پاکستانی امپائر علیم ڈار نے سب سے زیادہ ٹیسٹ میچز میں امپائرنگ کا عالمی ریکارڈ اپنے نام کر لیا

Awaz Dou

Voter (50+ posts)
_110132269_gettyimages-1164390399.jpg

سب سے زیادہ ٹیسٹ میچوں میں امپائرنگ کا عالمی ریکارڈ بالآخر پاکستان کے علیم ڈار کے نام ہو گیا ہے
جس کے بعد وہ ویسٹ انڈیز سے تعلق رکھنے والے امپائر سٹیو بکنر سے آگے نکل گئے ہیں۔
نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا کے درمیان پرتھ میں ہونے والا ڈے نائٹ ٹیسٹ میچ علیم ڈار کا 129 واں ٹیسٹ میچ ہے۔
اب علیم ڈار کو اپنے ہم وطن احسن رضا کا سب سے زیادہ 47 ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میچز میں امپائرنگ کا عالمی ریکارڈ توڑنے کے لیے صرف دو مزید میچز درکار ہیں۔
اس کے علاوہ وہ سب سے زیادہ 209 ون ڈے انٹرنیشنل میں امپائرنگ کے روڈی کرٹزن کے نام موجود عالمی ریکارڈ اپنے نام کرنے سے صرف تین میچز کی دوری پر ہیں۔
اس طرح وہ وقت دور نہیں جب وہ تینوں انٹرنیشنل فارمیٹس میں سب سے زیادہ امپائرنگ کرنے والے امپائر بن جائیں گے۔
بی بی سی نے علیم ڈار سے امپائرنگ میں ان کے کامیاب سفر اور اس دوران پیش آنے والے چند تنازعات پر گفتگو کی ہے۔


کرکٹر سے امپائر بننے کا سفر
علیم ڈار کہتے ہیں کہ وہ ٹیسٹ کرکٹر بننا چاہتے تھے۔ ان کے والد پولیس میں تھے اور ان کی مختلف جگہوں پر پوسٹنگ ہوتی رہی جہاں کرکٹ کھیلنے کے مواقع نہیں تھے، لہٰذا وہ لاہور آگئے۔
علیم ڈار کو وہ وقت اچھی طرح یاد ہے جب وہ اسلامیہ کالج سول لائنز کی ٹیم میں بیٹسمین کی حیثیت سے منتخب ہوئے تھے اور وسیم اکرم کا انتخاب بولر کے طور پر ہوا تھا۔
علیم ڈار نے اپنی کلب کرکٹ پی اینڈ ٹی جمخانہ کی طرف سے کھیلی لیکن ان کا فرسٹ کلاس کریئر 17 میچوں سے آگے نہ بڑھ سکا تو انھوں نے کرکٹ سے اپنا تعلق برقرار رکھنے کے خیال سے امپائرنگ کو اپنانے کا فیصلہ کرلیا اور صرف ایک سال کے مختصر سے عرصے میں وہ انٹرنیشنل امپائر بن گئے اور پھر آئی سی سی نے انھیں اپنے ایلیٹ پینل میں شامل کر لیا۔


علیم ڈار میں ایسی کیا خاص بات ہے؟
علیم ڈار کے بارے میں پوری دنیا اس بات پر متفق ہے کہ وہ درست فیصلے کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ان کے دیے گئے بہت کم ہی فیصلے غلط ثابت ہوئے ہیں۔
عالمی کپ 2011 میں علیم ڈار کے 15 فیصلوں پر ریویو لیے گئے تھے لیکن ٹیکنالوجی نے بھی ان کے تمام کے تمام 15 فیصلے درست ثابت کر دیے تھے۔
اُسی سال ایشیز سیریز کے میلبرن ٹیسٹ میں آسٹریلوی کپتان رکی پونٹنگ نے ان سے طویل بحث کی۔ جب معاملہ میچ ریفری تک گیا تو پونٹنگ نے برملا یہ کہا کہ وہ علیم ڈار کا احترام کرتے ہیں اور ان کی بحث علیم ڈار سے نہیں بلکہ ٹیکنالوجی سے تھی۔
علیم ڈار کا کہنا ہے کہ امپائرنگ کے لیے آپ کو ذہنی اور جسمانی طور پر بہت مضبوط ہونا پڑتا ہے اور وہ اپنی بینائی کو پرفیکٹ رکھنے کے لیے باقاعدگی سے ٹیبل ٹینس کھیلتے ہیں اور سوئمنگ کرتے ہیں۔
علیم ڈار کہتے ہیں کہ کہ کوئی بھی کام ہو وہ آپ اس وقت تک بخوبی نہیں نبھا سکتے جب تک آپ اسے ُپرسکون رہ کر ٹھنڈے دماغ کے ساتھ نہ کریں۔
’جہاں تک غلطی کا تعلق ہے تو وہ ہر انسان سے ہوسکتی ہے۔ اگر کوئی فیصلہ تبدیل ہو جائے تو اسے اپنے ذہن پر سوار نہیں کرتا کیونکہ اس سے آپ کی توجہ ہٹ جاتی ہے۔‘

مشکل لمحات بھی ساتھ ساتھ
ایسا نہیں کہ علیم ڈار کو کبھی مشکل صورتحال کا سامنا نہیں رہا ہو۔ متعدد مواقع پر وہ تنقید کی زد میں بھی آئے۔
سنہ 2007 کے ورلڈ کپ فائنل میں کم روشنی میں کھیل کے قوانین کی صحیح تشریح نہ کر پانے اور کھیل جاری رکھنے پر وہ اپنے ساتھی امپائرز اور میچ ریفری کے ساتھ تنقید کا نشانہ بنے تھے، جس کی وجہ سے انھیں اُسی سال پہلے ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کے امپائرز پینل میں شامل نہیں کیا گیا تھا۔

علیم ڈار کئی مرتبہ بہترین امپائر کا ایوارڈ حاصل کر چکے ہیں
سنہ 2015 کے عالمی کپ میں انڈیا اور بنگلہ دیش کے درمیان کھیلے گئے کوارٹر فائنل میں ان کا نو بال دینے کا اشارہ متنازعہ بن گیا تھا۔
سکوائر لیگ پر کھڑے علیم ڈار کے اشارے پر ساتھی امپائر ایئین گولڈ نے روبیل حسین کی وہ گیند نو بال قرار دے دی تھی جس پر روہت شرما آؤٹ ہو گئے تھے۔ عام خیال یہ تھا کہ یہ نوبال نہیں تھی۔ روہت شرما نے اس اننگز میں سنچری بنا ڈالی تھی۔

سائمن ٹافل سے دوستی اور ایوارڈز کا مقابلہ
علیم ڈار اور آسٹریلیا کے سابق امپائر سائمن ٹافل نے درحقیقت بین الاقوامی امپائرنگ کو ایک نئی شکل دی۔ ان سے پہلے بڑی عمر کے امپائرز میدان میں نظر آتے تھے لیکن دونوں کے آنے سے دوسرے نوجوان امپائرز کو بھی حوصلہ ملا اور وہ بھی امپائرنگ میں آنے لگے۔
سائمن ٹافل سے علیم ڈار کی دیرینہ دوستی رہی ہے۔ دونوں نے ایک ساتھ کئی میچوں میں امپائرنگ کی ہے اور دونوں میں آئی سی سی کے بہترین امپائر کے ایوارڈ کے لیے مقابلہ بھی رہا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ علیم ڈار نے 2009 سے 2011 تک لگاتار تین سال بہترین امپائر کا ایوارڈ حاصل کیا۔ اس سے قبل وہ پانچ بار اس ایوارڈ کے لیے نامزد ہوتے رہے تاہم پانچوں بار قرعہ فال سائمن ٹافل کے نام نکلتا رہا۔
جب ہر سال ایوارڈ کے لیے سائمن ٹافل کا نام پکارا جاتا تو علیم ڈار ان کے ساتھ مذاق کرتے ہوئے کہا کرتے تھے ’سائمن! یہ ایوارڈ تمہارے لیے ہی بنا ہے۔ دوسرے امپائرز تو بس حاضری کے لیے تقریب میں آ جاتے ہیں۔‘

’علیم ڈار قابل بھروسہ ساتھی‘
علیم ڈار نے اپنی امپائرنگ اور طبعیت کے سبب ہر کسی کو گرویدہ بنا رکھا ہے۔ ان کے ساتھ امپائرنگ کرنے والے سائمن ٹافل انھیں ایک ایسا شخص قرار دیتے ہیں جس پر آنکھ بند کر کے بھروسہ کیا جاسکتا ہے۔
بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے سائمن ٹافل نے کہا کہ ان کا علیم ڈار کے ساتھ بہت اچھا وقت گزرا ہے اور اسی وجہ سے دونوں میں اعتماد کا مضبوط رشتہ قائم ہو گیا۔
’وہ ایک بہترین امپائر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک نفیس انسان بھی ہیں۔ جب وہ بات کرتے ہیں تو آپ کو سننا پڑتا ہے کیونکہ ان کی بات میں وزن اور دلیل موجود ہوتی ہے۔ عموماً وہ فیلڈ میں خاموش رہتے ہیں لیکن ان کی بذلہ سنجی کا بھی جواب نہیں۔‘
سائمن ٹافل سے جب پوچھا گیا کہ ایسا کوئی یادگار میچ جس میں آپ دونوں نے ساتھ امپائرنگ کی، تو ان کا جواب تھا 2011 کے ورلڈ کپ کا ممبئی میں کھیلا گیا فائنل جس میں ایک زبردست ماحول تھا۔
سائمن ٹافل کہتے ہیں کہ ’ہم دونوں نے ایک ساتھ فیلڈ میں بہترین امپائرنگ کرنے کی پوری کوشش کی ہے اور یہ اب لوگوں پر منحصر ہے کہ وہ اس بارے میں کیا سوچتے ہیں۔‘


Source BBC Urdu
 

ahaseeb

Minister (2k+ posts)
Breaking his record in Test matches would be a difficult one because how less tests are being played and I only expect the number to go down