jigrot
Minister (2k+ posts)
"نصیحت کافی نہیں، تیاری فرض ہے"
محترم مولانا طارق جمیل صاحب
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔
آپ برسوں سے اس قوم کے دلوں میں بستے ہیں۔ آپ کی نرم طبعیت، خلوصِ نیت اور محبت سے بھرپور دعوتِ دین نے لاکھوں لوگوں کو اللہ کی طرف مائل کیا۔ ایک بدزبان معاشرے کو نرم مزاجی سکھائی، اور گناہ گاروں کو توبہ کا راستہ دکھایا۔ لیکن، مولانا صاحب، حالیہ واقعات میں جب آپ کو ایک مذہبی ادارے سے روکا گیا یہ صرف آپ کی شخصیت کا نہیں، پورے مذہبی طبقے کی عملی کمزوری کا آئینہ ہیں۔
یہ معاملہ صرف آپ کا نہیں، تقریباً پورے مذہبی طبقے کا ہے۔ ہمارے اکثر علما، واعظین، اور خطباء منبر پر گھنٹوں نصیحت کرتے ہیں، مگر قرآن جس عملی تیاری، اجتماعی بصیرت، اور قوتِ تحفظ کا حکم دیتا ہے، وہ ہمارے دینی حلقوں کی ترجیح نہیں بن سکی۔
اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے
"وَأَعِدُّوا لَهُم مَّا اسْتَطَعْتُم مِّن قُوَّةٍ..."
(سورۃ الانفال، آیت 60)
ترجمہ: "اور ان کے (دشمنوں) مقابلے کے لیے جو قوت تم سے بن پڑے، وہ تیار رکھو۔"
یہ آیت صرف جنگی حالات کے لیے نہیں، بلکہ ہر وہ صورت حال شامل ہے جہاں دین، دین داروں، یا دین کی دعوت کو خطرہ لاحق ہو۔ اس میں فکری تیاری، تنظیم سازی، ابلاغی حکمتِ عملی، اور نظامی منصوبہ بندی سب شامل ہیں۔ مگر ہمارے علما نے دین کو صرف خطاب و نصیحت تک محدود کر دیا — جیسے اگر زبان سے بات کہہ دی گئی تو فرض پورا ہو گیا۔
قرآن ہمیں صرف یہ نہیں کہتا کہ "سمجھاؤ" بلکہ یہ بھی فرماتا ہے
"وَقِفُوهُمْ ۖ إِنَّهُم مَّسْئُولُونَ"
(سورۃ الصافات، آیت 24)
ترجمہ: "انہیں روکے رکھو، یقیناً ان سے سوال کیا جائے گا۔"
اللہ ہم سب سے پوچھے گا
"جب تم جانتے تھے کہ باطل طاقتور ہے، تو تم نے ایمان والوں کو طاقتور بنانے کے لیے کیا منصوبہ بنایا؟ کیا نظام تیار کیا؟"
مولانا صاحب، ہمیں اپنی قوم کو صرف رُلانے سے زیادہ کچھ دینا ہے۔ ہمیں انہیں رُلانے کے بعد اٹھنے، منظم ہونے، اور حالات کا مقابلہ کرنے کی تربیت دینی ہے۔ یہی پیغام انبیا نے دیا، یہی سنت رسول ﷺ ہے۔ اگر نبی اکرم ﷺ صرف نرمی کرتے، تو مدینہ میں ریاست نہ بنتی، بدر و احد میں لشکر نہ اُترتے، اور دنیا کبھی اسلام کے نظام سے نہ آشنا ہوتی۔
آج جب آپ کو روکا گیا، تو لاکھوں دل افسردہ ضرور ہوئے، مگر قوم کھڑی نہ ہو سکی — کیونکہ انہیں صرف سنایا گیا، تیار نہیں کیا گیا۔
خلاصہ
ہمارے علما کے خطبات ایمان جگاتے ہیں، مگر عملی قیادت کا فقدان، نظریاتی تربیت کا خلا، اور اجتماعی قوت کی تیاری نہ ہونے کے برابر ہے۔
اب وقت آ گیا ہے کہ آپ جیسے بااثر علما صرف بیان پر قناعت نہ کریں۔ نئی نسل کو منظم کریں، ان کی ذہنی و فکری تربیت کریں، اور دین کی حفاظت کے لیے ایک باوقار، منظم، اور صاحبِ حکمت قوت تیار کریں۔
محبت ہو، مگر بصیرت کے ساتھ۔
دعا ہو، مگر تدبیر کے ساتھ۔
تبلیغ ہو، مگر تعمیر کے ساتھ۔
اللہ تعالیٰ آپ کو سلامت رکھے، بصیرت عطا فرمائے، اور آپ کی دعوت کو قوت و حکمت کے نئے راستے عطا کرے۔
والسلام
ایک فکری کارکن
جو دین کو منبر سے میدان تک دیکھنا چاہتا ہے۔