tariisb
Chief Minister (5k+ posts)

وبالوالدين إحسانا
گھر رات بہت دیر سے پہنچا ، آپ کی دادی نے کہا ، آج بہت دیر کر دی ،آٹا بلکل ختم ہے ،مکئی کے دانوں کا تھیلہ پہلے سے بندھا پڑا تھا ،میں وہ لے کر چل پڑا ، ہم لوگ بازار سے آٹا نہیں خرید پاتے ، ایک تو غربت ، دوسرا اس وقت یہ رواج بھی نا تھا ، اپنی زمین کاشت کرتے ، اور جو فصل ہوتی وہی سارا سال ہمارا پیٹ بھرتی رہتی ، آٹا پسوانے کے لیے ، پانی کے بڑے نالے کے ساتھ ایک چکی ہوتی تھی ، آبادی سے بہت دور ، پہاڑ کے آخر بلکل آخر میں ، پانی کی اس چکی کو مقامی زبان میں "جندر" کہتے ہیں ، پانی کے بہاؤ سے چکی کے پاٹ چلتے رہتے ، آٹا پستا جاتا ، آٹا پسوانے کے بعد ، ہر کوئی اپنے آٹے کا ایک حصہ ، چکی کے مالک کو دے دیتا ، یہی اس کی اجرت ہوتی تھی ، روپیہ ، پیسہ نہیں ہم ان سے اتنا واقف نا ہوے تھے ، قریب ایک گھنٹے کا پیدل سفر ، اترائی کی جانب ، ذرا ہی فاصلے پر سے جنگل شروع ہو جاتا تھا تھا ، گھپ اندھیرا ، سناٹا ، اورساتھ ساتھ چلتا ، شرارتیں کرتا خوف ، میں جندر تک پہنچ گیا ، اتنے وقت میں موسم بھی خراب ہونا شروع ہو گیا ، بادل ، بجلی ، تیز ہوا ، جلدی سے نالہ پار کیا ، جندر بند تھا ، میں اسے چلانا جانتا تھا ، جلدی جلدی تھیلے سے دانے نکالتا ، پیستا جاتا ، آخر آٹا تیار تھا ، تھیلہ پھر سے تیار کیا ، کندھے پر لاد لیا ، لیکن ؟ لیکن ؟ جندر کا مالک تو موجود نہیں ، اس کا حصہ بھی تو دینا ہے ، مالک کا گھر قریب ہی تھا ، میں تھیلا اٹھاے اس کے گھر کی طرف چل پڑا ، کافی رات بیت چکی تھی ، اور بارش بھی شروع ، گھر کے دروازے پر پہنچ کر ، لوہے کی زنجیر سے کھٹکھٹایا ، اندر سے سوال ہوا ، میں نے جواب دیا ، دروازہ کھلا ، بوڑھا مالک آنکھیں ملتا سامنے کھڑا تھا ، میں نے چکی سے آٹا پیسا ہے ، آپ کا حصہ دینے آیا ہوں ، بوڑھے مالک نے مجھے غور سے دیکھا ، شکریہ یا شکوہ معلوم نہیں اس کے چہرے پر کیا لکھا تھا ، اس نے مجھے جلدی جلدی نالہ پار کر جانے کو کہا ، بارش جاری تھی ، پانی کسی بھی وقت چڑھ سکتا تھا ، پھر ؟ پار جانا بہت مشکل ہو گا ، جلدی کرو ، شاباش بیٹا ، جلدی کرو ، دیر مت کرنا ، ماں دیکھتی ہو گی ، میں وہاں سے نکل آیا ، آدھی رات روٹی بنی ، کھا پی ، کر الله کا لاکھ لاکھ شکر کیا
ہم بچپن میں ، ان دنوں زیادہ دیر تک ، رات گئے پڑھا کرتے تھے ، جب چاند مکمل ہوتا تھا ، چودھویں کی رات تو ہماری پڑھائی کی رات ہوا کرتی تھی ، چاند کی روشنی ہمارے لیے " دیا ، بلب ، نور" سب کچھ تھی ، گھر میں لالٹین کے لیے تیل خریدنا محال تھا ، اسی لیے خدا کی دی ہوئی روشنی کو ضائع نہیں کیا کرتے تھے ، خوب دل لگا کر پڑھتے ، محنت کرتے ، مشقت کرتے ، ساتھ ساتھ پڑھتے رہتے ، جنگل سے لکڑیاں اکٹھی کرنا ، گٹھا بنا کر ، شہر لے جانا ، فروخت کرنا ، یہ روز کا معمول ہوا کرتا تھا ، لکڑیاں فروخت کر کے ، سکول بھی پہنچنا ہوتا تھا ، اکثر صبح شہر میں جا کر ہوتی ، وہیں سے سکول کی طرف چلے جاتے ، سکول سے واپسی پر مزید کسی مزدوری کو تلاش کرتے ، کبھی ملتی ، کبھی نا ملتی ، شام یا پھر رات گیے گھر لوٹنا ہوتا
رمضان ، رمضان آج بھی ہے ، رمضان تب بھی ہوتا تھا ، ایک بار سہ پہر ، پیسوں کی ضرورت تھی ، لکڑیوں کا گٹھا تیار کیا ، شہر کی طرف چل پڑا ، پیٹ روزہ ، دل مظبوط ، سر پر بوجھ ، چل پڑا ، شہر کے دائیں جانب "کینٹ" کا علاقہ تھا ، امیر گھرانے چند ہی ہوا کرتے تھے ، ایک ہندو فیملی کو وہ بوجھ فروخت کیا ، چند آنے ، ٹکے ہاتھ پر آ گرے ، باہر نکلا تو ، اذان مغرب ، وقت افطار ہو گیا ، ذرا فاصلے پر بیٹھ گیا ، کھانے کو کچھ نہیں ، پینے کو بھی کچھ نہیں ، ارے نہیں ، نظر دوڑائی تو الله کی دی ہوئی سفید سفید برف جگہ جگہ جمی ، پڑی تھی ، میں نے وہیں سے برف لی ، برف سے روزہ افطار کیا ، الله کی ذات کتنی عظیم ہے ، جس نے مجھے بھوکا نا چھوڑا ، برف کھاتے ہوے ، ذات عظیم کا شکر کیا ، اسی اثنا میں ہندو گھرانے کی ایک خاتون باہر آچکی تھی ، اس کے ہاتھ کھانا تھا ، جن کو مالک سمجھ کر سامان فروخت کیا ، الله نے انہیں میری خدمت پر لگا دیا ، سیر ہو کر کھانا کھایا ، خاتون ، باقی گھرانے کے افراد کا شکریہ ادا کیا ، پھر گھر کی طرف چل پڑا
___________________________________________________
پھر وقت گزرتا گیا ، قسمت نے سفر بتا دیا ، کراچی کی طرف آ گیا ؟ کراچی بلکہ ؟ پاکستان کی سب سے طویل قامت عمارت کے ایک فلور پر ، ایک بڑے مالیاتی ادارے میں ، اعلی عہدے تک پہنچ چکا تھا ، محنت نے کبھی مایوس نا کیا ، مشقت نے کبھی پریشان نا کیا ، غربت نے ایک شاندار مقام پر آن پہنچایا ، اسی لیے کبھی تکبر کو پاس بھی نا پھٹکنے دیا ، ہمیشہ عاجزی کو اختیار کیا ، بس نصیحتیں باندھ لو ، کبھی نا شکری نا کرنا ، مشقت سے نا شرمانا ، الله کا شکر ہر حال میں ادا کرنا ، خیانت کبھی نا کرنا ، کم از کم پر جینا سیکھو ، کبھی رزق حرام کی ضرورت محسوس نا ہو گی ، بازار سے کھانا پینا ، مجبوری کے سوا نا کرنا ، ایک ناشتہ اور ایک کھانا روز کا یہی معمول رکھو ، سوال مت کرنا ، سوال کرنے سے انسان کمزور ہو جاتا ہے ، اپنے کام خود کرنا ، وقت ؟ ہاں وقت سب سے بڑی دولت ہے ، اس کی ہمیشہ قدر کرنا ، رشتہ دار ، ضرورت مند و مساکین کی مدد میں کنجوسی نہیں کرنا ، دوسروں کی مدد کر کے حقیقی خوشی محسوس کرو گے ، لباس اجلا پہننا ، اپنے جوتے خود پالش کیا کرنا ، گھر کے کام کرنے میں کبھی عار نا محسوس کرنا ، یہ سنت نبوی ، شیوہ پیغمبری ہے
_____________________________________________________________
آج عزت مآب جناب والد محترم کے تمام احسانات لوٹانا چاہتا ہوں ، مگر موقع ہی نہیں دیتے ، طبیعت کیسی ہے ؟ جواب ملتا ہے الله کا شکر ہے ، ٹھیک ہوں ، پیسے ہیں آپ کے پاس ؟ یہ لیجئے ، رکھ لیں ، جواب ملتا ہے ، نہیں بیٹا ، مجھے نہیں ضرورت ، آپ کی زمہ داریاں زیادہ ہیں ، آپ پاس رکھو ، کام آئیں گے ، ریٹائرمنٹ کا وقت آیا ، گھر بیٹھنے کو راضی نا تھے ، نہیں ، بیکار سے بیگار اچھا ، فارغ رہنا اچھی بات نہیں ، بڑی مشکل سے قائل کیا ، اب آپ آرام کریں ، میں ہوں نا ، ریٹائرمنٹ کے تھوڑے عرصے بعد ، پاس بٹھایا ، تمام اکاؤنٹس ، حساب میرے حوالے کر دیا ، وجہ یہ بتائی ؟ یہ سب آپ سنبھالو ، آبائی زمین ، متفرق اثاثے اور پلاٹس ، سب آپ کے نام کروا دیتا ہوں ، یہ اب آپ کے کام کی چیزیں ہیں ، میری نہیں ، آپ کی ہیں ، میری توجہ صرف عبادت پر ہے ، فضول خرچی نا کرنا ، اسراف کبھی نا کرنا ، بھوکا بھی سونا پڑے تو ، الله کا لاکھ لاکھ شکر ادا کئیے بغیر نا سونا ، نماز کبھی نا قضا کرنا ، روز ایک سپارہ ضرور پڑھنا ، زمانے کی تلخیوں کو نظر انداز کر دیا کرو ، جہاں جھگڑا کا امکان ہو ، رکنا مت ، وہاں سے سر جھکا کر ، مطمئن قلب کی طرح گزر جایا کرو ، مصنوعی زندگی سے بچنا ، جو ہو وہی دکھنا ، جو نہیں ہو وہ اس کا اظہار مت کرنا ، ریا کاری ایک مصیبت ہے ، جب اس کا شکار ہو گے زندگی بے چین ہو جاۓ گی
_______________________________________________________
الله پاک سے دعا ہے ، میرے والد محترم کو ہر تنگی ، ہر تکلیف ، ہر بیماری سے محفوظ رکھ ، آمین ،
جنہوں نے ہمارے لیے تمام عمر مشقت کی ، ہماری بہترین پرورش کی ، ہمیں ان کی خدمت کا بہت سا وقت عطا ہو ،
حق ادا کرنے کی توفیق ملے ، اف تک کہنے کا امکان نا ہو ، والدین کی ہمارے لیے ہر دعا قبول ہو ، (آمین)

- Featured Thumbs
- http://dawah.ws/bg/Dawah-Bg-1255561013.jpg