پاکستان میں جبری تبدیلی مذہب اور شادیوں کے واقعات میں کتنی کمی آئی؟

jabri-shadian-111.jpg


پاکستان میں جبری مذہب تبدیلی اور شادیوں کے واقعات میں نمایاں کمی۔۔انٹرفیتھ ہارمنی کونسل کو رواں سال جبری مذہب تبدیلی کی صرف 3 شکایات موصول ہوئیں، وہ بھی حل ہو چکیں

ایکسپریس نیوز کے مطابق انٹرفیتھ ہارمنی کونسل کو جبری مذہب تبدیلی اور شادی سے متعلق اس سال صرف تین شکایات موصول ہوئیں جن کوحل کیا جا چکا ہے۔ جب کہ گزشتہ سال 113 شکایات تھیں۔

دوسری جانب انسانی حقوق کی تنظیموں کا الزام ہے کہ پاکستان میں ہرسال ایک ہزار غیرمسلم لڑکیوں کا جبری مذہب تبدیل کرکے ان کی شادیاں کی جاتی ہیں۔ دوسری جانب سماجی انصاف کے ادارے کا کہنا ہے کہ رواں سال جبری مذہب تبدیلی اورشادیوں کے 42 واقعات ہوئے ہیں۔

ادارہ سماجی انصاف کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر پیٹر جیکب کا کہنا ہے کہ 42 ہندو اورمسیحی لڑکیوں کا مذہب تبدیل کرکے جبری شادیاں کی گئی ہیں۔ ان میں 21 ہندواور21 مسیحی تھیں۔ جبری مذہب تبدیلی اور جبری شادیوں کے 18 واقعات پنجاب، 23 سندھ جبکہ ایک خیبرپختونخواہ میں رپورٹ ہوا ہے۔

انہوں نے کہا کہ جبری مذہب تبدیلی اور شادیوں کے سب سے زیادہ واقعات سندھ کے علاقوں تھرپاکر، عمرکوٹ اور میرپورخاص میں پیش آئے جبکہ پنجاب کے ضلع رحیم یارخان میں بھی چند واقعات رپورٹ ہوئے۔

دوسری جانب وزیراعظم کے نمائندہ خصوصی برائے بین المذاہب ہم آہنگی حافظ طاہر اشرفی کا کہنا ہے پاکستان میں جبری مذہب تبدیلی اورشادیوں سے متعلق غیرملکی اداروں کی رپورٹ محض ایک پراپیگنڈا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ سال میں 113 شکایات سامنے آئی تھیں جن کو مختلف مذاہب کے نمائندوں اور فریقین کاموقف سن کرنمٹایا گیا جبکہ اس سال صرف 3 شکایات سامنے آئی تھیں ان کوبھی حل کیا جا چکا ہے۔

حافظ طاہر محموداشرفی نے واضح کیا کہ اسلام جبری مذہب تبدیلی اور جبری شادی کی قطعاً اجازت نہیں دیتا، کسی کے انفرادی فعل کومذہب سے جوڑنا درست نہیں ہے۔ انہوں نے انسانی حقوق کی تنظیموں کو بھی دعوت دی کہ وہ ایسے واقعات بارے غیرملکی سفارتخانوں اوراداروں کورپورٹ کرنے سے پہلے ان کے پاس آئیں تاکہ ان واقعات کی تحقیقات کرکے ان کا مستقل حل تلاش کیا جا سکے۔

یاد رہے کہ جبری مذہب تبدیلی اور شادیوں کی روک تھام کے لئے رواں سال اکتوبر میں اقلیتی بل پارلیمنٹ میں پیش کیاگیا تھا جسے اسلامی نظریاتی کونسل اور دینی جماعتوں کی مخالفت کے باعث مسترد کر دیا گیا تھا۔

اس بل کے مسودے میں یہ تجویز کیا گیا تھا کہ جو شخص اپنا مذہب تبدیل کرنا چاہتا ہے اس کی کم از کم عمر کی حد 18 سال ہونی چاہیے اور اس شخص کو سیشن کورٹ کے جج کے سامنے یہ بیان دینا ہو گا کہ وہ کسی زور زبردستی کے بغیر اپنی خوشی سے مذہب تبدیل کر رہا ہے یا کر رہی ہے۔

بل میں یہ بھی تجویز کیا گیا تھا کہ مذہب تبدیل کرنے والے شخص کو مذہب کا مطالعہ کرنے کا وقت دیا جائے۔ مذہبی جماعتوں نے اس بل کی شروع سے ہی مخالفت کی ہے اور وہ اس کو غیر اسلامی قرار دیتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس بل کو مسترد کر دیا گیا تھا۔
 

Landmark

Minister (2k+ posts)
other than Islam
2nd 3rd ... marriage is not allowed
so they convert to Islam and do multiple marriages
I know some Hindus who converted to Islam because they wanted to get married to some...
 

Back
Top