جمہور پسند
Minister (2k+ posts)
مجھے پتہ نہیں کیوں کبھی اس بینظیر بھٹو نے 'کلک‘ نہیں کیا جو پاکستان کی دو مرتبہ وزیر اعظم منتخب ہوئي تھیں اور جس کے دونوں ادوار حکومت ( وجوہات کوئی بھی ہوں) بہت ہی برے تھے۔ یعنی کہ بینظیر بھٹو ایک ناکام حکمران اور عظیم لیڈر تھیں (خاص طور جب وہ اپوزیشن یا حزب اختلاف میں ہوا کرتی تھیں)۔
مجھے اس بینظیر بھٹو سے مطلب ہے جو پاکستان میں حمکرانوں اور اسٹیبلشمنٹ کی نیندیں خراب کیے ہوئے تھی۔ حکمران بھی وہ جو ضیاء الحق اور پرویز مشرف جیسے ۔ایشیا کے ماڈل ڈکٹیٹرز۔ باقی غلام اسحاق خان، فاروق لغاری، اور نواز شریف یا جام صادق علی جیسے حکمرانوں کی تو وہ وکٹیں گراتی رہتی تھیں۔
بینظیر بھٹو سونے کا چمچ لیکر پیدا ضرور ہوئي تھی لیکن ان کی پرورش طوفانوں نے کی تھی۔ بقول حبیب جالب 'جنرل کرنل کانپ رہے ہیں ایک نہتی لڑکی سے۔‘
جبیب جالب کی اس بہادر نہتی لڑکی کا، جسکے سامنے فوجیں نہیں ٹھہر سکتی تھیں‘ تصور بھی اس دور میں بنا تھا جب وہ حزب مخالف کی لیڈر تھیں۔ وگرنہ جبیب جالب ہی نے اقتدار میں آنیوالی بنیظیر کے
پہلے دور حکومت میں لکھا تھا:
وہی حالات ہیں فقیروں کے
دن پھرے ہیں تو بس وزیروں کے
کتنے بلاول ہیں دیس میں مقروض
پاؤں ننگـے ہیں بینظیروں کے۔‘
لیکن انہی دنوں میں ملتان کے قریب کھیتوں میں کپاس چننے والی عورتوں کے خیالات مجھ سے اور حبیب جالب سے مختلف تھے۔ انہوں نے ایک صحافی سے کہا تھا: 'نظیراں ( بینظیر) سے جاکر کہنا ہمارے پائوں ننگے سہی ، ہم بھوکے اور غریب سہی لیکن وہ اسی طرح ٹی وی پر آتی رہے اور ہم اسے ہر روز اسی طرح دیکھتے رہیں۔‘
ایک ایسی بینظیرجسے اس سے قبل لوگوں نے صرف وزیر اعظم کی بیٹی کے طور پر اپنے باپ کے ساتھ غیر ملکی دوروں یا فیملی یا سرکاری تقریبات کی تصویروں اور وفاقی وزرات اطلاعات کی فلم اینڈ پبلیکیشن شعبے کی طرف سے جاری تصاویر میں دیکھا تھا اسے عوام نے انیس سو ستتر میں اپنے درمیاں پایا تھا۔ اس دور میں جب اخبارات میں بھٹو خاندان اور ان کی پارٹی کے کسی فرد کی تصویر شائع ہونا جرم ہوتا تھا تو لوگوں نے 'بھٹو کی تصویر بینظیر‘ کے نعرے میں اسے اپنے درمیاں پایا۔
ایک تنہا نہتی لڑکی جو اپنے باپ کی زندگی بچانے پاکستان کی سڑکوں پر نکل آئي تھی۔ اپنے باپ کے برعکس وہ فطرتاً اپوزیشن کی لیڈر تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو تو فقط کچھ سال ہی اپوزیشن میں رہے تھے بلکہ وہ تو انیس سو اکہتر میں حکومتی بنچوں پر بیٹھنے کو سخت بچین تھے۔ لیکن بینظیر بھٹو اوسطاً تیس سالوں تک اپوزیشن میں رہ کر پاکستان کے حکمرانوں اور اسٹیبلشمنٹ کے سامنے سینہ سپر رہیں۔ قید، جلاوطنی اور پھر قتل۔
مسلم معاشرے میں شاید بینظیر بھٹو واحد خاتون تھیں جن کی طرف سے پاکستان جیسے قدامت پسند اور مردانہ معاشرے میں لوگ اپنے وفات پانے والے پیاروں کی فاتحہ قبول کیا کرتے تھے۔ پاکستان کے لوگ بینظیر بھٹو سے عشق کرتے تھے جو اسے نہ فقط اس کے اپنے غم میں لوگوں کی غمخوار ہونے کی وجہ سے نصبیب ہوا تھا بلکہ اس نے اپنی اس مظلومیت کو ایک طاقت اور نشے میں بدل دیا تھا۔ نشہ تھا 'پاپولیرٹی‘ یا عوامی مقبولیت کا۔ دوسرے لفظوں میں پاکستان کے عوام اور بینظیر کا رشتہ اس بھارتی فلمی گانے جیسا تھا:
'ہم کو بھی غم نے مارا
تم کو بھی غم نے مارا
ہم سب کو غم نے مارا
اس غم کو مار ڈالو‘
(یہ اور بات تھی کہ پاکستان کے عوام اور بینظیر دونوں کو غم نے آخر میں مار ڈالا)
بینظیر بھٹو 'شہزادئی غم‘ بن کر لوگوں کے دلوں میں اتری۔ میرے صحافی دوست اور شاعر واجد علی سید نے بینظیر کے قتل پر اپنی نظم میں لکھا تھا 'اب کہ اس بار کربلا میں زینب شہید ہوئيں۔‘
لوگ اور خود بینظیر بھٹو پاکستان کیلیے دارو رسن کی آزمائشوں سے گزر گئے۔ کوٹ لکھپت جیل میں پھانسی کی سزا پانے والے پیپلزپارٹی کے جواں سال غریب قیدی اور پی پی پی پنجاب کی شاہدہ جبین کے بھائی نے اپنے گھر والوں سے اپنی آخری ملاقات کے دوران سگریٹ کی خالی ڈبی اور اسکی پنی سے تاج بنایا اور اپنی بینظیر نام کی ننھی منی بیٹی کے سر پر رکھا۔ وہ اور اس جیسے جیئے بھٹو کے نعرے لگاتے ہوۓ پھانسی کی رسیوں اور ٹکٹکیوں پر جھول گئے۔
بینظیر بھٹو نے جلاوطنی سے واپس آکر پاکستان کی سڑکوں پر فوجی آمریت کی تاریخ کے بدترین آمر جنرل کو چیلنج کیا تھا۔ لاکھوں لوگ بینظیر بھٹوکے ساتھ تھے۔ بینظیر بھٹو کا ایک بہت بڑا کارنامہ پاکستان کی عورتوں کو بغیر کسی طبقے اور قوم و نسل کی تفریق کے گھروں سے باہر لے آکر سیاسی عمل میں شامل کرنا تھا۔
سخت مردانہ 'شاونسٹ‘ وڈیروں، میروں، پیروں، سرداروں کی لیڈرشپ والی پی پی پی میں ایک خوبصورت اور تعلیم یافتہ خاتون اسکی لیڈر تھی جسکے سامنے یہ بڑے بڑے خان خانان بولتی بند کیے ہوتے تھے۔
۔ ضیاء الحق نے پاکستان میں عورتوں کے خلاف قوانین اس لیے بھی ظالمانہ متعارف کروائے تھے کہ وہ سیاست میں بھٹو خواتین کا راستہ روک سکے۔ بینظیر بھٹو کو ایک عورت نے کے ناطے زندگی اور موت کے بعد ایکسپلائيٹ کیا گیا۔ اس عظیم عورت کو قتل کے بعد انصاف تو دور کی بات ہے وہ حق بھی نہیں ملا جو ایک متوفی کو ملا کرتا ہے یعنی کہ حادثے یا قتل میں ہلاکت کے بعد پوسٹ مارٹم کا حق۔
Sourceمجھے اس بینظیر بھٹو سے مطلب ہے جو پاکستان میں حمکرانوں اور اسٹیبلشمنٹ کی نیندیں خراب کیے ہوئے تھی۔ حکمران بھی وہ جو ضیاء الحق اور پرویز مشرف جیسے ۔ایشیا کے ماڈل ڈکٹیٹرز۔ باقی غلام اسحاق خان، فاروق لغاری، اور نواز شریف یا جام صادق علی جیسے حکمرانوں کی تو وہ وکٹیں گراتی رہتی تھیں۔
بینظیر بھٹو سونے کا چمچ لیکر پیدا ضرور ہوئي تھی لیکن ان کی پرورش طوفانوں نے کی تھی۔ بقول حبیب جالب 'جنرل کرنل کانپ رہے ہیں ایک نہتی لڑکی سے۔‘
جبیب جالب کی اس بہادر نہتی لڑکی کا، جسکے سامنے فوجیں نہیں ٹھہر سکتی تھیں‘ تصور بھی اس دور میں بنا تھا جب وہ حزب مخالف کی لیڈر تھیں۔ وگرنہ جبیب جالب ہی نے اقتدار میں آنیوالی بنیظیر کے
پہلے دور حکومت میں لکھا تھا:
وہی حالات ہیں فقیروں کے
دن پھرے ہیں تو بس وزیروں کے
کتنے بلاول ہیں دیس میں مقروض
پاؤں ننگـے ہیں بینظیروں کے۔‘
لیکن انہی دنوں میں ملتان کے قریب کھیتوں میں کپاس چننے والی عورتوں کے خیالات مجھ سے اور حبیب جالب سے مختلف تھے۔ انہوں نے ایک صحافی سے کہا تھا: 'نظیراں ( بینظیر) سے جاکر کہنا ہمارے پائوں ننگے سہی ، ہم بھوکے اور غریب سہی لیکن وہ اسی طرح ٹی وی پر آتی رہے اور ہم اسے ہر روز اسی طرح دیکھتے رہیں۔‘
ایک ایسی بینظیرجسے اس سے قبل لوگوں نے صرف وزیر اعظم کی بیٹی کے طور پر اپنے باپ کے ساتھ غیر ملکی دوروں یا فیملی یا سرکاری تقریبات کی تصویروں اور وفاقی وزرات اطلاعات کی فلم اینڈ پبلیکیشن شعبے کی طرف سے جاری تصاویر میں دیکھا تھا اسے عوام نے انیس سو ستتر میں اپنے درمیاں پایا تھا۔ اس دور میں جب اخبارات میں بھٹو خاندان اور ان کی پارٹی کے کسی فرد کی تصویر شائع ہونا جرم ہوتا تھا تو لوگوں نے 'بھٹو کی تصویر بینظیر‘ کے نعرے میں اسے اپنے درمیاں پایا۔
ایک تنہا نہتی لڑکی جو اپنے باپ کی زندگی بچانے پاکستان کی سڑکوں پر نکل آئي تھی۔ اپنے باپ کے برعکس وہ فطرتاً اپوزیشن کی لیڈر تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو تو فقط کچھ سال ہی اپوزیشن میں رہے تھے بلکہ وہ تو انیس سو اکہتر میں حکومتی بنچوں پر بیٹھنے کو سخت بچین تھے۔ لیکن بینظیر بھٹو اوسطاً تیس سالوں تک اپوزیشن میں رہ کر پاکستان کے حکمرانوں اور اسٹیبلشمنٹ کے سامنے سینہ سپر رہیں۔ قید، جلاوطنی اور پھر قتل۔
مسلم معاشرے میں شاید بینظیر بھٹو واحد خاتون تھیں جن کی طرف سے پاکستان جیسے قدامت پسند اور مردانہ معاشرے میں لوگ اپنے وفات پانے والے پیاروں کی فاتحہ قبول کیا کرتے تھے۔ پاکستان کے لوگ بینظیر بھٹو سے عشق کرتے تھے جو اسے نہ فقط اس کے اپنے غم میں لوگوں کی غمخوار ہونے کی وجہ سے نصبیب ہوا تھا بلکہ اس نے اپنی اس مظلومیت کو ایک طاقت اور نشے میں بدل دیا تھا۔ نشہ تھا 'پاپولیرٹی‘ یا عوامی مقبولیت کا۔ دوسرے لفظوں میں پاکستان کے عوام اور بینظیر کا رشتہ اس بھارتی فلمی گانے جیسا تھا:
'ہم کو بھی غم نے مارا
تم کو بھی غم نے مارا
ہم سب کو غم نے مارا
اس غم کو مار ڈالو‘
(یہ اور بات تھی کہ پاکستان کے عوام اور بینظیر دونوں کو غم نے آخر میں مار ڈالا)
بینظیر بھٹو 'شہزادئی غم‘ بن کر لوگوں کے دلوں میں اتری۔ میرے صحافی دوست اور شاعر واجد علی سید نے بینظیر کے قتل پر اپنی نظم میں لکھا تھا 'اب کہ اس بار کربلا میں زینب شہید ہوئيں۔‘
لوگ اور خود بینظیر بھٹو پاکستان کیلیے دارو رسن کی آزمائشوں سے گزر گئے۔ کوٹ لکھپت جیل میں پھانسی کی سزا پانے والے پیپلزپارٹی کے جواں سال غریب قیدی اور پی پی پی پنجاب کی شاہدہ جبین کے بھائی نے اپنے گھر والوں سے اپنی آخری ملاقات کے دوران سگریٹ کی خالی ڈبی اور اسکی پنی سے تاج بنایا اور اپنی بینظیر نام کی ننھی منی بیٹی کے سر پر رکھا۔ وہ اور اس جیسے جیئے بھٹو کے نعرے لگاتے ہوۓ پھانسی کی رسیوں اور ٹکٹکیوں پر جھول گئے۔
بینظیر بھٹو نے جلاوطنی سے واپس آکر پاکستان کی سڑکوں پر فوجی آمریت کی تاریخ کے بدترین آمر جنرل کو چیلنج کیا تھا۔ لاکھوں لوگ بینظیر بھٹوکے ساتھ تھے۔ بینظیر بھٹو کا ایک بہت بڑا کارنامہ پاکستان کی عورتوں کو بغیر کسی طبقے اور قوم و نسل کی تفریق کے گھروں سے باہر لے آکر سیاسی عمل میں شامل کرنا تھا۔
سخت مردانہ 'شاونسٹ‘ وڈیروں، میروں، پیروں، سرداروں کی لیڈرشپ والی پی پی پی میں ایک خوبصورت اور تعلیم یافتہ خاتون اسکی لیڈر تھی جسکے سامنے یہ بڑے بڑے خان خانان بولتی بند کیے ہوتے تھے۔
۔ ضیاء الحق نے پاکستان میں عورتوں کے خلاف قوانین اس لیے بھی ظالمانہ متعارف کروائے تھے کہ وہ سیاست میں بھٹو خواتین کا راستہ روک سکے۔ بینظیر بھٹو کو ایک عورت نے کے ناطے زندگی اور موت کے بعد ایکسپلائيٹ کیا گیا۔ اس عظیم عورت کو قتل کے بعد انصاف تو دور کی بات ہے وہ حق بھی نہیں ملا جو ایک متوفی کو ملا کرتا ہے یعنی کہ حادثے یا قتل میں ہلاکت کے بعد پوسٹ مارٹم کا حق۔