
نائب امیر جماعت اسلامی بنگلہ دیش مولانا دلاور حسین سعیدی جیل میں انتقال کرگئے، مولانا دلاور حسین سعیدی کو جیل میں دل کا دورہ پڑا، ڈھاکا کے پی جی اسپتال منتقل کیا جہاں انتقال ہوگیا، قید میں المناک موت پر ہزاروں افراد سڑکوں پر نکل آئے اور شدید احتجاج کیا۔
اسپتال میں اُن کے انتقال کے بعد ہزاروں حامیوں نے ’اللہ اکبر‘ کے نعرے لگاتے ہوئے احتجاج کیا، مشتعل مظاہرین کا کہنا تھا کہ دلاور سعیدی کا رائیگاں نہیں جانے دیا جائے گا،اسپتال حکام کے مطابق دلاور سعیدی کو قاسم پورجیل میں دل کا دورہ پڑنے کے بعد اتوار13 اگست کو اسپتال میں داخل کیا گیا تھا،جماعت اسلامی بنگلہ دیش نے فیس بک پیج پر دلاورسعیدی کی موت کا اعلان کرتے ہوئے حکام پر الزام عائد کیا کہ دلاور سعیدی کو علاج سے محروم رکھ کر ’شہید‘ کیا گیا۔
جماعت اسلامی کے رہنما کو جنگی جرائم کے متنازع ٹریبیونل نے 2013 میں قتل، ریپ اور ہندوں کو ہراساں کرنے کے الزامات میں سزائے موت سُنائی تھی جس کے بعد ان کی جماعت کے ہزاروں کارکنوں کے ملک گیر احتجاج کے نتیجے میں 100 سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اس احتجاج کے بعد کریک ڈاؤن میں جماعت اسلامی کے لاکھوں کارکنوں اورحامیوں کو گرفتار کیا گیا تھا۔
سال 2014 میں سپریم کورٹ نے دلاور سعیدی کی سزا کو قید میں تبدیل کرکے انہیں بقیہ زندگی جیل میں رکھنے کا حکم دیا تھا۔ جماعت اسلامی کوکبڑی سیاسی قوت بنانے کا کریڈٹ دلاور سعیدی کے خطابات اور تبلیغ کو دیا جاتا ہے،علامہ دلاور سعیدی 71 کی جنگ کے موقع پرجامع علوم اسلامیہ کراچی میں زیرتعلیم تھے۔
بین الاقوامی شہرت یافتہ مفسر، متعدد کتابوں کے مصنف اور مشہور عالم دین تھے جبکہ ان کی مجالس میں لوگ بڑی تعداد میں شرکت کرتے تھے،مولانا دلاور حسین کو جون 2010 میں گرفتار کیا گیا تھا۔ بنگلہ دیش میں جنگی جرائم کے نام نہاد ٹربیونل نے مولانا دلاور حسین سیدی کو 2013 میں سزائے موت سنائی تھی۔ انہوں نے سزا کے خلاف درخواست دائر کی تھی تو عدالت عظمیٰ نے سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کر دیا تھا جس کے بعد سے وہ قید میں تھے۔
انسانی حقوق کی تنظیموں نے بنگلہ دیش کے جنگی جرائم ٹربیونل کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا تھا کہ یہ عدالت بین الاقوامی معیار پر پوری نہیں اتُرتی۔ یہ ٹریبیونل وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کا سیاسی آلہ کار بنا ہوا ہے جس کے ذریعے حکومت اپوزیشن جماعتوں بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی بی این پی اور جماعت اسلامی کو کچل رہی ہے۔
ہیومن رائٹس واچ نے بھی اسے سیاسی انتقامی کارروائی قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ وکلاء صفائی، گواہان اور تفتیش کاروں کو دباؤ میں لایا گیا اور دھمکیاں دی گئیں،وہ سال 1996 سے 2008 تک تین مرتبہ جیت کر بنگلہ دیش کی پارلیمنٹ کے رکن بھی رہے۔ وہ ورلڈ علماء کونسل کے بھی ممبر تھے ان کے شاگردوں کی تعداد بھی ہزاروں میں ہے۔
- Featured Thumbs
- https://www.siasat.pk/data/files/s3/bangladesh-ji- pro.jpg