہ کے آرمی چیف بننے کے بعد دوبارہ کھل گئی۔ باجوہ نے اپنے سسر میجر جنرل ریٹائرڈ اعجاز امجد اور کچھ پرانے دوستوں کی مدد سے آرمی چیف بننے کیلئے لابنگ کی۔ نواز شریف نے جنرل باجوہ کو آرمی چیف بنانے کا فیصلہ میرٹ پر نہیں بلکہ سفارش پر کیا اور باجوہ کو آرمی چیف بنانے کے بعد ایک سال کے اندر اندر وزارت عظمیٰ سے فارغ ہو گئے۔

2018ء کے انتخابات سے قبل جنرل باجوہ نے عمران خان سے ملنا جلنا شروع کیا تو وہ ان سے زیادہ متاثر نہ ہوئے۔ عمران خان نے ان کے روکنے کے باوجود بشریٰ بی بی سے شادی کرلی۔ یہ حکم عدولی باجوہ کو بہت ناگوار گزری اور انہوں نے شہباز شریف سے معاملات طے کرنے کی کوشش کی۔ باجوہ چاہتے تھے کہ شہباز شریف اپنے بھائی نواز شریف سے سیاسی علیحدگی اختیار کر لیں لیکن شہباز شریف نے وزارت ِعظمیٰ کی خاطر اپنے بھائی کو دھوکہ دینے سے انکار کر دیا۔ شہباز شریف کے انکار نے عمران خان کی قسمت بدل دی۔ جنرل باجوہ نے بادل نخواستہ دوبارہ عمران خان سے رجوع کیا اور 2018ء میں انہیں دھونس و دھاندلی کے ذریعہ وزیراعظم بنوایا۔ 2018ء میں پراجیکٹ عمران خان کے از سر نو آغاز کا مقصد پاکستان میں بہت سی آئینی و سیاسی اصلاحات لانا تھا۔ عمران خان اس پراجیکٹ کیلئے صرف ایک پاپولر فیس تھے۔ پراجیکٹ کے مقاصد میں پاکستان کو پارلیمانی نظام سے واپس صدارتی نظام کی طرف لے جانا بھی شامل تھا۔ دوسری طرف عمران خان نے اپنے سیاسی مخالفین سے انتقام لینے کیلئے فوج کو استعمال کرنا شروع کردیا۔ انہوں نے بعض فوجی افسران سے ذاتی تعلقات بنالئے جو باجوہ کو ایک آنکھ نہ بھاتے تھے۔ 2019ء میں باجوہ نے اپنی مدت ملازمت میں توسیع حاصل کرنے کے بعد عمران خان کو آنکھیں دکھانا شروع کر دیں۔ دونوں کے اختلافات نے اس وقت شدت اختیار کی، جب باجوہ نے فیض حمید کو آئی ایس آئی کی سربراہی سے ہٹانے کا فیصلہ کیا اور عمران خان نے یہ فیصلہ ماننے سے انکار کردیا۔ آرمی چیف اور وزیراعظم کے اختلافات کا مخالفین نے فائدہ اٹھایا اور تحریک عدم اعتماد کے ذریعے عمران خان کو حکومت سے نکال دیا۔

عمران خان کی حکومت کا خاتمہ اپریل 2022ء میں ہوا لیکن انہیں یقین تھا کہ پراجیکٹ عمران خان ختم نہیں ہوا اور بہت جلد وہ واپس حکومت میں آ جائیں گے۔ پراجیکٹ عمران خان کے خاتمے کا یقین انہیں 9 مئی 2023ء کو آیا جب رینجرز نے عمران خان کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے احاطے سے بڑے تضحیک آمیز انداز میں گرفتار کیا۔ ایسا پہلی دفعہ نہیں ہوا تھا، ماضی میں بھی کئی سیاست دان عدالتوں سے گرفتار کئے گئے لیکن عمران خان کی گرفتاری پر ان کی پارٹی نے جو ردعمل دکھایا اس کی مثال پہلے موجود نہیں ہے۔

سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو تختہ دار پر لٹکا دیا گیا لیکن پیپلز پارٹی نے جرنیلوں کے گھروں پر حملے نہیں کئے۔ نواز شریف بار بار گرفتار ہوئے لیکن جی ایچ کیو پر چڑھائی نہیں ہوئی۔ عمران خان کی گرفتاری پر انکی پارٹی نے فوج کے خلاف باقاعدہ اعلان جنگ کردیا۔ تحریک انصاف کا ردعمل ایک سیاسی جماعت کا ردعمل نہیں تھا بلکہ ایسے فین کلب کا ردعمل تھا جو ایک شدت پسند فرقے میں تبدیل ہوچکا ہے۔ یہ فین کلب اپنے علاوہ کسی کو درست نہیں سمجھتا۔ تحریک انصاف کے ردعمل میں بہت زیادہ شدت دراصل اس تربیت کا نتیجہ تھی جو پارٹی قیادت نے اپنے بیانات کے ذریعے کی۔ جب تک فوجی جرنیل عمران خان کے سیاسی مددگار تھے تو عمران خان ان جرنیلوں کے گن گاتے تھے، جب جرنیلوں نے منہ موڑ لیا تو عمران خان ان کے نام لیکر انہیں ڈرانے لگے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ جب عمران خان وزیر اعظم تھے تو تحریک لبیک والوں کو دھمکی آمیز انداز میں کہا کرتے تھے کہ خبردار! ریاست سے مت ٹکرانا ورنہ پاش پاش ہو جائو گے۔ آج ان کی پارٹی ریاست سے ٹکرا رہی ہے تو تحریک انصاف کے کئی اہم رہنما غائب ہوگئے ہیں۔ سیاست دانوں کی گرفتاری پر ایسا ردعمل نہیں آنا چاہئے کہ گرفتاری کو زندگی اور موت کا مسئلہ بنا لیا جائے۔ یہ سیاسی ناپختگی کی انتہا ہے تحریک انصاف والوں نے پہلے تو سوشل میڈیا پر گالی گلوچ سے سیاسی اختلاف کو ذاتی دشمنیوں میں تبدیل کیا اور پھر عمران خان کی گرفتاری پر جلائو گھیرائو کے ذریعے ریاستی اداروں میں اپنے بہت سے ہمدرد کھو دیئے۔ عمران خان نے ہمیشہ جیل میں نہیں رہنا۔ آصف زرداری، شہباز شریف، مولانا فضل الرحمان، اختر مینگل اور علی وزیر سمیت بہت سے سیاست دان جیلوں سے واپس آسکتے ہیں تو عمران خان بھی واپس آئیں گے لیکن جیل میں انہیں سوچنا چاہئے کہ انکی گرفتاری پرتحریک انصاف نے جو غم وغصہ دکھایا اس کا عمرا ن خان کو فائدہ ہوا یا نقصان؟ آج تحریک انصاف کے مخالفین کو یہ کہنے کا موقع مل گیا ہے کہ یہ کوئی سیاسی جماعت نہیں بلکہ ایک دہشت گرد تنظیم ہے جس پر پابندی لگا دینی چاہئے۔ میں سیاسی جماعتوں پر پابندیوں کے حق میں نہیں۔ سیاسی جماعتوں پر پابندیاں لگانے سے پہلے ان ریٹائرڈ جرنیلوں کے خلاف کارروائی کریں جنہوں نے پراجیکٹ عمران خان کے ذریعے پاکستان کے آئین و قانون کی دھجیاں اڑائیں۔ کاش، عمران خان سیاست میں فوج کی مداخلت ختم کرنے کیلئے جدوجہد کرتے لیکن افسوس کہ حکومت سے نکلنے کے بعد انکی کوشش یہ تھی کہ فوج انہیں دوبارہ اقتدار میں لائے اور اس مقصد کیلئے انہوں نے کچھ جرنیلوں کے نام لیکر انہیں بلیک میل کرنے کی کوشش کی۔ ان کی واحد کامیابی یہ ہے کہ انہوں نے بڑی خوبصورتی سے اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کیلئے فوج سے لڑائی کا ڈرامہ کیا۔ امید ہے کہ جیل سے واپس آکر وہ تحریک انصاف کو فین کلب سے ایک باقاعدہ سیاسی جماعت بنانے پر توجہ دیں گے۔ سیاست دانوں کو فوج کی مدد سے اقتدار حاصل نہیں کرنا چاہئے اور فوج کو سیاست میں مداخلت نہیں کرنی چاہئے ورنہ وہی نقصان ہوتا ہے جو پراجیکٹ عمران خان نے پاکستان کو پہنچایا۔​
تم پہلے تو بچ گئے تھے مگر اب تیرا پروجیکٹ بھی اس قوم کے ہاتھوں ختم ہونے والا ہے
 

patwari_sab

Chief Minister (5k+ posts)
jhoota munafiq.. harami mir jaffer is qoom ko ab bi chotiya samajta hai. ISI ke mohre nawaz zardari fazlu diesel hein.. khan ka rasta is murdarkhor 2 decades se rok raka ta lekin akhir kabtak rokna ta.. 2018 me power me agaya. gaddar foj ke gaddar chief bajwa ne khan ki peet me chora gonmpa.. khan apna kam kar choka hai.. ab awam apne haqooq ke liye khud hi jang lare gi
 
Last edited:

rasheikh

Senator (1k+ posts)
یہ کہانی 2018ء میں شروع ہوئی اور 2023ء میں انجام کو پہنچی۔ کہانی کا نام ہے ’’پراجیکٹ عمران خان‘‘۔ پراجیکٹ ختم ہو گیا لیکن عمران خان ختم نہیں ہوا ’’پراجیکٹ عمران خان‘‘ 2011ء میں آئی ایس آئی کے سربراہ احمد شجاع پاشا نے شروع کیا تھا۔ 2012ء میں ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد اس پراجیکٹ کو ظہیر الاسلام نے آگے بڑھایا اور نواز شریف کو حکومت سے نکالنے کیلئے عمران خان کو استعمال کیا۔ عمران خان کا 2014ء میں اسلام آباد کی طرف مارچ اور پھر ڈی چوک میں دھرنا آئی ایس آئی کی پلاننگ کا نتیجہ تھا لیکن یہ پلاننگ فیل ہو گئی۔ ظہیر الاسلام کی ریٹائرمنٹ کے بعد پراجیکٹ عمران خان کی فائل وقتی طور پر بند ہو گئی۔ یہ فائل جنرل قمر جاوید باجوہ کے آرمی چیف بننے کے بعد دوبارہ کھل گئی۔ باجوہ نے اپنے سسر میجر جنرل ریٹائرڈ اعجاز امجد اور کچھ پرانے دوستوں کی مدد سے آرمی چیف بننے کیلئے لابنگ کی۔ نواز شریف نے جنرل باجوہ کو آرمی چیف بنانے کا فیصلہ میرٹ پر نہیں بلکہ سفارش پر کیا اور باجوہ کو آرمی چیف بنانے کے بعد ایک سال کے اندر اندر وزارت عظمیٰ سے فارغ ہو گئے۔

2018ء کے انتخابات سے قبل جنرل باجوہ نے عمران خان سے ملنا جلنا شروع کیا تو وہ ان سے زیادہ متاثر نہ ہوئے۔ عمران خان نے ان کے روکنے کے باوجود بشریٰ بی بی سے شادی کرلی۔ یہ حکم عدولی باجوہ کو بہت ناگوار گزری اور انہوں نے شہباز شریف سے معاملات طے کرنے کی کوشش کی۔ باجوہ چاہتے تھے کہ شہباز شریف اپنے بھائی نواز شریف سے سیاسی علیحدگی اختیار کر لیں لیکن شہباز شریف نے وزارت ِعظمیٰ کی خاطر اپنے بھائی کو دھوکہ دینے سے انکار کر دیا۔ شہباز شریف کے انکار نے عمران خان کی قسمت بدل دی۔ جنرل باجوہ نے بادل نخواستہ دوبارہ عمران خان سے رجوع کیا اور 2018ء میں انہیں دھونس و دھاندلی کے ذریعہ وزیراعظم بنوایا۔ 2018ء میں پراجیکٹ عمران خان کے از سر نو آغاز کا مقصد پاکستان میں بہت سی آئینی و سیاسی اصلاحات لانا تھا۔ عمران خان اس پراجیکٹ کیلئے صرف ایک پاپولر فیس تھے۔ پراجیکٹ کے مقاصد میں پاکستان کو پارلیمانی نظام سے واپس صدارتی نظام کی طرف لے جانا بھی شامل تھا۔ دوسری طرف عمران خان نے اپنے سیاسی مخالفین سے انتقام لینے کیلئے فوج کو استعمال کرنا شروع کردیا۔ انہوں نے بعض فوجی افسران سے ذاتی تعلقات بنالئے جو باجوہ کو ایک آنکھ نہ بھاتے تھے۔ 2019ء میں باجوہ نے اپنی مدت ملازمت میں توسیع حاصل کرنے کے بعد عمران خان کو آنکھیں دکھانا شروع کر دیں۔ دونوں کے اختلافات نے اس وقت شدت اختیار کی، جب باجوہ نے فیض حمید کو آئی ایس آئی کی سربراہی سے ہٹانے کا فیصلہ کیا اور عمران خان نے یہ فیصلہ ماننے سے انکار کردیا۔ آرمی چیف اور وزیراعظم کے اختلافات کا مخالفین نے فائدہ اٹھایا اور تحریک عدم اعتماد کے ذریعے عمران خان کو حکومت سے نکال دیا۔

عمران خان کی حکومت کا خاتمہ اپریل 2022ء میں ہوا لیکن انہیں یقین تھا کہ پراجیکٹ عمران خان ختم نہیں ہوا اور بہت جلد وہ واپس حکومت میں آ جائیں گے۔ پراجیکٹ عمران خان کے خاتمے کا یقین انہیں 9 مئی 2023ء کو آیا جب رینجرز نے عمران خان کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے احاطے سے بڑے تضحیک آمیز انداز میں گرفتار کیا۔ ایسا پہلی دفعہ نہیں ہوا تھا، ماضی میں بھی کئی سیاست دان عدالتوں سے گرفتار کئے گئے لیکن عمران خان کی گرفتاری پر ان کی پارٹی نے جو ردعمل دکھایا اس کی مثال پہلے موجود نہیں ہے۔

سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو تختہ دار پر لٹکا دیا گیا لیکن پیپلز پارٹی نے جرنیلوں کے گھروں پر حملے نہیں کئے۔ نواز شریف بار بار گرفتار ہوئے لیکن جی ایچ کیو پر چڑھائی نہیں ہوئی۔ عمران خان کی گرفتاری پر انکی پارٹی نے فوج کے خلاف باقاعدہ اعلان جنگ کردیا۔ تحریک انصاف کا ردعمل ایک سیاسی جماعت کا ردعمل نہیں تھا بلکہ ایسے فین کلب کا ردعمل تھا جو ایک شدت پسند فرقے میں تبدیل ہوچکا ہے۔ یہ فین کلب اپنے علاوہ کسی کو درست نہیں سمجھتا۔ تحریک انصاف کے ردعمل میں بہت زیادہ شدت دراصل اس تربیت کا نتیجہ تھی جو پارٹی قیادت نے اپنے بیانات کے ذریعے کی۔ جب تک فوجی جرنیل عمران خان کے سیاسی مددگار تھے تو عمران خان ان جرنیلوں کے گن گاتے تھے، جب جرنیلوں نے منہ موڑ لیا تو عمران خان ان کے نام لیکر انہیں ڈرانے لگے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ جب عمران خان وزیر اعظم تھے تو تحریک لبیک والوں کو دھمکی آمیز انداز میں کہا کرتے تھے کہ خبردار! ریاست سے مت ٹکرانا ورنہ پاش پاش ہو جائو گے۔ آج ان کی پارٹی ریاست سے ٹکرا رہی ہے تو تحریک انصاف کے کئی اہم رہنما غائب ہوگئے ہیں۔ سیاست دانوں کی گرفتاری پر ایسا ردعمل نہیں آنا چاہئے کہ گرفتاری کو زندگی اور موت کا مسئلہ بنا لیا جائے۔ یہ سیاسی ناپختگی کی انتہا ہے تحریک انصاف والوں نے پہلے تو سوشل میڈیا پر گالی گلوچ سے سیاسی اختلاف کو ذاتی دشمنیوں میں تبدیل کیا اور پھر عمران خان کی گرفتاری پر جلائو گھیرائو کے ذریعے ریاستی اداروں میں اپنے بہت سے ہمدرد کھو دیئے۔ عمران خان نے ہمیشہ جیل میں نہیں رہنا۔ آصف زرداری، شہباز شریف، مولانا فضل الرحمان، اختر مینگل اور علی وزیر سمیت بہت سے سیاست دان جیلوں سے واپس آسکتے ہیں تو عمران خان بھی واپس آئیں گے لیکن جیل میں انہیں سوچنا چاہئے کہ انکی گرفتاری پرتحریک انصاف نے جو غم وغصہ دکھایا اس کا عمرا ن خان کو فائدہ ہوا یا نقصان؟ آج تحریک انصاف کے مخالفین کو یہ کہنے کا موقع مل گیا ہے کہ یہ کوئی سیاسی جماعت نہیں بلکہ ایک دہشت گرد تنظیم ہے جس پر پابندی لگا دینی چاہئے۔ میں سیاسی جماعتوں پر پابندیوں کے حق میں نہیں۔ سیاسی جماعتوں پر پابندیاں لگانے سے پہلے ان ریٹائرڈ جرنیلوں کے خلاف کارروائی کریں جنہوں نے پراجیکٹ عمران خان کے ذریعے پاکستان کے آئین و قانون کی دھجیاں اڑائیں۔ کاش، عمران خان سیاست میں فوج کی مداخلت ختم کرنے کیلئے جدوجہد کرتے لیکن افسوس کہ حکومت سے نکلنے کے بعد انکی کوشش یہ تھی کہ فوج انہیں دوبارہ اقتدار میں لائے اور اس مقصد کیلئے انہوں نے کچھ جرنیلوں کے نام لیکر انہیں بلیک میل کرنے کی کوشش کی۔ ان کی واحد کامیابی یہ ہے کہ انہوں نے بڑی خوبصورتی سے اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کیلئے فوج سے لڑائی کا ڈرامہ کیا۔ امید ہے کہ جیل سے واپس آکر وہ تحریک انصاف کو فین کلب سے ایک باقاعدہ سیاسی جماعت بنانے پر توجہ دیں گے۔ سیاست دانوں کو فوج کی مدد سے اقتدار حاصل نہیں کرنا چاہئے اور فوج کو سیاست میں مداخلت نہیں کرنی چاہئے ورنہ وہی نقصان ہوتا ہے جو پراجیکٹ عمران خان نے پاکستان کو پہنچایا۔​
Kisssi Bohat hi Chootiyeah kay Pathay nay Yeh Story Likhi hai Koi Punjabi Movie Bana Lay ta Ullo kay Pathay nahein Siasat,pk per daal di Charyaaaa Sala
 

Pak_1

MPA (400+ posts)
Kaamyabi or Nakami issue nahi , koshish krni chayea, Imran Khan ny koshish kre , Kamyab ho ya nahi doesn't matter bro,

phir kabhe sahi pr ais napak general fuedal lords politicians and mullas ko phir kabhe shikasat dain gy jub ALLAH ko manzoor ho, pr koshish jare rahay gi Islami nizam tuk
 

Amatuka

MPA (400+ posts)
یہ کہانی 2018ء میں شروع ہوئی اور 2023ء میں انجام کو پہنچی۔ کہانی کا نام ہے ’’پراجیکٹ عمران خان‘‘۔ پراجیکٹ ختم ہو گیا لیکن عمران خان ختم نہیں ہوا ’’پراجیکٹ عمران خان‘‘ 2011ء میں آئی ایس آئی کے سربراہ احمد شجاع پاشا نے شروع کیا تھا۔ 2012ء میں ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد اس پراجیکٹ کو ظہیر الاسلام نے آگے بڑھایا اور نواز شریف کو حکومت سے نکالنے کیلئے عمران خان کو استعمال کیا۔ عمران خان کا 2014ء میں اسلام آباد کی طرف مارچ اور پھر ڈی چوک میں دھرنا آئی ایس آئی کی پلاننگ کا نتیجہ تھا لیکن یہ پلاننگ فیل ہو گئی۔ ظہیر الاسلام کی ریٹائرمنٹ کے بعد پراجیکٹ عمران خان کی فائل وقتی طور پر بند ہو گئی۔ یہ فائل جنرل قمر جاوید باجوہ کے آرمی چیف بننے کے بعد دوبارہ کھل گئی۔ باجوہ نے اپنے سسر میجر جنرل ریٹائرڈ اعجاز امجد اور کچھ پرانے دوستوں کی مدد سے آرمی چیف بننے کیلئے لابنگ کی۔ نواز شریف نے جنرل باجوہ کو آرمی چیف بنانے کا فیصلہ میرٹ پر نہیں بلکہ سفارش پر کیا اور باجوہ کو آرمی چیف بنانے کے بعد ایک سال کے اندر اندر وزارت عظمیٰ سے فارغ ہو گئے۔

2018ء کے انتخابات سے قبل جنرل باجوہ نے عمران خان سے ملنا جلنا شروع کیا تو وہ ان سے زیادہ متاثر نہ ہوئے۔ عمران خان نے ان کے روکنے کے باوجود بشریٰ بی بی سے شادی کرلی۔ یہ حکم عدولی باجوہ کو بہت ناگوار گزری اور انہوں نے شہباز شریف سے معاملات طے کرنے کی کوشش کی۔ باجوہ چاہتے تھے کہ شہباز شریف اپنے بھائی نواز شریف سے سیاسی علیحدگی اختیار کر لیں لیکن شہباز شریف نے وزارت ِعظمیٰ کی خاطر اپنے بھائی کو دھوکہ دینے سے انکار کر دیا۔ شہباز شریف کے انکار نے عمران خان کی قسمت بدل دی۔ جنرل باجوہ نے بادل نخواستہ دوبارہ عمران خان سے رجوع کیا اور 2018ء میں انہیں دھونس و دھاندلی کے ذریعہ وزیراعظم بنوایا۔ 2018ء میں پراجیکٹ عمران خان کے از سر نو آغاز کا مقصد پاکستان میں بہت سی آئینی و سیاسی اصلاحات لانا تھا۔ عمران خان اس پراجیکٹ کیلئے صرف ایک پاپولر فیس تھے۔ پراجیکٹ کے مقاصد میں پاکستان کو پارلیمانی نظام سے واپس صدارتی نظام کی طرف لے جانا بھی شامل تھا۔ دوسری طرف عمران خان نے اپنے سیاسی مخالفین سے انتقام لینے کیلئے فوج کو استعمال کرنا شروع کردیا۔ انہوں نے بعض فوجی افسران سے ذاتی تعلقات بنالئے جو باجوہ کو ایک آنکھ نہ بھاتے تھے۔ 2019ء میں باجوہ نے اپنی مدت ملازمت میں توسیع حاصل کرنے کے بعد عمران خان کو آنکھیں دکھانا شروع کر دیں۔ دونوں کے اختلافات نے اس وقت شدت اختیار کی، جب باجوہ نے فیض حمید کو آئی ایس آئی کی سربراہی سے ہٹانے کا فیصلہ کیا اور عمران خان نے یہ فیصلہ ماننے سے انکار کردیا۔ آرمی چیف اور وزیراعظم کے اختلافات کا مخالفین نے فائدہ اٹھایا اور تحریک عدم اعتماد کے ذریعے عمران خان کو حکومت سے نکال دیا۔

عمران خان کی حکومت کا خاتمہ اپریل 2022ء میں ہوا لیکن انہیں یقین تھا کہ پراجیکٹ عمران خان ختم نہیں ہوا اور بہت جلد وہ واپس حکومت میں آ جائیں گے۔ پراجیکٹ عمران خان کے خاتمے کا یقین انہیں 9 مئی 2023ء کو آیا جب رینجرز نے عمران خان کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے احاطے سے بڑے تضحیک آمیز انداز میں گرفتار کیا۔ ایسا پہلی دفعہ نہیں ہوا تھا، ماضی میں بھی کئی سیاست دان عدالتوں سے گرفتار کئے گئے لیکن عمران خان کی گرفتاری پر ان کی پارٹی نے جو ردعمل دکھایا اس کی مثال پہلے موجود نہیں ہے۔

سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو تختہ دار پر لٹکا دیا گیا لیکن پیپلز پارٹی نے جرنیلوں کے گھروں پر حملے نہیں کئے۔ نواز شریف بار بار گرفتار ہوئے لیکن جی ایچ کیو پر چڑھائی نہیں ہوئی۔ عمران خان کی گرفتاری پر انکی پارٹی نے فوج کے خلاف باقاعدہ اعلان جنگ کردیا۔ تحریک انصاف کا ردعمل ایک سیاسی جماعت کا ردعمل نہیں تھا بلکہ ایسے فین کلب کا ردعمل تھا جو ایک شدت پسند فرقے میں تبدیل ہوچکا ہے۔ یہ فین کلب اپنے علاوہ کسی کو درست نہیں سمجھتا۔ تحریک انصاف کے ردعمل میں بہت زیادہ شدت دراصل اس تربیت کا نتیجہ تھی جو پارٹی قیادت نے اپنے بیانات کے ذریعے کی۔ جب تک فوجی جرنیل عمران خان کے سیاسی مددگار تھے تو عمران خان ان جرنیلوں کے گن گاتے تھے، جب جرنیلوں نے منہ موڑ لیا تو عمران خان ان کے نام لیکر انہیں ڈرانے لگے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ جب عمران خان وزیر اعظم تھے تو تحریک لبیک والوں کو دھمکی آمیز انداز میں کہا کرتے تھے کہ خبردار! ریاست سے مت ٹکرانا ورنہ پاش پاش ہو جائو گے۔ آج ان کی پارٹی ریاست سے ٹکرا رہی ہے تو تحریک انصاف کے کئی اہم رہنما غائب ہوگئے ہیں۔ سیاست دانوں کی گرفتاری پر ایسا ردعمل نہیں آنا چاہئے کہ گرفتاری کو زندگی اور موت کا مسئلہ بنا لیا جائے۔ یہ سیاسی ناپختگی کی انتہا ہے تحریک انصاف والوں نے پہلے تو سوشل میڈیا پر گالی گلوچ سے سیاسی اختلاف کو ذاتی دشمنیوں میں تبدیل کیا اور پھر عمران خان کی گرفتاری پر جلائو گھیرائو کے ذریعے ریاستی اداروں میں اپنے بہت سے ہمدرد کھو دیئے۔ عمران خان نے ہمیشہ جیل میں نہیں رہنا۔ آصف زرداری، شہباز شریف، مولانا فضل الرحمان، اختر مینگل اور علی وزیر سمیت بہت سے سیاست دان جیلوں سے واپس آسکتے ہیں تو عمران خان بھی واپس آئیں گے لیکن جیل میں انہیں سوچنا چاہئے کہ انکی گرفتاری پرتحریک انصاف نے جو غم وغصہ دکھایا اس کا عمرا ن خان کو فائدہ ہوا یا نقصان؟ آج تحریک انصاف کے مخالفین کو یہ کہنے کا موقع مل گیا ہے کہ یہ کوئی سیاسی جماعت نہیں بلکہ ایک دہشت گرد تنظیم ہے جس پر پابندی لگا دینی چاہئے۔ میں سیاسی جماعتوں پر پابندیوں کے حق میں نہیں۔ سیاسی جماعتوں پر پابندیاں لگانے سے پہلے ان ریٹائرڈ جرنیلوں کے خلاف کارروائی کریں جنہوں نے پراجیکٹ عمران خان کے ذریعے پاکستان کے آئین و قانون کی دھجیاں اڑائیں۔ کاش، عمران خان سیاست میں فوج کی مداخلت ختم کرنے کیلئے جدوجہد کرتے لیکن افسوس کہ حکومت سے نکلنے کے بعد انکی کوشش یہ تھی کہ فوج انہیں دوبارہ اقتدار میں لائے اور اس مقصد کیلئے انہوں نے کچھ جرنیلوں کے نام لیکر انہیں بلیک میل کرنے کی کوشش کی۔ ان کی واحد کامیابی یہ ہے کہ انہوں نے بڑی خوبصورتی سے اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کیلئے فوج سے لڑائی کا ڈرامہ کیا۔ امید ہے کہ جیل سے واپس آکر وہ تحریک انصاف کو فین کلب سے ایک باقاعدہ سیاسی جماعت بنانے پر توجہ دیں گے۔ سیاست دانوں کو فوج کی مدد سے اقتدار حاصل نہیں کرنا چاہئے اور فوج کو سیاست میں مداخلت نہیں کرنی چاہئے ورنہ وہی نقصان ہوتا ہے جو پراجیکٹ عمران خان نے پاکستان کو پہنچایا۔​
Hamid Mir brother of Amir Mir, Nam hi kafi hae. He thinks he is aqal e kul. What about project Shahbaz Shareef by the then General Zia?? IK is the only politician who struggled 26 years to earn his credibility.
 

atensari

(50k+ posts) بابائے فورم
پراجیکٹ بھٹو، پراجیکٹ نواز شریف ختم نہیں ہوئے. یہ حقیقت ہے اور اب پراجیکٹ عمران خان کو بھی ذہنا تسلیم کر لو

بھٹو اور نواز شریف کو انگلی پکڑ کر چلایا گیا. عمران خان نے خود چلنا سیکھا. منصوبہ سازوں نے غلطی کی وہ سمجھتے تھے کہہ بھٹو اور نواز طرح عمران خان کے لئے سو بندے بھی نہیں نکلیں گے. جب تک انہیں اپنی غلطی کا اندازہ ہوا بہت دیر ہو چکی تھی. اسلئے کور کمانڈر ہاؤس سمیت دیگر عمارت گرفتاری سے قبل ہی خالی کر دی گئیں تھیں. توڑ پھوڑ کرنے کے لئے سادہ کپڑوں میں ملوث افراد کو ہجوم میں شامل کرنے کا انتظام کرنا پڑا. اسلحہ برداروں کو مظاہرین کی طرف سے فائرنگ کرنے کا فریضہ سونپا گیا
 
Last edited:

ranaji

President (40k+ posts)
اوئے گشتی کے بچے حرام کے نطفے میر جعفر کسی بدبودار گشتی کی اولاد تیری ماں کے یار پراجیکٹ بھٹو پراجیکٹ نواز شریف کے بارے میں بھونک کر اپنی ناں چ ۔۔ تے ہوئے تیرے پچھواڑے سے الفاظ نہیں نکلتے گشتی کے بچے اگر تیرا جیساحرامی جو مشرقی پاکستان جاکر جرنلیوں کی ماں بہن ایک کر سکتا ہے اور اب کرپٹ جرنیلوں کا دلا بن کر اپنی ماں چ ۔۔۔ سکتا ہے تو پھر تیرا سٹینڈ کیا ہے حرام کے نطفے عوام صرف انتخاب مانگ رہی تھی تیری بے بے وڈی یا نکی کا رشتہ تو نہیں مانگا تھا
 

Young_Blood

Minister (2k+ posts)
ELECTION K RESULTS aa rahe thay raat 10 baje ka time tha Usman Dar ne senkro vote ke lead se Asif ko hara dia tha PVT channel per result show howa usman dar jeet gay, aise aur bohat se darjano halqey thay jaha PTI k candidates clearly majority se jeet rahe thay, phir achanak RTS System bhithaa dia gaya, poori raat bhithaya gaya subah jab theak howa to usman dar b haar gaya aur jaha PTI k candidates clear majority se jeet rahe thay unhein b hara dia gaya, ye hai 2018 ka election, aur RTS kis ne bhithaya wo tha BAJWA.. kiu k bajwa ko pata tha k khan ko simple majority b mil gai to iss se kisi haram khor ko nahi chorna. BAJWA ne phir Khan ko govt banane k liay MQM, AAP, PML Q ka sahara dia. ye hai 2018 election ke haqeeqat.
 

Visionartist

Chief Minister (5k+ posts)
یہ کہانی 2018ء میں شروع ہوئی اور 2023ء میں انجام کو پہنچی۔ کہانی کا نام ہے ’’پراجیکٹ عمران خان‘‘۔ پراجیکٹ ختم ہو گیا لیکن عمران خان ختم نہیں ہوا ’’پراجیکٹ عمران خان‘‘ 2011ء میں آئی ایس آئی کے سربراہ احمد شجاع پاشا نے شروع کیا تھا۔ 2012ء میں ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد اس پراجیکٹ کو ظہیر الاسلام نے آگے بڑھایا اور نواز شریف کو حکومت سے نکالنے کیلئے عمران خان کو استعمال کیا۔ عمران خان کا 2014ء میں اسلام آباد کی طرف مارچ اور پھر ڈی چوک میں دھرنا آئی ایس آئی کی پلاننگ کا نتیجہ تھا لیکن یہ پلاننگ فیل ہو گئی۔ ظہیر الاسلام کی ریٹائرمنٹ کے بعد پراجیکٹ عمران خان کی فائل وقتی طور پر بند ہو گئی۔ یہ فائل جنرل قمر جاوید باجوہ کے آرمی چیف بننے کے بعد دوبارہ کھل گئی۔ باجوہ نے اپنے سسر میجر جنرل ریٹائرڈ اعجاز امجد اور کچھ پرانے دوستوں کی مدد سے آرمی چیف بننے کیلئے لابنگ کی۔ نواز شریف نے جنرل باجوہ کو آرمی چیف بنانے کا فیصلہ میرٹ پر نہیں بلکہ سفارش پر کیا اور باجوہ کو آرمی چیف بنانے کے بعد ایک سال کے اندر اندر وزارت عظمیٰ سے فارغ ہو گئے۔

2018ء کے انتخابات سے قبل جنرل باجوہ نے عمران خان سے ملنا جلنا شروع کیا تو وہ ان سے زیادہ متاثر نہ ہوئے۔ عمران خان نے ان کے روکنے کے باوجود بشریٰ بی بی سے شادی کرلی۔ یہ حکم عدولی باجوہ کو بہت ناگوار گزری اور انہوں نے شہباز شریف سے معاملات طے کرنے کی کوشش کی۔ باجوہ چاہتے تھے کہ شہباز شریف اپنے بھائی نواز شریف سے سیاسی علیحدگی اختیار کر لیں لیکن شہباز شریف نے وزارت ِعظمیٰ کی خاطر اپنے بھائی کو دھوکہ دینے سے انکار کر دیا۔ شہباز شریف کے انکار نے عمران خان کی قسمت بدل دی۔ جنرل باجوہ نے بادل نخواستہ دوبارہ عمران خان سے رجوع کیا اور 2018ء میں انہیں دھونس و دھاندلی کے ذریعہ وزیراعظم بنوایا۔ 2018ء میں پراجیکٹ عمران خان کے از سر نو آغاز کا مقصد پاکستان میں بہت سی آئینی و سیاسی اصلاحات لانا تھا۔ عمران خان اس پراجیکٹ کیلئے صرف ایک پاپولر فیس تھے۔ پراجیکٹ کے مقاصد میں پاکستان کو پارلیمانی نظام سے واپس صدارتی نظام کی طرف لے جانا بھی شامل تھا۔ دوسری طرف عمران خان نے اپنے سیاسی مخالفین سے انتقام لینے کیلئے فوج کو استعمال کرنا شروع کردیا۔ انہوں نے بعض فوجی افسران سے ذاتی تعلقات بنالئے جو باجوہ کو ایک آنکھ نہ بھاتے تھے۔ 2019ء میں باجوہ نے اپنی مدت ملازمت میں توسیع حاصل کرنے کے بعد عمران خان کو آنکھیں دکھانا شروع کر دیں۔ دونوں کے اختلافات نے اس وقت شدت اختیار کی، جب باجوہ نے فیض حمید کو آئی ایس آئی کی سربراہی سے ہٹانے کا فیصلہ کیا اور عمران خان نے یہ فیصلہ ماننے سے انکار کردیا۔ آرمی چیف اور وزیراعظم کے اختلافات کا مخالفین نے فائدہ اٹھایا اور تحریک عدم اعتماد کے ذریعے عمران خان کو حکومت سے نکال دیا۔

عمران خان کی حکومت کا خاتمہ اپریل 2022ء میں ہوا لیکن انہیں یقین تھا کہ پراجیکٹ عمران خان ختم نہیں ہوا اور بہت جلد وہ واپس حکومت میں آ جائیں گے۔ پراجیکٹ عمران خان کے خاتمے کا یقین انہیں 9 مئی 2023ء کو آیا جب رینجرز نے عمران خان کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے احاطے سے بڑے تضحیک آمیز انداز میں گرفتار کیا۔ ایسا پہلی دفعہ نہیں ہوا تھا، ماضی میں بھی کئی سیاست دان عدالتوں سے گرفتار کئے گئے لیکن عمران خان کی گرفتاری پر ان کی پارٹی نے جو ردعمل دکھایا اس کی مثال پہلے موجود نہیں ہے۔

سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو تختہ دار پر لٹکا دیا گیا لیکن پیپلز پارٹی نے جرنیلوں کے گھروں پر حملے نہیں کئے۔ نواز شریف بار بار گرفتار ہوئے لیکن جی ایچ کیو پر چڑھائی نہیں ہوئی۔ عمران خان کی گرفتاری پر انکی پارٹی نے فوج کے خلاف باقاعدہ اعلان جنگ کردیا۔ تحریک انصاف کا ردعمل ایک سیاسی جماعت کا ردعمل نہیں تھا بلکہ ایسے فین کلب کا ردعمل تھا جو ایک شدت پسند فرقے میں تبدیل ہوچکا ہے۔ یہ فین کلب اپنے علاوہ کسی کو درست نہیں سمجھتا۔ تحریک انصاف کے ردعمل میں بہت زیادہ شدت دراصل اس تربیت کا نتیجہ تھی جو پارٹی قیادت نے اپنے بیانات کے ذریعے کی۔ جب تک فوجی جرنیل عمران خان کے سیاسی مددگار تھے تو عمران خان ان جرنیلوں کے گن گاتے تھے، جب جرنیلوں نے منہ موڑ لیا تو عمران خان ان کے نام لیکر انہیں ڈرانے لگے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ جب عمران خان وزیر اعظم تھے تو تحریک لبیک والوں کو دھمکی آمیز انداز میں کہا کرتے تھے کہ خبردار! ریاست سے مت ٹکرانا ورنہ پاش پاش ہو جائو گے۔ آج ان کی پارٹی ریاست سے ٹکرا رہی ہے تو تحریک انصاف کے کئی اہم رہنما غائب ہوگئے ہیں۔ سیاست دانوں کی گرفتاری پر ایسا ردعمل نہیں آنا چاہئے کہ گرفتاری کو زندگی اور موت کا مسئلہ بنا لیا جائے۔ یہ سیاسی ناپختگی کی انتہا ہے تحریک انصاف والوں نے پہلے تو سوشل میڈیا پر گالی گلوچ سے سیاسی اختلاف کو ذاتی دشمنیوں میں تبدیل کیا اور پھر عمران خان کی گرفتاری پر جلائو گھیرائو کے ذریعے ریاستی اداروں میں اپنے بہت سے ہمدرد کھو دیئے۔ عمران خان نے ہمیشہ جیل میں نہیں رہنا۔ آصف زرداری، شہباز شریف، مولانا فضل الرحمان، اختر مینگل اور علی وزیر سمیت بہت سے سیاست دان جیلوں سے واپس آسکتے ہیں تو عمران خان بھی واپس آئیں گے لیکن جیل میں انہیں سوچنا چاہئے کہ انکی گرفتاری پرتحریک انصاف نے جو غم وغصہ دکھایا اس کا عمرا ن خان کو فائدہ ہوا یا نقصان؟ آج تحریک انصاف کے مخالفین کو یہ کہنے کا موقع مل گیا ہے کہ یہ کوئی سیاسی جماعت نہیں بلکہ ایک دہشت گرد تنظیم ہے جس پر پابندی لگا دینی چاہئے۔ میں سیاسی جماعتوں پر پابندیوں کے حق میں نہیں۔ سیاسی جماعتوں پر پابندیاں لگانے سے پہلے ان ریٹائرڈ جرنیلوں کے خلاف کارروائی کریں جنہوں نے پراجیکٹ عمران خان کے ذریعے پاکستان کے آئین و قانون کی دھجیاں اڑائیں۔ کاش، عمران خان سیاست میں فوج کی مداخلت ختم کرنے کیلئے جدوجہد کرتے لیکن افسوس کہ حکومت سے نکلنے کے بعد انکی کوشش یہ تھی کہ فوج انہیں دوبارہ اقتدار میں لائے اور اس مقصد کیلئے انہوں نے کچھ جرنیلوں کے نام لیکر انہیں بلیک میل کرنے کی کوشش کی۔ ان کی واحد کامیابی یہ ہے کہ انہوں نے بڑی خوبصورتی سے اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کیلئے فوج سے لڑائی کا ڈرامہ کیا۔ امید ہے کہ جیل سے واپس آکر وہ تحریک انصاف کو فین کلب سے ایک باقاعدہ سیاسی جماعت بنانے پر توجہ دیں گے۔ سیاست دانوں کو فوج کی مدد سے اقتدار حاصل نہیں کرنا چاہئے اور فوج کو سیاست میں مداخلت نہیں کرنی چاہئے ورنہ وہی نقصان ہوتا ہے جو پراجیکٹ عمران خان نے پاکستان کو پہنچایا۔

A VERY CLEVERLY WRITTEN STORY WHICH SEEMS TRUE BUT IS NOT TRUE- THE STORY IS WRITTEN BY SON OF (AN INDIAN AGENT AND BANGLADESH FAME) WARIS MİR-​

 
Last edited:

Rollingstone

Politcal Worker (100+ posts)
یہ کہانی 2018ء میں شروع ہوئی اور 2023ء میں انجام کو پہنچی۔ کہانی کا نام ہے ’’پراجیکٹ عمران خان‘‘۔ پراجیکٹ ختم ہو گیا لیکن عمران خان ختم نہیں ہوا ’’پراجیکٹ عمران خان‘‘ 2011ء میں آئی ایس آئی کے سربراہ احمد شجاع پاشا نے شروع کیا تھا۔ 2012ء میں ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد اس پراجیکٹ کو ظہیر الاسلام نے آگے بڑھایا اور نواز شریف کو حکومت سے نکالنے کیلئے عمران خان کو استعمال کیا۔ عمران خان کا 2014ء میں اسلام آباد کی طرف مارچ اور پھر ڈی چوک میں دھرنا آئی ایس آئی کی پلاننگ کا نتیجہ تھا لیکن یہ پلاننگ فیل ہو گئی۔ ظہیر الاسلام کی ریٹائرمنٹ کے بعد پراجیکٹ عمران خان کی فائل وقتی طور پر بند ہو گئی۔ یہ فائل جنرل قمر جاوید باجوہ کے آرمی چیف بننے کے بعد دوبارہ کھل گئی۔ باجوہ نے اپنے سسر میجر جنرل ریٹائرڈ اعجاز امجد اور کچھ پرانے دوستوں کی مدد سے آرمی چیف بننے کیلئے لابنگ کی۔ نواز شریف نے جنرل باجوہ کو آرمی چیف بنانے کا فیصلہ میرٹ پر نہیں بلکہ سفارش پر کیا اور باجوہ کو آرمی چیف بنانے کے بعد ایک سال کے اندر اندر وزارت عظمیٰ سے فارغ ہو گئے۔

2018ء کے انتخابات سے قبل جنرل باجوہ نے عمران خان سے ملنا جلنا شروع کیا تو وہ ان سے زیادہ متاثر نہ ہوئے۔ عمران خان نے ان کے روکنے کے باوجود بشریٰ بی بی سے شادی کرلی۔ یہ حکم عدولی باجوہ کو بہت ناگوار گزری اور انہوں نے شہباز شریف سے معاملات طے کرنے کی کوشش کی۔ باجوہ چاہتے تھے کہ شہباز شریف اپنے بھائی نواز شریف سے سیاسی علیحدگی اختیار کر لیں لیکن شہباز شریف نے وزارت ِعظمیٰ کی خاطر اپنے بھائی کو دھوکہ دینے سے انکار کر دیا۔ شہباز شریف کے انکار نے عمران خان کی قسمت بدل دی۔ جنرل باجوہ نے بادل نخواستہ دوبارہ عمران خان سے رجوع کیا اور 2018ء میں انہیں دھونس و دھاندلی کے ذریعہ وزیراعظم بنوایا۔ 2018ء میں پراجیکٹ عمران خان کے از سر نو آغاز کا مقصد پاکستان میں بہت سی آئینی و سیاسی اصلاحات لانا تھا۔ عمران خان اس پراجیکٹ کیلئے صرف ایک پاپولر فیس تھے۔ پراجیکٹ کے مقاصد میں پاکستان کو پارلیمانی نظام سے واپس صدارتی نظام کی طرف لے جانا بھی شامل تھا۔ دوسری طرف عمران خان نے اپنے سیاسی مخالفین سے انتقام لینے کیلئے فوج کو استعمال کرنا شروع کردیا۔ انہوں نے بعض فوجی افسران سے ذاتی تعلقات بنالئے جو باجوہ کو ایک آنکھ نہ بھاتے تھے۔ 2019ء میں باجوہ نے اپنی مدت ملازمت میں توسیع حاصل کرنے کے بعد عمران خان کو آنکھیں دکھانا شروع کر دیں۔ دونوں کے اختلافات نے اس وقت شدت اختیار کی، جب باجوہ نے فیض حمید کو آئی ایس آئی کی سربراہی سے ہٹانے کا فیصلہ کیا اور عمران خان نے یہ فیصلہ ماننے سے انکار کردیا۔ آرمی چیف اور وزیراعظم کے اختلافات کا مخالفین نے فائدہ اٹھایا اور تحریک عدم اعتماد کے ذریعے عمران خان کو حکومت سے نکال دیا۔

عمران خان کی حکومت کا خاتمہ اپریل 2022ء میں ہوا لیکن انہیں یقین تھا کہ پراجیکٹ عمران خان ختم نہیں ہوا اور بہت جلد وہ واپس حکومت میں آ جائیں گے۔ پراجیکٹ عمران خان کے خاتمے کا یقین انہیں 9 مئی 2023ء کو آیا جب رینجرز نے عمران خان کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے احاطے سے بڑے تضحیک آمیز انداز میں گرفتار کیا۔ ایسا پہلی دفعہ نہیں ہوا تھا، ماضی میں بھی کئی سیاست دان عدالتوں سے گرفتار کئے گئے لیکن عمران خان کی گرفتاری پر ان کی پارٹی نے جو ردعمل دکھایا اس کی مثال پہلے موجود نہیں ہے۔

سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو تختہ دار پر لٹکا دیا گیا لیکن پیپلز پارٹی نے جرنیلوں کے گھروں پر حملے نہیں کئے۔ نواز شریف بار بار گرفتار ہوئے لیکن جی ایچ کیو پر چڑھائی نہیں ہوئی۔ عمران خان کی گرفتاری پر انکی پارٹی نے فوج کے خلاف باقاعدہ اعلان جنگ کردیا۔ تحریک انصاف کا ردعمل ایک سیاسی جماعت کا ردعمل نہیں تھا بلکہ ایسے فین کلب کا ردعمل تھا جو ایک شدت پسند فرقے میں تبدیل ہوچکا ہے۔ یہ فین کلب اپنے علاوہ کسی کو درست نہیں سمجھتا۔ تحریک انصاف کے ردعمل میں بہت زیادہ شدت دراصل اس تربیت کا نتیجہ تھی جو پارٹی قیادت نے اپنے بیانات کے ذریعے کی۔ جب تک فوجی جرنیل عمران خان کے سیاسی مددگار تھے تو عمران خان ان جرنیلوں کے گن گاتے تھے، جب جرنیلوں نے منہ موڑ لیا تو عمران خان ان کے نام لیکر انہیں ڈرانے لگے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ جب عمران خان وزیر اعظم تھے تو تحریک لبیک والوں کو دھمکی آمیز انداز میں کہا کرتے تھے کہ خبردار! ریاست سے مت ٹکرانا ورنہ پاش پاش ہو جائو گے۔ آج ان کی پارٹی ریاست سے ٹکرا رہی ہے تو تحریک انصاف کے کئی اہم رہنما غائب ہوگئے ہیں۔ سیاست دانوں کی گرفتاری پر ایسا ردعمل نہیں آنا چاہئے کہ گرفتاری کو زندگی اور موت کا مسئلہ بنا لیا جائے۔ یہ سیاسی ناپختگی کی انتہا ہے تحریک انصاف والوں نے پہلے تو سوشل میڈیا پر گالی گلوچ سے سیاسی اختلاف کو ذاتی دشمنیوں میں تبدیل کیا اور پھر عمران خان کی گرفتاری پر جلائو گھیرائو کے ذریعے ریاستی اداروں میں اپنے بہت سے ہمدرد کھو دیئے۔ عمران خان نے ہمیشہ جیل میں نہیں رہنا۔ آصف زرداری، شہباز شریف، مولانا فضل الرحمان، اختر مینگل اور علی وزیر سمیت بہت سے سیاست دان جیلوں سے واپس آسکتے ہیں تو عمران خان بھی واپس آئیں گے لیکن جیل میں انہیں سوچنا چاہئے کہ انکی گرفتاری پرتحریک انصاف نے جو غم وغصہ دکھایا اس کا عمرا ن خان کو فائدہ ہوا یا نقصان؟ آج تحریک انصاف کے مخالفین کو یہ کہنے کا موقع مل گیا ہے کہ یہ کوئی سیاسی جماعت نہیں بلکہ ایک دہشت گرد تنظیم ہے جس پر پابندی لگا دینی چاہئے۔ میں سیاسی جماعتوں پر پابندیوں کے حق میں نہیں۔ سیاسی جماعتوں پر پابندیاں لگانے سے پہلے ان ریٹائرڈ جرنیلوں کے خلاف کارروائی کریں جنہوں نے پراجیکٹ عمران خان کے ذریعے پاکستان کے آئین و قانون کی دھجیاں اڑائیں۔ کاش، عمران خان سیاست میں فوج کی مداخلت ختم کرنے کیلئے جدوجہد کرتے لیکن افسوس کہ حکومت سے نکلنے کے بعد انکی کوشش یہ تھی کہ فوج انہیں دوبارہ اقتدار میں لائے اور اس مقصد کیلئے انہوں نے کچھ جرنیلوں کے نام لیکر انہیں بلیک میل کرنے کی کوشش کی۔ ان کی واحد کامیابی یہ ہے کہ انہوں نے بڑی خوبصورتی سے اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کیلئے فوج سے لڑائی کا ڈرامہ کیا۔ امید ہے کہ جیل سے واپس آکر وہ تحریک انصاف کو فین کلب سے ایک باقاعدہ سیاسی جماعت بنانے پر توجہ دیں گے۔ سیاست دانوں کو فوج کی مدد سے اقتدار حاصل نہیں کرنا چاہئے اور فوج کو سیاست میں مداخلت نہیں کرنی چاہئے ورنہ وہی نقصان ہوتا ہے جو پراجیکٹ عمران خان نے پاکستان کو پہنچایا۔
What a story, what were the names of Projects Bhutto, Project Nawaz Sharif and Project Taliban and many more. While talking about all the shit in the end he beautifully put burdens of all failures on PTI. For surprise of many all which was done well Bajwa is claiming that was due to his efforts and for all the failures PTI is responsible. May I ask this so called Journalist (Blackmailer) why not Bajwa's father in law so called king maker should be trailed for treason as he was bluntly interfering in State matter, lobbing for his son in laws posting and then making deals with PTI and PMLN. Beside this now they have started a campaign to dislodge PTI by again and again calling PTI supporters fan club of Imran. This an old method to bully and silent those who know your reality. Your brother being part of this plan and you are trying to justify perks your and your family are getting. Beware we have not forgotten your treachery, you were the first one claiming Ajamal Kassab as Pakistani from Muredikke, we still remember the show you did. How many of those you have done till date? That man which from his appearance nor his speech ever looked as a Pakistani. Even in that case if he was a Pakistani it was not sent to India by our political parties but might be by the agencies and now he is defending them. What a character, at least PTI supporters have the courage to stand behind a thinking they are not like this selfish man who change his stance with out any rational reason. For Example, The Great Usama Bin Laddin interview, in his initial columns for Ausaf he was an hero later when tide turned he became a monster.
 

thepearl

Minister (2k+ posts)
بلوائی واضح طور پر فساد فی الارض کے مرتکب ہوئےہیں کلی طور پر غیر مشروط فوج پولیس اور انتظامیہ کی حمایت کرتے ہیں اورانکے ساتھ کھڑے ہیں شریعت میں انکی سزا واضح ہے فوج اور پولیس پر اسطرح کا حملہ دنیا کے ہر قانون میں سیدھا ریاست پر حملہ ہے ہمارامطالبہ ہے انکو نشان عبرت بنایا جائے ڈی آئی جی آپریشن لاہور پر بھی حملے کی بھی شدید مذمت کرتے ہیں
 

thepearl

Minister (2k+ posts)
اب بھارت والا فارمولا پکڑیں اور ان بلوائیوں کے گھروں پر بلڈوزر چلائیں ،افتتاح بنی گالہ اور زمان پارک سے کریں اور تمام لیڈران اور کارکنان کے گھر مسمار کریں تاکہ اگلی دفعہ کسی مادرچود کی ہمت نہ ہو کہ ملک کی پراپرٹی کو تباہ کرنا ہے
 

باس از باس

MPA (400+ posts)
jamnsiahsah.jpg

یہ کہانی 2018ء میں شروع ہوئی اور 2023ء میں انجام کو پہنچی۔ کہانی کا نام ہے ’’پراجیکٹ عمران خان‘‘۔ پراجیکٹ ختم ہو گیا لیکن عمران خان ختم نہیں ہوا ’’پراجیکٹ عمران خان‘‘ 2011ء میں آئی ایس آئی کے سربراہ احمد شجاع پاشا نے شروع کیا تھا۔ 2012ء میں ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد اس پراجیکٹ کو ظہیر الاسلام نے آگے بڑھایا اور نواز شریف کو حکومت سے نکالنے کیلئے عمران خان کو استعمال کیا۔

عمران خان کا 2014ء میں اسلام آباد کی طرف مارچ اور پھر ڈی چوک میں دھرنا آئی ایس آئی کی پلاننگ کا نتیجہ تھا لیکن یہ پلاننگ فیل ہو گئی۔ ظہیر الاسلام کی ریٹائرمنٹ کے بعد پراجیکٹ عمران خان کی فائل وقتی طور پر بند ہو گئی۔ یہ فائل جنرل قمر جاوید باجوہ کے آرمی چیف بننے کے بعد دوبارہ کھل گئی۔ باجوہ نے اپنے سسر میجر جنرل ریٹائرڈ اعجاز امجد اور کچھ پرانے دوستوں کی مدد سے آرمی چیف بننے کیلئے لابنگ کی۔ نواز شریف نے جنرل باجوہ کو آرمی چیف بنانے کا فیصلہ میرٹ پر نہیں بلکہ سفارش پر کیا اور باجوہ کو آرمی چیف بنانے کے بعد ایک سال کے اندر اندر وزارت عظمیٰ سے فارغ ہو گئے۔

2018ء
کے انتخابات سے قبل جنرل باجوہ نے عمران خان سے ملنا جلنا شروع کیا تو وہ ان سے زیادہ متاثر نہ ہوئے۔ عمران خان نے ان کے روکنے کے باوجود بشریٰ بی بی سے شادی کرلی۔ یہ حکم عدولی باجوہ کو بہت ناگوار گزری اور انہوں نے شہباز شریف سے معاملات طے کرنے کی کوشش کی۔ باجوہ چاہتے تھے کہ شہباز شریف اپنے بھائی نواز شریف سے سیاسی علیحدگی اختیار کر لیں لیکن شہباز شریف نے وزارت ِعظمیٰ کی خاطر اپنے بھائی کو دھوکہ دینے سے انکار کر دیا۔ شہباز شریف کے انکار نے عمران خان کی قسمت بدل دی۔ جنرل باجوہ نے بادل نخواستہ دوبارہ عمران خان سے رجوع کیا اور 2018ء میں انہیں دھونس و دھاندلی کے ذریعہ وزیراعظم بنوایا۔ 2018ء میں پراجیکٹ عمران خان کے از سر نو آغاز کا مقصد پاکستان میں بہت سی آئینی و سیاسی اصلاحات لانا تھا۔

عمران خان اس پراجیکٹ کیلئے صرف ایک پاپولر فیس تھے۔ پراجیکٹ کے مقاصد میں پاکستان کو پارلیمانی نظام سے واپس صدارتی نظام کی طرف لے جانا بھی شامل تھا۔ دوسری طرف عمران خان نے اپنے سیاسی مخالفین سے انتقام لینے کیلئے فوج کو استعمال کرنا شروع کردیا۔ انہوں نے بعض فوجی افسران سے ذاتی تعلقات بنالئے جو باجوہ کو ایک آنکھ نہ بھاتے تھے۔ 2019ء میں باجوہ نے اپنی مدت ملازمت میں توسیع حاصل کرنے کے بعد عمران خان کو آنکھیں دکھانا شروع کر دیں۔

دونوں کے اختلافات نے اس وقت شدت اختیار کی، جب باجوہ نے فیض حمید کو آئی ایس آئی کی سربراہی سے ہٹانے کا فیصلہ کیا اور عمران خان نے یہ فیصلہ ماننے سے انکار کردیا۔ آرمی چیف اور وزیراعظم کے اختلافات کا مخالفین نے فائدہ اٹھایا اور تحریک عدم اعتماد کے ذریعے عمران خان کو حکومت سے نکال دیا۔

عمران خان کی حکومت کا خاتمہ اپریل 2022ء میں ہوا لیکن انہیں یقین تھا کہ پراجیکٹ عمران خان ختم نہیں ہوا اور بہت جلد وہ واپس حکومت میں آ جائیں گے۔ پراجیکٹ عمران خان کے خاتمے کا یقین انہیں 9 مئی 2023ء کو آیا جب رینجرز نے عمران خان کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے احاطے سے بڑے تضحیک آمیز انداز میں گرفتار کیا۔ ایسا پہلی دفعہ نہیں ہوا تھا، ماضی میں بھی کئی سیاست دان عدالتوں سے گرفتار کئے گئے لیکن عمران خان کی گرفتاری پر ان کی پارٹی نے جو ردعمل دکھایا اس کی مثال پہلے موجود نہیں ہے۔

سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو تختہ دار پر لٹکا دیا گیا لیکن پیپلز پارٹی نے جرنیلوں کے گھروں پر حملے نہیں کئے۔ نواز شریف بار بار گرفتار ہوئے لیکن جی ایچ کیو پر چڑھائی نہیں ہوئی۔ عمران خان کی گرفتاری پر انکی پارٹی نے فوج کے خلاف باقاعدہ اعلان جنگ کردیا۔ تحریک انصاف کا ردعمل ایک سیاسی جماعت کا ردعمل نہیں تھا بلکہ ایسے فین کلب کا ردعمل تھا جو ایک شدت پسند فرقے میں تبدیل ہوچکا ہے۔

یہ فین کلب اپنے علاوہ کسی کو درست نہیں سمجھتا۔ تحریک انصاف کے ردعمل میں بہت زیادہ شدت دراصل اس تربیت کا نتیجہ تھی جو پارٹی قیادت نے اپنے بیانات کے ذریعے کی۔ جب تک فوجی جرنیل عمران خان کے سیاسی مددگار تھے تو عمران خان ان جرنیلوں کے گن گاتے تھے، جب جرنیلوں نے منہ موڑ لیا تو عمران خان ان کے نام لیکر انہیں ڈرانے لگے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ جب عمران خان وزیر اعظم تھے تو تحریک لبیک والوں کو دھمکی آمیز انداز میں کہا کرتے تھے کہ خبردار! ریاست سے مت ٹکرانا ورنہ پاش پاش ہو جائو گے۔ آج ان کی پارٹی ریاست سے ٹکرا رہی ہے تو تحریک انصاف کے کئی اہم رہنما غائب ہوگئے ہیں۔

سیاست دانوں کی گرفتاری پر ایسا ردعمل نہیں آنا چاہئے کہ گرفتاری کو زندگی اور موت کا مسئلہ بنا لیا جائے۔ یہ سیاسی ناپختگی کی انتہا ہے تحریک انصاف والوں نے پہلے تو سوشل میڈیا پر گالی گلوچ سے سیاسی اختلاف کو ذاتی دشمنیوں میں تبدیل کیا اور پھر عمران خان کی گرفتاری پر جلائو گھیرائو کے ذریعے ریاستی اداروں میں اپنے بہت سے ہمدرد کھو دیئے۔ عمران خان نے ہمیشہ جیل میں نہیں رہنا۔ آصف زرداری، شہباز شریف، مولانا فضل الرحمان، اختر مینگل اور علی وزیر سمیت بہت سے سیاست دان جیلوں سے واپس آسکتے ہیں تو عمران خان بھی واپس آئیں گے لیکن جیل میں انہیں سوچنا چاہئے کہ انکی گرفتاری پرتحریک انصاف نے جو غم وغصہ دکھایا اس کا عمرا ن خان کو فائدہ ہوا یا نقصان؟ آج تحریک انصاف کے مخالفین کو یہ کہنے کا موقع مل گیا ہے کہ یہ کوئی سیاسی جماعت نہیں بلکہ ایک دہشت گرد تنظیم ہے جس پر پابندی لگا دینی چاہئے۔

میں سیاسی جماعتوں پر پابندیوں کے حق میں نہیں۔ سیاسی جماعتوں پر پابندیاں لگانے سے پہلے ان ریٹائرڈ جرنیلوں کے خلاف کارروائی کریں جنہوں نے پراجیکٹ عمران خان کے ذریعے پاکستان کے آئین و قانون کی دھجیاں اڑائیں۔ کاش، عمران خان سیاست میں فوج کی مداخلت ختم کرنے کیلئے جدوجہد کرتے لیکن افسوس کہ حکومت سے نکلنے کے بعد انکی کوشش یہ تھی کہ فوج انہیں دوبارہ اقتدار میں لائے اور اس مقصد کیلئے انہوں نے کچھ جرنیلوں کے نام لیکر انہیں بلیک میل کرنے کی کوشش کی۔ ان کی واحد کامیابی یہ ہے کہ انہوں نے بڑی خوبصورتی سے اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کیلئے فوج سے لڑائی کا ڈرامہ کیا۔

امید ہے کہ جیل سے واپس آکر وہ تحریک انصاف کو فین کلب سے ایک باقاعدہ سیاسی جماعت بنانے پر توجہ دیں گے۔ سیاست دانوں کو فوج کی مدد سے اقتدار حاصل نہیں کرنا چاہئے اور فوج کو سیاست میں مداخلت نہیں کرنی چاہئے ورنہ وہی نقصان ہوتا ہے جو پراجیکٹ عمران خان نے پاکستان کو پہنچایا۔
۔


عمران خان جیل سے واپس آئے نا آئے۔۔۔ لیکن جب بھی تو ہاتھ چڑھا تیری ماں بہن کو ضرور چودیں گی اور تیری کنجری ماں سے پوچھیں گے کہ تو بھین چود پروجیکٹ کیسے مکمل ہوا