ایسا لگتا ہے برطانیہ کے پناہ گزینوں اور کرپٹ سیاستدانوں الگ الگ قوانین ہیں: ایگزیکٹو ڈائریکٹر سپاٹ لائٹ آن کرپشن
برطانیہ میں کرپشن کے خلاف کام کرنے والی خیراتی تنظیم سپاٹ لائٹ آن کرپشن کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر سوزن ہالے نے بین الاقوامی اشاعتی ادارے گارڈین کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ قائد مسلم لیگ ن نوازشریف پاکستان سے برطانیہ میں منتقل ہو کر انصاف سے بچ گئے۔ نوازشریف کے لندن میں رہائش پذیر ہونے سے برطانیہ کی حکومت پر سوال اٹھتے ہیں، جو آئندہ امیگریشن سکینڈل کا باعث بن سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ حقیقت یہی ہے کہ نوازشریف برطانیہ میں آکر پاکستان کے انصاف سے بچنے میں کامیاب رہے ہیں۔ نوازشریف کا لندن میں آکر پاکستان میں اپنا کاروبار چلانا اور سیاسی سرگرمیاں جاری رکھنا ہی اصل میں امیگریشن سکینڈل ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ برطانیہ کی حکومت پناہ گزینوں اور کرپٹ سیاستدانوں کے لیے الگ الگ قوانین پر عمل کر رہی ہے۔
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل برطانیہ سے تعلق رکھنے والے بین کاﺅڈاک نے گارڈین سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ بہت سے دیگر ممالک کی طرح پاکستان کی سیاسی اشرافیہ کیلئے بھی برطانیہ جنت کی شکل اختیا رکرتا جا رہا ہے۔ سب سے ضروری بات یہ ہے کہ بدعنوان سیاستدانوں کی اپنے ممالک کی عوام سے لوٹی دولت کیلئے یہاں کی پراپرٹی مارکیٹ محفوظ ڈیپازٹ باکس کے طور پر کام نہ کرے۔
بین کاﺅڈاک کا کہنا تھا کہ برطانیہ کے قانون نافذ کرنے والوں اداروں کو یہ تاثر زائل کرنا چاہیے کہ وہ بدعنوانی سے لوٹے گئے پیسوں کے خلاف نہیں ہے۔ گارڈین کے مضمون میں نوازشریف کی رہائشگاہ ایون فیلڈ اپارٹمنٹس کا بھی تذکر ہ کیا گیا ہے۔ 4 اپارٹمنٹس مل کر ایک بن گئے جس کی وجہ سے پانامہ پیپرز میں بھی شریف خاندان کا ذکر آیا اور انہیں وزیراعظم کے عہدے سے برطرف کر دیا گیا۔
شریف خاندان کی طرف سے گارڈین کے مضمون پر کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا، صرف یہ کہا گیا ہے کہ اس معاملے پر ان کی سمجھ ”حقائق کی غلط فہمی“ کی بنیاد پر مبنی تھی۔ برطانیہ میں صرف نوازشریف خاندان کی جائیدادیں ہی نہیں ہیں جو پاکستانی شہریوں کی ملکیت ہیں جس کی وجہ سے کرپشن کیخلاف کام کرنے والی تنظیموں نے لندن میں چھپائی ہوئی دولت سے برطانیہ کے نپٹنے کے طریقوں پر سوالات اٹھائے ہیں۔
گارڈین کے مضمون میں پاکستانی پراپرٹی ٹائیکون ملک ریاض کی ملکیت ہائیڈپارک پلس اپارٹمنٹ کا بھی تذکرہ ہے جس پر ان کا این سی اے سے تصفیہ ہوا اور عمران خان مبینہ طور پر 190 ملین پاﺅنڈ کے مقدمہ میں ملوث پائے گئے ہیں۔ سوزن ہالے کا کہنا تھا کہ این سی اے ا کا ملک ریاض سے خفیہ شرائط پر تصفیہ ایجنسی کی کمزوری کو ظاہر کرتا ہے۔ این سی اے کو سوچنا ہو گا کہ ایسے معاملات میں تصفیہ کرنا درست ہے یا نہیں؟