اسلام آباد میں خاتون اور ٹریفک پولیس کے درمیان جھگڑا: چالان کے وقت کسی کی ویڈیو بنانا حقوق کے خلاف یا احتیاط کے لیے ضروری؟
چند برس پہلے تک جب بھی گاؤں میں رہنے والے میرے کسی عزیز کا اسلام آباد یا لاہور جانا ہوتا اور وہاں کوئی ٹریفک پولیس اہلکار ان کا چالان کرنے کی کوشش کرتا تو گاؤں واپس آ کر وہ بڑے فخر سے بتاتے کہ ’ہم نے بس ایک کال ملا کر اہلکار سے بات کروا دی اور اس نے جانے دیا۔‘ اُس وقت تک میں بھی ناسمجھی میں دل ہی دل میں
واہ واہ کرتی تھی۔
خیر بڑے ہوئے اور شہر آئے تو سڑکوں چوراہوں پر چھوٹی بڑی گاڑیوں میں بیٹھے شہریوں کو یہی کرتے دیکھا۔کئی مرتبہ کسی کے ساتھ یا ٹیکسی میں سفر کرتے ہوئے میں ن ڈرائیور کو روکے جانے پر یہ کہتے سنا 'ٹھہریں میں آپ کی فلاں سے بات کرواتا ہوں۔'
ویڈیو کیمروں کی بدولت حالیہ برسوں میں ایسی لاتعداد ویڈیوز سامنے آئی ہیں جن میں ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کرنے پر جب کسی ڈرائیور کو روکا گیا تو بیشتر نے آگے سے ٹریفک پولیس کے ساتھ غیر مہذب سلوک کا مظاہرہ کیا۔
پاکستان میں آئے روز کسی نہ کسی شاہراہ سے ایسی ویڈیوز سامنے آتی رہتی ہیں۔۔۔ گذشتہ چند روز سے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی سڑک پر ٹریفک پولیس کی جانب سے بنائی گئی ایسی ہی ایک ویڈیو وائرل ہے۔
اس میں سیاہ گاڑی میں موجود خاتون کو اصل نمبر پلیٹ نہ ہونے پر جب ٹریفک پولیس اہلکار نے روک کر چالان کرنے کی کوشش کی تو خاتون نے پولیس اہلکاروں کے ساتھ بدتمیزی کی۔
ویڈیو میں کیا ہے؟
مذکورہ ویڈیو میں ٹریفک پولیس اہلکار یہ کہتے سنا جا سکتا ہے کہ ’کچھ دن پہلے میں نے آپ کو تنبیہ کی تھی، سمجھایا تھا کہ نمبر پلیٹ تبدیل کر لیں۔‘انھیں یہ بھی کہتے سنا جا سکتا ہے کہ 'آپ روکنے پر رُکی بھی نہیں۔۔۔ پلیز اپنا ڈرائیونگ لائسنس دیں۔‘
جس دوران خاتون گاڑی میں ڈرائیونگ لائسنس تلاش کرنے کی کوشش کرتی نظر آتی ہیں، ٹریفک پولیس اہلکار ان سے پوچھتے ہیں کہ اس گاڑی کی اصل ’ایکسائز والی نمبر پلیٹیں کہاں ہیں؟‘ خاتون کی طرف سے کوئی جواب نہیں سنائی دیتا۔
جب خاتون ٹریفک اہلکار کو لائسنس پکڑاتی ہیں تو اس کے بعد کے منظر میں دو اور ٹریفک پولیس اہلکار اور ٹریفک پولیس کی گاڑی بھی آگے کھڑی دیکھی جا سکتی ہے۔ ایک اہلکار آگے بڑھ کر ان کا لائسنس پکڑ کر چالان بنانا شروع کرتا ہے۔
اس کے بعد ویڈیو بنانے والے ٹریفک پولیس اہلکار اس گاڑی کی نمبر پلیٹ اتارتے نظر آتے ہیں۔ عام حالات میں ٹریفک پولیس کسی کار کو روک کر اس کی جعلی یا نقلی نمبر پلیٹ اتار کر اپنے پاس رکھ لیتی ہے۔
ویڈیو میں اس موقع پر خاتون گاڑی سے باہر آ جاتی ہیں اور انھیں کہتے سنا جا سکتا ہے کہ ’آپ صرف چالان کریں، میں نے آپ کو نمبر پلیٹ اتارنے کی اجازت بالکل نہیں دی۔‘
اس کے بعد مذکورہ خاتون کو انتہائی غصے میں ٹریفک پولیس کے ساتھ دست و گریبان ہوتے اور نامناسب الفاظ میں جھگڑتے، چیختے چلاتے دیکھا اور سنا جا سکتا ہے۔پولیس اہلکار انھیں کہتے سنائی دیتے ہیں کہ 'آپ مجھے ٹچ مت کرنا، آپ غلط کر رہی ہیں۔'
خاتون آگے بڑھ کر چالان کرنے والے دوسرے ٹریفک اہلکار سے اپنا لائسنس چھیننے کی کوشش کرتی ہیں۔
اس موقع پر ویڈیو بنانے والے ٹریفک اہلکار اپنے ساتھی کو کہتے ہیں کہ 'لائسنس پیچھے کر کے جیب میں ڈالو' اور وہ اپنا ہاتھ پیچھے کرکے ان کی کوشش کو ناکام بنا دیتے ہیں جس کے بعد خاتون کہتی ہیں 'ایک منٹ' اور اپنے موبائل پر کوئی نمبر ملانے یا ٹیکسٹ کرنے کی کوشش کرتی نظر آتی ہیں۔۔۔ اور ساتھ ہی کہتی ہیں 'آپ نے میری گاڑی کو ہاتھ کیسے لگایا۔'
اسی دوران یہ خاتون پولیس اہلکار کا فون چھیننے میں کامیاب ہو جاتی ہیں ٹریفک اہلکار انھیں کہتے سنائی دیتے ہیں 'آپ بھاگی ہیں۔ گاڑی کو میں نے ٹھیک ہاتھ لگایا ہے، یہ غیر قانونی چیز ہے' جس کے جواب میں وہ کہتی ہیں کہ 'یہ غیر قانونی ہے تو میرا مسئلہ ہے۔‘ اس کے بعد ٹریفک اہلکار یہ بھی کہتے سنے جا سکتے ہیں ’میڈم آپ عورت ہیں، عزت میں رہیں۔‘
بعد کے مناظر تو ویڈیو میں واضح نہیں لیکن آڈیو سن کر یہی تاثر ملتا ہے کہ خاتون ٹریفک اہلکار کا موبائل واپس نہیں کر رہیں لیکن ٹریفک اہلکار انھیں کہہ رہے ہیں کہ وہ موبائل دیے بغیر نہیں جا سکتیں۔
ویڈیو میں خاتون اس ٹریفک اہلکار کا موبائل نیچے پھینک کر توڑنے کی کوشش کرتی ہیں اور ایک ٹریفک اہلکار کو فون اٹھاتے دیکھا جا سکتا ہے۔یاد رہے اس طرح کے واقعات ماضی میں بھی پیش آتے رہے ہیں اور اس سے قبل کراچی میں بھی ایک خاتون کے سگنل توڑنے کے بعد ان کی ٹریفک پولیس کے ساتھ بدتمیزی کی ویڈیو وائرل ہوئی تھی۔
چالان کے دوران ٹریفک پولیس نے ویڈیو بنانے کا فیصلہ کیوں کیا؟
اس واقعے کی ویڈیو وائرل ہونے کے بعد جہاں مذکورہ خاتون کے ٹریفک اہلکاروں کے ساتھ رویے کی مذمت کی جا رہی ہے وہیں اس واقعے نے اس بحث کو بھی جنم دیا ہے کہ چالان کرنے کی حد تو صحیح ہے، لیکن کیا عوامی مقام پر اس طرح کسی خاتون کی اجازت لیے بغیر ان کی ویڈیو بنانا درست اقدام ہے؟
لیکن اس بحث میں جانے سے پہلے ہم نے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ ٹریفک پولیس اہلکار نے خاتون کی ویڈیو بنانے کا فیصلہ کیوں کیا۔
اس واقعے کی ویڈیو بنانے والے اے آیس آئی محمد اسلم نے بی بی سی سے بات کرنے سے معذرت کی تاہم ان کے ایک ساتھی نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ 'دو دن قبل (14 جولائی کو) بھی مذکورہ خاتون نے روکے جانے پر محمد اسلم کے ساتھ انتہائی غیر مہذب رویہ اختیار کیا تھا
اور گالم گلوچ کرتے ہوئے انھیں دھمکی دی تھی کہ 'میں جنرل کی بیٹی ہوں۔' 16 جولائی کو محمد اسلم کو اسی رویے کا خدشہ تھا لہذا انھوں نے ویڈیو بنانے کا فیصلہ کیا تاکہ ان کے پاس ثبوت موجود ہو۔'
ان کے ساتھی کے مطابق 14 جولائی کو محمد اسلم نے مذکورہ خاتون کو بتایا تھا کہ ٹریفک پولیس برابری کی سطح پر کام کرتی ہے اور انھیں نمبر پلیٹ اور کالے شیشے تبدیل کرنے کی ہدایت کی تھی۔
محمد اسلم کے ساتھی کے مطابق اس موقع پر خاتون کا کہنا تھا کہ ان کے پاس کوئی کاغذات نہیں ہیں اور وہ وہاں سے غصے میں نامناسب الفاظ استعمال کرتی بغیر اجازت چلی گئیں۔
انھوں نے بتایا کہ دو دن بعد جب اسلم نے انھیں پھر روکنے کی کوشش کی تو وہ گاڑی بھگا کر لے گئیں جس کے بعد ٹریفک پولیس نے انھیں پروین شاکر روڈ پر روک کر ان سے کاغذات طلب کیے۔
اس موقع پر جب ٹریفک اہلکار ان کا چالان بنانے اور سرکاری احکامات کے مطابق ان کی نمبر پلیٹ اتار رہے تھے تو انھوں نے چالان بنانے والے اہلکار سے لائسنس چھیننے کی کوشش کی اور محمد اسلم کا موبائل چھین کر انھیں گالیاں دیں اور گاڑی میں بیٹھ کر نکلنے کی کوشش کی۔'
محمد اسلم کے ساتھی کے مطابق ’اسلم کے ساتھ موجود دوسرے پولیس اہلکار گاڑی کے آگے کھڑے ہو گئے اور خاتون کو بتایا کہ وہ کارِ سرکار میں مداخلت کر رہی ہیں اور موبائل واپس کیے بغیر نہیں جا سکتیں، اس موقع پر خاتون نے اس اہلکار کے پیٹ میں مکے بھی مارے اور موبائل سڑک پر پھینک کر توڑنے کی کوشش کی۔'
’غلطی خاتون کی ہے مگر کیا بغیر ریکارڈنگ یہ سب کچھ نہیں ہوسکتا تھا؟'
پاکستان میں سوشل میڈیا پر یہ ویڈیو پچھلے دو روز سے وائرل ہے اور جہاں بیشتر شہری مذکورہ خاتون کے ٹریفک اہلکاروں کے ساتھ رویے کی مذمت کر رہے ہیں وہیں سیاسی تجزیہ کار طاہر نعیم ملک پوچھتے ہیں 'کیا چالان کرنے کے لیے کسی خاتون کی ویڈیو بنانا درست اقدام ہے؟'
اس کے ساتھ ہی وہ لکھتے ہیں کہ ٹریفک پولیس کے پاس چالان کا اختیار تو ہے مگر ویڈیو بنانے کا نہیں۔
وحید گل نے پریوینشن آف الیکٹرانک کرائم ایکٹ 2016 شئیر کرتے ہوئے اسلام آباد ٹریفک پولیس کو ٹیگ کرکے سوال کیا 'کیا اس پولیس افسر کے خلاف کارروائی کی جائے گی؟
’جو بغیر اجازت اس خاتون کی ویڈیو بنا کے ہیرو بننے کی کوشش کر رہا ہے؟ غلطی خاتون کی ہی ہے لیکن کیا بغیر ریکارڈنگ یہ سب کچھ نہیں ہوسکتا تھا؟' دوسری جانب کئی افراد پولیس کے ویڈیو بنانے اور نمبر پلیٹ اتارنے کے اقدامات کو درست قرار دے رہے ہیں۔
عفت حسن رضوی کے مطابق ’پولیس اہلکار نے ویڈیو تب شروع کی جب یہ خاتون روکنے کا اشارہ ملنے کے باوجود نہیں رکیں۔‘
أبو عادی نے ٹویٹ کیا کہ 'غیر قانونی اشیا کو ہٹانا اور ضبط کرنا پولیس کا کام نہیں تو کس کا ہے؟ اس عورت پر پولیس والے سے جھگڑا کرنے پر قابل دست اندازی کا کیس بھی بنتا ہے اور جہاں تک ویڈیو کا تعلق ہے تو یہ احتیاطی تدابیر کا حصہ ہے ورنہ اس پر آپ ہراسانی کا الزام بھی لگا دیتے۔'
بلا اجازت ویڈیو کے معاملے پر ماہرین کیا کہتے ہیں؟
اس حوالے سے انسانی حقوق کے وکیل اسد جمال نے بی بی سی بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ ایسے کسی قانون یا قاعدے سے تو واقف نہیں جو پولیس کو اس طرح ریکارڈنگ کرنے کی اجازت دیتا ہے لیکن 'ریاستی اہلکار ایسی کسی طاقت کا استعمال نہیں کرسکتے جس کا اختیار انھیں خاص طور پر کسی قانون کے تحت نہیں دیا گیا۔ یہ ایک بنیادی اصول ہے۔'
اسد اسے 'رائٹ آف پرائیویسی' کی خلاف ورزی قرار دیتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ 'اگر اس صورتحال میں پولیس کے پاس ریکارڈنگ کا اختیار موجود بھی ہو تو یہ دلیل دی جا سکتی ہے کہ ویڈیو بنانے کا اقدام پرائیویسی اور وقار کی خلاف ورزی ہے۔'
ان کی رائے میں 'بظاہر یہ اشتعال انگیز کام تھا۔۔۔ یہ پرائیویسی کے حق کی کھلی خلاف ورزی نظر آ رہی ہے جو کسی وضاحت کی محتاج نہیں۔'
مگر بعض ماہرین عوامی مقامات پر قانون کی خلاف ورزی کو پکڑنے اور اپنے ریکارڈ کے لیے ویڈیو بنانے کے اقدام کو غلط نہیں سمجھتے۔
لمز سے منسلک پروفیسر آف سوشیالوجی ندا کرمانی کا کہنا تھا کہ 'اگر وہ خاتون اپنے گھر کی چار دیواری میں ہوتیں تو یہ پرائیویسی کی خلاف ورزی ہوتی۔'
ان کا مزید کہنا تھا کہ دنیا بھر میں ہر جگہ عوامی مقامات پر لوگوں کی ویڈیوز بنائی جاتی ہیں اور ان کے خیال میں 'پولیس اپنے ریکارڈ کے لیے یہ ویڈیو بنا رہی تھی۔'
دریں اثنا پولیس اہلکار کا موبائل توڑنے، ان کے ساتھ بدتمیزی کرنے اور کارِ سرکار میں مداخلت کرنے کے الزام میں مذکورہ خاتون کے خلاف تھانہ کوہسار میں ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔
مگر اسی کے ساتھ اسلام آباد ٹریفک پولیس کے ایک اہلکار نے بی بی سی کو بتایا کہ اے آیس آئی محمد اسلم نے یہ ویڈیو آئی ٹی پی ٹریفک پولیس کے گروپ میں شئیر کی تھی جس میں سبھی افسرانِ بالا کے لیے دن بھر ایسی ویڈیوز شئیر کرتے ہیں لیکن کسی نے وہاں سے سوشل میڈیا پر ڈال دی، جس کے بعد گروپ میں ویڈیو شئیر کرنے پر اسلم کے خلاف بھی محکمانہ کارروائی شروع کر دی گئی ہے۔
ہم نے ٹریفک پولیس اہلکار سے پوچھا کہ کیا اے ایس آئی اسلم کے خلاف محکمانہ کارروائی اس لیے تو نہیں کی جا رہی کہ انھوں نے ایک ’بااثر خاتون‘ کی گاڑی روک کر ان کا چلان کرنے کی کوشش کی اور نمبر پلیٹ اتاری؟
ان کا کہنا تھا کہ 'بااثر ہو یا عام شہری، عورت ہو یا مرد، قانون سب کے لیے برابر ہے۔'
https://www.bbc.com/urdu/pakistan-57881672
واہ واہ کرتی تھی۔
خیر بڑے ہوئے اور شہر آئے تو سڑکوں چوراہوں پر چھوٹی بڑی گاڑیوں میں بیٹھے شہریوں کو یہی کرتے دیکھا۔کئی مرتبہ کسی کے ساتھ یا ٹیکسی میں سفر کرتے ہوئے میں ن ڈرائیور کو روکے جانے پر یہ کہتے سنا 'ٹھہریں میں آپ کی فلاں سے بات کرواتا ہوں۔'
ویڈیو کیمروں کی بدولت حالیہ برسوں میں ایسی لاتعداد ویڈیوز سامنے آئی ہیں جن میں ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کرنے پر جب کسی ڈرائیور کو روکا گیا تو بیشتر نے آگے سے ٹریفک پولیس کے ساتھ غیر مہذب سلوک کا مظاہرہ کیا۔
پاکستان میں آئے روز کسی نہ کسی شاہراہ سے ایسی ویڈیوز سامنے آتی رہتی ہیں۔۔۔ گذشتہ چند روز سے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی سڑک پر ٹریفک پولیس کی جانب سے بنائی گئی ایسی ہی ایک ویڈیو وائرل ہے۔
اس میں سیاہ گاڑی میں موجود خاتون کو اصل نمبر پلیٹ نہ ہونے پر جب ٹریفک پولیس اہلکار نے روک کر چالان کرنے کی کوشش کی تو خاتون نے پولیس اہلکاروں کے ساتھ بدتمیزی کی۔
ویڈیو میں کیا ہے؟
مذکورہ ویڈیو میں ٹریفک پولیس اہلکار یہ کہتے سنا جا سکتا ہے کہ ’کچھ دن پہلے میں نے آپ کو تنبیہ کی تھی، سمجھایا تھا کہ نمبر پلیٹ تبدیل کر لیں۔‘انھیں یہ بھی کہتے سنا جا سکتا ہے کہ 'آپ روکنے پر رُکی بھی نہیں۔۔۔ پلیز اپنا ڈرائیونگ لائسنس دیں۔‘
جس دوران خاتون گاڑی میں ڈرائیونگ لائسنس تلاش کرنے کی کوشش کرتی نظر آتی ہیں، ٹریفک پولیس اہلکار ان سے پوچھتے ہیں کہ اس گاڑی کی اصل ’ایکسائز والی نمبر پلیٹیں کہاں ہیں؟‘ خاتون کی طرف سے کوئی جواب نہیں سنائی دیتا۔
جب خاتون ٹریفک اہلکار کو لائسنس پکڑاتی ہیں تو اس کے بعد کے منظر میں دو اور ٹریفک پولیس اہلکار اور ٹریفک پولیس کی گاڑی بھی آگے کھڑی دیکھی جا سکتی ہے۔ ایک اہلکار آگے بڑھ کر ان کا لائسنس پکڑ کر چالان بنانا شروع کرتا ہے۔
اس کے بعد ویڈیو بنانے والے ٹریفک پولیس اہلکار اس گاڑی کی نمبر پلیٹ اتارتے نظر آتے ہیں۔ عام حالات میں ٹریفک پولیس کسی کار کو روک کر اس کی جعلی یا نقلی نمبر پلیٹ اتار کر اپنے پاس رکھ لیتی ہے۔
ویڈیو میں اس موقع پر خاتون گاڑی سے باہر آ جاتی ہیں اور انھیں کہتے سنا جا سکتا ہے کہ ’آپ صرف چالان کریں، میں نے آپ کو نمبر پلیٹ اتارنے کی اجازت بالکل نہیں دی۔‘
اس کے بعد مذکورہ خاتون کو انتہائی غصے میں ٹریفک پولیس کے ساتھ دست و گریبان ہوتے اور نامناسب الفاظ میں جھگڑتے، چیختے چلاتے دیکھا اور سنا جا سکتا ہے۔پولیس اہلکار انھیں کہتے سنائی دیتے ہیں کہ 'آپ مجھے ٹچ مت کرنا، آپ غلط کر رہی ہیں۔'
خاتون آگے بڑھ کر چالان کرنے والے دوسرے ٹریفک اہلکار سے اپنا لائسنس چھیننے کی کوشش کرتی ہیں۔
اس موقع پر ویڈیو بنانے والے ٹریفک اہلکار اپنے ساتھی کو کہتے ہیں کہ 'لائسنس پیچھے کر کے جیب میں ڈالو' اور وہ اپنا ہاتھ پیچھے کرکے ان کی کوشش کو ناکام بنا دیتے ہیں جس کے بعد خاتون کہتی ہیں 'ایک منٹ' اور اپنے موبائل پر کوئی نمبر ملانے یا ٹیکسٹ کرنے کی کوشش کرتی نظر آتی ہیں۔۔۔ اور ساتھ ہی کہتی ہیں 'آپ نے میری گاڑی کو ہاتھ کیسے لگایا۔'
اسی دوران یہ خاتون پولیس اہلکار کا فون چھیننے میں کامیاب ہو جاتی ہیں ٹریفک اہلکار انھیں کہتے سنائی دیتے ہیں 'آپ بھاگی ہیں۔ گاڑی کو میں نے ٹھیک ہاتھ لگایا ہے، یہ غیر قانونی چیز ہے' جس کے جواب میں وہ کہتی ہیں کہ 'یہ غیر قانونی ہے تو میرا مسئلہ ہے۔‘ اس کے بعد ٹریفک اہلکار یہ بھی کہتے سنے جا سکتے ہیں ’میڈم آپ عورت ہیں، عزت میں رہیں۔‘
بعد کے مناظر تو ویڈیو میں واضح نہیں لیکن آڈیو سن کر یہی تاثر ملتا ہے کہ خاتون ٹریفک اہلکار کا موبائل واپس نہیں کر رہیں لیکن ٹریفک اہلکار انھیں کہہ رہے ہیں کہ وہ موبائل دیے بغیر نہیں جا سکتیں۔
ویڈیو میں خاتون اس ٹریفک اہلکار کا موبائل نیچے پھینک کر توڑنے کی کوشش کرتی ہیں اور ایک ٹریفک اہلکار کو فون اٹھاتے دیکھا جا سکتا ہے۔یاد رہے اس طرح کے واقعات ماضی میں بھی پیش آتے رہے ہیں اور اس سے قبل کراچی میں بھی ایک خاتون کے سگنل توڑنے کے بعد ان کی ٹریفک پولیس کے ساتھ بدتمیزی کی ویڈیو وائرل ہوئی تھی۔
چالان کے دوران ٹریفک پولیس نے ویڈیو بنانے کا فیصلہ کیوں کیا؟
اس واقعے کی ویڈیو وائرل ہونے کے بعد جہاں مذکورہ خاتون کے ٹریفک اہلکاروں کے ساتھ رویے کی مذمت کی جا رہی ہے وہیں اس واقعے نے اس بحث کو بھی جنم دیا ہے کہ چالان کرنے کی حد تو صحیح ہے، لیکن کیا عوامی مقام پر اس طرح کسی خاتون کی اجازت لیے بغیر ان کی ویڈیو بنانا درست اقدام ہے؟
لیکن اس بحث میں جانے سے پہلے ہم نے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ ٹریفک پولیس اہلکار نے خاتون کی ویڈیو بنانے کا فیصلہ کیوں کیا۔
اس واقعے کی ویڈیو بنانے والے اے آیس آئی محمد اسلم نے بی بی سی سے بات کرنے سے معذرت کی تاہم ان کے ایک ساتھی نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ 'دو دن قبل (14 جولائی کو) بھی مذکورہ خاتون نے روکے جانے پر محمد اسلم کے ساتھ انتہائی غیر مہذب رویہ اختیار کیا تھا
اور گالم گلوچ کرتے ہوئے انھیں دھمکی دی تھی کہ 'میں جنرل کی بیٹی ہوں۔' 16 جولائی کو محمد اسلم کو اسی رویے کا خدشہ تھا لہذا انھوں نے ویڈیو بنانے کا فیصلہ کیا تاکہ ان کے پاس ثبوت موجود ہو۔'
ان کے ساتھی کے مطابق 14 جولائی کو محمد اسلم نے مذکورہ خاتون کو بتایا تھا کہ ٹریفک پولیس برابری کی سطح پر کام کرتی ہے اور انھیں نمبر پلیٹ اور کالے شیشے تبدیل کرنے کی ہدایت کی تھی۔
محمد اسلم کے ساتھی کے مطابق اس موقع پر خاتون کا کہنا تھا کہ ان کے پاس کوئی کاغذات نہیں ہیں اور وہ وہاں سے غصے میں نامناسب الفاظ استعمال کرتی بغیر اجازت چلی گئیں۔
انھوں نے بتایا کہ دو دن بعد جب اسلم نے انھیں پھر روکنے کی کوشش کی تو وہ گاڑی بھگا کر لے گئیں جس کے بعد ٹریفک پولیس نے انھیں پروین شاکر روڈ پر روک کر ان سے کاغذات طلب کیے۔
اس موقع پر جب ٹریفک اہلکار ان کا چالان بنانے اور سرکاری احکامات کے مطابق ان کی نمبر پلیٹ اتار رہے تھے تو انھوں نے چالان بنانے والے اہلکار سے لائسنس چھیننے کی کوشش کی اور محمد اسلم کا موبائل چھین کر انھیں گالیاں دیں اور گاڑی میں بیٹھ کر نکلنے کی کوشش کی۔'
محمد اسلم کے ساتھی کے مطابق ’اسلم کے ساتھ موجود دوسرے پولیس اہلکار گاڑی کے آگے کھڑے ہو گئے اور خاتون کو بتایا کہ وہ کارِ سرکار میں مداخلت کر رہی ہیں اور موبائل واپس کیے بغیر نہیں جا سکتیں، اس موقع پر خاتون نے اس اہلکار کے پیٹ میں مکے بھی مارے اور موبائل سڑک پر پھینک کر توڑنے کی کوشش کی۔'
’غلطی خاتون کی ہے مگر کیا بغیر ریکارڈنگ یہ سب کچھ نہیں ہوسکتا تھا؟'
پاکستان میں سوشل میڈیا پر یہ ویڈیو پچھلے دو روز سے وائرل ہے اور جہاں بیشتر شہری مذکورہ خاتون کے ٹریفک اہلکاروں کے ساتھ رویے کی مذمت کر رہے ہیں وہیں سیاسی تجزیہ کار طاہر نعیم ملک پوچھتے ہیں 'کیا چالان کرنے کے لیے کسی خاتون کی ویڈیو بنانا درست اقدام ہے؟'
اس کے ساتھ ہی وہ لکھتے ہیں کہ ٹریفک پولیس کے پاس چالان کا اختیار تو ہے مگر ویڈیو بنانے کا نہیں۔
وحید گل نے پریوینشن آف الیکٹرانک کرائم ایکٹ 2016 شئیر کرتے ہوئے اسلام آباد ٹریفک پولیس کو ٹیگ کرکے سوال کیا 'کیا اس پولیس افسر کے خلاف کارروائی کی جائے گی؟
’جو بغیر اجازت اس خاتون کی ویڈیو بنا کے ہیرو بننے کی کوشش کر رہا ہے؟ غلطی خاتون کی ہی ہے لیکن کیا بغیر ریکارڈنگ یہ سب کچھ نہیں ہوسکتا تھا؟' دوسری جانب کئی افراد پولیس کے ویڈیو بنانے اور نمبر پلیٹ اتارنے کے اقدامات کو درست قرار دے رہے ہیں۔
عفت حسن رضوی کے مطابق ’پولیس اہلکار نے ویڈیو تب شروع کی جب یہ خاتون روکنے کا اشارہ ملنے کے باوجود نہیں رکیں۔‘
أبو عادی نے ٹویٹ کیا کہ 'غیر قانونی اشیا کو ہٹانا اور ضبط کرنا پولیس کا کام نہیں تو کس کا ہے؟ اس عورت پر پولیس والے سے جھگڑا کرنے پر قابل دست اندازی کا کیس بھی بنتا ہے اور جہاں تک ویڈیو کا تعلق ہے تو یہ احتیاطی تدابیر کا حصہ ہے ورنہ اس پر آپ ہراسانی کا الزام بھی لگا دیتے۔'
بلا اجازت ویڈیو کے معاملے پر ماہرین کیا کہتے ہیں؟
اس حوالے سے انسانی حقوق کے وکیل اسد جمال نے بی بی سی بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ ایسے کسی قانون یا قاعدے سے تو واقف نہیں جو پولیس کو اس طرح ریکارڈنگ کرنے کی اجازت دیتا ہے لیکن 'ریاستی اہلکار ایسی کسی طاقت کا استعمال نہیں کرسکتے جس کا اختیار انھیں خاص طور پر کسی قانون کے تحت نہیں دیا گیا۔ یہ ایک بنیادی اصول ہے۔'
اسد اسے 'رائٹ آف پرائیویسی' کی خلاف ورزی قرار دیتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ 'اگر اس صورتحال میں پولیس کے پاس ریکارڈنگ کا اختیار موجود بھی ہو تو یہ دلیل دی جا سکتی ہے کہ ویڈیو بنانے کا اقدام پرائیویسی اور وقار کی خلاف ورزی ہے۔'
ان کی رائے میں 'بظاہر یہ اشتعال انگیز کام تھا۔۔۔ یہ پرائیویسی کے حق کی کھلی خلاف ورزی نظر آ رہی ہے جو کسی وضاحت کی محتاج نہیں۔'
مگر بعض ماہرین عوامی مقامات پر قانون کی خلاف ورزی کو پکڑنے اور اپنے ریکارڈ کے لیے ویڈیو بنانے کے اقدام کو غلط نہیں سمجھتے۔
لمز سے منسلک پروفیسر آف سوشیالوجی ندا کرمانی کا کہنا تھا کہ 'اگر وہ خاتون اپنے گھر کی چار دیواری میں ہوتیں تو یہ پرائیویسی کی خلاف ورزی ہوتی۔'
ان کا مزید کہنا تھا کہ دنیا بھر میں ہر جگہ عوامی مقامات پر لوگوں کی ویڈیوز بنائی جاتی ہیں اور ان کے خیال میں 'پولیس اپنے ریکارڈ کے لیے یہ ویڈیو بنا رہی تھی۔'
دریں اثنا پولیس اہلکار کا موبائل توڑنے، ان کے ساتھ بدتمیزی کرنے اور کارِ سرکار میں مداخلت کرنے کے الزام میں مذکورہ خاتون کے خلاف تھانہ کوہسار میں ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔
مگر اسی کے ساتھ اسلام آباد ٹریفک پولیس کے ایک اہلکار نے بی بی سی کو بتایا کہ اے آیس آئی محمد اسلم نے یہ ویڈیو آئی ٹی پی ٹریفک پولیس کے گروپ میں شئیر کی تھی جس میں سبھی افسرانِ بالا کے لیے دن بھر ایسی ویڈیوز شئیر کرتے ہیں لیکن کسی نے وہاں سے سوشل میڈیا پر ڈال دی، جس کے بعد گروپ میں ویڈیو شئیر کرنے پر اسلم کے خلاف بھی محکمانہ کارروائی شروع کر دی گئی ہے۔
ہم نے ٹریفک پولیس اہلکار سے پوچھا کہ کیا اے ایس آئی اسلم کے خلاف محکمانہ کارروائی اس لیے تو نہیں کی جا رہی کہ انھوں نے ایک ’بااثر خاتون‘ کی گاڑی روک کر ان کا چلان کرنے کی کوشش کی اور نمبر پلیٹ اتاری؟
ان کا کہنا تھا کہ 'بااثر ہو یا عام شہری، عورت ہو یا مرد، قانون سب کے لیے برابر ہے۔'
https://www.bbc.com/urdu/pakistan-57881672