فیصلہ تیرا تیرے ہاتھوں میں ہے، دل یا شکم
-----------------------------------------------
چینی انکوائری رپورٹ منظرِعام پرآئی تو مجھے اپنے زیرمطالعہ کتاب ہٹلرکی سوانح حیات کا ایک واقعہ یاد آگیا- صدی قبل کے نازی جرمنی اور موجودہ پاکستانی معاشی مافیا کے کرداروں میں حیرت انگیز مماثلت ہے
سال 1932 میں جب ہٹلر اپنی سیاسی جدوجہد کے عروج پرتھا تو جرمنی کی سیاست انتشار اور گروہی تعصبات کی شکار تھی- ایک طرف دائیں بازو کے انتہاپسند سوشلسٹ اور دوسری جانب نظریاتی کمیونسٹ، بیچ کے معتدل گروپ آٹے میں نمک کے برابر- ہٹلر کی احتجاجی تحریک نے نظامِ زندگی کو مفلوج کر رکھا تھا- بار بار کے انتخابات سے پارلیمنٹ سے عوام کا اعتماد اٹھ چکا تھا- بےروزگاری اور غربت نے الگ ڈیرے ڈال رکھے تھے
ان حالات سے تنگ آکر بڑے سرمایہ داروں اور صنعتکاروں کا ایک 39 رکنی وفد صدر سے ملا اور درخواستگزار ہوا کہ ہٹلر کو چانسلر مقرر کیا جاۓ- یاد رہے کہ جرمنی میں انتظامی امور کا سربراہ وزیراعظم نہیں، چانسلر کہلاتا ہے- امور جہان بانی سے آگاہ یہ عملیت پسند پراعتماد تھے کہ اگر ہٹلر اقتدار میں آگیا تو اس کا سوشلسٹ انقلاب سرمایہ دارانہ نظام کے ہاتھوں کھلونا بن کر رہ جاۓ گا
بعد میں کیا ہوا، یہ تاریخ کا حصہ ہے
سماجی انصاف، معاشی مساوات، اور بدعنوانی کی بیخ کنی کے دعوے سے کپتان اقتدار میں آیا- اقتدار میں آنے سے قبل ہی اس جہاندیدہ شاطر معاشی مافیا نے ستاروں کی گردش بانبھ لی- عمران کو اپنے سرماۓ اور الیکٹبلیٹی کے حصار میں جکڑا- عوام وپارٹی کارکنان خوش کہ اب انقلاب چند کوس دور جبکہ یہ اشرافیہ اپنے محلات میں بیٹھی عوام کا تمسخر اڑا رہی تھی- بقول زباں
کہاں کا انقلاب؟ کون سا انقلاب؟
چینی انکوائری رپورٹ محض کاغذ کا پلندہ نہیں- یہ عمران کے نظریے، ویژن، اور 22 سالہ جدوجہد کا امتحان ہے- اگر آج عمران خان نے ان ناسوروں کو اپنے انجام تک نہ پہنچایا تو قوم کبھی اس معاشی مافیا کے چنگل نہ نکل پاۓ گی- یہ مافیا یوں ہی ہرحکومت کا حصہ بن کرعوام کو لوٹتی کھسوٹتی رہے گی- عمران خان سیاسی مصلحت اور سمجھوتے کی چادر اتر پھینکیں اور قوم کے خون و ماس پر پلنے والی ان چیلوں کو کیفرکردار تک پہنچا دیں
کپتان یا تو مصحلت کرکے عوامی دربار سے راندہ درگاہ ہوجا یا پھر ان غاصبوں کو قرار واقعی سزا دلوا کر امر ہوجا
فیصلہ تیرا تیرے ہاتھوں میں ہے، دل یا شکم
-----------------------------------------------
چینی انکوائری رپورٹ منظرِعام پرآئی تو مجھے اپنے زیرمطالعہ کتاب ہٹلرکی سوانح حیات کا ایک واقعہ یاد آگیا- صدی قبل کے نازی جرمنی اور موجودہ پاکستانی معاشی مافیا کے کرداروں میں حیرت انگیز مماثلت ہے
سال 1932 میں جب ہٹلر اپنی سیاسی جدوجہد کے عروج پرتھا تو جرمنی کی سیاست انتشار اور گروہی تعصبات کی شکار تھی- ایک طرف دائیں بازو کے انتہاپسند سوشلسٹ اور دوسری جانب نظریاتی کمیونسٹ، بیچ کے معتدل گروپ آٹے میں نمک کے برابر- ہٹلر کی احتجاجی تحریک نے نظامِ زندگی کو مفلوج کر رکھا تھا- بار بار کے انتخابات سے پارلیمنٹ سے عوام کا اعتماد اٹھ چکا تھا- بےروزگاری اور غربت نے الگ ڈیرے ڈال رکھے تھے
ان حالات سے تنگ آکر بڑے سرمایہ داروں اور صنعتکاروں کا ایک 39 رکنی وفد صدر سے ملا اور درخواستگزار ہوا کہ ہٹلر کو چانسلر مقرر کیا جاۓ- یاد رہے کہ جرمنی میں انتظامی امور کا سربراہ وزیراعظم نہیں، چانسلر کہلاتا ہے- امور جہان بانی سے آگاہ یہ عملیت پسند پراعتماد تھے کہ اگر ہٹلر اقتدار میں آگیا تو اس کا سوشلسٹ انقلاب سرمایہ دارانہ نظام کے ہاتھوں کھلونا بن کر رہ جاۓ گا
بعد میں کیا ہوا، یہ تاریخ کا حصہ ہے
سماجی انصاف، معاشی مساوات، اور بدعنوانی کی بیخ کنی کے دعوے سے کپتان اقتدار میں آیا- اقتدار میں آنے سے قبل ہی اس جہاندیدہ شاطر معاشی مافیا نے ستاروں کی گردش بانبھ لی- عمران کو اپنے سرماۓ اور الیکٹبلیٹی کے حصار میں جکڑا- عوام وپارٹی کارکنان خوش کہ اب انقلاب چند کوس دور جبکہ یہ اشرافیہ اپنے محلات میں بیٹھی عوام کا تمسخر اڑا رہی تھی- بقول زباں
کہاں کا انقلاب؟ کون سا انقلاب؟
چینی انکوائری رپورٹ محض کاغذ کا پلندہ نہیں- یہ عمران کے نظریے، ویژن، اور 22 سالہ جدوجہد کا امتحان ہے- اگر آج عمران خان نے ان ناسوروں کو اپنے انجام تک نہ پہنچایا تو قوم کبھی اس معاشی مافیا کے چنگل نہ نکل پاۓ گی- یہ مافیا یوں ہی ہرحکومت کا حصہ بن کرعوام کو لوٹتی کھسوٹتی رہے گی- عمران خان سیاسی مصلحت اور سمجھوتے کی چادر اتر پھینکیں اور قوم کے خون و ماس پر پلنے والی ان چیلوں کو کیفرکردار تک پہنچا دیں
کپتان یا تو مصحلت کرکے عوامی دربار سے راندہ درگاہ ہوجا یا پھر ان غاصبوں کو قرار واقعی سزا دلوا کر امر ہوجا
فیصلہ تیرا تیرے ہاتھوں میں ہے، دل یا شکم
Last edited: