پاکستان میں کوئی مثالی جمہوری حکومت نہیں، ہائبرڈ ماڈل ہے، خواجہ آصف

munir_1.jpg

پاکستان کے وزیردفاع خواجہ آصف نے ملکی طرزِ حکمرانی کو "ہائبرڈ ماڈل" قرار دیتے ہوئے اعتراف کیا ہے کہ ملک میں فوج اور سویلین قیادت باہمی اشتراک سے فیصلے کر رہی ہیں، جو بظاہر ایک کھلا راز تھا لیکن کسی حاضر سروس وفاقی وزیر کی جانب سے اس کی کھلی تصدیق غیرمعمولی اہمیت کی حامل بن گئی ہے، خاص طور پر ایسے وقت میں جب پاکستانی آرمی چیف فیلڈ مارشل عاصم منیر نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے غیر روایتی طور پر اکیلے ملاقات کی۔

خواجہ آصف کا یہ بیان ایسے وقت سامنے آیا ہے جب فوجی قیادت، خاص طور پر جنرل (اب فیلڈ مارشل) عاصم منیر کی بھارت کے ساتھ حالیہ سرحدی کشیدگی کے دوران حکمت عملی کو بھرپور عوامی پذیرائی ملی ہے اور اسی تناظر میں ان کی امریکی صدر سے دو گھنٹے طویل ون آن ون ملاقات نے سول اور عسکری اختیارات کے توازن پر نئی بحث چھیڑ دی ہے۔


عرب نیوز کو دیے گئے انٹرویو میں خواجہ آصف نے کہا کہ اگرچہ یہ ماڈل مکمل جمہوری نہیں، مگر موجودہ حالات میں یہی موزوں حل ہے۔ ان کے بقول:

“یہ ہائبرڈ ماڈل ہے۔ یہ مثالی جمہوری نظام نہیں، لیکن عملی طور پر بہتر نتائج دے رہا ہے۔ جب تک پاکستان اقتصادی اور طرز حکمرانی کے بحران سے باہر نہیں آتا، یہ نظام کارآمد ہے۔”

انہوں نے تسلیم کیا کہ فوجی قیادت کی مقبولیت میں حالیہ مہینوں میں غیرمعمولی اضافہ ہوا ہے، خاص طور پر بھارت کے ساتھ تنازع کے بعد، جس میں پاکستان نے چھ بھارتی لڑاکا طیارے مار گرانے اور متعدد عسکری تنصیبات کو نشانہ بنانے کا دعویٰ کیا۔

پاکستانی فوج کی جانب سے جاری کردہ اعلامیے (ISPR) کے مطابق جنرل منیر اور صدر ٹرمپ کے درمیان دو گھنٹے جاری رہنے والی ملاقات میں نہ صرف سکیورٹی اور مشرق وسطیٰ کی صورت حال بلکہ معاشی ترقی، تجارتی تعاون، کرپٹو کرنسی، مصنوعی ذہانت، معدنیات، اور توانائی جیسے شعبے بھی زیر بحث آئے۔ یہ تمام شعبے عمومی طور پر سول حکومت کے دائرہ اختیار میں آتے ہیں، جس پر کئی مبصرین نے سوالات اٹھائے ہیں کہ آیا فوج کا دائرہ اختیار اب معیشت اور خارجہ پالیسی تک بھی بڑھتا جا رہا ہے۔

تاہم خواجہ آصف نے واضح کیا کہ وزیرِاعظم شہباز شریف فیصلہ سازی میں مکمل خودمختار ہیں اور عسکری قیادت سے مشاورت باقاعدہ طریقے سے جاری ہے۔ ان کے بقول:


"یہ باہمی شراکت داری ہے، کوئی بھی ادارہ دوسرے پر مسلط نہیں۔ وزیراعظم آزادانہ فیصلے کرتے ہیں اور ہر سطح پر اسٹیبلشمنٹ سے مشاورت کرتے ہیں۔"

وزیردفاع کے مطابق موجودہ حکومتی ڈھانچے میں سویلین و عسکری قیادت ایک دوسرے کے ساتھ SIFC (اسپیشل انویسٹمنٹ فسیلیٹیشن کونسل) جیسے پلیٹ فارمز پر مل کر اقتصادی ترجیحات طے کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا:

"ہمارے پاس مشترکہ پلیٹ فارمز ہیں جہاں فوجی اور سویلین قیادت بیٹھ کر کاروباری فیصلے کرتی ہے، اور یہ نظام بہت مؤثر انداز سے کام کر رہا ہے۔"


"اگر اسی قسم کا (ہائبرڈ) نظام 90 کی دہائی میں ہی اپنا لیا جاتا، تو حالات کہیں بہتر ہوتے،" خواجہ آصف نے کہا، "کیونکہ اس وقت فوجی اسٹیبلشمنٹ اور سیاسی حکومت کے درمیان ٹکراؤ نے ہماری جمہوریت کی ترقی کو واقعی پیچھے دھکیل دیا تھا۔"

جب خواجہ آصف سے سوال کیا گیا کہ آیا کبھی ایسا بھی ہوا کہ وزیراعظم اور فوجی قیادت کے درمیان فیصلوں پر اختلاف رہا ہو، تو ان کا کہنا تھا:


“ایسا کوئی لمحہ نہیں آیا۔ اب تک جتنے بھی اہم فیصلے ہوئے، سب مکمل اتفاق رائے سے کیے گئے۔ چیزیں بہت ہموار طریقے سے آگے بڑھ رہی ہیں، اور ان شاءاللہ ہم ایک دن ایسی جمہوریت حاصل کر لیں گے جیسی پاکستان کو درکار ہے۔”


پاکستان کی تاریخ میں فوج کا کردار ہمیشہ اہم رہا ہے۔ 1958، 1977 اور 1999 میں فوجی بغاوتوں کے ذریعے براہ راست اقتدار سنبھالا گیا، جبکہ جمہوری ادوار میں بھی فوجی اسٹیبلشمنٹ کو پالیسی سازی میں کلیدی کردار حاصل رہا ہے۔ خواجہ آصف کے مطابق، اگر 1990 کی دہائی میں ہی یہ "ہائبرڈ ماڈل" اختیار کر لیا جاتا تو آج پاکستان
کی جمہوریت کہیں زیادہ مستحکم ہوتی۔


کل تک عمران خان کو Same Page اور Hybrid Regime کے طعنے دینے والے آج فخر سے انٹرویوز میں بتاتے پھر رہے ہیں کہ ہم مانتے ہیں کہ ہم ایک ہائبرڈ نظام کا حصہ ہیں اور ہماری یہ حسرت ہے کہ یہ نظام تو 1990 سے ہی شروع ہو جانا چاہیے تھا۔
https://twitter.com/x/status/1936111363224743996 https://twitter.com/x/status/1936188374865617163 https://twitter.com/x/status/1936200616675885476 https://twitter.com/x/status/1936338395053040046 https://twitter.com/x/status/1936315001918181468 https://twitter.com/x/status/1936428071202013498 https://twitter.com/x/status/1936481843978907674
 
Last edited by a moderator:

Will_Bite

Prime Minister (20k+ posts)
munir_1.jpg

پاکستان کے وزیردفاع خواجہ آصف نے ملکی طرزِ حکمرانی کو "ہائبرڈ ماڈل" قرار دیتے ہوئے اعتراف کیا ہے کہ ملک میں فوج اور سویلین قیادت باہمی اشتراک سے فیصلے کر رہی ہیں، جو بظاہر ایک کھلا راز تھا لیکن کسی حاضر سروس وفاقی وزیر کی جانب سے اس کی کھلی تصدیق غیرمعمولی اہمیت کی حامل بن گئی ہے، خاص طور پر ایسے وقت میں جب پاکستانی آرمی چیف فیلڈ مارشل عاصم منیر نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے غیر روایتی طور پر اکیلے ملاقات کی۔

خواجہ آصف کا یہ بیان ایسے وقت سامنے آیا ہے جب فوجی قیادت، خاص طور پر جنرل (اب فیلڈ مارشل) عاصم منیر کی بھارت کے ساتھ حالیہ سرحدی کشیدگی کے دوران حکمت عملی کو بھرپور عوامی پذیرائی ملی ہے اور اسی تناظر میں ان کی امریکی صدر سے دو گھنٹے طویل ون آن ون ملاقات نے سول اور عسکری اختیارات کے توازن پر نئی بحث چھیڑ دی ہے۔


عرب نیوز کو دیے گئے انٹرویو میں خواجہ آصف نے کہا کہ اگرچہ یہ ماڈل مکمل جمہوری نہیں، مگر موجودہ حالات میں یہی موزوں حل ہے۔ ان کے بقول:

“یہ ہائبرڈ ماڈل ہے۔ یہ مثالی جمہوری نظام نہیں، لیکن عملی طور پر بہتر نتائج دے رہا ہے۔ جب تک پاکستان اقتصادی اور طرز حکمرانی کے بحران سے باہر نہیں آتا، یہ نظام کارآمد ہے۔”

انہوں نے تسلیم کیا کہ فوجی قیادت کی مقبولیت میں حالیہ مہینوں میں غیرمعمولی اضافہ ہوا ہے، خاص طور پر بھارت کے ساتھ تنازع کے بعد، جس میں پاکستان نے چھ بھارتی لڑاکا طیارے مار گرانے اور متعدد عسکری تنصیبات کو نشانہ بنانے کا دعویٰ کیا۔

پاکستانی فوج کی جانب سے جاری کردہ اعلامیے (ISPR) کے مطابق جنرل منیر اور صدر ٹرمپ کے درمیان دو گھنٹے جاری رہنے والی ملاقات میں نہ صرف سکیورٹی اور مشرق وسطیٰ کی صورت حال بلکہ معاشی ترقی، تجارتی تعاون، کرپٹو کرنسی، مصنوعی ذہانت، معدنیات، اور توانائی جیسے شعبے بھی زیر بحث آئے۔ یہ تمام شعبے عمومی طور پر سول حکومت کے دائرہ اختیار میں آتے ہیں، جس پر کئی مبصرین نے سوالات اٹھائے ہیں کہ آیا فوج کا دائرہ اختیار اب معیشت اور خارجہ پالیسی تک بھی بڑھتا جا رہا ہے۔

تاہم خواجہ آصف نے واضح کیا کہ وزیرِاعظم شہباز شریف فیصلہ سازی میں مکمل خودمختار ہیں اور عسکری قیادت سے مشاورت باقاعدہ طریقے سے جاری ہے۔ ان کے بقول:


"یہ باہمی شراکت داری ہے، کوئی بھی ادارہ دوسرے پر مسلط نہیں۔ وزیراعظم آزادانہ فیصلے کرتے ہیں اور ہر سطح پر اسٹیبلشمنٹ سے مشاورت کرتے ہیں۔"

وزیردفاع کے مطابق موجودہ حکومتی ڈھانچے میں سویلین و عسکری قیادت ایک دوسرے کے ساتھ SIFC (اسپیشل انویسٹمنٹ فسیلیٹیشن کونسل) جیسے پلیٹ فارمز پر مل کر اقتصادی ترجیحات طے کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا:

"ہمارے پاس مشترکہ پلیٹ فارمز ہیں جہاں فوجی اور سویلین قیادت بیٹھ کر کاروباری فیصلے کرتی ہے، اور یہ نظام بہت مؤثر انداز سے کام کر رہا ہے۔"


"اگر اسی قسم کا (ہائبرڈ) نظام 90 کی دہائی میں ہی اپنا لیا جاتا، تو حالات کہیں بہتر ہوتے،" خواجہ آصف نے کہا، "کیونکہ اس وقت فوجی اسٹیبلشمنٹ اور سیاسی حکومت کے درمیان ٹکراؤ نے ہماری جمہوریت کی ترقی کو واقعی پیچھے دھکیل دیا تھا۔"

جب خواجہ آصف سے سوال کیا گیا کہ آیا کبھی ایسا بھی ہوا کہ وزیراعظم اور فوجی قیادت کے درمیان فیصلوں پر اختلاف رہا ہو، تو ان کا کہنا تھا:


“ایسا کوئی لمحہ نہیں آیا۔ اب تک جتنے بھی اہم فیصلے ہوئے، سب مکمل اتفاق رائے سے کیے گئے۔ چیزیں بہت ہموار طریقے سے آگے بڑھ رہی ہیں، اور ان شاءاللہ ہم ایک دن ایسی جمہوریت حاصل کر لیں گے جیسی پاکستان کو درکار ہے۔”


پاکستان کی تاریخ میں فوج کا کردار ہمیشہ اہم رہا ہے۔ 1958، 1977 اور 1999 میں فوجی بغاوتوں کے ذریعے براہ راست اقتدار سنبھالا گیا، جبکہ جمہوری ادوار میں بھی فوجی اسٹیبلشمنٹ کو پالیسی سازی میں کلیدی کردار حاصل رہا ہے۔ خواجہ آصف کے مطابق، اگر 1990 کی دہائی میں ہی یہ "ہائبرڈ ماڈل" اختیار کر لیا جاتا تو آج پاکستان کی جمہوریت کہیں زیادہ مستحکم ہوتی۔
It's a martial law you moron.
Shahbaz sharif can't even go to the toilet without permission
 

Back
Top