اسامہ شہید سے یاد آیا، یہ جتنے وانا بی شہید اور وانا بی مجاہد قسم کے لوگ ہمارے وقت میں گزرے ہیں عین وقت شہادت میدانِ جہاد اور موقع شہادت سے دَم اور دُم دبا کے بھاگ کھڑے ہوئے۔
جو مرنے کیلئے جیتے تھے وہ جینے کیلئے مارے گئے۔
جنکی باتوں نے نجانے کتنےسیدھے، سادہ اور جذبانی نوجوانوں کی زندگیاں نگل لیں وہ خود شہادت پر ذلت بھری زندگی کو ترجیح دے کر بیچ میدان جنگ سے ایسے بھاگے کہ برق رفتار جنگی جہاز پیچھے رہ گئے۔ وہ تو بھلا ہو ڈرونز کا جو بغیر آواز پیدا کیے آئے اور کھانا کھانے والی اُلٹی طرف سے میزائل داغ کر انہیں چپکے سے بے خبری میں شہید کر گئے ورنہ یہ کب شہید ہونے والے تھے بھلا۔
بلہے شاہ اساں مرنا نا ہائی
گور پیا کوئی ہور
ملا عمر ایک اسلامی ریاست کا خلیفہ اور امیر المجاہدین تھا۔ زندگی بھر امریکہ کو للکارا لیکن امریکہ جیسے ہی ہزاروں میل کی مسافت طے کر کے شہادت کا جام لیے خود افغانستان کی سر زمین پر اترا خلیفہ صاحب خلافت اور شوقَ شہادت میدانِ شہادت میں چھوڑ کر بھاگ نکلے۔
کہاں گئے؟
کچھ خبر نہ ہوئی، پھر ایک دن اطلاع آئی خلیفہ مر گیا
کہیں سے اواز ابھری، "جو ڈر گیا وہ مر گیا"۔
یہی معاملہ اسامہ بن لادن کا رہا۔
زندگی بھر جہاد جہاد شہادت شہادت کرتا رہا جب تکمیلِ تمنا کا وقت آیا تو افغانستان کے میدانِ جہاد میں جامِ شہادت کی بجائے ایبٹ آباد میں جامِ خجالت پی کر ذلت آمیز موت مرا۔
مولوی عبد العزیز، جاگتے سوتے، اٹھتے بیٹھتے، لیتے دیتے، مارتے مرواتے شہادت شہادت پکارتا رہا۔ شوقِ شہادت پورا کرنے کو جنرل مشرف نے مورچے میں جا کر جامِ شہادت پیش کیا لیکن موصوف جام جھٹک کر پاس مری پڑی ایک طالبہ کی لاش سے کپڑے، برقع نوچ کر بھاگ نکلے۔ جس رفتار سے بھاگے تھے اُسی رفتار سے چند منٹوں بعد مرکزی دروازے پر گرفتار ہو کر کچھ ہی دیر بعد نیشنل ٹی وی پر برقع پہن کر فرار ہونے کے اسلامی طرقے سمجھاتے دیکھے گئے۔
خلیفہ ابوبکر بغدادی نے بھی اپنی کالی کہانی اُسی سیاہی سے لکھی جس سے اسامہ اور ملا عمر نے تحریر کی تھی۔
شہادت پر ہلاکت کو ترجیح دینے والے مجاہدین کی لسٹ اور پوسٹ لمبی ہو جانے کے خدشے کے پیش نظر یہاں توقف کرتا ہوں ورنہ داستان زلفِ یار ایسی دراز ہے۔