مجھے جیل میں کچھ ہوا تو ذمہ دار آپ ہوں گے، یاسمین راشد کا جج سے مکالمہ

battery low

Minister (2k+ posts)
101231166dc384d.jpg


پاکستان تحریک انصاف کی سینئر رہنما ڈاکٹر یاسمین راشد نے 9 مئی کے پرتشدد واقعات سے متعلق اپنے خلاف درج مقدمات میں ضمانت کی درخواست پر سماعت کے دوران جج نے مکالمہ کیا ہے کہ مجھے اگر جیل میں کچھ ہوا تو ذمہ دار آپ ہوں گے، صرف میری نہیں، سب دوستوں کی ضمانتیں ہونی چاہییں۔

پی ٹی آئی کے سینئر رہنماؤں شاہ محمود قریشی، ڈاکٹر یاسمین راشد، عمر چیمہ، اعجاز چوہدری سمیت دیگر کے خلاف لاہور کے تھانہ شادمان میں 9 مئی 2023 کو جلاؤ گھیراؤ سمیت 5 مقدمات کی سماعت ہوئی۔

شاہ محمود قریشی دوران سماعت روسٹرم پر آئے اور قرآن مجید پر حلف لینے کی استدعا کی۔

انہوں نے کہا کہ عدالت میرا اور پراسکیوشن کا قرآن مجید پر حلف لے، ثبوت اور گواہوں کو چھوڑیں، اب بات قرآن مجید پر حلف پر ہوگی۔

دوران سماعت شاہ محمود قریشی، عمر چیمہ، اعجاز چوہدری سمیت دیگر نے ڈاکٹر یاسمین کی ضمانتوں پر فیصلہ کرنے کی استدعا کی، پی ٹی آئی کے رہنماؤں نے کہا کہ
ڈاکٹر یاسمین راشد کینسر کی مریضہ ہیں ہم اپنی ضمانتیں واپس لے لیتے ہیں۔

شاہ محمود قریشی نے جج سے استدعا کی کہ آپ ڈاکٹر یاسمین راشد کی ضمانتوں پر فیصلہ کردیں، انسداد دہشت گردی عدالت کے جج نے کہا کہ میں نے ریکارڈ منگوایا ہے، میں آج فیصلہ کردوں گا، میں نے ریکارڈ پیش نہ کرنے پر متعدد شوکاز نوٹسز تفتیشی افسران کو دیے ہیں۔

جج خالد ارشد نے کہا کہ میں حیران ہوں ریکارڈ کیوں نہیں آتا، میں تو ایک دو پیشیوں پر فیصلہ کردیتا ہوں۔

یاسمین راشد نے جج سے مکالمہ کیا کہ مجھے اگر جیل میں کچھ ہوا تو ذمہ دار آپ ہوں گے، میری نہیں سب دوستوں کی ضمانتیں ہونی چاہیں۔

پراسکیوٹر نے کہا کہ ہم نے انہیں بے گناہ نہیں کیا وہ چھ لوگ اشتہاری ہیں، شاہ محمود قریشی نے جواب دیا کہ پراسکیوٹر صاحب تصیح کرلیں وہ اشتہاری نہیں سرکاری ہیں۔

فریقین کے دلائل سننے کے بعد اے ٹی سی عدالت کے جج خالد ارشد نے مقدمات پر مزید کارروائی 2 ستمبر تک ملتوی کردی۔

یاد رہے کہ گزشتہ برس 9 مئی کو القادر ٹرسٹ کیس میں عمران خان کی اسلام آباد ہائی کورٹ کے احاطے سے گرفتاری کے بعد پی ٹی آئی کی طرف سے ملک گیر احتجاج کیا گیا تھا جس کے دوران لاہور کے علاقے ماڈل ٹاؤن میں 9 مئی کو مسلم لیگ (ن) کے دفتر کو جلانے کے علاوہ فوجی، سول اور نجی تنصیبات کو نذر آتش کیا گیا، سرکاری و نجی املاک کو شدید نقصان پہنچایا گیا تھا جب کہ اس دوران کم از کم 8 افراد ہلاک اور 290 زخمی ہوئے تھے۔

مظاہرین نے لاہور میں کور کمانڈر کی رہائش گاہ پر بھی دھاوا بول دیا تھا جسے جناح ہاؤس بھی کہا جاتا ہے اور راولپنڈی میں واقع جنرل ہیڈکوارٹرز (جی ایچ کیو)کا ایک گیٹ بھی توڑ دیا تھا۔

اس کے بعد ملک بھر میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ لڑائی، توڑ پھوڑ اور جلاؤ گھیراؤ میں ملوث 1900 افراد کو گرفتار کر لیا گیا تھا جب کہ عمران خان اور ان کی پارٹی رہنماؤں اور کارکنان کے خلاف مقدمات بھی درج کیے گئے تھے۔


Source