
سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کیخلاف عمران خان کی درخواست پر سماعت ہوئی۔ سپریم کورٹ نے نیب ترامیم پر نیب سے تحریری جواب طلب کر لیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ نیب قانون میں بہت ساری ترامیم کی گئی ہیں، نیب قانون میں کی گئی ترامیم اچھی بھی ہیں۔
وکیل پی ٹی آئی خواجہ حارث نے کہا کہ موجودہ ترامیم آئینی مینڈیٹ کی خلاف ورزی ہے، عدالت آئینی ترمیم کو بنیادی آئینی ڈھانچے سے متصادم ہونے پر کالعدم کرسکتی ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے پوچھا کہ آزاد عدلیہ آئین کے بنیادی ڈھانچہ میں شامل ہے، نیب ترامیم سے عدلیہ کا کونسا اختیار کم کیا گیا؟
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آپ کا موقف ہے نیب ترامیم سے احتساب کے اختیارات کو کم کردیا گیا، کیا احتساب پارلیمانی جمہوریت کا حصہ ہے۔ خواجہ حارث نے جواب دیا کہ گڈ گورننس کیلئے احتساب ضروری ہے، احتساب کے بغیر گڈ گورننس کا تصور نہیں ہو سکتا، نیب ترامیم سے زیر التواء مقدمات غیر موثر ہوگئے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ آپ کچھ ترامیم کو ایک سطح تک لانے کا کہہ رہے ہیں ، کل حکومت نیب کو ہی ختم کردے تو کیا آپ نیب بنوانے کیلئے آئیں گے؟خواجہ حارث نے کہا کہ نیب ترامیم سے اختیارات کے ناجائز استعمال اور آمدن سے زائد اثاثوں کے کیسز ختم ہوچکے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کیا آمدن سے زائد اثاثوں کا کیس احتساب کیلئے ضروری ہے، چھوٹی چھوٹی ہاؤسنگ سوسائٹیز میں لوگ ایک دو پلاٹوں کے کیس میں گرفتار ہوئے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ کوئی منصوبہ ناکام ہونے پر مجاز سرکاری افسران گرفتار ہوجاتے تھے، گرفتاریاں ہوتی رہیں تو کونسا افسر ملک کیلئے کوئی فیصلہ کرے گا، نیب ترامیم سے کوئی جرم بھی ختم نہیں ہوا اور فیصلہ سازی پر بھی گرفتاری نہیں ہو سکتی۔
- Featured Thumbs
- https://www.siasat.pk/data/files/s3/2nablawsupremecourt.jpg