وزیر خزانہ کا نام اور کام

bj_008

Politcal Worker (100+ posts)
بینکار کی اپنی ایک ذہنیت ہوتی ہے۔ یہ ذہنیت کیسی ہے؟ اس کے لیے اگر ایک مثال دوں تو شاید میرے اس ناقد کو میرا مؤقف سمجھنے میں آسانی ہو گی۔ جب ہمارے موجودہ وزیر خزانہ شوکت ترین صاحب جب ایک بینک کے صدر تھے تو انہوں نے پاکستان میں بینکنگ کے شعبہ میں ایک بالکل نئی اختراع کی۔ ماشاء اللہ سے ان کے ذہین ہونے میں تو مجھے بھی کوئی شک نہیں صرف ان کی قابلیت اور ذہانت کے صحیح استعمال کے بارے میں اپنے تحفظات کا اظہار کر رہا ہوں۔ انہوں نے بینک میں کم از کم بیلنس پر ماہانہ جرمانے کا اصول لاگو کر دیا۔ یعنی اگر کسی کے اکاؤنٹ میں پانچ ہزار سے کم رقم ہو گی تو اس شخص کے اکاؤنٹ میں سے ہر ماہ پچاس روپے کاٹ لیے جائیں گے۔

اب آپ خود اندازہ کریں کہ جس اکاؤنٹ میں پانچ ہزار روپے سے کم رقم ہو گی وہ کسی سیٹھ‘ صنعت کار‘ دولت مند‘ کاروباری یا امیر آدمی کا اکاؤنٹ تو نہیں ہو گا۔ کسی غریب یا پنشنر‘ زندگی کی گاڑی بمشکل کھینچنے والے بے وسیلہ آدمی کا ہی ہو گا۔ ترین صاحب نے اس پہلے سے غریب اور مقہور شخص کے اکاؤنٹ سے ہر ماہ پچاس روپے کاٹنے شروع کر دیے۔ اس قانون کو سٹیٹ بینک نے بعد ازاں غیر قانونی قرار دے کر بینک کو کروڑوں روپے جرمانہ کر دیا۔ غریب کے پیسے بینک نے ڈکار لیے۔ اس بینک کا جرمانہ بڑے بینک نے ہضم کر لیا۔ جن کے اکاؤنٹ سے پیسے کٹے تھے ان کی نہ شنوائی ہوئی اور نہ ہی داد رسی ہو سکی۔

وزیر خزانہ کا نام اور کام

میرے گزشتہ سے پیوستہ کالم کے حوالے سے ایک مہربان قاری نے تقریباً میرے کالم کی طوالت کے برابر تبصرہ کرتے ہوئے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ میرا سارا تھیسس ہی غلطی پر استوار تھا۔ اس کا مؤقف تھا کہ میں نے دراصل وزیر خزانہ کی ساری تشریح اور تعریف ہی غلط کی ہے۔ اس قاری نے اپنے طویل تبصرے میں مجھے یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ ہمارا وزیر خزانہ کوئی وزیر معاشیات یا وزیر اقتصادیات نہیں ہوتا کیونکہ اس کا اقتصادیات‘ معاشیات سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ اس لیے اس کو انگریزی میں فنانس منسٹر اور اردو میں وزیر خزانہ کہا جاتا ہے جبکہ آپ (یعنی میں) اسے وزیر معاشیات یا وزیر اقتصادیات سمجھ رہے ہیں۔ اس قاری کو میری اس بات پر بھی بہت اعتراض تھا کہ میں نے بینکار اور اکاؤنٹنٹ وغیرہ کو اس وزارت کے لیے کیوں نا مناسب انتخاب قرار دیا ہے۔ اس کی کئی وجوہات ہیں تاہم سب سے پہلے تو نام کی بات ہو جائے۔

اگر پاکستان میں وزیر خزانہ سے مراد صرف ایک ایسا وزیر ہے جس کا کام اس کے نام کے مطابق خزانے سے متعلق معاملات ہیں تو جب خزانہ خالی ہوتا ہے تب اس وزیر کی کیا ضرورت ہے؟ ویسے اگر نام اور اس سے منسوب کام کو جواز بنایا جائے تو اس ملک میں وزیر قانون کے عہدے کا کیا جواز ہے؟ لیکن آخر ہمارے ہاں وزیر قانون بھی تو ہوتا ہی ہے۔

ہمارے ملک میں وزیر خزانہ کے جواز کے بارے میں کراچی میں ایک گاڑی کے پیچھے ایک شعر لکھا ہوا تھا۔ لوگ باگ بسوں اور ٹرکوں کے پیچھے لکھے ہوئے شعروں کا مذاق بناتے ہیں تاہم اس گاڑی کے پیچھے جو شعر لکھا ہوا تھا میں نے ویسا با معنی شعر کم ہی دیکھا ہے۔ یہ شعر دراصل تضمین تھی‘ آپ بھی لطف لیں؎

کوئی وزیر خزانہ تھا‘ جب خزانہ تھا
وہ شاخ ہی نہ رہی جس پہ آشیانہ تھا

بہت سی چیزیں وزارت خزانہ کا لازمی جزو سمجھی جاتی ہیں اور ان لازمی چیزوں میں ملکی معاشی ترقی اور مستقبل کے لیے ٹھوس اقتصادی منصوبہ بندی کے ذریعے خود انحصاری اور دولت کی ایسی تقسیم کا نظام وضع کرنا بھی شامل ہے جس میں دولت کا بہاؤ اوپر سے نیچے کی طرف آئے اور اس کے نتیجے میں غربت میں کمی آئے اور عام آدمی کا طرزِ زندگی بہتر ہو سکے۔ کسی زمانے میں ہمارا وزیر خزانہ اپنی وزارت کی مدد سے پانچ سالہ اقتصادی منصوبے بنایا کرتا تھا اور انہی منصوبوں پر عمل کر کے کئی ممالک نے اتنی ترقی کی کہ آج ہم ان کو رشک کی نظروں سے دیکھتے ہیں۔ تب درج بالا سارے کام وزارت خزانہ ہی کیا کرتی تھی اور اس کی وجہ یہی تھی کہ وزیر خزانہ اپنے کام کو اس وسیع تر تناظر میں دیکھتے تھے

جو دیرپا بنیادوں پر ملکی معاشی ترقی کے لیے ضروری تھا۔ پھر بینکار آنا شروع ہو گئے اور ملکی معیشت دیرپا بنیادوں کے بجائے روزانہ کی بنیاد پر چلنے لگ گئی۔ قرضوں کا حصول مطمح نظر ٹھہرا اور ہر گزرتے دن حکمرانوں نے اپنے اللے تللے پورے کرنے کی غرض سے ہمیں ورلڈ بینک‘ آئی ایم ایف‘ اے ڈی پی اور اسی قبیل کے دوسرے اداروں کے بس میں ڈال دیا۔ یہ سارے بینکار اور اکاؤنٹنٹ دراصل انہی عالمی اداروں کے ٹاؤٹ تھے۔ آپ مہذب الفاظ میں ان لوگوں کو ان عالمی معاشی اداروں کے ''پرسنل بینکار‘‘ برائے پاکستان کہہ سکتے ہیں۔ عملی طور پر ان کا کام یہی تھا۔

پاکستان کے وزیر خزانہ کو اگر معیشت اور اقتصادیات کے معاملات کا ذمہ دار بھی سمجھا جاتا ہے تو یہ قدرتی امر ہے کہ کیونکہ اس ملک میں میرے اس ناقد قاری کے اعتراض کے مطابق نہ تو کوئی وزیر برائے معیشت ہے اور نہ ہی کوئی وزیر برائے اقتصادیات (جو وہ ترجمہ فرما رہے تھے) تو کیا اب ملک کی معیشت کی دکان بند کر دی جائے؟ اسے کس نے چلانا ہے؟

ظاہر ہے یہ کام وزارتِ خزانہ کا ہے اور اس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ ایک عرصہ تک یہ کام وزارت خزانہ ہی کی ذمہ داری تھی اور وہ اسے نبھاتی رہی ہے‘ جیسے ماضی بعید میں ملک غلام محمد اور اس کے بعد ڈاکٹر محبوب الحق مرحوم وغیرہ۔ اب کیا ہو گیا ہے؟ کیا اب ان کاموں کے لیے کوئی علیحدہ وزارت بن گئی ہے؟ اگر ایسا نہیں تو پھر یہ اہم کام کون کرے گا؟

بینکار کی اپنی ایک ذہنیت ہوتی ہے۔ یہ ذہنیت کیسی ہے؟ اس کے لیے اگر ایک مثال دوں تو شاید میرے اس ناقد کو میرا مؤقف سمجھنے میں آسانی ہو گی۔ جب ہمارے موجودہ وزیر خزانہ شوکت ترین صاحب جب ایک بینک کے صدر تھے تو انہوں نے پاکستان میں بینکنگ کے شعبہ میں ایک بالکل نئی اختراع کی۔ ماشاء اللہ سے ان کے ذہین ہونے میں تو مجھے بھی کوئی شک نہیں صرف ان کی قابلیت اور ذہانت کے صحیح استعمال کے بارے میں اپنے تحفظات کا اظہار کر رہا ہوں۔ انہوں نے بینک میں کم از کم بیلنس پر ماہانہ جرمانے کا اصول لاگو کر دیا۔ یعنی اگر کسی کے اکاؤنٹ میں پانچ ہزار سے کم رقم ہو گی تو اس شخص کے اکاؤنٹ میں سے ہر ماہ پچاس روپے کاٹ لیے جائیں گے۔ اب آپ خود اندازہ کریں کہ جس اکاؤنٹ میں پانچ ہزار روپے سے کم رقم ہو گی وہ کسی سیٹھ‘ صنعت کار‘ دولت مند‘ کاروباری یا امیر آدمی کا اکاؤنٹ تو نہیں ہو گا۔

کسی غریب یا پنشنر‘ زندگی کی گاڑی بمشکل کھینچنے والے بے وسیلہ آدمی کا ہی ہو گا۔ ترین صاحب نے اس پہلے سے غریب اور مقہور شخص کے اکاؤنٹ سے ہر ماہ پچاس روپے کاٹنے شروع کر دیے۔ اس قانون کو سٹیٹ بینک نے بعد ازاں غیر قانونی قرار دے کر بینک کو کروڑوں روپے جرمانہ کر دیا۔ غریب کے پیسے بینک نے ڈکار لیے۔ اس بینک کا جرمانہ بڑے بینک نے ہضم کر لیا۔ جن کے اکاؤنٹ سے پیسے کٹے تھے ان کی نہ شنوائی ہوئی اور نہ ہی داد رسی ہو سکی۔

دراصل یہ وہ ذہنیت ہے جو بینکار اپنے ساتھ لے کر آتا ہے اور اس کا سارا ملبہ اس کے پاس پھنسے ہوئے اکاؤنٹ ہولڈرز پر گرتا ہے۔ میں نے ایک ہی بینک کی ایک ہی برانچ کے لیے جاری کردہ دو عدد چیکس کو کلیئرنس کے لیے ایک بینک کی برانچ میں جمع کروایا تو بینک نے ایک ہی لفافے میں بھیجے جانے والے ان دو عدد چیکس کے عوض میرے اکاؤنٹ سے دو عدد کوریئر کرنے کے پیسے کاٹ لیے۔ ایسی ہی لوٹ مار اور جمع نفی کے چکر کے طفیل آج بینکوں کا نفع اس قدر بڑھ چکا ہے کہ بینکوں کے صدور پاکستان میں سب سے زیادہ تنخواہ لینے والے ملازم ہیں۔

ملکی بجٹ کا خسارہ کم کرنے کے دو طریقے ہیں۔ لانگ ٹرم اور شارٹ ٹرم۔ لانگ ٹرم منصوبہ بندی ماہرین معاشیات کا کام ہے جبکہ شارٹ ٹرم طریقہ بڑا آسان ہے وہ یہ کہ قرضہ لے کر بجٹ کا خسارہ پورا کر لیا جائے۔ قرض کے حصول کی صلاحیت اور مہارت صرف بینکار اور اکاؤنٹنٹ ٹائپ لوگوں میں ہوتی ہے‘ ادھر روزانہ کی بنیاد پر چلنے والی ہماری حکومتوں کو اپنے اللے تللے پورے کرنے اور موج میلے کی غرض سے قرضہ لینا ہوتا ہے

اور وہ اس کام پر انہی عالمی بینکوں کے ایجنٹوں کو مامور کرتی ہیں۔ بھلا یہ کام ان عالمی معاشی اداروں کے ایجنٹوں سے بہتر کون کر سکتا ہے؟ نالائق اور کوتاہ نظری کی حامل ہماری حکومتوں‘ عالمی معاشی اداروں اور ان کے تیز طرار ایجنٹوں پر مشتمل اس ٹرائیکا نے انجمن امداد باہمی کے سنہری اصولوں پر عمل کرتے ہوئے قرضوں کا پہاڑ جیسا ''گٹھڑ‘‘ اس ملک پر لاد دیا ہے جس کو اتارنے کی ذمہ داری مجھ پر اور میری آنے والی نسلوں ڈال دی گئی ہے۔


سورس: https://dunya.com.pk/index.php/author/khalid-masood-khan/2021-07-12/35963/74465960
 
Last edited by a moderator:

asallo

Senator (1k+ posts)
Abey bahi patwari yaar kiyon galiyan khathe ho kuch to kabhi saach likha ya bola karo main ne itni lambi bajwas nahen perhi but pelhe hi para main jo bakwas likhi hai ke 5000 se kaam per tax laga diya this is part of normal banking in europe america asif you have less then certain amount of money in your account you have to pay transaction charges such as using debit card make money transfer etc.
so my friend ulti seedhi bkawas likhne ke bajai thori se asal tehqeek ker liya karo.

wese tum yeh ker naheen sakte patwari jo ho khotha biyari khane wale ??????
 

ranaji

(50k+ posts) بابائے فورم
دنیا بھر میں کرنٹ اکاؤنٹ پر ہر بینک اکاؤنٹ سے ایورج بیلنس کم ہونے پر بینک چارجز کٹتے
اگر تو پاکستان میں کرنٹ اکاؤنٹ پر کٹتے ہیں تو کوئی انوکھی بات نہیں نہ ہی غلط ہے
کیونکہ غریب آدمی کا کرنٹ اکاؤنٹ نہیں ہوتا اور کرنٹ اکاؤنٹ زیادہ تر کسی کا پرسونل نہیں ہوتا کمپنیُ یا کاروباری لین دین۔ کے لئے ہوتا ہے
ہا ں البتہ اگر سیونگ اکاؤنٹ پر کٹتا ہے جو زیادتی ہے
کیا کوئی لوکل اکاؤنٹ ہولڈر یا پوسٹ کرنے والے صاحب یہ کلیر کریں گے کہ کرنٹ اکاؤنٹ پر بینک چارجز لئے جا رہے ہیں ہیں
یا سیونگ اکاؤنٹ پر ؟
 

bj_008

Politcal Worker (100+ posts)
Abey bahi patwari yaar kiyon galiyan khathe ho kuch to kabhi saach likha ya bola karo main ne itni lambi bajwas nahen perhi but pelhe hi para main jo bakwas likhi hai ke 5000 se kaam per tax laga diya this is part of normal banking in europe america asif you have less then certain amount of money in your account you have to pay transaction charges such as using debit card make money transfer etc.
so my friend ulti seedhi bkawas likhne ke bajai thori se asal tehqeek ker liya karo.

wese tum yeh ker naheen sakte patwari jo ho khotha biyari khane wale ??????
واہ کیا خوبصورت الفاظ استعمال کرتے ہو آپ بھائی صاحب۔
میں یورپ میں رہتا ہوں اور میرا بنک تو ایسا کوئی ٹیکس نہیں لگاتا۔ اور نہ ہی ایسی کوئی شق ہے۔​
 

bj_008

Politcal Worker (100+ posts)
دنیا بھر میں کرنٹ اکاؤنٹ پر ہر بینک اکاؤنٹ سے ایورج بیلنس کم ہونے پر بینک چارجز کٹتے
اگر تو پاکستان میں کرنٹ اکاؤنٹ پر کٹتے ہیں تو کوئی انوکھی بات نہیں نہ ہی غلط ہے
کیونکہ غریب آدمی کا کرنٹ اکاؤنٹ نہیں ہوتا اور کرنٹ اکاؤنٹ زیادہ تر کسی کا پرسونل نہیں ہوتا کمپنیُ یا کاروباری لین دین۔ کے لئے ہوتا ہے
ہا ں البتہ اگر سیونگ اکاؤنٹ پر کٹتا ہے جو زیادتی ہے
کیا کوئی لوکل اکاؤنٹ ہولڈر یا پوسٹ کرنے والے صاحب یہ کلیر کریں گے کہ کرنٹ اکاؤنٹ پر بینک چارجز لئے جا رہے ہیں ہیں
یا سیونگ اکاؤنٹ پر ؟
These are good questions and I'm trying to find the answers. In the meanwhile, just out of curiosity, I searched for Tarin's bank and here is what I got.

///
ISLAMABAD Silk Bank, widely considered to be the ownership of Finance Minister Shaukat Tarin as his son heads it, was allowed to start operations with Rs 2.5 billions paid-up capital as against the requirement of Rs 6 billion. This was transpired from proceedings of the National Assembly Standing Committee on Finance that met with MNA Fozia Wahab in chair here on Friday. However, representatives of the State Bank of Pakistan (SBP) were unable to give any justification as to why the Silk Bank was allowed to start operations without fulfilling the requirement of minimum paid-up capital prescribed in the banking law. Finding the situation getting embarrassing with the Finance Minister coming under fire, Committee Chairperson Fozia Wahab, who is also Information Secretary of the ruling PPP, asked the media persons present to leave the meeting. Kashmala Tariq MNA who was among the opposition members probing the Finance Ministers involvement in getting alleged concessions for the Sink Bank walked out in protest. Later, members on the committee from the PPP including Nafeesa Shah went out to appease and bring Ms Tariq back to the meeting. The Chairperson later on also permitted the media back in. The issue of Silk Bank was left pending till the next meeting of the Committee on October 28, 2009. The SBP is supposed to come up with all the required data of the commercial banks including those availing concessions besides the relevant laws at hand in the next meeting. The issue of Silk Bank came to the fore when the minimum paid up capital was under discussion during the meeting taking up the Banking Companies (Amendment) Bill 2009 for review. The opposition members pointed out that the State Bank of Pakistan was not autonomous, which it ideally should be. Secretary Finance Salman Siddiq conceded to the opposition members viewpoint that the SBP was working under a wing of the Finance Ministry. That is why, the opposition members pointed out that the central bank was unable to resist the alleged concessions to the bank allegedly owned by the Finance Minister. The Committee meeting on Friday was aimed at reviewing the Anti-Money Laundering (Amendment) Bill 2009, and Banking Companies (Amendment) Bill, 2009. The two Ordinances were the legacies of the Musharraf regime that the Opposition members especially Khawaja Asif of PML-N had emphasized should be left to be lapsed and the government should come up with fresh legislation in place.
///

Source: https://nation.com.pk/24-Oct-2009/bank-owned-by-tarins-son-given-special-concession
 

Mocha7

Minister (2k+ posts)
بینکار کی اپنی ایک ذہنیت ہوتی ہے۔ یہ ذہنیت کیسی ہے؟ اس کے لیے اگر ایک مثال دوں تو شاید میرے اس ناقد کو میرا مؤقف سمجھنے میں آسانی ہو گی۔ جب ہمارے موجودہ وزیر خزانہ شوکت ترین صاحب جب ایک بینک کے صدر تھے تو انہوں نے پاکستان میں بینکنگ کے شعبہ میں ایک بالکل نئی اختراع کی۔ ماشاء اللہ سے ان کے ذہین ہونے میں تو مجھے بھی کوئی شک نہیں صرف ان کی قابلیت اور ذہانت کے صحیح استعمال کے بارے میں اپنے تحفظات کا اظہار کر رہا ہوں۔ انہوں نے بینک میں کم از کم بیلنس پر ماہانہ جرمانے کا اصول لاگو کر دیا۔ یعنی اگر کسی کے اکاؤنٹ میں پانچ ہزار سے کم رقم ہو گی تو اس شخص کے اکاؤنٹ میں سے ہر ماہ پچاس روپے کاٹ لیے جائیں گے۔

اب آپ خود اندازہ کریں کہ جس اکاؤنٹ میں پانچ ہزار روپے سے کم رقم ہو گی وہ کسی سیٹھ‘ صنعت کار‘ دولت مند‘ کاروباری یا امیر آدمی کا اکاؤنٹ تو نہیں ہو گا۔ کسی غریب یا پنشنر‘ زندگی کی گاڑی بمشکل کھینچنے والے بے وسیلہ آدمی کا ہی ہو گا۔ ترین صاحب نے اس پہلے سے غریب اور مقہور شخص کے اکاؤنٹ سے ہر ماہ پچاس روپے کاٹنے شروع کر دیے۔ اس قانون کو سٹیٹ بینک نے بعد ازاں غیر قانونی قرار دے کر بینک کو کروڑوں روپے جرمانہ کر دیا۔ غریب کے پیسے بینک نے ڈکار لیے۔ اس بینک کا جرمانہ بڑے بینک نے ہضم کر لیا۔ جن کے اکاؤنٹ سے پیسے کٹے تھے ان کی نہ شنوائی ہوئی اور نہ ہی داد رسی ہو سکی۔

وزیر خزانہ کا نام اور کام

میرے گزشتہ سے پیوستہ کالم کے حوالے سے ایک مہربان قاری نے تقریباً میرے کالم کی طوالت کے برابر تبصرہ کرتے ہوئے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ میرا سارا تھیسس ہی غلطی پر استوار تھا۔ اس کا مؤقف تھا کہ میں نے دراصل وزیر خزانہ کی ساری تشریح اور تعریف ہی غلط کی ہے۔ اس قاری نے اپنے طویل تبصرے میں مجھے یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ ہمارا وزیر خزانہ کوئی وزیر معاشیات یا وزیر اقتصادیات نہیں ہوتا کیونکہ اس کا اقتصادیات‘ معاشیات سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ اس لیے اس کو انگریزی میں فنانس منسٹر اور اردو میں وزیر خزانہ کہا جاتا ہے جبکہ آپ (یعنی میں) اسے وزیر معاشیات یا وزیر اقتصادیات سمجھ رہے ہیں۔ اس قاری کو میری اس بات پر بھی بہت اعتراض تھا کہ میں نے بینکار اور اکاؤنٹنٹ وغیرہ کو اس وزارت کے لیے کیوں نا مناسب انتخاب قرار دیا ہے۔ اس کی کئی وجوہات ہیں تاہم سب سے پہلے تو نام کی بات ہو جائے۔

اگر پاکستان میں وزیر خزانہ سے مراد صرف ایک ایسا وزیر ہے جس کا کام اس کے نام کے مطابق خزانے سے متعلق معاملات ہیں تو جب خزانہ خالی ہوتا ہے تب اس وزیر کی کیا ضرورت ہے؟ ویسے اگر نام اور اس سے منسوب کام کو جواز بنایا جائے تو اس ملک میں وزیر قانون کے عہدے کا کیا جواز ہے؟ لیکن آخر ہمارے ہاں وزیر قانون بھی تو ہوتا ہی ہے۔

ہمارے ملک میں وزیر خزانہ کے جواز کے بارے میں کراچی میں ایک گاڑی کے پیچھے ایک شعر لکھا ہوا تھا۔ لوگ باگ بسوں اور ٹرکوں کے پیچھے لکھے ہوئے شعروں کا مذاق بناتے ہیں تاہم اس گاڑی کے پیچھے جو شعر لکھا ہوا تھا میں نے ویسا با معنی شعر کم ہی دیکھا ہے۔ یہ شعر دراصل تضمین تھی‘ آپ بھی لطف لیں؎

کوئی وزیر خزانہ تھا‘ جب خزانہ تھا
وہ شاخ ہی نہ رہی جس پہ آشیانہ تھا

بہت سی چیزیں وزارت خزانہ کا لازمی جزو سمجھی جاتی ہیں اور ان لازمی چیزوں میں ملکی معاشی ترقی اور مستقبل کے لیے ٹھوس اقتصادی منصوبہ بندی کے ذریعے خود انحصاری اور دولت کی ایسی تقسیم کا نظام وضع کرنا بھی شامل ہے جس میں دولت کا بہاؤ اوپر سے نیچے کی طرف آئے اور اس کے نتیجے میں غربت میں کمی آئے اور عام آدمی کا طرزِ زندگی بہتر ہو سکے۔ کسی زمانے میں ہمارا وزیر خزانہ اپنی وزارت کی مدد سے پانچ سالہ اقتصادی منصوبے بنایا کرتا تھا اور انہی منصوبوں پر عمل کر کے کئی ممالک نے اتنی ترقی کی کہ آج ہم ان کو رشک کی نظروں سے دیکھتے ہیں۔ تب درج بالا سارے کام وزارت خزانہ ہی کیا کرتی تھی اور اس کی وجہ یہی تھی کہ وزیر خزانہ اپنے کام کو اس وسیع تر تناظر میں دیکھتے تھے

جو دیرپا بنیادوں پر ملکی معاشی ترقی کے لیے ضروری تھا۔ پھر بینکار آنا شروع ہو گئے اور ملکی معیشت دیرپا بنیادوں کے بجائے روزانہ کی بنیاد پر چلنے لگ گئی۔ قرضوں کا حصول مطمح نظر ٹھہرا اور ہر گزرتے دن حکمرانوں نے اپنے اللے تللے پورے کرنے کی غرض سے ہمیں ورلڈ بینک‘ آئی ایم ایف‘ اے ڈی پی اور اسی قبیل کے دوسرے اداروں کے بس میں ڈال دیا۔ یہ سارے بینکار اور اکاؤنٹنٹ دراصل انہی عالمی اداروں کے ٹاؤٹ تھے۔ آپ مہذب الفاظ میں ان لوگوں کو ان عالمی معاشی اداروں کے ''پرسنل بینکار‘‘ برائے پاکستان کہہ سکتے ہیں۔ عملی طور پر ان کا کام یہی تھا۔

پاکستان کے وزیر خزانہ کو اگر معیشت اور اقتصادیات کے معاملات کا ذمہ دار بھی سمجھا جاتا ہے تو یہ قدرتی امر ہے کہ کیونکہ اس ملک میں میرے اس ناقد قاری کے اعتراض کے مطابق نہ تو کوئی وزیر برائے معیشت ہے اور نہ ہی کوئی وزیر برائے اقتصادیات (جو وہ ترجمہ فرما رہے تھے) تو کیا اب ملک کی معیشت کی دکان بند کر دی جائے؟ اسے کس نے چلانا ہے؟

ظاہر ہے یہ کام وزارتِ خزانہ کا ہے اور اس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ ایک عرصہ تک یہ کام وزارت خزانہ ہی کی ذمہ داری تھی اور وہ اسے نبھاتی رہی ہے‘ جیسے ماضی بعید میں ملک غلام محمد اور اس کے بعد ڈاکٹر محبوب الحق مرحوم وغیرہ۔ اب کیا ہو گیا ہے؟ کیا اب ان کاموں کے لیے کوئی علیحدہ وزارت بن گئی ہے؟ اگر ایسا نہیں تو پھر یہ اہم کام کون کرے گا؟

بینکار کی اپنی ایک ذہنیت ہوتی ہے۔ یہ ذہنیت کیسی ہے؟ اس کے لیے اگر ایک مثال دوں تو شاید میرے اس ناقد کو میرا مؤقف سمجھنے میں آسانی ہو گی۔ جب ہمارے موجودہ وزیر خزانہ شوکت ترین صاحب جب ایک بینک کے صدر تھے تو انہوں نے پاکستان میں بینکنگ کے شعبہ میں ایک بالکل نئی اختراع کی۔ ماشاء اللہ سے ان کے ذہین ہونے میں تو مجھے بھی کوئی شک نہیں صرف ان کی قابلیت اور ذہانت کے صحیح استعمال کے بارے میں اپنے تحفظات کا اظہار کر رہا ہوں۔ انہوں نے بینک میں کم از کم بیلنس پر ماہانہ جرمانے کا اصول لاگو کر دیا۔ یعنی اگر کسی کے اکاؤنٹ میں پانچ ہزار سے کم رقم ہو گی تو اس شخص کے اکاؤنٹ میں سے ہر ماہ پچاس روپے کاٹ لیے جائیں گے۔ اب آپ خود اندازہ کریں کہ جس اکاؤنٹ میں پانچ ہزار روپے سے کم رقم ہو گی وہ کسی سیٹھ‘ صنعت کار‘ دولت مند‘ کاروباری یا امیر آدمی کا اکاؤنٹ تو نہیں ہو گا۔

کسی غریب یا پنشنر‘ زندگی کی گاڑی بمشکل کھینچنے والے بے وسیلہ آدمی کا ہی ہو گا۔ ترین صاحب نے اس پہلے سے غریب اور مقہور شخص کے اکاؤنٹ سے ہر ماہ پچاس روپے کاٹنے شروع کر دیے۔ اس قانون کو سٹیٹ بینک نے بعد ازاں غیر قانونی قرار دے کر بینک کو کروڑوں روپے جرمانہ کر دیا۔ غریب کے پیسے بینک نے ڈکار لیے۔ اس بینک کا جرمانہ بڑے بینک نے ہضم کر لیا۔ جن کے اکاؤنٹ سے پیسے کٹے تھے ان کی نہ شنوائی ہوئی اور نہ ہی داد رسی ہو سکی۔

دراصل یہ وہ ذہنیت ہے جو بینکار اپنے ساتھ لے کر آتا ہے اور اس کا سارا ملبہ اس کے پاس پھنسے ہوئے اکاؤنٹ ہولڈرز پر گرتا ہے۔ میں نے ایک ہی بینک کی ایک ہی برانچ کے لیے جاری کردہ دو عدد چیکس کو کلیئرنس کے لیے ایک بینک کی برانچ میں جمع کروایا تو بینک نے ایک ہی لفافے میں بھیجے جانے والے ان دو عدد چیکس کے عوض میرے اکاؤنٹ سے دو عدد کوریئر کرنے کے پیسے کاٹ لیے۔ ایسی ہی لوٹ مار اور جمع نفی کے چکر کے طفیل آج بینکوں کا نفع اس قدر بڑھ چکا ہے کہ بینکوں کے صدور پاکستان میں سب سے زیادہ تنخواہ لینے والے ملازم ہیں۔

ملکی بجٹ کا خسارہ کم کرنے کے دو طریقے ہیں۔ لانگ ٹرم اور شارٹ ٹرم۔ لانگ ٹرم منصوبہ بندی ماہرین معاشیات کا کام ہے جبکہ شارٹ ٹرم طریقہ بڑا آسان ہے وہ یہ کہ قرضہ لے کر بجٹ کا خسارہ پورا کر لیا جائے۔ قرض کے حصول کی صلاحیت اور مہارت صرف بینکار اور اکاؤنٹنٹ ٹائپ لوگوں میں ہوتی ہے‘ ادھر روزانہ کی بنیاد پر چلنے والی ہماری حکومتوں کو اپنے اللے تللے پورے کرنے اور موج میلے کی غرض سے قرضہ لینا ہوتا ہے

اور وہ اس کام پر انہی عالمی بینکوں کے ایجنٹوں کو مامور کرتی ہیں۔ بھلا یہ کام ان عالمی معاشی اداروں کے ایجنٹوں سے بہتر کون کر سکتا ہے؟ نالائق اور کوتاہ نظری کی حامل ہماری حکومتوں‘ عالمی معاشی اداروں اور ان کے تیز طرار ایجنٹوں پر مشتمل اس ٹرائیکا نے انجمن امداد باہمی کے سنہری اصولوں پر عمل کرتے ہوئے قرضوں کا پہاڑ جیسا ''گٹھڑ‘‘ اس ملک پر لاد دیا ہے جس کو اتارنے کی ذمہ داری مجھ پر اور میری آنے والی نسلوں ڈال دی گئی ہے۔


سورس: https://dunya.com.pk/index.php/author/khalid-masood-khan/2021-07-12/35963/7
Nice share ✨