قانون توہینِ رسالت کیا اور کب سے ہے؟

Believer12

Chief Minister (5k+ posts)
میں تو چودھری صاحب سے پوچھ پوچھ کر تھک گئی ہوں کہ لفظ لعنت کا ترجمہ قتل کس ڈکشنری کے حساب سے کیا ہے
اتنا تھکنے کی کیا ضرورت ہے آپکو فہم قرآن چودھری کے بڑوں سے بھی زیادہ ہے ماشا اللہ آپ خود سمجھ سکتی ہیں ہاں البتہ جھوٹے کو منصورہ بھی پنہچانا ہو تو الگ بات
 

نادان

Prime Minister (20k+ posts)
ان تلوں میں تیل ختم ہوگیا ہے، اب چھدری کی عقل دانی کی گراریاں تیل سے زیادہ گریس کی طلب گار ہیں اب تم پانی دو یا تیل، کچھ نہیں ہونے والا چودھری دا

یہ آپ کا خیال ہو سکتا ہے ،میرا نہیں ..اگر آپ واقعی ان تک اپنی سوچ پھوچانا چاہتے ہیں تو نرمی سے ،شائستگی سے ان کو کوٹ کریں
 

نادان

Prime Minister (20k+ posts)

اتنا تھکنے کی کیا ضرورت ہے آپکو فہم قرآن چودھری کے بڑوں سے بھی زیادہ ہے ماشا اللہ آپ خود سمجھ سکتی ہیں ہاں البتہ جھوٹے کو منصورہ بھی پنہچانا ہو تو الگ بات

یہ اپنی طرف سے جھوٹ نہیں بولتے ہیں گے ...بس مولوی کے چکر میں پھنس گئے ہیں ..کوشش جاری رکھیں نیک نیتی سے ..الله ان کا دل بھی جماعت سے پھیر کر اصلی قرآن تک کر دے گا .
 

Jaanbaazkarachi

MPA (400+ posts)
یہ آپ کا خیال ہو سکتا ہے ،میرا نہیں ..اگر آپ واقعی ان تک اپنی سوچ پھوچانا چاہتے ہیں تو نرمی سے ،شائستگی سے ان کو کوٹ کریں

غلطی سے ڈس لائیک دب گیا کمبخت ورنہ آپکی ساری تحریریں ہمارے لئے لائیک "لائیک" ہیں

یا نرمی اور نزکیت کا مظاہرہ آپ پر چھوڑتے ہیں، آپ بھی کوشش فرما لیں
 
Last edited:

نادان

Prime Minister (20k+ posts)
ان تلوں میں تیل ختم ہوگیا ہے، اب چھدری کی عقل دانی کی گراریاں تیل سے زیادہ گریس کی طلب گار ہیں اب تم پانی دو یا تیل، کچھ نہیں ہونے والا چودھری دا

برداشت تو آپ میں بھی نہیں ہے .میری بات آپ کی طبع نازک پر گراں گزری ..ٹھک سے ڈس لائک دے دیا ..ہاں میں ہاں ملانے والوں سے پھر گفتگو کیا کریں آپ

اپنی اس پوسٹ کو میں آپ کی طرف سے پہلے ہی دے دیتی ہوں


​dislike
 

Believer12

Chief Minister (5k+ posts)
ان تلوں میں تیل ختم ہوگیا ہے، اب چھدری کی عقل دانی کی گراریاں تیل سے زیادہ گریس کی طلب گار ہیں اب تم پانی دو یا تیل، کچھ نہیں ہونے والا چودھری دا
ایسا نہیں کہتے کیا ہندہ ایمان نہیں لائی تھی ؟
 

Jaanbaazkarachi

MPA (400+ posts)
برداشت تو آپ میں بھی نہیں ہے .میری بات آپ کی طبع نازک پر گراں گزری ..ٹھک سے ڈس لائک دے دیا ..ہاں میں ہاں ملانے والوں سے پھر گفتگو کیا کریں آپ

اپنی اس پوسٹ کو میں آپ کی طرف سے پہلے ہی دے دیتی ہوں


​dislike

اہ تیری خیر ہو
چلو سینڈل کھانے سے ڈس لائیک ہی بہتر ہے

مادام گستاخی کی معذرت چاہتے ہیں، اور یقین کیجئے میں اس وقت پوری توجہ اور دونو کانوں سے آپ کو سن رہا ہوں اور پڑ رہا ہوں
[hilar]
 
Last edited:

Abdul jabbar

Minister (2k+ posts)

چوہدری صاحب کبھی گستاخی مودودی نہی کر سکتے ، گستاخی سراج نہی کر سکتے ، یہی ان کا دھرم ہے ، اس میں دماغ کہیں بھی نہی آتا

پہلا سبق ان لوگوں کو یہ دیا جاتا ہے کہ مولوی کے آگے نہی بولنا ، جو کوئی بولے ، سوال کرے اس کی شامت
انصاف کی بات تو یہ ہے کہ پاکستان کی تمام مذہبی جماعتوں میں جماعت اسلامی ہی ایک ایسی جماعت ہے تو فرقہ پرستی کی لعنت سے پاک ہے ۔باقی سارے تو اپنے سوا دوسرے مسلمان کو بھی مسلمان نہیں سمجھتے ۔مسلمانوں ہی کو کافر بنانے کی فیکٹریاں لگا رکھی ہیں۔
توہین رسالت پر ہر کلمہ گو کو بہت زیادہ تکلیف ہوتی ہے ۔دنیا بھر میں تو زور نہیں چلتا مگراپنے ملک میں تو بس چلتا ہے نا ۔اسی لئے جذبات سے مغلوب ہو کر ایسے تکلیف دہ اور قابل افسوس حادثات رونما ہو جاتے ہیں۔جو بالکل نہیں ہونے چاہئیں ۔اگر کسی پر الزام ہے تو اس کی سزا اور جزا کے لئے قانون ہے نا ۔ قانونی پراسس اختیار کرنا چاہیئے۔ ملزم کو اپنی صفائی کا پورا موقعہ ملنا چاہیئے ۔ جرم ثابت ہونے پر سزا اور جھوٹا الزام ثابت ہونے پر الزام لگانے والے کو سزا ملنی چاہیئے ۔
غیر مسلم مذہبی رہ نماوں سے بھی گزارش ہے کہ اپنی کمیونٹی کو احساس دلائیں کہ پاکستانی مسلم معاشرہ کسی بھی اللہ کے نبی کی توہین کا سوچ بھی نہیں سکتا کیونکہ تمام نبیوں کو ماننا ان کے ایمان کا حصہ ہے ۔ تو ان کو بھی مسلمانوں کے پاک پیغمبر اور ان کی الہامی کتاب یعنی قران پاک اور ان کے بزرگان دین کی توہین کسی بھی صورت نہ کریں ۔
 

Believer12

Chief Minister (5k+ posts)
یہ اپنی طرف سے جھوٹ نہیں بولتے ہیں گے ...بس مولوی کے چکر میں پھنس گئے ہیں ..کوشش جاری رکھیں نیک نیتی سے ..الله ان کا دل بھی جماعت سے پھیر کر اصلی قرآن تک کر دے گا .
اللہ کرے کے یہ سیدھے رستے پر آجاۓ کیونکہ مجھ پر ایک خوفناک حقیقت کا ادراک ہوا ہے، مودودی صاحب کے بیٹے فاروق مودودی ، اور ارشاد احمد حقانی کو پڑھنے سے یہ پتا چلتا ہے کہ مودودی صاھب کو بخوبی علم تھا کہ انکا سٹانس اسلام کی تعلیمات کے خلاف ہے اسی لئے وہ اپنے بچوں کو جماعت سے بہت دور رکھتے تھے بلکہ اگر کوی ان سے بہت وفاداری دکھانے کی کوشش کرتا تو اس سے بھی دور ہوجاتے تھے کیونکہ انکے دل میں ایک خلش تھی کہ انکی پارٹی جس راستے پر ہے وہ تباہی کا راستہ ہے
 

Afaq Chaudhry

Chief Minister (5k+ posts)
الله نے ایسے لوگوں پر جو توہین کے مرتکب ہوئے لعنت بھیجی ہے اور ان کو عذاب الله کی خبر دی ہے ..اب آپ الله کی سنت پر عمل کرتے ہوے آپ بھی صرف لعنت بھجیں اور عذاب کا کام الله ہی پر چھوڑ دیں ..اب الله کی مرضی وہ عذاب دنیا میں دیتا ہے یا آخرت کے لئے اٹھا رکھتا ہے

فسیر ابن عباس میں ہے عذبھم الله (فی الدنیا) بالقتل........ (والآخرة) فی النار .... یعنی گستاخِ رسول کی سزا دُنیا میں قتل اور آخرت میں جہنم ہے․․․ اس آیت کے ذیل میں حضرت علامہ قاضی محمد ثناء اللہ پانی پتی !! تفسیر مظہری میں مسئلے کا عنوان لگ اکر لکھتے ہیں



یہ کیا ہے ..یہاں قرآن کا ترجمہ ہو رہا ہے یا اپنے ذاتی خیالات کا ؟

اہ یار اب کیا کروں مولوی سراج کو میں اس قابل نہیں سمجھتا کے اسکے پاس بھی پھٹکوں سمجھا کرو مجھے گدھوں سے الرجی ہے کوئی اور طریق بتاؤ کے اس توہین بد حق سے کیسے نکلا جائے، کوئی سفارش لڑاؤں کیا


آپ چائیں مذاق کریں یا مزاق سمجھیں، مگر حقیقت میں ایسا ہی ہوا تھا اب آگے آپ خود عقلمند ہیں

میری عقل ایسے کسی واقعہ کو تسلیم نہیں کرتی ..

اس کو تسلیم کرنے کا مطلب ہے میں الله کے قادر مطلق ہونے پر ،محمد صلعم کے سچا نبی ہونے پر اور قرآن پر شک کروں ..ایسا میں نہیں کرنے والی ..پیریڈ

پاکستانی قانون میں درج سزا توھین رسالت غیر اسلامی اور انتہایی ہے اور یہ مسلمانوں کے لیے دنیا میں بدنامی کا سبب ہے۔

حضور نے جب خود اپنے پر اوجھڑی اور گند پھیکنے والی عورت کو معاف فرما کر دیا اور عفو و درگزر کی عالی ترین مثال قایم کی۔
ھمیں اپنے رویوں اور قوانین پر نظر ثانی کرنی چاھیے۔

اس قانون کا غلط استعمال بھی بہت ھوتا ہے بیگناہوں کو پھسا کر ذلیل کیا جاتا ہے۔

اس ملک میں اقلیتیں ویسے ھی تھر تھر کانپتی ھیں وہ ایسی جرآت کر ھی کیسے سکتی ھیں۔

33_57.png


چودھری اس آیت کریمہ سے تو کہیں ثابت نہیں ہوتا کہ گستاخی کے مرتکب کو قتل کر دیا جاۓ بلکہ دنیا اور آخرت میں ایسے شخص کیلئے سخت عذاب کی بات فرمائی گئی ہے اس آیت کریمہ سے صاف پتا چلتا ہے کہ ایسے گستاخ کا معاملہ اللہ تعالی نے اپنے پاس رکھا ہے ناکہ انسان کو اس پر منصف بنایا ہے


چودھری تو ایک ملا ہے جسکا ثبوت یہ ہے کہ تو اپنی بات قرآن سے ثابت نہیں کرسکتا تو احادیث میں آجاتا ہے جب یہاں بھی تیرا موقف ثابت نہیں ہوتا تو پھر توعلما کی بتائی گئی تاویل سے ثبوت تلاش کرتا ہے جب تجھے مطلب کا مواد مل جاتا ہے تو پھرتو ایسے مواد کو احادیث کے بیچ میں اس طرح شامل کرتا ہے کہ اصل اور نقل ایک جیسی ہو جائیں. ایسا کام تو بہت چالاکی سے تحریر کے بیچوں بیچ کرتا ہے تاکہ تیری دھوکہ دہی کھل نہ سکے


مثلا یہ سطر ملاحظہ کریں


اگر اس کے بعد توبہ بھی کرلے تو قتل کی سزا
علماء نے یہاں تک کہا ہے کہ نشے کی حالت میں بھی اگر رسول اللہ کو بُرا کہنے کے جرم کا اِرتکاب کیا ہو تب بھی اس کو معاف نہیں کیا جائے گا، ضرور قتل کیا جاے گا


اس سے پتا چلتا ہے کہ قتل و غارت کا قانون علما کی اپنی سمجھ ہے ناکہ قرآن و حدیث سے ثابت ہے
ایک واقعہ ہم کتب میں پڑھا کرتے تھے جو اب کتب سے جماعت غیر اسلامی نےنکلوا دیا ہے اس واقعہ میں رسول کریمpbuh پر ایک عورت کا اپنی چھت سے کوڑا پھینکنا ثابت ہے لیکن رحمت العلمینpbuh نے اسکو قتل کرنے کا حکم صادر نہیں فرمایا حتی کہ ایکدن اس نے کوڑا نہیں پھینکا تو سرور کونینpbuh نے اس کا پتا فرمایا کہ کہیں بیمار نہ پڑ گئی ہو اور واقعتا ایسا ہی ہوا تھا وہ عورت بیمار تھی مگر اسی لمحے ایمان لے آئ


چودھری تیری تحریر کے مطابق تو اس عورت کی توبہ کے باوجود اسکے قتل کی سزا ساقط نہیں ہوتی ،اگر تیرے جیسے عالم ہوں تو کوی مخلص انسان ایمان لا کر بھی قتل سے نہ بچ سکےک


اس تاویل کا ایک اور بہت بڑا تضاد یہ ہے کہ اللہ جو سب کا پیدا کرنے والا ہے اگر کوی اسکی گستاخی کرے تو اسکا قتل توبہ کرنے کے بعد معاف ہوجاتا ہے...یا حیرت؟
ملاحظہ فرمائیں

خطابی نے لکھا ہے ہاں اگر اللہ کے معاملے میں کسی کا قتل واجب ہوجائے تو توبہ کرنے سے سزائے قتل ساقط ہوجاتی ہے،



میں تو چودھری صاحب سے پوچھ پوچھ کر تھک گئی ہوں کہ لفظ لعنت کا ترجمہ قتل کس ڈکشنری کے حساب سے کیا ہے

سچ یہ ہی ہے کہ اس کائنات کو بنانے والی ایک ہستی ہے جسے ہم الله کے نام سے جانتے ،پہچانتے ہیں .اور محمد صلعم آخری نبی ہیں ..قرآن ایک الہامی کتاب ہے جس کی حفاظت کا ذمہ بھی اس نے لے رکھا ہے .یہ میرا پختہ عقیدہ ہے

آپ سب "علمائے حق" سے گزارش ہے کہ صرف اس بات کا جواب دیں "قتل" اور "پھانسی "کی سزا میں کیا فرق ہے، اگر یہاں پھانسی کا لفظ استعمال کیا گیا ہے تو کس لفظ کے معنی میں ؟؟؟ کیا آپ کی منطق کے مطابق پاکستان میں قانون توہین رسالت قرآن اور سنّت کی غلط تشریح کی روشنی میں بنایا گیا ہے ؟؟؟ کیا سارے علماءغلط تھے ؟؟؟ اور اسمبلی میں یہ غلطی سے پاس کیا گیا ؟؟؟ اور آپ لوگ اس کا جواز دیں کہ یہ کیسے غلط ہے ؟؟

اگر صحیح ہے یہ قانون آپ سب کی نظر میں تو آپ کی مخالفت کس بنیاد پر ؟؟؟؟



 

Believer12

Chief Minister (5k+ posts)
انصاف کی بات تو یہ ہے کہ پاکستان کی تمام مذہبی جماعتوں میں جماعت اسلامی ہی ایک ایسی جماعت ہے تو فرقہ پرستی کی لعنت سے پاک ہے ۔باقی سارے تو اپنے سوا دوسرے مسلمان کو بھی مسلمان نہیں سمجھتے ۔مسلمانوں ہی کو کافر بنانے کی فیکٹریاں لگا رکھی ہیں۔
توہین رسالت پر ہر کلمہ گو کو بہت زیادہ تکلیف ہوتی ہے ۔دنیا بھر میں تو زور نہیں چلتا مگراپنے ملک میں تو بس چلتا ہے نا ۔اسی لئے جذبات سے مغلوب ہو کر ایسے تکلیف دہ اور قابل افسوس حادثات رونما ہو جاتے ہیں۔جو بالکل نہیں ہونے چاہئیں ۔اگر کسی پر الزام ہے تو اس کی سزا اور جزا کے لئے قانون ہے نا ۔ قانونی پراسس اختیار کرنا چاہیئے۔ ملزم کو اپنی صفائی کا پورا موقعہ ملنا چاہیئے ۔ جرم ثابت ہونے پر سزا اور جھوٹا الزام ثابت ہونے پر الزام لگانے والے کو سزا ملنی چاہیئے ۔
غیر مسلم مذہبی رہ نماوں سے بھی گزارش ہے کہ اپنی کمیونٹی کو احساس دلائیں کہ پاکستانی مسلم معاشرہ کسی بھی اللہ کے نبی کی توہین کا سوچ بھی نہیں سکتا کیونکہ تمام نبیوں کو ماننا ان کے ایمان کا حصہ ہے ۔ تو ان کو بھی مسلمانوں کے پاک پیغمبر اور ان کی الہامی کتاب یعنی قران پاک اور ان کے بزرگان دین کی توہین کسی بھی صورت نہ کریں ۔

برا درم غیر مسلموں کو ہم نبی پاک
pbuhکی محبت اور رحمدلی کے واقعات سناتے ہیں طائف اور مکہ کے واقعات سناتے ہیں کہ کسطرح آپ pbuhنے گستاخیاں کرنے والوں کو معاف فرما دیا ہمیں کسی قیمت پر مذھب کے نام پر ظلم و زیادتی کو سپورٹ نہیں کرنا ہے ہر قیمت پر انکو اسلام کا اصل چہرہ دکھانا ہے
 
Last edited:

نادان

Prime Minister (20k+ posts)

اللہ کرے کے یہ سیدھے رستے پر آجاۓ کیونکہ مجھ پر ایک خوفناک حقیقت کا ادراک ہوا ہے، مودودی صاحب کے بیٹے فاروق مودودی ، اور ارشاد احمد حقانی کو پڑھنے سے یہ پتا چلتا ہے کہ مودودی صاھب کو بخوبی علم تھا کہ انکا سٹانس اسلام کی تعلیمات کے خلاف ہے اسی لئے وہ اپنے بچوں کو جماعت سے بہت دور رکھتے تھے بلکہ اگر کوی ان سے بہت وفاداری دکھانے کی کوشش کرتا تو اس سے بھی دور ہوجاتے تھے کیونکہ انکے دل میں ایک خلش تھی کہ انکی پارٹی جس راستے پر ہے وہ تباہی کا راستہ ہے

مولویوں کی اس سے زیادہ منافقت کیا ہو گی اپنے بچے امریکہ پڑھنے کے لئے بھیجتے ہیں یہاں حوروں کے بیچ ..اور دوسروں کے بچے آخرت کی حوروں کا لالچ دے کر جہاد پر بھیج دیتے ہیں
 
برائے مہربانی غیر جانبدار ہو کر یہ کالم پڑھ لیں اور اس بحث کا اختتام کریں
ایک بات قابل ذکر رہے کہ یہ قانون ختم نہیں ہو سکتا لیکن اسکا استعمال صحیح ہونا چاھیئے

"اللہ و رسول کے ذمّہ کو جب زندہ جلا دیا گیا"

کوٹ رادھا کشن کے قریب ایک مسیحی بستی ہے جس کا نام کلارک آباد ہے۔ کوئی سولہ سترہ سال پہلے یہاں سے ایک مسیحی خاندان اٹھا اور روزگار کی خاطر یوسف گجر کے بھٹے پر مقیم ہو گیا۔ یہ بھٹہ چک 59سے ایک کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے جبکہ مذکورہ چک کوٹ رادھا کشن سے چند کلومیٹر ہی دور ہے۔ بابا ناظر مسیح کے سات بیٹے ہیں اور تین بیٹیاں ہیں۔ وہ جادو ٹونے اور تعویذ گنڈے کا کام کرتا تھا۔ اس نے اپنے ہاں قرآن مجید بھی رکھا ہوا تھا اور بائبل بھی۔ وہ تعویذ دیتا تو اس میں بائبل کے الفاظ بھی ہوتے اور قرآنی آیات کے بھی۔۔۔ مسلمان بھی اس سے تعویذ دھاگہ لیتے تھے۔ ناظر مسیح کے گھر میں اچانک ایک تبدیلی رونما ہوئی، اس کا بیٹا فیاض اور بہو مسلمان ہو گئے۔ بھٹہ مالک یوسف گجر اس ضمن میں تعاون کرتا رہا۔۔۔ حالیہ محرم کے پہلے جمعہ کو بابا ناظر مسیح فوت ہو گیا۔ ناظر کا بیٹا شہزاد اور اس کی بیوی شمع بھی اسلام کی جانب مائل ہو چکے تھے۔ وہ ناظر کے دھندے کو اچھا نہ جانتے تھے چنانچہ دونوں نے یہ کیا کہ ناظر بابا کے مرنے کے بعد اس کے فوٹو کاپی کئے ہوئے تعویذ اور کاغذ وغیرہ جلا دیئے۔ شہزاد نے اس کا اظہار بھٹہ مالک یوسف گجر سے کیا اور کہا کہ ہم نے اس سارے عمل سے جان چھڑا لی ہے اور مسلمان ہونے کے ارادے کا بھی اظہار کیا۔ یہاں بھٹہ پر مزدوری کرنے والے پانچ چھ گھر مسیحی برادری ہی کے ہیں۔ بابا اپنے چھوٹے بیٹے سجاد اور صائمہ کے پاس رہتا تھا۔ یہ سارے لوگ بھی بابا کے جادو ٹونے کے کام کو اچھا نہ سمجھے تھے۔ جب بابا کے تعویذ جلنے کی بات یوسف گجر نے سنی تو اس نے نصیحت کی کہ یہ بات آگے نہ کرنا، کوئی مسئلہ نہ بن جائے۔
یوسف گجر جب نصیحت کر رہا تھا تو اس کے پاس اس کے منشی افضل اور شکیل بھی بیٹھے تھے۔ شکیل منشی اور یوسف گجر آپس میں رشتہ دار بھی ہیں۔ دونوں منشی جب اپنے گاؤں چک59 آتے ہیں تو منشی افضل گاؤں کی ایک مسجد کے مولوی محمد حسین سے ملاقات کرتا ہے اور مذکورہ واقعہ بتاتا ہے۔ اب مولوی محمد حسین مشتعل ہو جاتا ہے کہ ان لوگوں نے قرآن کے الفاظ کو بھی جلا دیا چنانچہ یہ دونوں اس بات کو پھیلاتے ہیں اور دیگر مولویوں سے رابطہ کرتے ہیں۔ ایک دن سکون سے گزرتا ہے مگر افواہیں پھیلتی چلی جاتی ہیں کہ مسیحیوں نے قرآن کو جلا دیا۔۔۔ اگلے دن صبح کی نماز کے بعد مولوی محمد حسین اور دیگر مساجد میں لاؤڈ سپیکروں پر اعلان کرتے ہیں اور لوگوں کو مذکورہ بھٹے کی طرف جانے کو کہتے ہیں چنانچہ 700 کے قریب لوگ 59،60، 65 اور دیگر چکوں سے اکٹھے ہو کر بھٹے کی طرف لاٹھیاں وغیرہ لے کر چل پڑتے ہیں۔
لاؤڈ سپیکروں سے اعلان سن کر شہزاد اور شمع اپنے تین بچوں چھ سالہ سلمان، چار سالہ بچی سونیا اور اٹھارہ ماہ کی بچی پونم کو گھر چھوڑتے ہیں اور خود یوسف گجر کے دفتر میں آ جاتے ہیں۔ وہاں دفتر میں بند ہو کر اندرسے دروازہ بند کر لیتے ہیں۔ اتنے میں لوگ جمع ہو جاتے ہیں اور کمرے کا گھیراؤ کر لیتے ہیں۔ لوگ دروازہ کھولنے کیلئے کہتے ہیں تو شہزاد اور شمع جواب دیتے ہیں کہ ہم نے تو محض اپنے بابا کے تعویذ اور اوراق جلائے ہیں۔ ہمیں کچھ نہیں پتہ۔

ہم تو اسے جادو ٹونہ سمجھتے ہیں، اس لئے جلائے ہیں۔ ہم نے قرآن کے اوراق نہیں جلائے۔ مگر لوگ نہیں مانے۔ اب وہ کمرے کی چھت ادھیڑتے ہیں، ایک شخص اندر چھلانگ لگاتا ہے اور شمع جو 4ماہ کی حاملہ تھی اس کے پیٹ پر لات مارتا ہے اور دروازہ کھول دیتا ہے۔ اب لوگ باہر نکال کر مارنا پیٹنا شروع کر دیتے ہیں۔ ایک شخص شہزاد کی گردن پر بالا مارتا ہے وہ بے ہوش ہو کر گر جاتا ہے، شمع بھی مار کھا کر گر جاتی ہے۔ اب دونوں کو ٹریکٹر کے پیچھے باندھا جاتا ہے، گھسیٹا جاتا ہے، ساتھ مار بھی پڑ رہی ہے، بھٹہ کی بھٹی جو جہنم زار ہوتی ہے، وہاں لا کر دونوں زندہ میاں بیوی کو اس میں پھینک دیتے ہیں۔ وہ کوئلہ بن جاتے ہیں۔ اب یہ کالک بن کر پاکستان کے چہرے کو کالا کر رہی ہے۔ مسلمانان پاک کے چہرے کو سیاہ کر گئی ہے، اسلام کو بدنام کر گئی ہے اور کرتی چلی جا رہی ہے
قارئین کرام! ہم نے مذکورہ واقعہ کی ہر پہلو اور ہر مکتب فکر تک رسائی کر کے جو تحقیق کی ہے وہ سپرد قلم کیا ہے۔ قابل غور بات یہ ہے کہ مذکورہ اندوہناک واقعہ سے پہلے بھی متعدد واقعات ہو چکے ہیں کہ جن کی زد میں مسلمان آ چکے ہیں جلائے جا چکے ہیں اور پتھروں سے سنگسار کئے جا چکے ہیں۔۔۔ سب واقعات میں مشترک ایک ہی نکتہ ہے کہ مولویوں کے اعلانات جو مساجد میں لاؤڈ سپیکروں پر ہوئے انہوں نے سانحات کو جنم دیا، حادثات کو رونما کیا۔۔۔ میں نے بڑا غور کیا کہ یہ مولوی کس کا وارث ہے؟ اگر یہ حضور رحمۃللعالعینؐ کا وارث ہوتا تو ایسا کرنے کا سوچ بھی نہ سکتا۔ اس کے سامنے قرآن ہوتا تو قرآن کی سورۂ حجرات تو کہتی ہے کہ مسلمانو! جب کوئی فاسق خبر لے کر آئے تو تحقیق کر لیا کرو۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ جہالت کی وجہ سے اقدام کر بیٹھو اور پھر ندامت ہی ندامت کا منہ دیکھتے رہ جاؤ۔۔۔ جہالت کی انتہا کہ تحقیق تو درکنار۔۔۔ ہجوم لے کر پَل پڑے
ملزم انکار کرتے ہیں تو انکار کا فائدہ بھی نہیں دیتے۔ پھر خود ہی موقع پر سزا دیتے ہیں اور سزا بھی ایسی کہ شدید اورسرعام تشدد کے بعد آگ کے الاؤ میں بھسم کر دیتے ہیں۔ ان کو اس قدر بھی خبر نہیں کہ حضور رحمۃللعالمینؐ نے اپنے ایک سفر میں صحابہ کے ایک گروہ کو دیکھا کہ انہوں نے چیونٹیوں کا بل اس وجہ سے جلا دیا کہ جس درخت کے نیچے وہ آرام کر رہے تھے وہاں چیونٹیوں کا بِل تھا۔ وہ کاٹتی ہوں گی تو یہ کام کر دیا۔۔۔ حضورؐ نے جب دیکھا تو سخت ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا، آگ کے رب کے سوا کسی کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ کسی کو آگ کی سزا دے (ابوداؤد) پھر اللہ کے نبیؐ سے صحیح بخاری میں یہ واقعہ بھی مذکور ہے کہ آپؐ نے فرمایا: نبیوں میں سے ایک نبی درخت کے نیچے آرام کو ٹھہرے، انہیں چیونٹی نے کاٹ لیا، انہوں نے حکم دیا کہ بل کو آگ لگا دی جائے، سارے بِل کو ظاہر کیا گیا اور چیونٹیوں کو جلا ڈالا گیا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے غصے کا اظہار کرتے ہوئے اپنے نبی سے کہا، صرف اسی چیونٹی ہی کو کیوں نہ مارا کہ جس نے کاٹا تھا، تم نے چیونٹیوں کی ساری قوم ہی مار ڈالی جو اللہ کی تسبیح کرتی تھی۔
ہاں ہاں! مولویوں کو میں کیا کہوں کہ تم نے آگ کا عذاب بھی دیا، اللہ کے کام کو اپنے ہاتھ میں لیا اور ظالمو! اس بچے کو بھی مارر ڈالا جو ماں کے شکم میں آٹھ ماہ کا تھا۔۔۔ بتلاؤ! اس کا جرم کیا تھا؟ تم اس قدر جلد باز تھے کہ دنیا میں اس کے آنے کا انتظار بھی نہ کیا، کیا معلوم کہ اس کے ماں باپ جو اسلام کے ساتھ اپنایت کا اظہار کر رہے تھے، مسلمان ہو جاتے اور مذکورہ بچہ کتنا بڑا اور عظیم مسلمان ہوتا؟

ہاں ہاں! اگر ایسا نہ بھی ہوتا تو تمہیں کیا حق تھا کہ ان کو مارتے جن کو اللہ کے رسولﷺ نے ذمّی کہا اور حضرت عمرؓ نے فرمایا، ان کی حفاظت کرنا اللہ کے ذمّہ کو پورا کرنا ہے۔ آہ! تم لوگوں نے اللہ اور اس کے رسولؐ کی ضمانت کی دھجیاں اڑا دیں، ضمانت کو برسر زمین روند ڈالا، ٹریکٹر کے پیچھے باندھ کر گھسیٹ ڈالا اور آگ میں کوئلہ بنا دیا۔ آہ! تم لوگ اپنے اس مذموم عمل سے جنت کی امیدیں باندھتے ہو حالانکہ وہ رحمت دو عالم رسولؐ کہ جن کا پاک منبر جنت کے دروازے پر ہو گا اور امام احمدؒ کی لائی ہوئی حدیث کے مطابق حضورؐ وہاں تشریف فرما کر اہل جنت کو جنت میں جاتے دیکھیں گے، سب سے پہلے جنت کا دروازہ کھلوائیں گے۔۔۔ وہ فرماتے ہیں جس نے کسی ذمّی کو قتل کر دیا وہ جنت کی خوشبو نہیں پائے گا اور جنت کی خوشبو سو سال کی مسافت سے آئے گی
میاں شہباز شریف صاحب نے تین یتیم مسیحی بچوں کو زمین کے 10 ایکڑ اور 50لاکھ روپے دینے کا اعلان کیا ۔۔۔ میں کہتا ہوں یہ اچھا اور قابل تحسین اقدام ہے مگر اصل مسئلہ تو وہیں کا وہیں رہا۔ اگر ایسے رونما ہونے والے پہلے واقعات کے مجرموں کو سخت سزا دی جاتی، سرعام لٹکایا جاتا تو یہ واقعہ نہ ہوتا۔ میں کہتا ہوں کہ اب بھی کرنے کا کام یہ ہے کہ مجرموں کو سرعام سزا دی جائے وگرنہ یہ واقعات رکنے نہ پائیں گے، تھمنے نہ پائیں گے۔۔۔ اور یوں ہر واقعہ کا اصل ذمہ دار وہ حکمران ہے جو سرزمین پاکستان پر قانون کا نفاذ ان لوگوں کے خلاف نہیں کرتا جو قانون کو اپنے ہاتھ میں لے کر قانون کی دھجیاں اڑاتا ہے۔
مولانا امیر حمزہ
ہفت روزہ جرار
 

Raaz

(50k+ posts) بابائے فورم
الله نے ایسے لوگوں پر جو توہین کے مرتکب ہوئے لعنت بھیجی ہے اور ان کو عذاب الله کی خبر دی ہے ..اب آپ الله کی سنت پر عمل کرتے ہوے آپ بھی صرف لعنت بھجیں اور عذاب کا کام الله ہی پر چھوڑ دیں ..اب الله کی مرضی وہ عذاب دنیا میں دیتا ہے یا آخرت کے لئے اٹھا رکھتا ہے



یہ کیسے عذاب کا کام اللہ پر چھوڑ سکتے ہیں
یہ تو خود اللہ کا عزاب ہیں ، جس بھی قوم میں ہوں وہاں فساد کی جڑ ہیں
;)
 

نادان

Prime Minister (20k+ posts)




















آپ سب "علمائے حق" سے گزارش ہے کہ صرف اس بات کا جواب دیں "قتل" اور "پھانسی "کی سزا میں کیا فرق ہے، اگر یہاں پھانسی کا لفظ استعمال کیا گیا ہے تو کس لفظ کے معنی میں ؟؟؟ کیا آپ کی منطق کے مطابق پاکستان میں قانون توہین رسالت قرآن اور سنّت کی غلط تشریح کی روشنی میں بنایا گیا ہے ؟؟؟ کیا سارے علماءغلط تھے ؟؟؟ اور اسمبلی میں یہ غلطی سے پاس کیا گیا ؟؟؟ اور آپ لوگ اس کا جواز دیں کہ یہ کیسے غلط ہے ؟؟

اگر صحیح ہے یہ قانون آپ سب کی نظر میں تو آپ کی مخالفت کس بنیاد پر ؟؟؟؟



چودھری صاحب پہلے آیت کا ترجمہ ..اسی سے بات آگے چلے گی ..
 

Jaanbaazkarachi

MPA (400+ posts)













آپ سب "علمائے حق" سے گزارش ہے کہ صرف اس بات کا جواب دیں "قتل" اور "پھانسی "کی سزا میں کیا فرق ہے، اگر یہاں پھانسی کا لفظ استعمال کیا گیا ہے تو کس لفظ کے معنی میں ؟؟؟ کیا آپ کی منطق کے مطابق پاکستان میں قانون توہین رسالت قرآن اور سنّت کی غلط تشریح کی روشنی میں بنایا گیا ہے ؟؟؟ کیا سارے علماءغلط تھے ؟؟؟ اور اسمبلی میں یہ غلطی سے پاس کیا گیا ؟؟؟ اور آپ لوگ اس کا جواز دیں کہ یہ کیسے غلط ہے ؟؟

اگر صحیح ہے یہ قانون آپ سب کی نظر میں تو آپ کی مخالفت کس بنیاد پر ؟؟؟؟






دنیا کی آبادی کی ایک بڑی تعداد ابھی بھی رسول الله کو رسول منانے پر تیار نہیں اور روزانہ کھلے عام انکی توہین کرتی ہے، تمھارے خیال سے اگر توہین رسالت کا قانون خدائی اجازت کی وجہ سے تشکیل پایا تھا تو پھر خود خدا کیوں ان لوگوں کو سزا نہیں دیتا ؟

مسلہ تمہاری اور تمھارے جیسوں کی سوچ کا ہے، جنہوں نے چند حدیثوں کو پڑھ کر جو غلط اور کہانیاں ہوسکتی ہیں ایک خود ساختہ خدائی قانون بنا دیا ہے

یا تو اسلام انسانیت کا درس دیتا ہے اور رسول الله رحمت اللمین تھے، یا ایک کلٹ یا گینگ لیڈر تھے، جو کسی بھی قسم کی تنقید کو برداشت کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے تھے، تمہارا دماغ سہی ہے ؟ تم نے رسول الله کو کیا سمجھ رکھا ہے ؟

اگر یہ واقع خدائی قانون ہوتا تو خدا خود قرآن میں صاف صاف الفاظ میں بیان کرتا، اس نے صرف لعنت کی ہے ایسے لوگوں پر، قتل کا حکم نہیں دیا ہے، اور بھی تو قانون بیان کئے ہیں نا اسنے قرآن میں صاف صاف، اگر اس بارے میں نہیں بات کی تو کوئی وجہ ہوگی ؟

انسان بنو، جماعتی نا بنو کوئی تو فرق ہونا تم میں اور ایک نارمل انسان میں، انسانیت سے محبت کرنا سیکھو اور نفرتیں نہیں پھلاؤ اگر کوئی رسول الله پر تنقید کرتا ہے تو کرنے دو، اس سے کیا انکی صحت یا عزت پر کوئی فرق آجانے گا ؟ تمھارے خیال سے انسان اتنے بڑے ہوگئے ہیں کے وہ ایسا کرسکتے ہیں ؟




 

Afaq Chaudhry

Chief Minister (5k+ posts)
قانون توہین رسالت پر نیا حملہ

(M.Ahmed Tarazi) Karachi

[TABLE="class: TextClassUrdu, width: 100%"]
[TR]
[TD="align: right"]اِس کہانی کا آغاز نینسی جے پال سے ہوتا ہے،جو 16 اگست2002ءسے5 نومبر2004ء تک پاکستان میں امریکہ کی سفیر رہی ہیں،بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ انہیں پاکستان میں تعینات کرتے وقت کچھ خصوصی حدف دیئے گئے تھے،جن میں ایک پاکستان کے نصاب تعلیم میں تبدیلی،دوسرا حدود آرڈی نینس کا خاتمہ یا ترمیم،تیسرا قانون توہین رسالت کو ختم کرنا یا تبدیل کرنا،اور چوتھا امتناع قادینت آرڈیننس کی منسوخی، چنانچہ نینسی جے پال نے ذمہ داریاں سنبھالتے ہی صدر،وزیر اعظم اور دیگر اہم شخصیات سے پہلے خفیہ اور بعدازاں اعلانیہ ملاقاتیں شروع کردیں،اُس وقت بعض باخبر اور محب وطن دانشور اِن ملاقاتوں کو خطرے کا الارم قرار دے رہے تھے،دور اندیشوں نے بھانپ لیا تھا کہ اندر ہی اندر کچھ کچھڑی پک رہی ہے،لیکن کچھ ہی عرصے بعد جب امریکی استعمار کے ایجنڈے پر باقاعدہ کام شروع ہوا تو پوری تصویر نکھر کر سامنے آگئی،سب سے پہلے امریکی ایجنڈے کے مطابق نصابِ تعلیم میں تبدیلی پر کام شروع ہوا اور2003ء سے پاکستان کے نصابِ تعلیم میں تبدیلیوں کا آغاز ہوا جو2004ءمیں اختتام پذیر ہوا، ابتدائی طور پر امریکہ نے پاکستان کے نظام تعلیم کی تبدیلی کیلئے پاکستان کو3 ارب90کروڑ روپے دیئے،یہ بات بھی ریکارڈ پر موجود ہے کہ 5 فروری2005ءکو سابق صدر بش نے فخریہ انداز میں کہا تھا کہ پاکستان کا نصابِ تعلیم میرے کہنے پر تبدیل کیا گیا۔ جس کے بعد سابق آمر پرویزمشرف نے انڈیا ٹوڈے کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ بھارت اور پاکستان کا نصابِ تعلیم مشترکہ ہونا چاہئے۔ مئی2004ءکو قومی اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے اُس وقت کی وزیر تعلیم زبیدہ جلال کا یہ بیان بھی ریکارڈ پر موجود ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ بیالوجی کی کتاب میں قرآنی آیات کا کیا کام ہے؟ اور اگر مقدس مضامین کے سامنے کتے کی تصویر آگئی ہے تو اِس میں کیا مضائقہ ہے۔؟ اِس کے بعد حکومت نے نصاب سے سیرت رسول،غزوات،جہاد کی آیات، شہادت کا فلسفہ،صحابہ کرام کے واقعات،مسلم فاتحین کے حالات و واقعات،اُمہات المومنین کے تذکرے اور ہر ایسی بات نکال دی جس کو پڑھ کر ایک طالبعلم نظریاتی مسلمان،سچا پاکستانی اور اسلام کا مجاہد بن سکتا تھا۔

نصاب تعلیم میں تبدیلی کے بعد دوسرا اہم ایجنڈا حدود آرڈیننس میں تبدیلی تھا،تاکہ پاکستان کے اسلامی کلچر کو یہود ونصاری کے مادر پدر آزاد معاشرے میں تبدیل کیا جاسکے،یہ لوگ اچھی طرح جانتے تھے کہ اگر اِس ملک میں حدود آرڈیننس باقی اور موثر رہا تو زناکاری اور بدکاری کا جنازہ نکل جائے گا،واضح رہے کہ جس معاشرہ میں زناکاری و بدکاری نہیں ہوتی،وہ کثرتِ اموات،کثرت امراض،معاشی تنگ دستی اور جنگ و جدل سے بچ کر ترقی کی راہ پر گامزن ہوجاتے ہیں،جو انہیں کسی طور بھی گوارہ نہیں تھا،چنانچہ پاکستانی معاشرہ اور مسلمانوں کو غلاظت کی اِس دلدل میں دھکیلنے کے لئے سب سے پہلے حدود آرڈیننس کے خلاف اربوں ڈالر کے مصارف سے کچھ سوچئے کے عنوان سے ایک میڈیا مہم چلائی گئی اور حدود آرڈیننس کے خاتمے کیلئے فی ممبر پچیس پچیس کروڑ روپے خرچ کیے گئے،تاکہ ملک میں فحاشی وعریانی کیلئے راہ ہموار ہو سکے،پوری قوم کو ذہنی طور پر حدود آرڈیننس کے خلاف بغاوت پر آمادہ کیا گیا،زنا بالجبر اور زنا بالرضا کی غلیظ ابحاث اٹھائی گئیں اور کھلے عام بحث و مباحثے ہوئے،ٹی وی چینلز پر اِس نازک اور شرم وحیا والے مسئلے پر بے ہودہ گفتگو کی گئی،جس میں حدود ختم کرنے پر زور دیا گیا،دلائل کے طور پر زانی عورتوں کو مظلوم اور کوڑے مارنے اور حد جاری کرنے کو ظلم قرار دیا گیا اور وہ حدود آرڈیننس جو زنا کے سدباب کی ایک ادنیٰ سی کوشش تھی،اُس کو ظلم و تشدد سے تعبیر کرایا گیا،یوں حدود آرڈیننس کو کالعدم قرار دینے کیلئے 2005ءمیں شروع ہونے والا کام 2006ءمیں اِس کے متبادل حقوق نسواں بل لانے اور زنا کاری کو تحفظ فراہم کرنے کا سبب بنا،صرف یہی نہیں ہوا بلکہ ایسے جوڑے جو بدکاری و زناکاری کے مرتکب تھے،انہیں تحفظ فراہم کرنے کے لئے بیرون ملک شہریت دے کر اِس گھناؤنے جرم اور مجرمین کی حوصلہ افزائی بھی کی گئی،جس کے بعد ملک میں عریانی،فحاشی اور بے حیائی کے دور غلیظ کا آغاز ہوا۔

اِس کے بعد اِن اسلام دشمن قوتوں کا اگلا ہدف قانون توہین رسالت اور امتناع قادیانیت آرڈیننس تھا،منصوبے کے مطابق یہ کام2007ءمیں شروع ہونا تھا اور2008ءتک ختم ہونا تھا،مگر 9مارچ 2007ءسے سابق آمر پرویزمشرف حکومت کی الٹی گنتی شروع ہوگئی، جس کی وجہ سے یہ کام کچھ عرصے کیلئے رک گیا،لیکن اب یہ کام امریکہ ہماری موجودہ حکومت سے لینا چاہتا ہے،حکومت اِس کی حامی بھر چکی ہے،صدر زرداری لندن میں اِس کی یقین دہانی بھی کروا چکے ہیں اور دل و جان سے عمل کرنے کیلئے مچل رہے ہیں،ہدف یہ ہے کہ2009ءسے2012ءتک تین سالوں کے دوران اِس تیسرے اور اہم ترین قانون توہین رسالت کو ختم یا غیر موثر کروایا جائے،جس پر کام کا آغاز گوجرہ، سمبڑیال اور ڈسکہ سانحات،دیوبندی بریلویوں میں اختلافات کو ہوا دے کر اور بعض لیڈروں کے بیانات سے ہوچکا ہے،ننکانہ کے نواحی علاقے اٹانوالی سے تعلق رکھنے والی45 سالہ عیسائی خاتون آسیہ کا معاملہ بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے،جسے تعزیرات پاکستان کی دفعہ 295سی کے تحت 8نومبر 2010ءکو توہین رسالت کے جرم میں مقامی عدالت نے سزائے موت سنائی ہے،جس کے بعد بار پھر یہ قانون اِن قوتوں کے نشانے پر ہے اور نام نہاد حقوق انسانی کے تنظیموں،بیرونی سرمائے پر پلنے والی این جی اوز ،پوپ بینیڈیکٹ اور یہودی و صہیونی ممالک کی جانب سے اِس قانون کے خلاف بلا جواز واویلا اور منسوخی کا مطالبہ سامنے آرہا ہے۔

گزشتہ دنوں صدر آصف علی زرداری نے بھی اِس قانون پر عملدرآمد کے طریقہ کار میں اصلاحات کیلئے وفاقی وزیر اقلیتی امور شہباز بھٹی (جو کہ اقلیتی حقوق کے چمپئن اور اپنی کمیونٹی کا بھرپور دفاع کرتے ہیں اور جو اِس قانون کو ظالمانہ قرار دے چکے ہیں) کی سربراہی میں کمیٹی بنانے کا حکم دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اصلاحاتی طریقہ کار کی سفارش کیلئے دانشوروں اور ماہرین کی کمیٹی کیلئے نام تجویز کریں،تاکہ ذاتی اور سیاسی وجوہات پر توہین رسالت قانون کے غلط استعمال کو موثر طور پر روکا جا سکے، صدر کا کہنا تھا کہ اِس قانون کے غلط استعمال کے بڑھتے ہوئے واقعات کو روکنے کے لئے حکومت انتظامی،طریقہ جاتی اور قانونی اقدامات سمیت تمام تر مناسب اقدامات اٹھائے گی۔ دوسری طرف پے درپے واقعات کے بعد زمین قدرے ہموار ہوچکی ہے،مگر یہ حکومت کے لئے اتنا آسان کام نہیں،گو کہ بازی گروں کے پاس حیلوں اور بہانوں کی کمی نہیں،ایک بہانہ جس کا بہت زیادہ امکان ہے،وہ یہ ہے کہ نظرثانی (ریویو) کے نام پر اِس قانون کو غیر معینہ مدت کے لئے سرد خانے میں ڈال کر عدالتوں کو اِس قانون کے تحت سزائیں دینے سے روک دیا جائے اور یہ دلیل دی جائے کہ ہم ناموس رسالت کے قانون کو بدلنے کا سوچ بھی نہیں سکتے،فقط اِس کے غلط استعمال کو روکنے کے لئے قانون پر از سر نو نظر ثانی کررہے ہیں،یہ دراصل اُسی گہری مکروہ سازش کے تانے بانے ہیں،جس کی منادی نیو یارک اور تجدید لندن سے ہوئی اور جس کا ایجنڈا لے کر سابق امریکی سفیر نینسی جے پال پاکستان آئی تھی ۔

اَمر واقعہ یہ ہے کہ قانون توہین رسالت کے ذاتی،سیاسی اور غلط استعمال کا معاملہ ایک الگ انتظامی اور قانونی مسئلہ ہے،جس کا اِس قانون کی منسوخی کے مطالبے سے کوئی تعلق اور ربط نہیں،جہاں تک اِس قانون کے اقلیتوں کے خلاف استعمال کا معاملہ ہے تو یہ بات بالکل غلط ہے،پچھلے بیس سالوں کے دوران توہین رسالت اور توہین قرآن کے الزام میں 700 سے زائد مقدمات درج ہوئے،جن میں نصف سے زیادہ مقدمات مسلمانوں نے مسلمانوں کے خلاف درج کرائے،لہٰذا یہ دعویٰ بالکل ہی غلط ہے کہ 295 سی کا نشانہ صرف غیرمسلم اقلیت ہی بنتی ہے،اب رہ گئی بات اِس قانون کی منسوخی کی،تو یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے کسی بے گناہ فرد کو تعزیرات پاکستان کی دفعہ 302کے تحت قتل کے مقدمے میں ملوث کردیا جائے اور پھر اِس دفعہ کی منسوخی کی بات کی جائے،آج تک کسی جانب سے کبھی یہ مطالبہ سامنے نہیں آیا کہ دفعہ 302،304اور307کالا قانون ہیں،انہیں فی الفور ختم کیا جائے اور ملک بھر میں اِن دفعات کے تحت سزا یافتہ افراد کو صدر صاحب معافی دے کر یورپ،امریکہ اور جرمنی روانہ کردیں،حقیقت یہ ہے کہ قانون توہین رسالت میں کوئی خامی نہیں ہے،جہاں یہ قانون توہین رسالت کے مرتکب افراد کیلئے سزا کا تعین کرتا ہے، وہیں توہین رسالت کا جھوٹا الزام لگانے والوں کیلئے بھی قانون میں سخت سزا کی دفعہ موجود ہے،اگر شہباز بھٹی اور سلمان تاثیر اپنی دانست میں آسیہ کو بے گناہ سمجھتے ہیں تو اُن کے کیلئے آسیہ کی سزا کے خلاف ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ کا دروازہ کھلا ہوا ہے،وہ اِس سزا کے خلاف اعلیٰ عدالتوں سے رجوع کرتے،کیونکہ ماضی میں ایسی کئی مثالیں موجود ہیں جن میں ہائیکورٹ نے توہین رسالت کے ملزمان کو الزام ثابت نہ ہونے پر رہا کیا ہے۔

لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ شہباز بھٹی اور سلمان تاثیر کے اقدامات کا اصل مقصد توہین رسالت کی مرتکب آسیہ کو بچاکر بے گناہ ثابت کرنا یا عادی مقدمہ بازوں کی حوصلہ شکنی کرنا نہیں،بلکہ 295 سی میں ترمیم یا منسوخ کرانا ہے،یہ دراصل آسیہ کے نام پر ایک ایسے قانون کو بدلنے کی کوشش کی ہے،جو ملک کی نوے فیصد اکثریت کے جذبات و احساسات کا مظہر اور کسی ملزم کو عوامی غیظ و غضب سے بچانے کا ضامن ہے،جس پر مسلمانوں کے تمام مکاتب فکر کا اتفاق موجود ہے اور جو پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے متفقہ طور پر منظورشدہ ہے،لہٰذا ایسے قانون کو کالا قانون قرار دینا اور اسے یکسر ختم کرنے کے اعلانات کرنا صرف عدالتی فیصلے کی ہی تذلیل نہیں بلکہ عامة المسلمین کے جذبات کی توہین اور مسلمانوں کے بدن سے روح محمد صلی اللہ علیہ وسلم نکال کر متاع دین و ایمان سے محروم کرنے کا سوچا سمجھا شرمناک منصوبہ ہے،جس سے ملک میں فتنہ و فساد کی آگ بھڑک اٹھے گی،اب رہ گئی بات عیسائی خاتون آسیہ کی سزا کی،تو یہ بات پر ریکارڈ پر موجود ہے کہ دوران تفتیش اُس نے ایس پی انویسٹی گیشن شیخوپورہ محمد امین شاہ بخاری اور مسیحی برادری کے اہم افراد کی موجودگی میں اعتراف جرم کرتے ہوئے کہا تھا کہ اُس سے غلطی ہوگئی ہے،لہٰذا اُسے معاف کردیا جائے،جس کے بعدایڈیشنل سیشن جج ننکانہ صاحب نوید اقبال نے گواہوں کے بیانات اور واقعاتی شہادتوں کو سامنے رکھتے ہوئے قانون کے مطابق کو آسیہ کو سزائے موت اور ایک لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی تھی۔

قارئین محترم،اصل معاملہ یہ ہے کہ یہ قانون ایسے موذیوں کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے،جو اپنے بیرونی آقاؤں کے اشاروں پر مقدس شخصیات خصوصاً پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں گستاخی کرتے ہیں،بلاشبہ قانون توہین رسالت حضرات انبیاء کرام اور مقدس شخصیات کے خلاف بھونکنے والی ایسی زبانوں کو روکنے بلکہ انہیں لگام دینے کا موثر ہتھیار ہے،لہٰذا اِس قانون کو غیر موثر بنانے کی خاطر جان بوجھ کر ایسے موذیوں کو دریدہ دہنی پر آمادہ کیا جاتا ہے،جو اسلام، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کی مقدس شخصیات کے خلاف جان بوجھ کر دریدہ دہنی کے مرتکب ہوتے ہیں،گزشتہ حالات اِس بات کے گواہ ہیں کہ اِس قسم کے واقعات میں اِن عناصر نے باقاعدہ طے شدہ منصوبے کے تحت اِس کو فساد کی شکل دی اور قتل وغارت اور جلاؤ گھراؤ کے ذریعے جنگ و جدل کا بازار گرم کیا،دنگا فساد برپا کرنے کے لئے جانبین پر حملے کرائے اور توہین رسالت کے مرتکب موذیوں اور گستاخوں کی صفوں میں گھس کر مسلمانوں کو اور مسلمانوں کی صفوں میں گھس کر اِن موذیوں کو مارا،زخمی اور قتل کیا،بلکہ ہر دو جانب سے فائرنگ کا ڈھونگ رچاکر مسلمانوں کو ظالم اور اعدائے اسلام کو مظلوم باور کراتے ہوئے اِس کو قانون توہین رسالت کو غلط استعمال کے کھاتے میں ڈالا،اور اپنے زر خریدغلاموں کے ذریعے پر زور مطالبے اور بیان دلوائے گئے کہ چونکہ یہ سب کچھ قانون توہین رسالت کے غلط استعمال کی وجہ سے ہوا ہے،لہٰذا قانون توہین رسالت کو ختم ہونا چاہئے،دیکھا جائے تو یہ سب کچھ اُسی منظم سازش اور مہم کا حصہ ہے جس میں طے کیا جا چکا ہے کہ قانون توہین رسالت اور امتناع قادیانیت آرڈیننس ہر حال میں ختم ہونا چاہئے، چنانچہ پاکستان بھر میں جہاں جہاں عیسائی مسلم اورقادیانی مسلم فسادات کی خبریں آتی ہیں،اُس کے پیچھے دراصل یہی عنصر کارفرما ہوتا ہے۔

لہٰذا اگر خدانخواستہ قانون توہین رسالت منسوخ یا تبدیل ہوگیا تو اِس کے بعد ان اسلام دشمن قوتوں کا اصل اور نہایت ہی خطرناک حدف 7ستمبر 1974ءکو متفقہ طور پر منظور ہونے والی وہ آئینی ترمیم ہوگی،جسے قائد ملت اسلامیہ علامہ شاہ احمد نورانی صدیقی کے تحرک پر پاکستان کی قومی اسمبلی اور سینٹ نے منظور کر کے قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا گیا تھا،قارئین محترم ،اوپر بیان کئے گئے حالات وواقعات، آثاروقرائن اور ملکی وبین الاقوامی لادین لابیوں،افراد،جماعتوں اور اسلام دشمن این جی اوز کے بیانات اور مطالبات سے اس اَمر کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ایک باقاعدہ اور منظم منصوبہ تشکیل دیا جاچکا ہے، جس کے تحت پاکستان اور بیرون پاکستان کے نام نہاد سیکولر زعماء بیرونی سرمائے اور اشاروں پر پاکستان کی اسلامی نظریاتی شناخت کے خلاف اِس گھناؤنے مشن میں مصروف ہیں،جس میں بطور خاص پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر،وزیر اقلیتی امور شہباز بھٹی اور ایک خود جلاوطن لیڈر سر فہرست ہیں۔

اِس ساری صورت حال کا تکلیف دہ اور اذیت ناک پہلو یہ ہے کہ جس قوم نے انگریزی دور سے اب تک دین و مذہب اور نفاذ اسلام کےلئے اپنا تن،من اور دھن قربان کرنے کو اپنے لئے سرمایہ اعزاز و افتخار سمجھا،اعدائے اسلام،باغیانِ ملت اور موذیانِ رسول کے خلاف ہر محاذ پر چومکھی لڑائی لڑی اور جس نے لاکھوں جانوں،عزتوں،عصمتوں اور املاک کی قربانی دے کر محض اِس لئے یہ خطہ زمین حاصل کیا کہ اِس میں نفاذ اسلام ہوگا اور وہ آزادی سے شعائر اسلامی کے مطابق اپنی زندگی بسر کرسکیں،مگر افسوس ! صد افسوس! کہ آج وہ قوم خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے،دوسری طرف پاکستان کے دین دار طبقات اور اسمبلی میں موجود نبی امی صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت و وابستگی کے دعویدار،نہ صرف گو مگو کا شکار ہیں،بلکہ اِس قدر حساس مسئلے اور دین و مذہب کے بنیادی اور اساسی معاملات پر زد پڑنے کے باوجود بھی بے حس و حرکت دکھائی دے رہے ہیں،بظاہر ایسا لگتا ہے کہ وہ اِس کو ذرہ بھر کوئی اہمیت دینے یا اِس پر کسی قسم کی ناگواری کا اظہار کرنے کے روادار نہیں ہیں،سوال یہ ہے کہ عاشقانِ رسول اور محبانِ دین ومذہب ہونے کے دعویدار کب جاگیں گے؟ کیا یہ اُس وقت کا انتظار کر رہے ہیں جب پانی سر سے گزر جائے گا اور جب سارا کھیل ختم ہوجائے گا؟تب یہ خواب غفلت سے جاگیں گے،سڑکوں پر نکلیں گے،احتجاج کریں گے،جلسے جلوس نکالیں گے اور پھر آہستہ آہستہ حالات معمول پر آجائیں گے۔

بالکل اُسی طرح جس طرح نصابِ تعلیم میں تبدیلی اور حدود آرڈیننس کے خاتمے کے وقت ہوا تھا،لہٰذا اگر پاکستان کے غیور مسلمان چاہتے ہیں کہ توہین رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کا قانون اور امتناع قادیانیت آرڈیننس موجود رہے تو پھر اُنہیں ابھی سے پاکستان کی سا لمیت،اُس کی دینی،ملی اور مذہبی شناخت کے خاتمے کے اِس بھیانک منصوبے کو ناکام بنانے کیلئے باہمی مل کر حکمرانوں اور امریکی ایجنٹوں کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار بننا ہوگا اور اِس کام کیلئے تمام مکاتب فکر کے علمائے کرام وپاسبان ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہوگا،وگر نہ اِسی طرح صدر کو حاصل معافی کے مخصوص اختیار کے تحت توہین رسالت کے مجرموں کو معاف کر کے بیرون ملک بھیجنے کا سلسلہ جاری رہے گا،یاد رہے کہ جہاں توہین رسالت سے فساد پھیلتا ہے،وہیں قانون توہین رسالت پر صحیح عملدرآمد سے فساد کے تمام راستے مسدود بھی ہوتے ہیں،لہٰذا قانون توہین رسالت کو بدلنے اور ملک کے اکثریتی طبقے کے مذہبی جذبات سے کھیلنے کے بجائے حکومت کا فرض ہے کہ وہ قوم کے جذبات و احساسات کی پاسداری کرتے ہوئے اُن کی ایمان و عقیدے کے مطابق قانون سازی،عدل و انصاف کے تقاضوں کی تکمیل اور ملکی آئین و قوانین کا بھرپور دفاع کرے،کہ یہی علامت محبت رسول اور تقاضہ ایمان ہے۔
[/TD]
[/TR]
[/TABLE]


http://m.hamariweb.com/articles/detail.aspx?id=9959



 

Raaz

(50k+ posts) بابائے فورم
برائے مہربانی غیر جانبدار ہو کر یہ کالم پڑھ لیں اور اس بحث کا اختتام کریں
ایک بات قابل ذکر رہے کہ یہ قانون ختم نہیں ہو سکتا لیکن اسکا استعمال صحیح ہونا چاھیئے

"اللہ و رسول کے ذمّہ کو جب زندہ جلا دیا گیا"

کوٹ رادھا کشن کے قریب ایک مسیحی بستی ہے جس کا نام ’’کلارک آباد‘‘ ہے۔ کوئی سولہ سترہ سال پہلے یہاں سے ایک مسیحی خاندان اٹھا اور روزگار کی خاطر یوسف گجر کے بھٹے پر مقیم ہو گیا۔ یہ بھٹہ چک 59سے ایک کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے جبکہ مذکورہ چک کوٹ رادھا کشن سے چند کلومیٹر ہی دور ہے۔ بابا ناظر مسیح کے سات بیٹے ہیں اور تین بیٹیاں ہیں۔ وہ جادو ٹونے اور تعویذ گنڈے کا کام کرتا تھا۔ اس نے اپنے ہاں قرآن مجید بھی رکھا ہوا تھا اور بائبل بھی۔ وہ تعویذ دیتا تو اس میں بائبل کے الفاظ بھی ہوتے اور قرآنی آیات کے بھی۔۔۔ مسلمان بھی اس سے تعویذ دھاگہ لیتے تھے۔ ناظر مسیح کے گھر میں اچانک ایک تبدیلی رونما ہوئی، اس کا بیٹا فیاض اور بہو مسلمان ہو گئے۔ بھٹہ مالک یوسف گجر اس ضمن میں تعاون کرتا رہا۔۔۔ حالیہ محرم کے پہلے جمعہ کو بابا ناظر مسیح فوت ہو گیا۔ ناظر کا بیٹا شہزاد اور اس کی بیوی شمع بھی اسلام کی جانب مائل ہو چکے تھے۔ وہ ناظر کے دھندے کو اچھا نہ جانتے تھے چنانچہ دونوں نے یہ کیا کہ ناظر بابا کے مرنے کے بعد اس کے فوٹو کاپی کئے ہوئے تعویذ اور کاغذ وغیرہ جلا دیئے۔ شہزاد نے اس کا اظہار بھٹہ مالک یوسف گجر سے کیا اور کہا کہ ہم نے اس سارے عمل سے جان چھڑا لی ہے اور مسلمان ہونے کے ارادے کا بھی اظہار کیا۔ یہاں بھٹہ پر مزدوری کرنے والے پانچ چھ گھر مسیحی برادری ہی کے ہیں۔ بابا اپنے چھوٹے بیٹے سجاد اور صائمہ کے پاس رہتا تھا۔ یہ سارے لوگ بھی بابا کے جادو ٹونے کے کام کو اچھا نہ سمجھے تھے۔ جب بابا کے تعویذ جلنے کی بات یوسف گجر نے سنی تو اس نے نصیحت کی کہ یہ بات آگے نہ کرنا، کوئی مسئلہ نہ بن جائے۔
یوسف گجر جب نصیحت کر رہا تھا تو اس کے پاس اس کے منشی افضل اور شکیل بھی بیٹھے تھے۔ شکیل منشی اور یوسف گجر آپس میں رشتہ دار بھی ہیں۔ دونوں منشی جب اپنے گاؤں ’’چک59‘‘ آتے ہیں تو منشی افضل گاؤں کی ایک مسجد کے مولوی محمد حسین سے ملاقات کرتا ہے اور مذکورہ واقعہ بتاتا ہے۔ اب مولوی محمد حسین مشتعل ہو جاتا ہے کہ ان لوگوں نے قرآن کے الفاظ کو بھی جلا دیا چنانچہ یہ دونوں اس بات کو پھیلاتے ہیں اور دیگر مولویوں سے رابطہ کرتے ہیں۔ ایک دن سکون سے گزرتا ہے مگر افواہیں پھیلتی چلی جاتی ہیں کہ مسیحیوں نے قرآن کو جلا دیا۔۔۔ اگلے دن صبح کی نماز کے بعد مولوی محمد حسین اور دیگر مساجد میں لاؤڈ سپیکروں پر اعلان کرتے ہیں اور لوگوں کو مذکورہ بھٹے کی طرف جانے کو کہتے ہیں چنانچہ 700 کے قریب لوگ 59،60، 65 اور دیگر چکوں سے اکٹھے ہو کر بھٹے کی طرف لاٹھیاں وغیرہ لے کر چل پڑتے ہیں۔
لاؤڈ سپیکروں سے اعلان سن کر شہزاد اور شمع اپنے تین بچوں چھ سالہ سلمان، چار سالہ بچی سونیا اور اٹھارہ ماہ کی بچی پونم کو گھر چھوڑتے ہیں اور خود یوسف گجر کے دفتر میں آ جاتے ہیں۔ وہاں دفتر میں بند ہو کر اندرسے دروازہ بند کر لیتے ہیں۔ اتنے میں لوگ جمع ہو جاتے ہیں اور کمرے کا گھیراؤ کر لیتے ہیں۔ لوگ دروازہ کھولنے کیلئے کہتے ہیں تو شہزاد اور شمع جواب دیتے ہیں کہ ہم نے تو محض اپنے بابا کے تعویذ اور اوراق جلائے ہیں۔ ہمیں کچھ نہیں پتہ۔

ہم تو اسے جادو ٹونہ سمجھتے ہیں، اس لئے جلائے ہیں۔ ہم نے قرآن کے اوراق نہیں جلائے۔ مگر لوگ نہیں مانے۔ اب وہ کمرے کی چھت ادھیڑتے ہیں، ایک شخص اندر چھلانگ لگاتا ہے اور شمع جو 4ماہ کی حاملہ تھی اس کے پیٹ پر لات مارتا ہے اور دروازہ کھول دیتا ہے۔ اب لوگ باہر نکال کر مارنا پیٹنا شروع کر دیتے ہیں۔ ایک شخص شہزاد کی گردن پر بالا مارتا ہے وہ بے ہوش ہو کر گر جاتا ہے، شمع بھی مار کھا کر گر جاتی ہے۔ اب دونوں کو ٹریکٹر کے پیچھے باندھا جاتا ہے، گھسیٹا جاتا ہے، ساتھ مار بھی پڑ رہی ہے، بھٹہ کی بھٹی جو جہنم زار ہوتی ہے، وہاں لا کر دونوں زندہ میاں بیوی کو اس میں پھینک دیتے ہیں۔ وہ کوئلہ بن جاتے ہیں۔ اب یہ کالک بن کر پاکستان کے چہرے کو کالا کر رہی ہے۔ مسلمانان پاک کے چہرے کو سیاہ کر گئی ہے، اسلام کو بدنام کر گئی ہے اور کرتی چلی جا رہی ہے
قارئین کرام! ہم نے مذکورہ واقعہ کی ہر پہلو اور ہر مکتب فکر تک رسائی کر کے جو تحقیق کی ہے وہ سپرد قلم کیا ہے۔ قابل غور بات یہ ہے کہ مذکورہ اندوہناک واقعہ سے پہلے بھی متعدد واقعات ہو چکے ہیں کہ جن کی زد میں مسلمان آ چکے ہیں جلائے جا چکے ہیں اور پتھروں سے سنگسار کئے جا چکے ہیں۔۔۔ سب واقعات میں مشترک ایک ہی نکتہ ہے کہ مولویوں کے اعلانات جو مساجد میں لاؤڈ سپیکروں پر ہوئے انہوں نے سانحات کو جنم دیا، حادثات کو رونما کیا۔۔۔ میں نے بڑا غور کیا کہ یہ مولوی کس کا وارث ہے؟ اگر یہ حضور رحمۃللعالعینؐ کا وارث ہوتا تو ایسا کرنے کا سوچ بھی نہ سکتا۔ اس کے سامنے قرآن ہوتا تو قرآن کی سورۂ حجرات تو کہتی ہے کہ مسلمانو! جب کوئی فاسق خبر لے کر آئے تو تحقیق کر لیا کرو۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ جہالت کی وجہ سے اقدام کر بیٹھو اور پھر ندامت ہی ندامت کا منہ دیکھتے رہ جاؤ۔۔۔ جہالت کی انتہا کہ تحقیق تو درکنار۔۔۔ ہجوم لے کر پَل پڑے
ملزم انکار کرتے ہیں تو انکار کا فائدہ بھی نہیں دیتے۔ پھر خود ہی موقع پر سزا دیتے ہیں اور سزا بھی ایسی کہ شدید اورسرعام تشدد کے بعد آگ کے الاؤ میں بھسم کر دیتے ہیں۔ ان کو اس قدر بھی خبر نہیں کہ حضور رحمۃللعالمینؐ نے اپنے ایک سفر میں صحابہ کے ایک گروہ کو دیکھا کہ انہوں نے چیونٹیوں کا بل اس وجہ سے جلا دیا کہ جس درخت کے نیچے وہ آرام کر رہے تھے وہاں چیونٹیوں کا بِل تھا۔ وہ کاٹتی ہوں گی تو یہ کام کر دیا۔۔۔ حضورؐ نے جب دیکھا تو سخت ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا، آگ کے رب کے سوا کسی کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ کسی کو آگ کی سزا دے (ابوداؤد) پھر اللہ کے نبیؐ سے صحیح بخاری میں یہ واقعہ بھی مذکور ہے کہ آپؐ نے فرمایا: نبیوں میں سے ایک نبی درخت کے نیچے آرام کو ٹھہرے، انہیں چیونٹی نے کاٹ لیا، انہوں نے حکم دیا کہ بل کو آگ لگا دی جائے، سارے بِل کو ظاہر کیا گیا اور چیونٹیوں کو جلا ڈالا گیا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے غصے کا اظہار کرتے ہوئے اپنے نبی سے کہا، صرف اسی چیونٹی ہی کو کیوں نہ مارا کہ جس نے کاٹا تھا، تم نے چیونٹیوں کی ساری قوم ہی مار ڈالی جو اللہ کی تسبیح کرتی تھی۔
ہاں ہاں! مولویوں کو میں کیا کہوں کہ تم نے آگ کا عذاب بھی دیا، اللہ کے کام کو اپنے ہاتھ میں لیا اور ظالمو! اس بچے کو بھی مارر ڈالا جو ماں کے شکم میں آٹھ ماہ کا تھا۔۔۔ بتلاؤ! اس کا جرم کیا تھا؟ تم اس قدر جلد باز تھے کہ دنیا میں اس کے آنے کا انتظار بھی نہ کیا، کیا معلوم کہ اس کے ماں باپ جو اسلام کے ساتھ اپنایت کا اظہار کر رہے تھے، مسلمان ہو جاتے اور مذکورہ بچہ کتنا بڑا اور عظیم مسلمان ہوتا؟

ہاں ہاں! اگر ایسا نہ بھی ہوتا تو تمہیں کیا حق تھا کہ ان کو مارتے جن کو اللہ کے رسولﷺ نے ذمّی کہا اور حضرت عمرؓ نے فرمایا، ان کی حفاظت کرنا اللہ کے ذمّہ کو پورا کرنا ہے۔ آہ! تم لوگوں نے اللہ اور اس کے رسولؐ کی ضمانت کی دھجیاں اڑا دیں، ضمانت کو برسر زمین روند ڈالا، ٹریکٹر کے پیچھے باندھ کر گھسیٹ ڈالا اور آگ میں کوئلہ بنا دیا۔ آہ! تم لوگ اپنے اس مذموم عمل سے جنت کی امیدیں باندھتے ہو حالانکہ وہ رحمت دو عالم رسولؐ کہ جن کا پاک منبر جنت کے دروازے پر ہو گا اور امام احمدؒ کی لائی ہوئی حدیث کے مطابق حضورؐ وہاں تشریف فرما کر اہل جنت کو جنت میں جاتے دیکھیں گے، سب سے پہلے جنت کا دروازہ کھلوائیں گے۔۔۔ وہ فرماتے ہیں جس نے کسی ذمّی کو قتل کر دیا وہ جنت کی خوشبو نہیں پائے گا اور جنت کی خوشبو سو سال کی مسافت سے آئے گی
میاں شہباز شریف صاحب نے تین یتیم مسیحی بچوں کو زمین کے 10 ایکڑ اور 50لاکھ روپے دینے کا اعلان کیا ۔۔۔ میں کہتا ہوں یہ اچھا اور قابل تحسین اقدام ہے مگر اصل مسئلہ تو وہیں کا وہیں رہا۔ اگر ایسے رونما ہونے والے پہلے واقعات کے مجرموں کو سخت سزا دی جاتی، سرعام لٹکایا جاتا تو یہ واقعہ نہ ہوتا۔ میں کہتا ہوں کہ اب بھی کرنے کا کام یہ ہے کہ مجرموں کو سرعام سزا دی جائے وگرنہ یہ واقعات رکنے نہ پائیں گے، تھمنے نہ پائیں گے۔۔۔ اور یوں ہر واقعہ کا اصل ذمہ دار وہ حکمران ہے جو سرزمین پاکستان پر قانون کا نفاذ ان لوگوں کے خلاف نہیں کرتا جو قانون کو اپنے ہاتھ میں لے کر قانون کی دھجیاں اڑاتا ہے۔
مولانا امیر حمزہ
ہفت روزہ جرار

مسلمان جیسے جیسے قران سے دور ہو رہا ہے اور مولوی کے قریب ہو رہا ہے ، ایسے ایسے تباہی میں دھنس رہا ہے
اب چوہدری صرف یہ بحث کر رہا ہے پچھلے پانچ صفحوں میں کہ قران میں نہی ہے تفسیر کی کتاب کہہ رہی ہے
 

Afaq Chaudhry

Chief Minister (5k+ posts)


دنیا کی آبادی کی ایک بڑی تعداد ابھی بھی رسول الله کو رسول منانے پر تیار نہیں اور روزانہ کھلے عام انکی توہین کرتی ہے، تمھارے خیال سے اگر توہین رسالت کا قانون خدائی اجازت کی وجہ سے تشکیل پایا تھا تو پھر خود خدا کیوں ان لوگوں کو سزا نہیں دیتا ؟

مسلہ تمہاری اور تمھارے جیسوں کی سوچ کا ہے، جنہوں نے چند حدیثوں کو پڑھ کر جو غلط اور کہانیاں ہوسکتی ہیں ایک خود ساختہ خدائی قانون بنا دیا ہے

یا تو اسلام انسانیت کا درس دیتا ہے اور رسول الله رحمت اللمین تھے، یا ایک کلٹ یا گینگ لیڈر تھے، جو کسی بھی قسم کی تنقید کو برداشت کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے تھے، تمہارا دماغ سہی ہے ؟ تم نے رسول الله کو کیا سمجھ رکھا ہے ؟

اگر یہ واقع خدائی قانون ہوتا تو خدا خود قرآن میں صاف صاف الفاظ میں بیان کرتا، اس نے صرف لعنت کی ہے ایسے لوگوں پر، قتل کا حکم نہیں دیا ہے، اور بھی تو قانون بیان کئے ہیں نا اسنے قرآن میں صاف صاف، اگر اس بارے میں نہیں بات کی تو کوئی وجہ ہوگی ؟

انسان بنو، جماعتی نا بنو کوئی تو فرق ہونا تم میں اور ایک نارمل انسان میں، انسانیت سے محبت کرنا سیکھو اور نفرتیں نہیں پھلاؤ اگر کوئی رسول الله پر تنقید کرتا ہے تو کرنے دو، اس سے کیا انکی صحت یا عزت پر کوئی فرق آجانے گا ؟ تمھارے خیال سے انسان اتنے بڑے ہوگئے ہیں کے وہ ایسا کرسکتے ہیں ؟


سوال پھر میرا یہ ہی ہے کیا یہ قانون غلط ہے ؟؟؟؟ اگر غلط ہے تو کہو غلط ہے اور جواز دو
 

Back
Top