لوگ کہتے ہیں کہ ترکی جیسی صورتحال پاکستان میں نہیں ہو سکتی اور عوام سویلین حکومت کے بجائے ملٹری انقلاب کی حمایت کرینگے- لیکن ایسی صورتحال پاکستان میں ماضی قریب میں ہو چکی ہے اور اس میں عوام کو فتح اور طالع آزماؤں کو شکست فاش ہوئ ہے- آئیے ترکی اور پاکستان کی صورتحال کا تقابلی تجزیہ کرتے ہیں-
ترکی میں بغاوت فوج کے ایک گروہ نے کی جو کہ فتح اللہ گولن کا حامی تھا- اس بغاوت کو ترکی آرمی کے کمانڈر انچیف کی حمایت حاصل نہیں تھی- چند جنرل اور انکے زیر کمان دستوں نے بغاوت کی- کچھ خون خرابہ بھی ہوا مگر عوامی تائید سے بغاوت فرو ہوگئ- سیاسی مخالفوں نے بھی اپنا وزن منتخب حکومت کے پلڑے میں ڈال دیا- یہاں عوامی تائید اس شکل میں ہوئ کہ عوام منتخب حکومت کی حمایت میں اور باغی گروہ کے خلاف سڑکوں پر نکلے- اور باغی گروہ کو انکی اوقات یاد کرادی-
آئیے دیکھتے ہیں کہ پاکستان میں اس سے ملتی جلتی صورتحال کب ہوئ اور عوام کا ردعمل کیا رہا- دوسال پہلے کچھ سیاسی نابالغوں نے اپنے کچھ ملٹری آقاؤں کے کہنے پر دھرنا دیا۔ پارلمنٹ پر حملہ کیا گیا، ٹی وی اسٹیشن پر حملہ کیا گیا، پولیس کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا- ترکی کی طرح یہاں بھی باغی گروہ کی حمایت فوج کے کچھ باغی جنرل کررہے تھے جو منتخب حکومت کا تختہ الٹنا چاہ رہے تھے اور اس مقصد کیلئے اپنے سویلین کٹ پتلیوں کو استعمال کیا- یہاں بھی فوج کے باغی گروہ کو آرمی چیف کی حمایت حاصل نہیں تھی- فوج کے اس باغی گروہ نے اپنے سویلین کارپروازوں کو استعمال کرتے ہوئے ملک میں انارکی پھیلانے کی بھرپور کوشش کی لیکن یہاں پر عوام کی بھاری اکثریت نے بالغ نظری کا مظاہرہ کرتے ہوئے باغی گروہ کی حمایت میں سڑکوں پر نکلنے سے انکار کردیا - سیاسی جماعتوں نے بھی منتخب حکومت کی حمایت کرکے باغی گروہ کی امیدوں پر پانی پھیر دیا۔ پاکستان میں فوجی اور انکے سویلین کارپروازوں کی ناجائز مہم جوئ کو حکومت وقت اور عوام نے تحمل اور دانشمندی سے بغیر خون خرابے کے ناکام بنا دیا۔
جہاں تک ترکی کی موجودہ ترقی کا سوال ہے وہ گذشتہ بارہ سال سے جاری سویلین حکومت کی مرہون منت ہے ورنہ اس سے پہلے ترکی میں بھی فوجیوں کی حکومت تھی اور معاشی و سماجی صورتحال ابتر تھی۔ پاکستان کی معیشت بھی بہتری کی جانب گامزن ہے اور سویلین حکومتوں کو اگر مدت مکمل کرنے دی گئ تو پاکستان بھی بہت جلد معاشی استحکام حاصل کرلیگا-
جہاں تک کرپشن کے الزامات کا تعلق ہے وہ تو اردوگان اور اسکے بیٹے پر بھی بہت لگائے گئے ہیں مگر پاکستان کی طرح ہی بلا کسی ثبوت کے- فرق صرف یہ ہے کہ ترکی میں آئ ایس پی آر کے ماتحت ایک سیل صرف سویلین سیاستدانوں کی کردار کشی پر مامور نہیں۔ اگر سیاستدان اتنے ہی کرپٹ ہیں تو چالیس سالہ مارشل لائ ادوار میں الزامات کو ثابت کیوں نہیں کیا گیا؟
واہ رے
ترکی میں بغاوت فوج کے ایک گروہ نے کی جو کہ فتح اللہ گولن کا حامی تھا- اس بغاوت کو ترکی آرمی کے کمانڈر انچیف کی حمایت حاصل نہیں تھی- چند جنرل اور انکے زیر کمان دستوں نے بغاوت کی- کچھ خون خرابہ بھی ہوا مگر عوامی تائید سے بغاوت فرو ہوگئ- سیاسی مخالفوں نے بھی اپنا وزن منتخب حکومت کے پلڑے میں ڈال دیا- یہاں عوامی تائید اس شکل میں ہوئ کہ عوام منتخب حکومت کی حمایت میں اور باغی گروہ کے خلاف سڑکوں پر نکلے- اور باغی گروہ کو انکی اوقات یاد کرادی-
آئیے دیکھتے ہیں کہ پاکستان میں اس سے ملتی جلتی صورتحال کب ہوئ اور عوام کا ردعمل کیا رہا- دوسال پہلے کچھ سیاسی نابالغوں نے اپنے کچھ ملٹری آقاؤں کے کہنے پر دھرنا دیا۔ پارلمنٹ پر حملہ کیا گیا، ٹی وی اسٹیشن پر حملہ کیا گیا، پولیس کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا- ترکی کی طرح یہاں بھی باغی گروہ کی حمایت فوج کے کچھ باغی جنرل کررہے تھے جو منتخب حکومت کا تختہ الٹنا چاہ رہے تھے اور اس مقصد کیلئے اپنے سویلین کٹ پتلیوں کو استعمال کیا- یہاں بھی فوج کے باغی گروہ کو آرمی چیف کی حمایت حاصل نہیں تھی- فوج کے اس باغی گروہ نے اپنے سویلین کارپروازوں کو استعمال کرتے ہوئے ملک میں انارکی پھیلانے کی بھرپور کوشش کی لیکن یہاں پر عوام کی بھاری اکثریت نے بالغ نظری کا مظاہرہ کرتے ہوئے باغی گروہ کی حمایت میں سڑکوں پر نکلنے سے انکار کردیا - سیاسی جماعتوں نے بھی منتخب حکومت کی حمایت کرکے باغی گروہ کی امیدوں پر پانی پھیر دیا۔ پاکستان میں فوجی اور انکے سویلین کارپروازوں کی ناجائز مہم جوئ کو حکومت وقت اور عوام نے تحمل اور دانشمندی سے بغیر خون خرابے کے ناکام بنا دیا۔
جہاں تک ترکی کی موجودہ ترقی کا سوال ہے وہ گذشتہ بارہ سال سے جاری سویلین حکومت کی مرہون منت ہے ورنہ اس سے پہلے ترکی میں بھی فوجیوں کی حکومت تھی اور معاشی و سماجی صورتحال ابتر تھی۔ پاکستان کی معیشت بھی بہتری کی جانب گامزن ہے اور سویلین حکومتوں کو اگر مدت مکمل کرنے دی گئ تو پاکستان بھی بہت جلد معاشی استحکام حاصل کرلیگا-
جہاں تک کرپشن کے الزامات کا تعلق ہے وہ تو اردوگان اور اسکے بیٹے پر بھی بہت لگائے گئے ہیں مگر پاکستان کی طرح ہی بلا کسی ثبوت کے- فرق صرف یہ ہے کہ ترکی میں آئ ایس پی آر کے ماتحت ایک سیل صرف سویلین سیاستدانوں کی کردار کشی پر مامور نہیں۔ اگر سیاستدان اتنے ہی کرپٹ ہیں تو چالیس سالہ مارشل لائ ادوار میں الزامات کو ثابت کیوں نہیں کیا گیا؟
واہ رے
- Featured Thumbs
- http://www.sindhidunya.com/wp-content/uploads/2015/08/Raheel.jpg
Last edited by a moderator: