moazzamniaz
Chief Minister (5k+ posts)
میچ نہیں ہماری شامت آئی
نعیمہ احمد مہجور | 2011-03-27 ،12:10
جب بھارت اور پاکستان کی کرکٹ ٹیمیں ایک دوسرے کے مد مقابل ہوتی ہیں تو کشمیر میں صورت حال برصغیر سے ہمیشہ مختلف ہوتی ہے۔ میچ کے دوران سڑکوں گلیوں اور گھروں کے اندر اتنی کشیدگی ہوتی ہے کہ آپ بار بار کھڑکی کی جانب دیکھنے پر مجبور ہوتے ہیں کہ کہیں سیکورٹی والے تو نہیں آئے (یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ سیکورٹی والے کیوں آتے ہیں)۔
انیس سو ستاسی میں بھارت پاکستان کے درمیان خاصی کشیدگی تھی البتہ کشمیر میں ابھی مسلح تحریک کا آغاز نہیں ہوا تھا۔ مجال ہے کہ اُس وقت بھی آپ کمنٹری کے دوران پاکستانی کھلاڑیوں کے چھکے یا چوکے پر سیٹی بجائیں (بھارتی کھلاڑیوں کی داد دینے پر پابندی نہیں تھی ) کیونکہ حکومت یا ان کے اہلکاروں کو پاکستان سے چِڑ تھی جس کے باعث ہر گلی، نکڑ اور چوراہے پر پولیس تعینات ہوتی، اس کے باوجود ڈاؤن ٹاؤن میں نصف شب کو پٹاخے سنائی دیتے اور ہم نیند میں ہی مسُکرادیتے۔
بعض کشمیری جنہیں کرکٹ کا جنون تھا گراؤنڈ میں میچ دیکھنا چاہتے تھے مگر'کشمیری لیبل' بھارت پاکستان کے لئے چونکہ نیک شُگن نہیں لہذا ریڈیو کمنٹری پر ہی اکتفا کرنا پڑتا اور پولیس کی موجودگی میں بیچارے داد بھی نہیں دے پاتے۔
پھر جب جنرل مشرف دلی میچ دیکھنے آئے اُس وقت کشمیر خون خرابے کے ایک لمبے دور سے گزر رہا تھا۔ بیشتر کشمیری طلبا بھارتی دانش گاہوں میں تعلیم حاصل کر نے لگے تھے، اُن میں یہ اُمید ابھری تھی کہ بھارتیوں کے ساتھ انٹیگریٹ ہوکر' کشمیری لیبل' سے چھُٹکارا مل گیا ہوگا اور انہیں بھی راجیو گاندھی اور جنرل مشرف کے ساتھ میچ دیکھنے کا موقعہ دیا جائے گا۔ دلی میں پانچ چھ سال گزارنے کے باوجود 'کشمیری لیبل' بدستور قائم تھی بلکہ اتنی گہری ہوگئی تھی کہ وہ ہر وقت بھارتی پولیس کی نگرانی میں رہتے تھے گوکہ انہیں اس کا کوئی علم نہیں تھا۔
کرکٹ دیکھنے کا موقعہ تو نہیں ملا مگر بعض طلبا نے کامن ویلتھ گیمز دیکھنے کا پروگرام بنایا۔ گیمز شروع ہونے سے پہلے ہی اُن کو گاڑی میں بٹھا کر دلی سے باہر کر دیا گیا کیونکہ وہ 'سیکورٹی کے لئے خطرہ' تھے۔
اب من موہن سنگھ اور گیلانی مل کر میچ دیکھیں گے مگر موپالی سے تقریباً پانچ سو کلو میٹر دور وادی میں موت کا سماں ہوگا کیونکہ سیکورٹی کی موجودگی میں آپ اُف بھی نیں کر سکتے گوکہ رات کے دوران دو طرح کے پٹاخے ضرور سنائی دیں گے۔ اگر پاکستان نے میچ جیتا تو پاکستان نواز اور آزادی نواز دونوں کشمیری چھتوں پر سیکورٹی کو چکمہ دیکر ضرور خوشی کا مظاہرہ کریں گے (کرکٹ کے وقت سبھی پاکستان نواز بن جاتے ہیں) اور اگر بھا رت نے بازی جیت لی تو سیکورٹی والے بنکروں اور کمیپوں میں پٹاخے چھوڑ کر اپنی خوشی کا اظہار کریں گے۔
ایسے وقت جب دونوں ملک کے درمیان کشیدگی بڑھتی ہی جارہی ہے اگر اُن کے حکمرانوں کے ایک دوسرے کے بغل میں بیٹھ کر میچ کا مزا لینے سے برصغیر کے کروڑوں عوام کو کچھ دن سکون سے رہنے کا موقعہ ملے گا تو اس کو ضرور سراہنا چاہے البتہ اس پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ دونوں ملکوں کی سیاست کے نیچے دبی تقریباً اسی لاکھ کی آبادی مسلسل گھبراہٹ، تشدد اور بمباری کی ذد میں پچھلے ساٹھ برسوں سے ایک ایک پل گِن گِن کرگزار رہی ہے۔اُس پر ستم یہ کہ ذہنی عتاب کا شکار آبادی سے میچ دیکھنے کا حق بھی چھین لیا جاتا ہے۔
نعیمہ احمد مہجور | 2011-03-27 ،12:10
جب بھارت اور پاکستان کی کرکٹ ٹیمیں ایک دوسرے کے مد مقابل ہوتی ہیں تو کشمیر میں صورت حال برصغیر سے ہمیشہ مختلف ہوتی ہے۔ میچ کے دوران سڑکوں گلیوں اور گھروں کے اندر اتنی کشیدگی ہوتی ہے کہ آپ بار بار کھڑکی کی جانب دیکھنے پر مجبور ہوتے ہیں کہ کہیں سیکورٹی والے تو نہیں آئے (یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ سیکورٹی والے کیوں آتے ہیں)۔
انیس سو ستاسی میں بھارت پاکستان کے درمیان خاصی کشیدگی تھی البتہ کشمیر میں ابھی مسلح تحریک کا آغاز نہیں ہوا تھا۔ مجال ہے کہ اُس وقت بھی آپ کمنٹری کے دوران پاکستانی کھلاڑیوں کے چھکے یا چوکے پر سیٹی بجائیں (بھارتی کھلاڑیوں کی داد دینے پر پابندی نہیں تھی ) کیونکہ حکومت یا ان کے اہلکاروں کو پاکستان سے چِڑ تھی جس کے باعث ہر گلی، نکڑ اور چوراہے پر پولیس تعینات ہوتی، اس کے باوجود ڈاؤن ٹاؤن میں نصف شب کو پٹاخے سنائی دیتے اور ہم نیند میں ہی مسُکرادیتے۔
بعض کشمیری جنہیں کرکٹ کا جنون تھا گراؤنڈ میں میچ دیکھنا چاہتے تھے مگر'کشمیری لیبل' بھارت پاکستان کے لئے چونکہ نیک شُگن نہیں لہذا ریڈیو کمنٹری پر ہی اکتفا کرنا پڑتا اور پولیس کی موجودگی میں بیچارے داد بھی نہیں دے پاتے۔
پھر جب جنرل مشرف دلی میچ دیکھنے آئے اُس وقت کشمیر خون خرابے کے ایک لمبے دور سے گزر رہا تھا۔ بیشتر کشمیری طلبا بھارتی دانش گاہوں میں تعلیم حاصل کر نے لگے تھے، اُن میں یہ اُمید ابھری تھی کہ بھارتیوں کے ساتھ انٹیگریٹ ہوکر' کشمیری لیبل' سے چھُٹکارا مل گیا ہوگا اور انہیں بھی راجیو گاندھی اور جنرل مشرف کے ساتھ میچ دیکھنے کا موقعہ دیا جائے گا۔ دلی میں پانچ چھ سال گزارنے کے باوجود 'کشمیری لیبل' بدستور قائم تھی بلکہ اتنی گہری ہوگئی تھی کہ وہ ہر وقت بھارتی پولیس کی نگرانی میں رہتے تھے گوکہ انہیں اس کا کوئی علم نہیں تھا۔
کرکٹ دیکھنے کا موقعہ تو نہیں ملا مگر بعض طلبا نے کامن ویلتھ گیمز دیکھنے کا پروگرام بنایا۔ گیمز شروع ہونے سے پہلے ہی اُن کو گاڑی میں بٹھا کر دلی سے باہر کر دیا گیا کیونکہ وہ 'سیکورٹی کے لئے خطرہ' تھے۔
اب من موہن سنگھ اور گیلانی مل کر میچ دیکھیں گے مگر موپالی سے تقریباً پانچ سو کلو میٹر دور وادی میں موت کا سماں ہوگا کیونکہ سیکورٹی کی موجودگی میں آپ اُف بھی نیں کر سکتے گوکہ رات کے دوران دو طرح کے پٹاخے ضرور سنائی دیں گے۔ اگر پاکستان نے میچ جیتا تو پاکستان نواز اور آزادی نواز دونوں کشمیری چھتوں پر سیکورٹی کو چکمہ دیکر ضرور خوشی کا مظاہرہ کریں گے (کرکٹ کے وقت سبھی پاکستان نواز بن جاتے ہیں) اور اگر بھا رت نے بازی جیت لی تو سیکورٹی والے بنکروں اور کمیپوں میں پٹاخے چھوڑ کر اپنی خوشی کا اظہار کریں گے۔
ایسے وقت جب دونوں ملک کے درمیان کشیدگی بڑھتی ہی جارہی ہے اگر اُن کے حکمرانوں کے ایک دوسرے کے بغل میں بیٹھ کر میچ کا مزا لینے سے برصغیر کے کروڑوں عوام کو کچھ دن سکون سے رہنے کا موقعہ ملے گا تو اس کو ضرور سراہنا چاہے البتہ اس پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ دونوں ملکوں کی سیاست کے نیچے دبی تقریباً اسی لاکھ کی آبادی مسلسل گھبراہٹ، تشدد اور بمباری کی ذد میں پچھلے ساٹھ برسوں سے ایک ایک پل گِن گِن کرگزار رہی ہے۔اُس پر ستم یہ کہ ذہنی عتاب کا شکار آبادی سے میچ دیکھنے کا حق بھی چھین لیا جاتا ہے۔
Last edited: