BrotherKantu
Chief Minister (5k+ posts)
Copy & Paste
"پاکستانی قوم کے بدلتے رنگ"
بھٹو دور میں نواب احمد خان نے بھٹو کے خلاف اسمبلی میں تقریرکی "قتل" ہوگیا۔
"پاکستانی ڈر گئے"
ضیاء الحق کے مارشل لاء میں کسی کو جرآت نہیں تھی کہ حکومت کے خلاف کچھ بولے نہیں تو کوڑے اورپھانسیاں تیار رہتی تھیں۔
"پاکستانیوں نے11سال چوں بھی نہیں کی"
پیپلز پارٹی کے دور میں عزیر بلوچ اور راؤ انوار ان کے خلاف بولنے والوں کے
encounter
کردیا کرتے تھے، مرتضی بھٹو کا قتل زندہ مثال ہے۔ ایان علی کو پکڑنے والا کسٹم آفیسر اور صحافی عزیر کے قتل زیادہ پرانی بات نہیں۔
"پاکستانیوں نےچپ سادھ لی"
الطاف حسین کے راج میں
MQM
کے خلاف بولنے
والوں یا بھتہ نہ دینے والوں کی لاشیں بوریوں میں بند ملا کرتی تھیں۔ پورا کراچی قتل وغارت گری میں ڈوبا ہوا تھا۔
"عوام ڈر کے مارے دبکے رہتے تھے"
مشرف کے مارشل لاء میں نواز شریف اور زرداری جیسے مافیا بھی دم دبا کر ملک سے بھاگ گئے تھے
"عام عوام کی کیا مجال تھی جو بولیں
نواز شریف کے شاہانہ ادوار میں لوٹ مار کی عروج کے ساتھ گلو بٹوں ،عابد باکسر اور رانا ثناء جیسے قاتلوں کو باقاعدہ عہدے نوازے گئے اور پولیس
encounter
کے نام پر مخالفین کی لاشوں پر ڈکیت کا لیبل لگا دیا جاتا تھا۔
"صحافیوں سمیت تمام پاکستانیوں کی زبان پر تالے پڑے رہے"
کرپشن، لوٹ مار، قتل و غارت سیاستدانوں کی سیاست کا حصہ ہوا کرتی تھی۔ ہر سیاسی پارٹی نے غنڈے پال رکھے تھے۔
"پاکستانی عوام کی کیا مجال جو بول سکیں"
کھاتا ہے تو لگاتا بھی ہے کہ کہہ کر دل کو تسلی دے دیتے تھے۔
پھر
وقت پلٹا
تنگ آئی عوام کو عمران خان کی شکل میں بہتر اور شریف آپشن
نظر آیا۔عمران خان کی 22 سالہ انتھک محنت کی وجہ سے حکومت بن گئی ۔
کسی مخالف کا قتل نہیں ہوا،
کسی کو بولنے سے نہیں روکا گیا،
کرپشن کو لگام ڈالی گئی،
بڑے لٹیروں کو پہلی بار اس قوم نے سلاخوں کے پیچھے دیکھا،
اتنی آزادی اس قوم کو راس نہیں آئی۔
بھی دو سال ہی گزرے ہیں کہ ہمیشہ کی
گونگی، بہری، ڈنڈے کی عادی ، غنڈوں سے ڈر نے والی، بوریوں سے ڈرنے والی عوام کے ہر کتے بلے کو زبان مل گئی۔
جس کا دل چاہتا ہے حکومت اور فوج کے خلاف بولنا شروع ہو جاتا ہے، صحافت کے چولے پہن کر دو دو ٹکے کے لوگ صحافت نامہ گلے میں ڈالے عمران خان پر دن رات آوازیں کسنے لگے ہیں۔
دہائیوں سے کرپشن اور گند میں لتھڑے سیاست دان بیرونی ایجنڈوں پر چلتے ہوۓ حکومت گرانے کے لئے جتھے بنا کر آگئے ہیں۔
کیونکہ انہیں پتا ہے اس شریف آدمی کا نا کوئی کرمنل ونگ ہے، نہ پلے ہو ۓ غنڈے ہیں، نہ وہ مخالفین کو قتل کرواۓ گا اور نہ پولیس کو زاتی مقاصد کے لئے استعمال کرے گا۔
اور ستر سال سے سوئی اور سہمی ہوئی قوم دو سالوں میں آنکھے پھاڑے عمران خان کی زبان سے پھسلے لفظوں پر بھی ایک ایک گھنٹے کے پروگرام کرتی نظر آتی ہے۔
ایک بہترین قیادت پہلی بار نصیب ہوئی ہے تو اللہ کے واسطے زاتی مفادات کو پس پشت ڈال کر حکومت کا ساتھ دیں، انشاءاللہ ایک ایک کر کے
تمام مشکلات سے نکل جائیں گے۔ خدانخواستہ عمران خان سسٹم سے لڑتے لڑتے تھک گیا
یا
کسی طرح ہٹا دیا گیا تو ہمارے بچوں کا مستقبل پھر انہیں بھیڑیوں کے ہاتھوں میں ہوگا۔ اور اس بار ان بے لگام درندوں کو کوئی روکنے والا بھی نہیں ہو گا۔
_____
"پاکستانی قوم کے بدلتے رنگ"
بھٹو دور میں نواب احمد خان نے بھٹو کے خلاف اسمبلی میں تقریرکی "قتل" ہوگیا۔
"پاکستانی ڈر گئے"
ضیاء الحق کے مارشل لاء میں کسی کو جرآت نہیں تھی کہ حکومت کے خلاف کچھ بولے نہیں تو کوڑے اورپھانسیاں تیار رہتی تھیں۔
"پاکستانیوں نے11سال چوں بھی نہیں کی"
پیپلز پارٹی کے دور میں عزیر بلوچ اور راؤ انوار ان کے خلاف بولنے والوں کے
encounter
کردیا کرتے تھے، مرتضی بھٹو کا قتل زندہ مثال ہے۔ ایان علی کو پکڑنے والا کسٹم آفیسر اور صحافی عزیر کے قتل زیادہ پرانی بات نہیں۔
"پاکستانیوں نےچپ سادھ لی"
الطاف حسین کے راج میں
MQM
کے خلاف بولنے
والوں یا بھتہ نہ دینے والوں کی لاشیں بوریوں میں بند ملا کرتی تھیں۔ پورا کراچی قتل وغارت گری میں ڈوبا ہوا تھا۔
"عوام ڈر کے مارے دبکے رہتے تھے"
مشرف کے مارشل لاء میں نواز شریف اور زرداری جیسے مافیا بھی دم دبا کر ملک سے بھاگ گئے تھے
"عام عوام کی کیا مجال تھی جو بولیں
نواز شریف کے شاہانہ ادوار میں لوٹ مار کی عروج کے ساتھ گلو بٹوں ،عابد باکسر اور رانا ثناء جیسے قاتلوں کو باقاعدہ عہدے نوازے گئے اور پولیس
encounter
کے نام پر مخالفین کی لاشوں پر ڈکیت کا لیبل لگا دیا جاتا تھا۔
"صحافیوں سمیت تمام پاکستانیوں کی زبان پر تالے پڑے رہے"
کرپشن، لوٹ مار، قتل و غارت سیاستدانوں کی سیاست کا حصہ ہوا کرتی تھی۔ ہر سیاسی پارٹی نے غنڈے پال رکھے تھے۔
"پاکستانی عوام کی کیا مجال جو بول سکیں"
کھاتا ہے تو لگاتا بھی ہے کہ کہہ کر دل کو تسلی دے دیتے تھے۔
پھر
وقت پلٹا
تنگ آئی عوام کو عمران خان کی شکل میں بہتر اور شریف آپشن
نظر آیا۔عمران خان کی 22 سالہ انتھک محنت کی وجہ سے حکومت بن گئی ۔
کسی مخالف کا قتل نہیں ہوا،
کسی کو بولنے سے نہیں روکا گیا،
کرپشن کو لگام ڈالی گئی،
بڑے لٹیروں کو پہلی بار اس قوم نے سلاخوں کے پیچھے دیکھا،
اتنی آزادی اس قوم کو راس نہیں آئی۔
بھی دو سال ہی گزرے ہیں کہ ہمیشہ کی
گونگی، بہری، ڈنڈے کی عادی ، غنڈوں سے ڈر نے والی، بوریوں سے ڈرنے والی عوام کے ہر کتے بلے کو زبان مل گئی۔
جس کا دل چاہتا ہے حکومت اور فوج کے خلاف بولنا شروع ہو جاتا ہے، صحافت کے چولے پہن کر دو دو ٹکے کے لوگ صحافت نامہ گلے میں ڈالے عمران خان پر دن رات آوازیں کسنے لگے ہیں۔
دہائیوں سے کرپشن اور گند میں لتھڑے سیاست دان بیرونی ایجنڈوں پر چلتے ہوۓ حکومت گرانے کے لئے جتھے بنا کر آگئے ہیں۔
کیونکہ انہیں پتا ہے اس شریف آدمی کا نا کوئی کرمنل ونگ ہے، نہ پلے ہو ۓ غنڈے ہیں، نہ وہ مخالفین کو قتل کرواۓ گا اور نہ پولیس کو زاتی مقاصد کے لئے استعمال کرے گا۔
اور ستر سال سے سوئی اور سہمی ہوئی قوم دو سالوں میں آنکھے پھاڑے عمران خان کی زبان سے پھسلے لفظوں پر بھی ایک ایک گھنٹے کے پروگرام کرتی نظر آتی ہے۔
ایک بہترین قیادت پہلی بار نصیب ہوئی ہے تو اللہ کے واسطے زاتی مفادات کو پس پشت ڈال کر حکومت کا ساتھ دیں، انشاءاللہ ایک ایک کر کے
تمام مشکلات سے نکل جائیں گے۔ خدانخواستہ عمران خان سسٹم سے لڑتے لڑتے تھک گیا
یا
کسی طرح ہٹا دیا گیا تو ہمارے بچوں کا مستقبل پھر انہیں بھیڑیوں کے ہاتھوں میں ہوگا۔ اور اس بار ان بے لگام درندوں کو کوئی روکنے والا بھی نہیں ہو گا۔
_____
Last edited: