لگ بھگ ساٹھ ستر برس پہلے عبدالمجید سالک نے یہ غزل کہی تھی۔ اس وقت سے لیکر اب تک، کچھ بھی تو نہیں بدلا۔ وہی بے یقینی کا گدلا سا موسم، وہی دھواں سی شام، وہی افق پر چھائی ہوئی گھمبیر مایوسی، القصہ وہی حالات ہیں فقیروں کے۔ سب کچھ وہی کا وہی ہے۔ سالک نے کہا تھا ....
چراغ زندگی ہو گا فروزاں ہم نہیں ہوں گے
چمن میں آئے گی فصلِ بہاراں ہم نہیں ہوں گے
جئیں گے جو وہ دیکھیں گے بہاریں زلف جاناں کی
سنوارے جائیں گے گیسوئے جاناں ہم نہیں ہوں گے
نو شعروں کی اس غزل سے ایک شعر اور : ....
کہیں ہم کو دکھا دو اک کرن ہی ٹمٹماتی سی
کہ جس دن جگمگائے گا شبستان ہم نہیں ہوں گے
اس پوری غزل میں وہ ساری ناامیدی، حسرت اور مایوسی موجود ہے، جسے ہماری نسل سینے میں دبائے زندگی کے دن پورے کر رہی ہے۔ مایوسی تو آج کی نسل بھی بہت ہے۔ یہ پولنگ سٹیشن کو ممنوعہ علاقہ سمجھے بیٹھی تھی اور سیاسیات کو شجر ممنوعہ۔ لیکن اب اس نے امید کی کرن کی تلاش میں ایک چودہویں کا چاند ڈھونڈ نکالا ہے۔ 30 اکتوبر 2011ءکو پاکستان کی نوجواں نسل نے بادشاہی مسجد کے میناروں کے سائے تلے اپنی اس دریافت کا اعلان عام کیا تھا۔ تحریک انصاف کے اس تاریخی جلسہ کے شرکاءمیں وہ لوگ بھی تھے جو قبل ازیں کسی سیاسی جماعت کے کسی سیاسی جلسہ میں کبھی نہیں گئے۔ سیاست کے کاروبار پر دو جماعتوں کا اجارہ تھا، اب اک تیسری قوت کے طور پر عمران خان کا نام ابھر کر سامنے آ گیا۔ عمران خان کیلئے وکٹری سٹینڈ پر کونسا نمبر ہے، اول، دوم یا سوم؟ اس سوال کا جواب 2013ءکے الیکشن نے دینا ہے، جو کہ چند روز ہی میں آنے والا ہے۔ الیکشن سے پہلے انتخابی ٹکٹوں کا مرحلہ آتا ہے۔
پہلے ان کی کتھا سُن لیں۔ کشور ناہید نے اپنی رام کہانی ”ایک بُری عورت کی کتھا“ کے نام سے لکھی ہے۔ یہ بیچاری چند معصوم سی لغزشوں کو بہت بڑی برائی سمجھ بیٹھی ہے۔ یہ بیچاری کیا جانے کہ برائی کیا ہوتی ہے۔ کسی شخص سے، کسی طبقے سے اور کسی قوم سے اس کے خواب چھین لینا، یہ گنا کبیرہ سے بہت آگے کی چیز ہے۔ خواب ہی تو زندگی ہیں۔ یہی جینے کی امنگ دیتے ہیں۔ ان کے بغیر بھلا کوئی کیسے جی سکتا ہے۔ افسانہ نگار ڈاکٹر انوار احمد نے لکھا ہے ”بے شک خواب ہر آنکھ کیلئے ایک انعام ہے اور انسانی بستی کیلئے ایک مژدہ“ ....ہم نیند کے شوقین زیادہ نہیں لیکن کچھ خواب نہ دیکھیں تو گزارہ نہیں ہوتا گوجرانوالہ ایشیا کا گندا ترین شہر سہی لیکن تحریک انصاف کی ٹکٹوں کی کہانی میرے شہر کی گندگی سے بھی کچھ بڑھ کر ہے۔
دوگنی، چوگنی اور کتنے گُنا ہو گی؟ بھئی انت شمار سے باہر ہے۔ ہمارے چیئرمین تحریک انصاف کہ رہے ہیں کہ ہم سے ٹکٹوں کے معاملے میں کچھ غلطیاں ضرور ہوئی ہیں۔ یہ بے خبری اور بھولپن کی انتہا ہے کہ اسے محض سمجھا جائے۔ کیا یہ غلطی ہے؟ خود ہی جواب تلاش کریں۔ میں صرف چند واقعات لکھ کر بری الذمہ ہوتا ہوں۔ وما علینا الا البلاغ المبین !گوجرانوالہ میں چیئرمین کے 2 مئی کے منسوخ شدہ جلسہ کیلئے ایک امیدوار صوبائی اسمبلی سے چندہ ماہ مانگا گیا تو وہ کہنے لگا کہ بیالیس لاکھ دیکر ٹکٹ لیا ہے، اب مجھ سے اور کیا مانگتے ہو -
2 وزیر آباد سے ایک امیدوار صوبائی اسمبلی اسی جلسہ کیلئے چندہ مانگنے پر پھٹ پڑا ”جتنے روپے آپ مانگ رہے ہیں، اس کے آگے کئی صفریں لگانے پر وہ رقم بنتی ہے جو دیکر میں نے ٹکٹ خریدا ہے۔ اب مجھ میں ادائیگی کی اور کوئی سکت نہیں رہی۔“ یاد رہے کہ اس سے چیئرمین کے جلسہ کیلئے ڈیڑھ لاکھ روپے کا مطالبہ کیا گیا -3 گوجرانوالہ پی ٹی آئی کے سابق ضلعی صدر اظہر چیمہ کو ایک امیدوار نے بتایا کہ اس نے یہ ٹکٹ پچاس لاکھ روپے میں خریدا ہے۔
اظہر چیمہ بڑے بھولپن سے پوچھ بیٹھا کہ ”آپ تو پی ٹی آئی کے ممبر بھی نہیں تھے۔“ اس نے جواب دیا ”پی ٹی آئی کی ممبر شپ انتخابی ٹکٹ کے ساتھ خود بخود ہی مل جاتی ہے۔“ اب یہ خبر جو میں ابھی بتانے والا ہوں، پی ٹی آئی پنجاب کے صدر اعجاز چوہدری کیلئے بڑی تکلیف دہ ہو گی۔ خبر یوں ہے کہ اس موقع پر اظہر چیمہ کف افسوس ملتے ہوئے بولا ”مجھے علم نہیں تھا کہ پی ٹی آئی کے ٹکٹ فروخت ہو رہے ہیں ورنہ میں اس ٹکٹ کا ایک کروڑ روپیہ بھی ادا کرنے کو تیار تھا“ -4 میریٹ ہوٹل اسلام آباد میں پی ٹی آئی کی پارلیمانی پارٹی کا اجلاس ہو رہا تھا، موضع کوہلو والہ تحصیل گوجرانوالہ کے بلال سانسی کو پچاس لاکھ روپے لیکر پہنچنے کا حکم ملا۔ اس نے نوٹوں کی گڈیوں سے تھیلا بھرا اور اسلام آباد کی طرف چل دیا۔ میریٹ ہوٹل کے قریب پولیس چیک پوسٹ پر سپاہی نے ڈگی کی تلاشی لیتے ہوئے پوچھا ”اس تھیلے میں کیا ہے؟“ بلال سانسی نے جواب دیا ”کرنسی نوٹ ہیں“ سپاہی بے ساختہ بولا ”اچھا تو آپ بھی میریٹ ہوٹل جا رہے ہیں؟ وہاں جو بھی جا رہا ہے نوٹوں سے لدا پھندا جا رہا ہے۔ نجانے وہاں کیا کاروبار ہو رہا ہے۔“ اب بلال سانسی کی بدقسمتی کہ اس کے حلقے کا ٹکٹ اس کے پہنچنے سے پہلے فروخت کیا جا چکا تھا -5 ایک امیر زادہ بڑا کائیاں نکلا اسے رقم کا کوئی مسئلہ نہیں تھا اس نے بیک وقت ملتان کے دونوں سیاسی آڑھتیوں کو رقم کی ادائیگی کر دی۔ زیادہ سے زیادہ کیا ہوا؟
ٹکٹ ہی دوگنی قیمت کا ہو گیا لیکن اس کا ملنا تو یقینی ہو گیا -6 میں پوری ذمہ داری سے لکھ رہا ہوں کہ ٹکٹ کی مد میں ہمارے عزت مآب ضلعی صدر رانا نعیم الرحمان خان صاحب سے بھی ایک معقول رقم بٹوری گئی ہے۔ اس بیچارے کو آخر دم تک خواجہ محمد صالح کے بھوت سے ڈرایا جاتا رہا تھا -7 گوجرانوالہ سے تعلق رکھنے والا سنٹرل پنجاب پی ٹی آئی کا ایک نوجوان عہدیدار ٹکٹوں کے بیوپار میں مالا مال ہو گیا ہے۔ ٹکٹوں کی دلالی کوئلوں کی دلالی نہیں کہ اس میں منہ کالا کیا ہو جائے، بڑا صاف ستھرا کام ہے۔ اس نفیس کام میں رنگت کچھ اور نکھر آتی ہے۔ اسے تین ضلعوں کے ٹکٹوں کے سودے کروانے کی سعادت نصیب ہوئی -8 پی ٹی آئی کا ایک امیدوار مجھے یہ کہتے ہوئے بات ختم کرنے کی تلقین کرنے لگا کہ ضلع گوجرانوالہ میں کون ہے جسے تحریک انصاف کا ٹکٹ مفت ہاتھ آیا ہو؟ (کالم نگار) اس بات کا حلف دینے کو تیار ہوں کہ میرے اس کالم میں کوئی ایک بات بھی کسی شخص سے غلط طور پر منسوب نہیں کی گئی۔ میں سوچتا ہوں کہ ایسے امیدوار جو اپنے وافر مال منال کے باعث پی ٹی آئی کے ٹکٹ خریدنے میں کامیاب ہو گئے ہیں، اگر منتخب ہونے میں بھی کامیاب ہو گئے تو بھلا کیا تبدیلی آ جائے گی :....
شب گزرتی دکھائی دیتی ہے
دن نکلتا نظر نہیں آتا
مجھے چیئرمین عمران خان کی سادگی، بے بسی اور ایمانداری پر ہنسی آ رہی ہے۔ لیکن رونا بھی تو آ رہا ہے کہ میں اب اپنے ان تبدیلی والے خوابوں کا کیا کروں؟
http://www.nawaiwaqt.com.pk/E-Paper/Lahore/2013-05-06/page-7/detail-0
Last edited by a moderator: