battery low
Chief Minister (5k+ posts)

https://twitter.com/x/status/1888086147156316651
سابق وزیراعظم عمران خان کی جانب سے چیف آف آرمی سٹاف کو دوسرا کھلا خط:
”میں نے ملک و قوم کی بہتری کی خاطر نیک نیتی سے آرمی چیف (آپ) کے نام کھلا خط لکھا، تاکہ فوج اور عوام کے درمیان دن بدن بڑھتی ہوئی خلیج کو کم کیا جا سکے مگر اس کا جواب انتہائی غیر سنجیدگی اور غیر ذمہ داری سے دیا گیا۔
میں پاکستان کا سابق وزیراعظم اور ملک کی سب سے مقبول اور بڑی سیاسی جماعت کا سربراہ ہوں- میں نے اپنی ساری زندگی عالمی سطح پر ملک و قوم کا نام روشن کرنے میں گزاری ہے۔ 1970 سے اب تک میری 55 سال کی پبلک لائف اور 30 سال کی کمائی سب کے سامنے ہے- میرا جینا مرنا صرف اور صرف پاکستان میں ہے۔
مجھے صرف اور صرف اپنی فوج کے تاثر اور عوام اور فوج کے درمیان بڑھتی خلیج کے ممکنہ مضمرات کی فکر ہے، جس کی وجہ سے میں نے یہ خط لکھا۔
میں نے جن 6 نکات کی نشاندہی کی ہے ان پر اگر عوامی رائے لی جائے تو 90 فیصد عوام ان نکات کی حمایت کرے گی-
ایجینسیز کے ذریعے پری پول دھاندلی اور الیکشن کے نتائج تبدیل کر کے اردلی حکومت قائم کرنا، عدلیہ پر قبضے کے لیے پارلیمینٹ سے گن پوائنٹ پرچھبیسویں آئینی ترمیم کروانا اور پاکٹ ججز بھرتی کرنا، ظلم و جبر کے خلاف اٹھنے والی آوازوں کو بند کرنے کے لیے پیکا جیسے کالے قانون کا اطلاق کرنا، سیاسی عدم استحکام اور “جس کی لاٹھی اس کی بھینس” کی ریت ڈال کر ملک کی معیشت کی تباہی، ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کو مسلسل ریاستی دہشتگردی کا نشانہ بنانا اور تمام ریاستی اداروں کا اپنے فرائض چھوڑ کر سیاسی انجینئیرنگ اور سیاسی انتقام میں شامل کرنا ناصرف عوامی جذبات کو مجروح کر رہا ہے بلکہ عوام اور فوج میں خلیج کو بھی مسلسل بڑھا رہا ہے-
فوج ملک کا ایک اہم ادارہ ہے مگر اس میں بیٹھی چند کالی بھیڑیں پورے ادارے کا نقصان کر رہی ہیں۔ ایسا ہی ایک شخص اڈیالہ جیل میں بیٹھا کرنل بھی ہے جو جیل کے سٹاف کو کنٹرول کرتے ہوئے ناصرف آئین، قانون اور جیل مینول کی دھجیاں بکھیر رہا ہے بلکہ انسانی حقوق بھی پامال کر رہا ہے۔ وہ عدالتی احکامات کو جوتے کی نوک پر رکھتے ہوئے ایسے عمل کرتا ہے جیسے “قابض فوج” کرتی ہے۔ پہلے اڈیالہ جیل کے فرض شناس سپرنٹنڈنٹ اکرم کو اغواء کیا گیا اور تشدد کا نشانہ بنایا گیا کیونکہ وہ قانون کی پاسداری کرتا تھا اور جیل قوانین پر عمل درآمد کرتا تھا، اب بھی تمام عملے کو ڈرایا دھمکایا جا رہا ہے۔
بنیادی انسانی حقوق پامال کرتے ہوئے مجھ پر دباؤ بڑھانے کے لیے ایک کرنل کی ماتحت جیل انتظامیہ نے مجھ پر ہر ظلم کیا ہے۔ مجھے موت کی چکی میں رکھا گیا ہے۔20 دن تک مکمل لاک اپ میں رکھا گیا جہاں سورج کی روشنی تک نہیں پہنچتی تھی۔ پانچ روز تک میرے سیل کی بجلی بند رکھی گئی اور میں مکمل اندھیرے میں رہا۔ میرا ورزش کرنے والا سامان اور ٹی وی تک لے لیا گیا اور مجھ تک اخبار بھی پہنچنے نہیں دیا گیا۔جب چاہتے ہیں کتابیں تک روک لیتے ہیں۔ ان 20 دنوں کے علاوہ مجھے دوبارہ بھی 40 گھنٹے لاک اپ میں رکھا گیا۔
میرے بیٹوں سے پچھلے چھ ماہ میں صرف تین مرتبہ میری بات کروائی گئی ہے۔ اس معاملے میں بھی عدالت کا حکم نہ مانتے ہوئے مجھے بچوں سے بات کرنے نہیں دی جاتی جو میرا بنیادی اور قانونی حق ہے۔ میری جماعت کے افراد دور دراز علاقوں سے مجھ سے ملاقات کے لیے آتے ہیں مگر ان کو بھی عدالتی آرڈز کے باوجود ملاقات کی اجازت نہیں ملتی۔ پچھلے چھ ماہ میں گنتی کے چند افراد کو ہی مجھ سے ملوایا گیا ہے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے واضح احکامات کے باوجود میری اہلیہ سے میری ملاقات نہیں کروائی جاتی۔میری اہلیہ کو بھی قید تنہائی میں رکھا گیا ہے۔
گن پوائنٹ پر کروائی گئی چھبیسویں آئینی ترمیم کے ذریعے عدالتی نظام پر قبضے اور کورٹ پیکنگ کا مقصد انسانی حقوق کی پامالیوں اور انتخابی فراڈ کی پردہ پوشی اور میرے خلاف مقدمات میں من پسند فیصلوں کے لیے “پاکٹ ججز” بھرتی کرنا ہے تا کہ عدلیہ میں کوئی شفاف فیصلے دینے والا نہ ہو۔
میرے سارے کیسز کے فیصلے دباؤ کے ذریعے دلوائے جا رہے ہیں۔ مجھےغیر قانونی طور پر 4 سزائیں دلوائی گئی ہیں۔ میرے خلاف فیصلہ دینے کے لیے جج صاحبان پر اتنا دباؤ ہوتا ہے کہ ایک جج کا بلڈ پریشر 5 مرتبہ ہائی ہوا اور اسے جیل اسپتال میں داخل کروانا پڑا۔ اس جج نے میرے وکیل کو بتایا کہ مجھے اور میری اہلیہ کو سزا دینے کے لیے "اوپر" سے شدید ترین دباؤ ہے۔
9 مئی اور 26 نومبر کو ہمارے نہتے جمہوریت پسند کارکنان پر ظلم و تشدد کی انتہا کر دی گئی۔ پر امن شہریوں پر سیدھی گولیاں چلائی گئیں۔ سیاسی انتقام کی آڑ میں تین سال میں لاکھوں شہریوں کے گھروں پر چھاپے مارے گئے، ہمارے 20 ہزار سے زائد ورکرز اور سپورٹرز کو گرفتار کیا گیا اور سینکڑوں کو اغواء کر کے تشدد کا نشانہ بنایا گیا، ہزاروں بےگناہ لوگوں کو کئی کئی ماہ جھوٹے کیسز میں جیلوں میں رکھا گیا-
ایجینسیز کے دباؤ پر ہمارے دو ہزار سے زائد ورکرز، سپورٹرز اور پارٹی لیڈرز کی ضمانت کی درخواستیں اب تک ہائی کورٹ کے ججز التواء میں رکھ کر بیٹھے ہوئے ہیں- جیسا سلوک پچھلے تین سال میں ہماری خواتین کے ساتھ کیا گیا ہے وہ انتہائی شرمناک اور افسوسناک ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں کبھی سیاستدانوں کی گھریلو خواتین کو اس طرح نشانہ نہیں بنایا گیا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہماری اخلاقیات کس قدر پستی پر ہیں۔
بزرگ خواتین اور جوان بچیوں کو جیلوں میں قید رکھا گیا۔ میری اہلیہ، ڈاکٹر یاسمین راشد جو 75 سالہ کینسر کی مریضہ ہیں، میری دونوں بہنیں جن کی عمر 65 سال سے زائد ہے سمیت سینکڑوں خواتین کو بے جا پابند سلاسل رکھا گیا ہے اور ان کی حیا کا تقدس پامال کیا گیا۔ نبی پاک ﷺ کے دور میں عورتوں، بزرگوں اور بچوں کو تنگ نہیں کیا جاتا تھا ہمارے دین کا حکم تو یہ ہے کہ جنگی حالات میں دشمن کی عورتوں اور بچوں سے بھی بدسلوکی نہ کی جائے اور یہاں اپنی ہم وطن ماؤں، بہنوں ، بیٹیوں کا لحاظ نہیں رکھا گیا۔
یہ سب ہماری روایات کے منافی ہے اور اس کی وجہ سے عوام میں فوج کے خلاف نفرت بہت بڑھ گئی ہے جس کا سدباب بروقت ہو جائے تو یہ فوج اور ملک دونوں کے حق میں بہتر ہے ورنہ اس سب سے ناقابل تلافی خسارہ اٹھانا پڑ سکتا ہے- پیکا جیسے کالے قانون کے ذریعے سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ پر بھی قدغن لگا دی گئی ہے۔ اس سب کی وجہ سے پاکستان کا جی ایس پی پلس سٹیٹس بھی خطرے میں ہے۔ انٹرنیٹ میں خلل کی وجہ سے ہماری آئی ٹی انڈسٹری کواربوں ڈالرز کا نقصان ہو چکا ہے اور نوجوانوں کا کیرئیر تباہ ہو رہا ہے-
چند افراد کی خواہشات پر عوامی مینڈیٹ کی توہین کر کے ایسے سیاسی عدم استحکام کی بنیاد رکھی گئی جس کی بدولت معیشت کا برا حال ہے اور سرمایہ کار اور ہنرمند افراد مجبور ہو گئے ہیں کہ پاکستان چھوڑ کر اپنے سرمائے سمیت تیزی سے بیرون ملک منتقل ہو جائیں۔ معاشی عدم استحکام اپنی انتہا پر ہے۔ گروتھ ریٹ صفر ہے اور پاکستان میں سرمایہ کاری نہ ہونے کے برابر ہے۔
ملک میں غربت اور بےروزگاری عروج پر ہے- ہمارے فوجی پاکستان کے لیے قربانیاں دے رہے ہیں۔ دہشتگردی کے خلاف جنگ میں کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ قوم فوج کے پیچھے کھڑی ہو لیکن افسوسناک امر ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی پالیسیوں اور ان غیر قانونی اقدامات کی بدولت عوام میں فوج کی بدنامی مسلسل بڑھ رہی ہے۔ یہ سب فوج کے حلف کی خلاف ورزی ہے۔ کسی بھی ملک کی فوج اپنے شہریوں کے ساتھ ایسا سلوک نہیں کرتی بلکہ ایسا سلوک تو قابض فوجیں کرتی ہیں جو خود کو ہر آئین اور قانون سے بالاتر سمجھتی ہیں۔
ملکی استحکام اور سلامتی کے لیے ناگزیر ہے کہ فوج اور عوام کے درمیان کی خلیج کم ہو، اور اس بڑھتی خلیج کو کم کرنے کی صرف ایک ہی صورت ہے، اور وہ ہے فوج کا اپنی آئینی حدود میں واپس جانا، سیاست سے خود کو علیحدہ کرنا اور اپنی متعین کردہ ذمہ داریاں پوری کرنا، اور یہ کام فوج کو خود کرنا ہو گا ورنہ یہی بڑھتی خلیج قومی سلامتی کی اصطلاح میں فالٹ لائنز بن جائیں گی۔”
https://twitter.com/x/status/1888177453182386686
Last edited by a moderator: