گذشتہ کچھ عرصے سے مختلف ذرائع سے موصول ہونے والی معلومات اور خبریں نا صرف مجھ سے وابستہ لوگوں کے لیے پریشان کن ہیں بلکہ اس لحاظ سے بھی تشویش ناک ہیں کہ ان خوفناک افواہوں کا اشارہ ہمارے قومی سلامتی کے معتبر اداروں کی جانب ہے۔ اس حوالے سے نہایت احترام کے ساتھ ڈی جی آئی ایس پی آر سے اپنے اور اپنی قوم کے خدشات دور کرنے کے لیے چند سوالات کرنے کی جسارت کررہا ہوں۔
امید ہے کہ ان کو ایک محب وطن پاکستانی کی جانب سے ایک مخلصانہ کوشش سمجھا جائیگا کہ جس سے ناصرف مجھ سے وابستہ لوگوں کی تشفی ہوگی اور ہماری نظروں میں آپ کا احترام بڑھے گا بلکہ ہمارے اداروں پر بے جا الزامات لگانے والوں کے منہ بھی بند ہونگے۔
پہلا سوال: اپریل میں ادارے سے قریب سمجھے جانے والے چند صحافیوں کی جانب سے ایسی ترویج کی گئی کہ پی ٹی آئ کے ایک رہنما کو دورانِ حراست زہر دیا جاسکتا ہے یا گولی مار دی جائیگی اور اس کا الزام اداروں پر لگایا جائیگا۔ انہی حلقوں کی جانب سے یہ بھی اشارہ دیا گیا کہ یہ رہنما راقم یعنی مراد سعید ہوسکتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ بہت بڑا انکشاف تھا اور ہمارے ادارے بلاشبہ ایسے معاملات کو نہایت سنجیدگی سے لیتے ہونگے، کیا اداروں نے ان صحافیوں کے الزامات کی تحقیقات کیں اور ان سے ان کے سورسز معلوم کیے؟ کیا اس حوالے سے کوئی اہم حقائق عوام کے ساتھ شئیر کیے جاسکتے ہیں؟
دوسرا سوال - یہ بیانیہ اس وقت جاری کیا گیا جب میں خطوط کے ذریعے صدر پاکستان اور دیگر اداروں کو خود کو لاحق خطرات سے آگاہ کرچکا تھا اور اپنی معلومات کی بنیاد پر ایک ویڈیو میں میں نے ایک افسر کا نام لیا تھا کہ جو مجھے قتل کرنے کی سازش کا مرکزی کردار ہے۔ کیا ان صحافیوں کی جانب سے کیے گئے انکشافات میرے خطوط میں درج میرے خدشات کی تصدیق نہیں کرتے؟ اور کیا ان صحافیوں کی ریاستی اداروں سے قربت اس تاثر کو فروغ نہیں دیتی کہ ریاست مجھے تحفظ مہیا کرنے کہ بجائے مجھے قتل کرنے کی سازش کے حوالے سے ایک متبادل بیانیے کو فروغ دے رہی ہے؟ کیا اس تاثر کو ذائل کرنے کے کیے ہمارے معتمد اداروں کی جانب سے کوئ شفاف تحقیقات کی جارہی ہیں یا کیے جانے کا امکان ہے؟
تیسرا سوال - کبل سی ٹی ڈی تھانے پر حملہ کہ بعد عوام کو امن کے لیے موبلائز کرنے کی پاداش میں مجھ پر غداری کے دفعات کے تحت متعدد پرچے درج کیے گئے۔ کیا ادارے کے علم میں یہ بات ہے یا چند افسر اپنے طور پر ایسے اقدامات کرکے ہمارے معتمد اداروں اور عوامی نمائندوں کے مابین خلیج قائم کرنا چاہتے ہیں؟
چوتھا سوال-کیا مجھے “زندہ یا مردہ” پکڑنے کا حکم ایک افسر کے ذاتی عناد کی بنیاد پر تھا (کیونکہ اسی افسر کی عمران خان پر قاتلانہ حملہ اور ارشد شریف کے قتل میں نامزدگی کی درخواست میڈیا کی زینت بن چکی ہے) یا ادارہ اس حکم کو endorse کرتا ہے؟ اگر یہ حکم ذاتی تھا، اور جس کا قوی امکان ہے، تو کیا ادارہ اس بات سے واقف ہے کہ مالاکنڈ لیویز کو یہ ٹاسک دے کر ناصرف تمام فورسز کے تعاون کی یقین دہانی کرائ گئی تھی بلکہ انہیں ہمارے سلامتی اداروں کےدفاتر میں سے ایک دفتر بلا کر باقاعدہ بریفنگ دی گئی تھی؟ کیا کوئی افسر اس بات کا مجاز ہے کہ وہ ذاتی حیثیت میں ایسی کاروائی عمل میں لائے؟
پانچواں سوال- آج کل ادارے کے چند افسران کے قریب اور ان کی خاص سمجھی جانے والی ایک شخصیت متعدد ٹی وی چینلز پر یہ بات دہرا چکے ہیں کہ میری جان اور مال کی ذمہ داری عمران خان پر ہوگی۔ کیا مجھ سمیت کسی بھی شہری کی جان و مال کی حفاظت کی ذمہ دار ریاست نہیں ہے؟ کیا وہ معلومات جن کی بنیاد پر یہ بیانیہ پھیلایا جارہا ہے، اس شخصیت کو ادارے کے ان افسران کی جانب سے مہیا کی گئی ہے؟ کیا سوات کے عوام کے نمائندے کی حیثیت سے میری سماجی حیثیت اور مجھے پہنچنے والے کسی نقصان کے نتیجے میں عوامی ردعمل کو مدنظر رکھتے ہوئے ان معلومات کی بنیاد پر کوئ ایسے اقدامات لیے گئے ہیں یا لیے جائنگے کہ جن سے حتی المقدور میری حفاظت یقینی بنائ جاسکے؟
چھٹا سوال- کیا ارشد شریف کے کیس کی پیروی کرنے پر مجھے ارشد شریف جیسے انجام/ ارشد شریف کے پاس بھیجنے کی دھمکی اور اس کا منصوبہ انہی افسران کا ہے جنہیں ارشد شریف کی والدہ اپنی ایف آئ آر میں نامزد کرنا چاہتی ہیں؟
ساتواں سوال- اسلام آباد میں میری رہائش گاہ پر بھیجے گئے اسلحہ بردار افراد کس کی ایما پر بھیجے گئے تھے کہ جن کو ناصرف اسلام آباد پولیس نے ریڈ زون سے فرار کا راستہ مہیا کیا بلکہ تھانہ آبپارہ کے ایس ایچ او کے مطابق ان پر اوپر سے پریشر ہے کہ اس واقعہ کی ایف آئی آر نہ درج کی جائے۔ کیا یہ پریشر وفاقی حکومت کی جانب سے تھا یا کسی ادارے کے افسر اس کی پشت پر تھے؟
آٹھواں سوال- پشاور امن مارچ کے موقع پر مجھے یہ دھمکی کس کی جانب سے پہنچائی گئی تھی کہ جیل یا قبر کا انتخاب کرلوں، جب کہ مارچ امن کے نام پر تھا جس کے حصول کے لیے ہمارے قومی سلامتی کے اداروں کی قربانیاں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں۔
نواں سوال- چند وی لاگرز کی جانب سے یہ بات متعدد مرتبہ دہرائ گئی کہ ادارہ ۹ مئی کے بعد مراد سعید کو چھوڑے گا نہیں۔ جب کہ میں ۱۸ مارچ کے بعد سے کسی سرگرمی کا حصہ نہیں رہا ہوں ناصرف یہ بلکہ ۱۸ مارچ کو جوڈیشل کمپلیکس میں عمران خان کی پیشی کے موقع پر میرے طرز عمل کے ویڈیو ثبوت موجود ہیں کہ میں نے عوام اور پولیس کے مابین ٹکراؤ کی صورتحال نہ بننے دینے کی ہر ممکن کوشش کی۔ کیا یہ جانتے ہوئے ادارہ ان بیانات اور ان پوسٹرز سے اظہار لاتعلقی کریگا جو ایک محب وطن شہری اور عوامی نمائندے کی تصویر کے ساتھ غدارِ وطن کہہ کر لگائے گئے؟
مجھے امید ہے کہ ہمارے معتمد ریاستی ادارے اور ڈی جی آئی ایس پی آر ، ریاست پاکستان کے ایک ذمہ دار اور محبِ وطن شہری جو گزشتہ ایک دہائی سے سوات کے ۸ لاکھ لوگوں کا نمائندہ بھی ہے، کے ان سوالات اور خدشات کے اظہار کو مثبت پیرائے میں لیتے ہوئے اسی خلوص سے ان کا جواب دیں گے جس تندہی اور جانفشانی سے وہ اس کی حفاظت کا فریضہ نبھاتے ہیں