Zain Itrat
Minister (2k+ posts)
امام زین العابدین کی شان میں فرزدؔ ق تمیمی کا قصیدۂ میمیہ - ایک تحقیقی مطالعہ
اموی خلیفہ عبدالملک بن مروان کا دور حکومت ہے، حج کے موسم میںہزاروں بندگان خدا حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کرنے کے لیے دُور دُور سے کھنچے چلے آرہے ہیں،صحن کعبہ میں ازدحام کا یہ عالم ہے کہ تل دھرنے کو جگہ نہیں ہے ۔اس حج کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ اس سال خلیفۃ المسلمین کا بیٹا اور ولی عہد ہشام بن عبدالملک بھی ملک شام سے سفر کرکے حج بیت اللہ کے لیے آیا ہے ، اس کے ساتھ اراکین سلطنت اور اعیان مملکت کے علاوہ اس کے بہت سے شامی دوست بھی ہیں ۔اس حج میں عہد اموی کا مشہور شاعرابو فراس ہمام بن غالب فرزدق ؔ تمیمی بھی ہے ۔
ہشام بن عبدالملک حجر اسود کا بوسہ لینے کے لیے آگے بڑھا ،شاید اس کے ذہن میں یہ بات ہو کہ ولی عہدی، دنیاوی کروفر اور شان وشوکت دیکھ کر لوگ اس کے سامنے سے ہٹ جائیں گے اوروہ بہ آسانی حجر اسود کا بوسہ لے لے گا ۔لیکن لوگوں نے ہشام اور اس کے لاؤ لشکر کو کوئی اہمیت ہی نہیں دی ، کچھ دیر بھیڑ میں دھکے کھانے کے بعد ہشام نے حجر اسود کو بوسہ دینے کا ارادہ ترک کیا اور مطاف کے ایک کنارے پر آکر کھڑا ہوگیا۔
اسی درمیان گلستان نبوت کے گل سرسبد ،خانوادہ ٔ شیر خدا کے چشم وچراغ ،خاتون جنت کے لخت جگر اور امام عالی مقام کے صاحبزادے امام زین العابدین علی بن حسین ( رضی اللہ تعالیٰ عنہم )صحن کعبہ میں داخل ہوئے ، جیسے ہی لوگوں کی نظر امام زین العابدین کے چہرہ ٔ انور پر پڑی بھیڑ کائی کی طرح پھٹ گئی، آپ پورے اطمنان کے ساتھ حجر اسود کے پاس پہنچے اور اس کو بوسہ دے کر طواف کا آغاز کیا ، دوران طواف آپ جس طرف سے بھی گزرتے لوگ ادب واحترام سے ایک طرف ہٹ جاتے، ہشام کے ساتھ جو لوگ شام سے آئے تھے ان کے لیے یہ بڑا حیرت انگیز نظارہ تھا کیوں کہ وہ کچھ دیر پہلے مملکت بنو امیہ کے ولی عہد کی قدر ومنزلت دیکھ ہی چکے تھے۔ انہیں میں سے کسی شخص نے ہشام سے پوچھا کہ ’’ یہ کون ہے ؟‘‘ ۔
ہشام امام زین العابدین کو خوب اچھی طرح جانتاپہچانتا تھا، مگر وہ پہلے ہی ان شامیوں کے سامنے خفت محسوس کررہا تھااس نے سوچا کہ اگر ان نوجوان کے بارے میں ان کو بتاؤں تو کہیں یہ شامی انہیں کی طرف مائل نہ ہوجائیں، یہ سوچ کر اس نے تجاہل عارفانہ برتتے ہوئے یک گونہ اہانت آمیز لہجے میں جواب دیا کہ ’’ میں نہیں جانتا یہ کون ہے ‘‘ ۔
ابو فراس فرزدق ؔ قریب ہی کھڑا ہوا تھا ، اس کو اہل بیت نبوت کے اس گل ِ سرسبد کی یہ اہانت برداشت نہیں ہوئی، اس کی اسلامی غیرت بیدار ہوئی اور وہ شامی کی طرف متوجہ ہوکر بولا کہ مَیں ان کو جانتا ہوں،مجھ سے پوچھو یہ نوجوان کون ہے ؟شامی نے کہا کہ بتائو یہ کون ہیں؟فرزدق نے امام زین العابدین کی شان میںفی البدیہ ایک فصیح وبلیغ قصیدہ نظم کرکے برجستہ سنا دیا ۔اس نے کہا کہ:
(ترجمہ اشعار)
یہ وہ مقدس شخصیت ہے کہ جس کے نقش قدم کو وادیٔ بطحا (یعنی مکہ مکرمہ ) پہچانتی ہے ، اور بیت اللہ ( یعنی کعبہ ) اور حل وحرم سب ان کو جانتے پہچانتے ہیں۔
یہ تو اس ذات گرامی کے لخت جگر ہیں جو اللہ کے تمام بندوں میں سب سے بہتر ہیں ( یعنی حضور اکرم ﷺ ) یہ پرہیز گار، تقویٰ والے، پاکیزہ ، صاف ستھرے اور قوم ( قریش )کے سردار ہیں ۔
جب ان کو قبیلہ ٔ قریش کے لوگ دیکھتے ہیں تو ان کو دیکھ کر کہنے والا یہی کہتاہے کہ ان کی بزرگی وجواں مردی پر بزرگی وجواں مردی ختم ہے ۔
تمہارا یہ کہنا کہ ’’ یہ کون ہیں ؟ ‘‘ان کو کوئی نقصان نہیں پہنچاتا ،جس ذات گرامی ( کو پہچاننے) سے توانکار کررہاہے ان کو تو عرب وعجم سب جانتے ہیں۔
یہ خاتون جنت حضرت فاطمہ زہرا ( رضی اللہ تعالیٰ عنہا ) کے لخت جگر ہیں، اگر تو ان کو نہیں جانتا ( تو سن لے کہ ) ان کے محترم نانا ( حضور اکرم ﷺ ) پرانبیائے کرام کے سلسلے کا اختتام ہواہے ۔
فی البدیہ اور برجستہ ہونے کے باوجود یہ قصیدہ نہ صرف یہ کہ زبان وبیان کی رو سے نہایت اعلیٰ پیمانے کا تھا بلکہ اس میں امام زین العابدین کے خاندانی اور ذاتی تمام فضائل وکمالات بڑی عمدگی اور فنکارانہ مہارت سے نظم کردیے گئے تھے ۔اس لیے یہ قصیدہ محبان اہل بیت اور ارباب شعروادب دونوں کے یہاں معروف ومقبول رہا۔ زیر نظر مضمون میں ہم اسی تاریخی اہمیت کے قصیدے کا عربی متن ، سلیس اردو ترجمہ اور اس کے متعلق بعض بنیادی اور کچھ ضمنی باتیں پیش کررہے ہیں۔
زین السجادامام زین العابدین علی بن حسین
آپ سید الشہدا امام حسین بن علی کے شہزادے اورحضرت علی مرتضیٰ وخاتون جنت کے پوتے ہیں، آپ کی والدہ کا نام سلامہ یا سلافہ یا غزالہ ہے ۔ آپ کی ولادت لگ بھگ ۳۸ھ میں ہوئی، معرکہ کربلا میں آپ اپنے والد امام عالی مقام کے ساتھ تھے،لیکن سخت علیل ہونے کے باعث معرکے میں شریک نہیں ہوسکے، جنگ کے خاتمے کے بعد قافلہ اہل بیت کے ساتھ دمشق لے جائے گئے وہاں سے مدینہ منورہ تشریف لائے۔
خاندانی نجابت وشرافت کے ساتھ ساتھ ذاتی اوصاف وکمالات کی بنیاد پرمعاصرین میں نمایاںشرف وفضیلت رکھتے تھے ،زہد وتقویٰ، جود وسخا، تواضع وانکساری اورغربا پروری میں ضرب المثل ہیں۔ شب بیداری اور عبادت گزاری میں ایسے ممتاز ہوئے کہ زین العابدین کے لقب سے یاد کیے گئے ۔
ابو فراس ہمام بن غالب فر زدؔق تمیمی
فَرَزْدَقْ ( وفات: ۱۱۰ھ ) عہد بنو امیہ کا ایک قد آور شاعر ہے،بصرہ میں پیدا ہوا او ر یہیں نشو ونما ہوئی، ہم عصر اموی شاعر جریر ؔ سے اس کی خوب شعری معرکہ آرائیاںہوئیں جن کے قصے اور اشعار آج بھی شائقین ادب کے لیے دلچسپی کا موضوع ہیں۔
فرزدق ؔ نے اپنی شاعری میں انداز بیان اور اسلوب میں جدتیں دکھائیں،خاندانی فخرو مباہات کی غلو آمیز مثالیں اس کے کلام میں نمایاں ہیں، ایام عرب کے قصے اور قدیم جاہلیت کے تصورات کے احیا میںاس نے بڑا زور صرف کیا (۵ )۔
ا س کی شاعری کے اسی پہلو کے مد نظرماہرین ادب کا یہ قول مشہور ہے کہ ’’ اگر فرزدق ؔ کی شاعری نہ ہوتی تو عربی زبان کا تہائی حصہ تلف ہوجاتا ‘‘ (۶ )۔
فرزدق ؔ کے اخلاق وکرداراور عادات واطوار کے بارے میں تقریباً سبھی مؤرخین کا اتفاق ہے ہے کہ’’ وہ ایک بر ا شخص تھا ،اس کے اخلاق گھٹیا تھے، فسق وفجور کا عادی اور عیاشی کا دلدادہ تھا‘‘ ( ۷ )۔
آدمی عملی طور پر کتنا ہی برا کیوں نہ ہو مگر کبھی کبھی اس کے اندر ایمانی اور اسلامی حمیت ضرور بیدار ہوہی جاتی ہے ،صحن کعبہ کا مذکورہ واقعہ اسی ذیل میں آتا ہے ۔
فرزدق کی قید وبند اور امام کی سخاوت
تذکرہ نگاروں نے لکھاہے کہ جب فرزدق کا یہ مدحیہ قصیدہ ہشام نے سنا تو بہت ناراض ہوا اور اس قصیدے کی پاداش میں فرزدق کو قیدخانے میں ڈلوادیا۔ جب امام زین العابدین کو خبر ہوئی کہ ہشام نے فرزدق کو قید کروادیا ہے اور اس کا جرم صرف یہ ہے کہ اس نے آپ کی مدح میں قصیدہ نظم کیا تھا ، اس سے آپ کا دریائے سخاوت جوش میں آیا اور آپ نے بطور انعام ایک خطیر رقم فرزدق کو بھجوائی، مگر فرزدق نے یہ کہہ کر وہ انعام لینے سے انکارکردیا کہ میں نے وہ قصیدہ محض اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے نظم کیا تھا اس کے ذریعے دنیاوی مال ودولت کمانا مقصود نہیں تھا ، لیکن امام زین العابدین نے ارشاد فرمایا کہ ہم خاندان اہل بیت سے تعلق رکھتے ہیں ہمارا طریقہ یہ ہے کہ جب کوئی چیز کسی کو عطا کردیتے ہیں تو واپس نہیں لیتے ۔ بالآ خر فرزدق نے آپ کے اس انعام کو قبول کرلیا ۔
قصیدہ ٔ میمیہ باعث نجات اور ذخیرہ ٔ آخرت
امام زین العابدین کے تحفے کے جواب میںفرزدؔ ق نے جو بات کہی اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس نے یہ قصیدہ محض دینی اور اسلامی حمیت کے باعث نظم کیا تھا ، اس قصیدے کو فی البدیہ نظم کرنے کے
پیچھے کوئی دنیاوی غرض یا لالچ نہیں تھی۔ اسی لیے بعض اہل علم اور صاحبان دل نے فرمایا ہے کہ اسی قصیدے کی وجہ سے فرزدق ؔ کی نجات ومغفرت کی امید کی جاسکتی ہے ۔
وفیات الاعیان میںعلامہ ابن خلکان(وفات : ۶۸۱ھ ) لکھتے ہیں:
وتنسب الیہ مکرمۃ یرجی لہ بہا الجنۃ (۹ )
ترجمہ : فرزدؔق کی جانب ایک ایسا کارنامہ منسوب ہے جس کی بدولت اس کے لیے جنت کی امید کی جاتی ہے ۔
تقریباً یہی بات مرآۃ الجنان میںامام یافعی( وفات : ۷۶۸ھ ) نے بھی لکھی ہے :
وتنسب الی الفرزدق مکرمۃ یرتجی لہ بہا الرحمۃ فی دارالآخرۃ( ۱۰)
ترجمہ : فرزدؔق کی جانب ایک ایسا کارنامہ منسوب ہے جس کے ذریعے آخرت میں اس کے لیے رحمت کی امید کی جاتی ہے ۔
شیخ محقق حضرت عبدالحق محدث دہلوی اس قصیدے کے بارے میں فرماتے ہیں کہ:
’’ امید ہے کہ پروردگار تعالیٰ آخرت میں فرزدقؔ کی اسی قصیدے کی بنیاد پر بخشش فرمادے گا‘‘(۱۱ )۔
پھر حضرت شیخ نے شیخ الحرمین ابو عبداللہ قرطبی سے منسوب ایک قول بھی نقل کیا ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ:
’’ اگر اللہ کے یہاں ابو فراس کا اس قصیدے کے علاوہ کوئی اور عمل نہ بھی ہو تو یہی اس کی مغفرت کے لیے کافی ہوگا کیوں کہ یہ سلطان جابر کے روبرو اعلائے کلمۃ الحق ہے‘‘ (۱۲ )۔
شاعر فرزدق نے جو قصیدہ امام زین العابدین ع کی شان میں حرم مکی میں پڑھا تھا ، اس کو کویت کے عالم ، قاری قرآن اور مبلغ شیخ مشاری راشد العناسی نے اپنی خوبصورت آواز میں پڑھا ہے ۔
اہل علم او ر صاحبان دل کے ان اقوال کو دیکھ کر یہ گناہ گار راقم الحروف بھی اس قصیدے کے ترجمہ کرنے اور اس کی نشرو اشاعت کرنے کے صلے میں رسول وآل رسول سے شفاعت اور اللہ تعالیٰ سے رحمت ومغفرت کا امید وار ہے ۔
سورس
- Featured Thumbs
- https://i.imgur.com/Iq7rBot.jpg
Last edited by a moderator: