فرقہ واریت ہے کیا؟

Afaq Chaudhry

Chief Minister (5k+ posts)


(حامد کمال الدین)
ایک چیز کے معنی ومفہوم کی تحدید ہوئے بغیر اس کی تعریف یا مذمت کی گردان ہونے لگ جائے تو عموماً یہ کسی فکری واردات کا سبب بن جاتی ہے۔ فرقہ واریت ایسی ہی ایک اصطلاح ہے جس کی مذمت کا ڈھنڈورا بہت پیٹا جاتا ہے مگر اس کا مطلب بہت کم لوگ بتا سکتے ہیں۔ یا یوں کہیے جس کی مذمت کرنے پر سب کو لگا دیا گیا ہے مگر اس کے مفہوم کا تعین چند لوگوں کا کام ہے!


فرقہ واریت کو آج تک کوئی شخص اچھا کہتے نہیں سنا گیا۔ سوال یہ ہے کہ اس کا معنی کون متعین کرے؟


تفرقہ کی مذمت قرآن میں کی گئی ہے۔ احادیث میں اس کی شناعت بیان ہوئی ہے۔ مگر قرآن اور احادیث کے اندر کیا یہ اسی معنی میں مذموم ہے جس معنی میں اس کی مذمت ہمارا میڈیا کرتا ہے اور جس معنی میں اس کی مذمت ہمارے عوام اور خواص کے یہاں ہوتی ہے یا پھر تفرقہ سے قرآن اور احادیث کی مراد اس سے مختلف ہے جو تفرقہ کے لفظ سے یہاں ہمارا معاشرہ مراد لیتا ہے؟


مناسب معلوم ہوتا ہے کہ تفرقہ سے متعلق ہم کچھ ایسے علمی مصادر سے رجوع کر لیں جو اُمت کے ہاں تاریخی طور پر معتبر جانے جاتے ہیں تاکہ معلوم ہوکہ مفسرین امت تفرقہ کی کیا تفسیر کرتے ہیں اور آپ کا میڈیا اس کی تفسیر کیا کرتا ہے۔


تم میں کچھ لوگ تو ایسے ضرور ہی رہنے چاہئیں جو خیر کی طرف بلائیں، امر بالمعروف کریں اور نہی عن المنکر۔ یہی لوگ فلاح پائیں گے۔


کہیں تم ان لوگوں کی طرح نہ ہو جانا جو فرقوں میں بٹ گئے اور کھلے کھلے دلائل آجانے کے بعد پھر اختلافات میں مبتلا ہوئے۔ یہی لوگ ہیں جن کیلئے ایک بڑا عذاب ہے جس دن کچھ چہرے روشن وشاداب ہوں گے اور کچھ کا منہ کالا ہوگا۔ جن کا منہ کالا ہوگا (ان سے کہا جائے گا) کیا نعمت ایمان پانے کے بعد بھی تم نے کافرانہ روش اختیار کی؟ اب اس کفر کے صلہ میں عذاب کا مزہ چکھو۔رہے وہ لوگ جن کے چہرے روشن ہوںگے تو وہ اﷲ کے سایہء رحمت میں ہوں گے اور (پھر) ہمیشہ ہمیشہ اسی حالت میں رہیں گے۔[(آل عمران: ١٠٤۔١٠٧)]


آئیے دیکھتے ہیں ان آیات کی تفسیر میں امت کے مشہور ترین مفسر امام ابن کثیر کیا کہتے ہیں:
اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم میں ضرور ایک ایسا گروہ ہونا چاہیے جو دعوت الی الخیر اور امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے معاملے کو لے کر کھڑا ہونے پر متعین ہو جائے ]واولئک ھم المفلحون یہی لوگ فلاح پائیں گے[ ضحاک کہتے ہیں: یہ صحابہ اور رواہ حدیث میں سے خواص ہیں جو جہاد اور علم کا حق ادا کرتے رہے۔ ابوجعفر باقر کہتے ہیں: رسول اﷲ نے آیت ]ولتکن منکم امت یدعون الی الخیر تم میں کچھ لوگ تو ایسے ضرور ہی رہنے چاہئیں جو خیر کی طرف بلائیں[ پڑھی پھر فرمایا: (یہاں) خیر (سے مراد) ہے قرآن اور میری سنت کی اتباع۔ اس کو ابن مردویہ نے روایت کیا۔


اس آیت سے مقصود یہ ہے کہ اس اُمت کا ایک گروہ اس (دعوت الی الخیر وامر بالمعروف ونہی عن المنکر کی) ذمہ داری کو اٹھائے رہے اگرچہ یہ بات اُمت کے ہر فرد پر ہی حسب استطاعت فرض ہے جیسا کہ صحیح مسلم میں ابوھریرہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ نے فرمایا: تم میں سے جو کوئی برائی کو دیکھے اسے چاہیے کہ اُسے ہاتھ سے روکے۔ اس کی استطاعت نہ ہو تو زبان سے روکے۔ اس کی استطاعت نہ ہو تو دل سے بُرا جانے اور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے جبکہ ایک روایت کے الفاظ ہیں: اس کے بعد رائی برابر بھی ایمان نہیں۔


امام احمد حضرت حذیفہ بن الیمان سے روایت کرتے ہیں کہ نبی نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ضرور تم امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا کام کرو گے یا پھر ضرور اﷲ تعالیٰ تم پر اپنے ہاں سے ایک سزا بھیجے گا پھر تم اس کو پکارو گے مگر تمہاری سنی نہ جائے گی بروایت مسند احمد، ترمذی وابن ماجہ۔


]ولا تکونوا کالذین تفرقوا واختلفوا من بعد ما جاءھم البینات کہیں تم ان لوگوں کی طرح نہ ہو جانا جو فرقوں میں بٹ گئے اور کھلے کھلے دلائل آجانے کے بعد پھر اختلاف میں مبتلا ہوئے[ یہاں اﷲ تعالیٰ اس امت کو ممانعت فرما رہا ہے کہ یہ بھی پچھلی امتوں کی طرح ہو جائے جو کہ افتراق اور اختلاف کا شکار ہوئیں اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر چھوڑ بیٹھیں۔ جبکہ ان پر حجت قائم ہو چکی تھی۔ امام احمد عبداﷲ بن یحیی سے روایت کرتے ہیں، کہا: ہم نے معاویہ بن ابی سفیان کے ساتھ حج کیا۔ جب مکہ آئے تو (معاویہ) نماز ظہر ادا کرنے کے بعد کھڑے ہوئے اور کہا: رسول اﷲ نے فرمایا: دونوں اہل کتاب اپنے دین کے اندر بہتر بہتر فرقوں میں بٹے۔ یہ اُمت تہتر راستوں ___ یعنی اھوائ___ میں بٹ جائے گی۔ سب کے سب دوزخ میں جائیں گے۔ سوائے ایک کے جو کہ (اصل) جماعت ہوگی۔ اور میری اُمت میں بہت سے ایسے گروہ ہوں گے جن میں (مبنی بر بدعت) اھواءوخواہشات یوں سرایت کر جائیں گی جیسے باؤلے کتے کے کاٹے میں اس کا زہر سرایت کر جاتا ہے۔ اس کی کوئی رگ کوئی جوڑ اس کے اثر سے سلامت نہیں رہتا۔ اے عرب کے لوگو! اﷲ کی قسم اگر تم اس وقت اپنے نبی کے لائے ہوئے (دین) کو لے کر کھڑے نہ ہوئے تو دوسرے لوگ بالاُولیٰ یہ کام کرنے والے نہ ہوں گے ]
یوم تبیض وجوہ وتسود وجوہ فاما الذین اسودت وجوھہم اکفرتم بعد ایمانکم فذوقوا العذاب بما کنتم تکفرون جس دن کچھ چہرے روشن وشاداب ہوں گے اور کچھ کا منہ کالا ہوگا۔ جن کا منہ کالا ہوگا (ان سے کہا جائے گا)
کیا نعمت ایمان پانے کے بعد بھی تم نے کافرانہ روش اختیار کی؟ اب اس کفر کے صلہ میں عذاب چکھو[
یعنی روز قیامت اہل سنت وجماعت کے چہرے روشن ہوں گے اور اہل بدعت وتفرقہ کے چہرے سیاہ ہونگے۔ یہ تفسیر حضرت عبداﷲ بن عباس نے کی ہے۔


تفسیر ابن کثیر کی عبارت ختم ہوئی۔ [دیکھیے مختصر تفسیر ابن کثیر۔ اختصار الشیخ محمد کریم راجح۔ مطبوعہ دارالمعرفہ بیروت۔ لبنان، جزو اول ص ١٥٠، ١٥١]


آیت ؛ولا تکونوا کالذین تفرقوا واختلفوا من بعد ما جاءھم البینات واولئک لہم عذاب عظیم کہیں تم ان لوگوں کی طرح نہ ہو جانا جو فرقوں میں بٹ گئے اور کھلے کھلے دلائل آجانے کے بعد پھر اختلاف میں مبتلا ہوئے۔ یہی لوگ ہیں جن کیلئے ایک بڑا عذاب ہے[ کے تحت تفسیر قرطبی میں آیا ہے:


یعنی یہود ونصاری کی طرح مت ہو۔ یہ جمہور مفسرین کا قول ہے۔ ان میں سے بعض مفسرین کا قول ہے کہ اس سے مراد اس اُمت میں سے اہل بدعت ہیں۔ [دیکھیے تفسیر قرطبی جلد چہارم صفحہ ١٧٤ مطبوعہ دارالحدیث قاہرہ]
سورہ بقرہ کی آیت ٢١٣ کی تفسیر میں امام ابن کثیر فرماتے ہیں:


اسی لئے اﷲ تعالیٰ نے گزشتہ آیت میں فرمایا ہے ]وانزل معہم الکتاب لیحکم بین الناس فیما اختلفوا فیہ وما اختلف فیہ الا الذین اوتوہ من بعد ما جاءھم العلم بغیا بینہم اﷲ نے ان (انبیاء) کے ساتھ کتاب نازل کی کہ لوگوں کے درمیان ان کے اختلافات کا فیصلہ فرما دے۔ اس میں اختلاف دراصل انہی لوگوں نے، باہم سرکشی کرتے ہوئے، کیا جن کو یہ کتاب ملی تھی جبکہ علم ان کے پاس آچکا تھا[ .... یعنی ان پر حجتیں قائم ہو چکنے کے بعد، جس کا سبب ان کی باہم زیادتی وسرکشی کے علاوہ اور کچھ نہ تھا ]فھدی اﷲ الذین آمنوا لما اختلف فیہ من الحق باذنہ چنانچہ اﷲ عزوجل نے اپنے حکم سے ایمان والوں کو اختلافات میں سے ہدایت نصیب فرما دی[ یعنی بوقت اختلاف وہ لوگ اسی مذہب پر قائم رہے جو اختلاف پیدا ہونے سے پہلے (انکے) انبیاءلے کر آئے تھے، ایک اﷲ کیلئے دین کو خالص کئے رہے، بلاشرکت غیرے اس کی عبادت پر کاربند رہے، نمازوں کو قائم اور زکوٰت ادا کرتے رہے اور اس طریقے سے اس پہلے والے منہج پر ہی قائم رہے جو اختلاف وتفرقہ ہونے سے قبل موجود تھا اور اختلاف سے دور اور کنارہ کش رہے اور قیامت کے روز لوگوں پر گواہ ٹھہرے۔


تفسیر ابن کثیر کی عبارت ختم ہوئی۔ **دیکھیے تفسیر ابن کثیر بسلسلہ آیت ٢١٣ سورہ البقرہ**


سورہ الانعام کی آیت **ان الذین فرقوا دینہم وکانوا شیعاً لست منھم فی شیءانما امرھم الی اﷲ ثم ینبئھم بما کانوا یفعلون جن لوگوں نے اپنے دین کو فرقوں میں بانٹ دیا اور ٹولوں میں منقسم ہو گئے تمہارا ان سے کوئی تعلق نہیں، ان کا معاملہ اﷲ ہی کے سپرد ہے پھر وہی ان کو بتائے گا کہ یہ کیا کرتے رہے ہیں** کی تفسیر میں امام ابن کثیر فرماتے ہیں:


**وکانوا شیعاً اور ٹولے فرقے بن گئے** یہ لوگ خوارج ہیں۔ بعض مفسرین کا قول ہے یہ اہل بدعت ہیں۔ جبکہ ظاہر یہ ہے کہ یہ آیت ان سبھی لوگوں کو شامل ہے جو دین کو چھوڑتے اور اس میں اختلاف کرتے ہیں۔[دیکھیے تفسیر ابن کثیر بسلسلہ آیت ١٥٩ سورہ الانعام]


چنانچہ تفرقہ سے مراد، متقدمین اہل علم کے نزدیک، اس راستے کو ترک کرنا ہے جس پر رسول اﷲ اور صحابہ کرام رہے۔ یہی وجہ ہے کہ اہل تفرقہ سے مراد مفسرین ومحدثین کے نزدیک اہل بدعت ہیں اور اہل اھوائ۔ کیونکہ دین میں ایک نیا راستہ ایجاد کرکے آدمی رسول اﷲ اور صحابہ کے راستہ سے خودبخود علیحدگی اختیار کر لیتا ہے۔ چنانچہ تفرقہ بنیادی طور پر حق سے علیحدگی ہے۔


مگر واضح رہے کہ اہل بدعت سے مراد یہاں ہر وہ شخص نہیں جو کسی عملی بدعت کا شکار ہے۔ گو عملی بدعات بھی بُری ہیں مگر اہل تفرقہ سے مراد وہ اہل بدعت ہیں جو ایک ایسی اعتقادی بدعت کو اختیار کرتے ہیں جس کا صحابہ وسلف کے راستے سے متصادم ہونا اہل حق کے نزدیک واضح اور معلوم ہو۔ جیسے خوارج، روافض، مرجئہ، جہمیہ، معتزلہ، شرکیہ تصوف [تصوف کی وہ صورتیں یہاں مقصود نہیں جن کے حامل شرک سے اجتناب کرتے ہیں اور شریعت کا التزام۔] وغیرہ۔

یہ تو ہوئے پرانے دور کے گمراہ بدعتی فرقے۔ موجودہ دور کے فتنوں میں اُمت کے بہت سے معتبر علماءمثلاً مصر کے مشہور محدث علامہ احمد شاکر، مفتی حجاز شیخ محمد بن ابراہیم، علامہ حمود العقلا، شیخ سفرالحوالی، شیخ علی الخضیری اور محمد قطب وغیرہ ان لوگوں کو جو اپنے آپ کو مسلمان بھی کہتے ہیں مگر سماجی علوم اور نظامہائے مملکت کے معاملے میں سیکولر نظریات کے پیروکار ہیں، بدعتی ٹولوں
میں شمار کرتے ہیں۔ مسلم سوشلسٹوں کو بھی اسی زمرے میں شمار کیا جاتا رہا ہے۔

مزید برآں موجودہ دور کے بدعتی ٹولوںمیں نیچریت، عقل پرستی، قوم پرستی، ادب پرستی اور انسان پرستی ایسے نظریات قبول کرنے والوں کو بھی شمار کیا گیا ہے اور اُمت کے اہل علم میں سے ایک معتدبہ تعداد اس اعتبار کو درست سمجھتی ہے۔


یہ سب ٹولے اہل تفرقہ ہیں کیونکہ حق سے علیحدگی اختیار کر چکے ہیں۔ ان سب کو جس حال میں وہ ہیں اکٹھا ہو جانے کیلئے کہنا اور اپنے اختلافات پر مٹی ڈالنے کی تلقین کرنا وحدت اُمت نہیں۔ ہاں البتہ ان کو حق پر لے آنے کی کوشش کرنا، ان کو احسن انداز میں دین کی حقیقت سکھانا اور پھر حق کی بنیاد پر ان کو مجتمع کرنا اور اس معنی میں اُمت کی شیرازہ بندی کرنا ضرور دین میں مطلوب ہے۔ خاص طور پر اس لئے کہ حق سے جہالت اس وقت معاشرے میں عام ہے اورکوئی شخص اگر کسی گمراہی پر ہے تو اس کو سب سے پہلے علم کے حقائق سے روشناس کرانا ضروری ہے نہ کہ اس پر بدعتی ہونے کا فتوی لگانا۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ اس کے راستے کو بہرحال گمراہی سمجھا جائے گا گو اس شخص سے، اس کی لاعلمی یا ان شبہات کے پیش نظر جن کا وہ شکار ہے، نرمی برتی جائے گی۔


رسول اﷲ کی اُمت کا بے شمار بدعتی فرقوں میں بٹ جانا اور ہلاکت کا شکار ہونا احادیث کی ایک کثیر تعداد میں وارد ہوا ہے۔ ان احادیث کو یونہی نظر انداز کر دینا یا ان روایات کے ذکر کو تفرقہ بازی کا سبب جاننا نہ تو علم کا تقاضا ہے اور نہ ہی دانش کا۔ (تہتر) فرقوں والی حدیث کی بابت امام ابن تیمیہ فرماتے ہیں: یہ حدیث صحیح مشہور ہے اور سنن و مسانید کی کتابوں ابوداؤد، نسائی اور ترمذی میں روایت ہوئی ہے (فتاوی ابن تیمیہ ج ٣ ص ٣٤٥) مزید برآں ان احادیث کے صحیح ہونے کی تصریح امام حاکم، امام ذھبی، امام ابن حجر، امام شاطبی، مناوی، ابن ابی عاصم، سیوطی اور البانی رحمہم اللہ ایسے ائمہ حدیث نے کی ہے۔


ان سب احادیث میں رسول اﷲ نے بذات خود یہ صراحت فرمائی ہے کہ یہ سب فرقے دوزخ کی راہ پر ہوں گے۔ یعنی ان کی راہ پر چلنا مستوجب عذاب ہوگا قطع نظر اس امکان سے کہ یہ عذاب وقتی ہو نہ کہ ہمیشگی کا، اور قطع نظر اس احتمال سے کہ کوئی شخص اپنی لاعلمی یا اپنے شبہات وتاویلات کے باعث اس راستے پر ہونے کے باوجود معذور بھی ہو سکتا ہے .... البتہ ان کی راہ وہ راہ ہوگی جو آدمی کو جہنم میں پہنچا دے۔


پھر ان احادیث میں رسول اﷲ نے یہ بھی واضح فرما دیا ہے کہ نجات کا مستحق گروہ صرف ایک ہوگا۔ سوال کیا جانے پر آپ نے اس کا کوئی نام بتانے کی بجائے ایک وصف بیان فرما دیا: من انا علیہ واصحابی یعنی وہ جو میرے راستہ پر ہوں اورمیرے صحابہ کے راستے پر۔


تفرقہ یہ ہوگا کہ آدمی اس فرقہء ناجیہ کے راستے سے مختلف راستہ اختیار کرلے۔


تفرقہ اور تنازع کی بابت آپ متقدمین علماءومحدثین اور فقہاءومفسرین اُمت کی نصوص کا تتبع فرمائیں تو اس نتیجہ پر پہنچیں گے کہ تفرقہ، جو کہ اسلام میں بہت بڑا گناہ ہے، دو صورتوں میں پایا جا سکتا ہے: ایک یہ کہ جہاں شریعت ہرگز اختلاف کی کوئی گنجائش نہ رکھے وہاں لوگوں کو اختلاف کرنے دیا جائے اور دوسری صورت یہ کہ جہاں شریعت اختلاف کی گنجائش رکھے وہاں اختلاف کی اجازت نہ دی جائے اور وہاں ہر آدمی دوسرے کو اپنی یا اپنے امام کی راہ پر لے آنے پر ہی ضد کرے۔ تفرقہ کی یہ دونوں صورتیں مہلک ہیں۔ بلکہ یہ دو انتہائیں ہیں۔ لوگوں کی ایک بڑی تعداد تفرقہ کی پہلی صورت میں ملوث ہے اور ایک خاصی بڑی تعداد اس کے بالمقابل تفرقہ کی دوسری صورت کا شکار ہے۔ یہاں ہم ان دونوں صورتوں کی کچھ وضاحت کریں گے۔


تفرقہ کی پہلی صورت:
یعنی جہاں اختلاف شرعاً حرام ہو وہاں اختلاف کی گنجائش رکھنا۔ وہاں اختلاف ہو جانے کو برداشت کرنا یا قدرت رکھتے ہوئے اس پر سکوت اختیار کرلینا۔ لوگوں کی ایک بڑی تعداد خاص طور پر جدید تعلیم یافتہ طبقوں میں سے دین پسند لوگ رواداری کے اس باطل مفہوم کا شکار ہیں۔ ان حضرات کا عمومی مسلک یہ ہے کہ کسی بھی مسلمان کو غلط نہ کہا جائے۔ اپنے کام سے کام رکھا جائے اور کسی گروہ کے عقیدے پر بھی تنقید نہ کی جائے اور یہ کہ کوئی جیسا بھی اعتقاد رکھتا ہو اپنی اپنی جگہ سب صحیح ہیں۔ کوئی شرک کرے، کوئی صحابہ سے بغض رکھے، کوئی معاذ اﷲ خدا کی صفات کا تیاپانچہ کرے .... یہ اپنے اپنے اعتقاد کی بات ہے کسی کو اس کے اعتقاد کے معاملے میں نہ چھیڑا جائے!


یہ مسلک اگر ان معاملات میں اختیار کیا جائے جن میں شریعت کی جانب سے اختلاف کی گنجائش ہے تو بلاشبہ درست ہے۔ مگر دین کے کچھ امور ایسے ہیں جو طے شدہ ہیں اور ان میں لوگوں کو اختلاف کی اجازت دینا تفرقہ کی بدترین صورت ہے اور اسلام کے حق میں صریح ترین جرم۔


وہ کونسے مسائل ہیں جن میں شریعت اختلاف کی ہرگز ہرگز اجازت نہیں دیتی؟ یہ اصولِ دین ہیں۔ شریعت کے مسلمات ہیں۔ اسلام کے بنیادی حقائق ہیں۔ صحابہ کا اجماع ہے۔ وہ امور ہیں جو قرون اولی (ثلاثہ) میں متفق علیہ جانے گئے۔ مثلاً شرک کی حرمت و شناعت، توحید کا وجوب، رسالت خصوصا ختم نبوت پر یقین، بقیہ ارکان ایمان، ارکان اسلام (شہادتین، نماز، زکوٰت، روزہ، حج) اور دین کے معلوم فرائض مثل امر بالمعروف ونہی عن المنکر اور جہاد وغیرہ) انبیاءکی تعظیم، صحابہ واہل بیت کی حرمت، دین کے معلوم محرمات مثلاً سود، شراب، بدکاری، بے حیائی، فحاشی وغیرہ کو حرام اور لازمِ اجتناب جاننا وغیرہ وغیرہ۔


کوئی شخص اگر ان معاملات میں اختلاف کرتا ہے یا ان معاملات میں سے کسی معاملے کو اختلافی مسئلہ سمجھتا ہے تو وہ ظلم عظیم کا مرتکب ہوتا ہے۔ اصول دین میں اختلاف کی گنجائش کہاں؟ یہی تو تفرقہ ہے۔


اُمت میں اگرکہیں شرک کے بعض افعال ہونے لگتے ہیں مثلاً اولیاءوصالحین کو حاجت روائی کیلئے پکارا جانے لگتا ہے، قبروں میں پڑے مردوں سے دُعائیں ہوتی ہیں، وحدت الوجود کی صورت میں خالق کو مخلوق سے ملا دیا جاتا ہے اور مخلوق کو خالق کے ساتھ یکجا کردیا جاتا ہے، اﷲ کی شریعت کے بجائے غیر اﷲ کا قانون چلایا اور تسلیم کیا جاتا ہے .... تو شرک کے ان مظاہر سے صرف نظر کر لینا اور ان معاملات میں لوگوں کو اپنے اپنے اعتقاد پر چھوڑ دینے کو ضروری سمجھنا دراصل تفرقہ کی اجازت دینا ہے۔ ایسے مسائل میں کسی کو اختلاف کا حق دینا عین تفرقہ پروری ہے بلکہ یہ فرقہ واریت کی بدترین صورت ہے۔


کوئی اﷲ تعالیٰ کی صفات کا انکار کرتا ہے، کوئی جنس عمل کو ایمان سے مطلقاً خارج قرار دیتا ہے، کوئی رسول اﷲ کی سنت کو حجت ماننے سے انکاری ہے، کوئی دین کے معلوم حقائق کو اپنی عقل کی کسوٹی پر چڑھاتا ہے، کوئی نیچریت کے فلسفیوں سے متاثر ہو کر دین کے مسلمہ عقائد کو نظر ثانی کے قابل سمجھتا ہے، کوئی فرائڈ یا ڈارکائم یا کارل مارکس ایسوں کی ضلالت کیلئے اسلام میں جگہ ڈھونڈتا ہے، کوئی سیکولرزم کو داخل اسلام کرنے کے درپے ہے، روافض یا خوارج کے مذہب پر چل کر کوئی صحابہ یا اہل بیت کی حرمت پر حرف آنا گوارا کرتا ہے یا ایسی کتب کو اپنے لئے مستند مرجع مانتا ہے جو صحابہ کی توہین سے بھری ہوئی ہیں .... تو اس کو ایسا کرنے دینا دین کو مسخ کرنے کی اجازت دینا ہے۔ یہ رسول اﷲ اور صحابہ کے راستے سے علیحدگی کو جواز دینا ہے۔ ان گمراہ راستوں پر چلنے والوں کا اتحاد اسلام کو ہرگز مطلوب نہیں۔ ان کو ان کے حال پر چھوڑ دینا وحدت اُمت نہیں۔ باطل پر چلنا بجائے خود تفرقہ ہے جیسا کہ (تہتر) فرقوں والی احادیث سے ثابت ہے۔ اس پر اگر آپ لوگوں کو اکٹھا کرتے ہیں تو یہ لوگوں کو تفرقہ پر اکٹھا کرنا ہے۔


چانچہ آج بہت سے لوگ جس بات کو رواداری اور اتحاد بین المسلمین سمجھتے ہیں اور کسی کے صریح باطل راستے کو باطل کہہ دینا اجتماع کے منافی جانتے ہیں ان کا یہ طرز فکر عین تفرقہ پروری ہے بے شک وہ اس کو اتحاد اور یک جہتی کا نام دیں۔


تفرقہ کی دوسری صورت:
یعنی جہاں اختلاف کی شرعاً گنجائش ہو وہاں لوگوں کو اختلاف کا حق نہ دینا۔ وہاں بھی لوگوں کو ایک خاص رائے پر چلنے کا پابند کرنا اور اگر وہ اس پر نہ چلیں تو ان سے اس طرح پیش آنا جس طرح کہ گمراہ فرقوں کے ساتھ پیش آیا جاتا ہے۔ یہ ایک دوسری انتہاءہے اور بہت سے متشدد لوگ تفرقہ کی اس صورت کا شکار ہیں۔


علماءو فقہائے اُمت کی غالب ترین اکثریت بشمول حنفی، مالکی، شافعی، حنبلی، ظاہری اور اہل الحدیث وغیرہ وغیرہ ایسے فقہی مسالک کو فرقہء ناجیہ میں شمار کرتی آئی ہے۔ یہ کئی فرقے نہیں دراصل ایک ہی فرقہ ہے اور ان سب کا ایک سے علمی اور شرعی مصادر پر اتفاق ہے۔ علما وفقہائے اُمت کے ہاں صدیوں تک یہ اعتبار قائم رہا ہے۔

عقیدہ کی کوئی بڑی خرابی نہ ہو تو یہ فقہی مذاہب اُمت کے معتبر مذاہب ہیں اور فقہی اختلاف کے باوجود یہ ایک جماعت ہیں اور سب کے سب اہل سنت وجماعت کی ذیل میں آتے ہیں۔ ان کا اختلاف وہ اختلاف ہے جس کی عمومی معنی میں علمائے اُمت کے ہاں گنجائش جانی گئی ہے۔ بنیادی طور پر یہ نصوص کے فہم اور ترجیح اور استقصاءمیں ہونے والا اختلاف ہے۔ اجتہادی مسائل میں ہونے والا اختلاف ہے۔ یہ اختلافِ مذموم نہیں بلکہ اصطلاحی طور پر یہ اختلافِ سائغ ہے۔


نصوص کے فہم وجمع کے اندر صحابہ تک میں اختلاف ہوا۔ علماءصحابہ کے فتاوی ایک دوسرے سے مختلف ہوئے۔ کسی نے دوسرے سے اپنی رائے منوانے پر اصرار نہیں کیا۔ یہی طرز عمل تابعین اور اتباع تابعین میں چلتا رہا۔ کسی نے ایک دوسرے کو اپنے سے مختلف رائے رکھنے پر، بُرا بھلا نہ کہا۔ کسی نے اس بنیاد پر گروہ بندی نہ کی۔ دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں یہی صحابہ و تابعین واتباع تابعین ہیں جو گمراہ فرقوں کے خلاف یک آواز ہو جاتے رہے۔ ان کے خلاف شدید ترین رویہ اختیار کرتے رہے۔ اہل بدعت کو
اپنی مجلس تک سے اٹھا دیتے رہے۔ حجت قائم کر دینے کے بعد ان کا منہ دیکھنا تک گوارا نہ کرتے تھے۔

روافض، خوارج، قدریہ، جہمیہ اور معتزلہ کے خلاف ان کے باقاعدہ فتاوی موجود ہیں۔ گمراہ فرقوں کے خلاف امام ابوحنیفہ کے مناظرے، امام مالک، امام شافعی، سفیان ثوری، سفیان بن عیینہ، اوزاعی اور حسن بصری کے سخت ترین مواقف اور امام احمد بن حنبل کا جہاد آخر کس سے پوشیدہ ہے۔ جبکہ خود ان ائمہ کا آپس میں بھی کثیر مسائل پر اختلاف ہوا مگر کیا انہوں نے فقہی اختلافات ہو جانے پر آپس میں ایک دوسرے پر بھی کبھی فتوے لگائے اور جس طرح بدعتی ٹولوں کو جہنم کی وعیدیں تک سنا دیا کرتے تھے کیا آپس میں بھی یہ رویہ رکھا؟ بات یہ ہے کہ وہ عقائدی اختلاف اور فقہی اختلاف میں فرق کو سمجھتے تھے۔ آج یہ فرق ہی ہم میں سے اکثریت کی نظر سے روپوش ہو گیا ہے۔


اسلام کے قرون اولی یعنی صحابہ، تابعین اور اتباع تابعین .... ان قرون ثلاثہ کو سلف کہا جاتا ہے۔ ایک طرف گمراہ ٹولوں کے ساتھ سلف نے کیا طرز عمل اختیار کیا اور دوسری طرف اپنے فقہی اختلافات کے معاملے میں کیا عمومی روش اختیار کی، یہ ہمارے لئے ایک بہترین نمونہ ہو سکتا ہے اور ایک متوازن منہج اپنانے کی بہترین بنیاد بھی۔


یہ ایک واقعہ ہے کہ فروعات میں اختلاف ہو جانے کے باوجود سلف کے مابین باہمی محبت وہمدردی اور آپس کے تعلقات کی گرمجوشی میں کبھی کوئی کمی نہ آئی۔ اجتہاد مختلف ہو جانے کے باوجود وہ ایک دوسرے کے ساتھ مل کر اُمت کی شیرازہ بندی کرتے رہے۔ اہلسنت کے دائرے کے اندر جتنے فقہی مذہب ہیں وہ اپنی اپنی رائے پر رہتے ہوئے بھی باہم یکجا ہو سکتے ہیں۔ ان کا اتحاد دین میں مطلوب ہے۔


فروعات کے فہم واستنباط اور مسائل احکام سے متعلق نصوص کے جمع وتحقیق میں ائمہء دین کا جو اختلاف ہوا، اور اس سے پہلے کسی حد تک یہ صحابہ میں ہوا، وہ ایک معروف تاریخی واقعہ ہے۔ ان مسائل میں محاذ آرائی کی راہ اپنانا اور اپنے مذہب کیلئے تعصب رکھنا زیادتی ہے اور تفرقہ کی ایک صورت۔ حنفی شافعی وغیرہ مذاہب کا اختلاف اُمت کے بڑے بڑے محدثین اور مفسرین اور فقہاءکی نظر سے گزرا ہے۔ کسی نے نہ تو ان امور میں تعصب کی اجازت دی اور نہ یہ مطالبہ کیا کہ ان فقہی مذاہب کو یکسر ختم ہونا چاہیے اور نہ اس بات کو فرض کیا کہ فقہی مسائل میں پوری اُمت کو ایک ہی رائے اور ایک ہی فہم اور ایک ہی مذہب پر جمع ہونا چاہیے۔ ائمہ دین نے ان مسائل میں اختلاف ہو جانے کی گنجائش رکھی البتہ تعصب سے ممانعت کی۔


البتہ آج معاملہ اس سے خاصا برعکس ہے۔ دین کے فرعی مسائل میں بہت سے لوگ آج لوگوں سے یہ تقاضا کر رہے ہیں کہ سب کے سب انہی کے مذہب یا انہی کی رائے یا انہی کے فہم پر آئیں بصورت دیگر وہ ان کو انما ھم فی شقاق کے مصداق صاف گمراہی پر جانیں گے۔ اس طرز فکر کے باعث ایک فقہی مذہب کا شخص دوسرے مذہب والے کے پیچھے نماز ادا کرنے تک کا روادار نہیں۔ سیاسی مجبوری ہو تو الگ مسئلہ ہے دل سے ایک دوسرے کے ساتھ محبت کرنے کیلئے تیار نہیں گویا کہ وہ خود حق پر ہے اور دوسرا باطل پر! یہ یقیناً تفرقہ ہے اور تنازع بھی۔


ولا تنازعوا فتفشلوا وتذھب ریحکم (الانفال: ٤٦)


آپس میں تنازع مت کرو۔ ورنہ تمہارا زور جاتا رہے گا اور تمہاری ہوا اُکھڑ جائے گی۔
صحابہ سے بہتر کوئی دور اس اُمت پر نہیں آسکتا۔نصوص کے فہم میں اختلاف صحابہ میں بھی ہوا حتی کہ خود رسول اﷲ کے دور میں ہوا اور آپ نے بعد والی نسلوں کو سمجھانے کیلئے کہ دین میں اس کی گنجائش ہے، اس پر سکوت فرمایا۔ جبکہ سب جانتے ہیں کہ رسول اﷲ کا کسی بات سے سکوت فرمانا باقاعدہ شریعت ہے۔


عن عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہ قال: نادی فینا رسول اﷲ یوم انصرہ عن الاحزاب ان لا یصلین احد الظہر الا فی بنی قریظہ، فتخوف ناس فوت الوقت فصلوا دون بنی قریظہ، وقال اخرون لا نصلی الا حیث امرنا رسول اﷲ وان فاتنا الوقت فما عنف واحداً من الفریقین (صحیح مسلم۔ الجہاد والسیر) [عبداﷲ بن عمر سے یہی روایت صحیح بخاری میں بھی دو جگہ آئی ہے۔ البتہ بخاری کی روایت میں ظہر کی بجائے عصر کا ذکر آتا ہے۔ امام نووی کہتے ہیں ممکن ہے بعض لوگوں کو ظہر پڑھنی ہو اور بعض کو عصر۔]


عبداﷲ بن عمر سے روایت ہے، کہا: رسول اﷲ نے غزوہ احزاب کے اختتام پر منادی فرمائی کہ کوئی شخص ظہر کی نماز نہ پڑھے مگر بنی قریظہ کے ہاں (پہنچ کر)۔ تب (راستے میں) کچھ لوگوں کو اندیشہ ہوا کہ نماز کا وقت گزر جانے والا ہے۔ انہوں نے بنی قریظہ کے (ہاں پہنچنے سے) پہلے ہی نماز پڑھ لی۔ جبکہ دوسرے لوگ بولے ہم تو نماز وہیں پڑھیں گے جہاں ہم کو رسول اﷲ نے حکم دیا بے شک نماز کا وقت فوت کیوں نہ ہو جائے۔ تب آپ نے فریقین میں سے کسی ایک کو بھی سرزنش نہ کی۔


حافظ ابن حجر فتح الباری میں اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
قال السھیلی: فی ھذا الحدیث من الفقہ انہ لا یعاب علی من اخذ بظاہر حدیث او آیت، ولا علی من استنبط من النص معنیً یخصصہ ....
وقد استدل بہ الجمھور علی عدم تاثیم من اجتھد لانہ لم یعنف احدا من الطائفتین، فلو کان اثم لعنف من اثم
سُھیلی کہتے ہیں کہ: اس حدیث سے یہ فقہی نکتہ واضح ہوا کہ نہ تو اس شخص کی مذمت ہوگی جو کسی حدیث یا آیت کے ظاہری معنی سے استدلال کرے اور نہ ہی اس آدمی کی عیب جوئی ہوگی جو نص کے کسی ایسے معنی سے استنباط کرے جو اس کی کوئی خاص مراد متعین کردے....


جمہور علماءنے مذکورہ حدیث سے اس بات پر استدلال کیا ہے کہ جو آدمی اجتہاد کرے اس کو گناہ گار نہ ٹھہرایا جائے گا۔ کیونکہ رسول اﷲ نے فریقین میں سے کسی ایک کو بھی بُرا یا غلط نہ کہا۔ چنانچہ اگر یہ گناہ ہوتا تو آپ اس فریق کو ضرور تنبیہ کرتے جس نے گناہ کا ارتکاب کیا ہوتا۔


جہاں تک روایات کے قبول کرنے میں اختلاف ہو جانے کا معاملہ ہے تو اس کی نوبت صحابہ کی زندگی میں ظاہر ہے کم ہی آسکتی تھی۔ سب کے سب صحابہ عدول تھے۔ راویوں کی جرح وتعدیل سے اﷲ تعالیٰ نے ان کو بے نیاز کر رکھا تھا۔ زیادہ سے زیادہ یہ ہو سکتا تھا کہ کوئی روایت کسی صحابی تک نہ پہنچے اور اس بات کے متعدد واقعات مذکور ہوئے ہیں جہاں کسی صحابی نے نص معلوم نہ ہونے کے باعث اجتہاد کیا۔ روایات کی چھان پھٹک بعد کی نسلوں کی ایک ضرورت تھی صحابہ کی زندگی میں اس کی نوبت ہی نہ آئی تھی۔ اس کے باوجودچند ایک واقعات پھر بھی ایسے ملتے ہیں جن میں بعض صحابہ بعض روایات کی بابت توقف یا حتی کہ بعض اوقات اختلاف کرتے ہوئے بھی پائے گئے۔ موضوع کی طوالت کے پیش نظر اس پر گفتگو کا یہ محل نہیں۔


البتہ صحابہ کے بعد کے ادوار میں قبول روایات کے اندر اختلاف کا بڑھ جانا ایک طبعی واقعہ تھا۔ خصوصاً جب عالم اسلام میں ایک بڑی توسیع ہوئی اور جہاد و تعلیم و امارت کی ضرورت کے پیش نظر ذخیرہ احادیث اور رواہ احادیث مختلف ملکوں میں پھیل گئے۔ اس معاملے میں بھی سلف کے مابین شدت نہ اپنائی گئی۔ روایات کی تصحیح وتضعیف اور ترجیح کا معاملہ اہل علم میں ہمیشہ سے چلتا ہی آیا ہے۔ بعض روایات ایسی ہیں کہ ایک ایک حدیث پر بحث کیلئے ضخیم کتب تک لکھی گئیں۔ ان معاملات میں کوئی کتنی تحقیق کر سکتا ہے یہ ہر شخص کی ہمت پر ہے۔ اس بنیاد پر محاذ آرائی کی بہرحال گنجائش نہیں۔
پھر اہل علم میں تعارضِ ادلہ ایک بڑے اختلاف کا سبب بن جاتا رہا ہے اور مختلف لوگ اس تعارض کے ازالہ کے معاملے میں مختلف طریقے اپناتے رہے ہیں۔


ان سب معاملات میں علمی اختلاف کی پوری گنجائش ہے۔ بحث ونظر اور تحقیق ومطالعہ کی ضرورت مسلم ہے۔ تبادل آراءاور مناقشہ وتصحیح ان معاملات میں ایک برحق موقف ہے۔مگر تفرقہ ونزاع اور گروہ بندی کی اجازت نہیں۔ فقہی اختلافات کا ہو جانا ہرگز نقصان دہ نہیں البتہ اس کی بنیاد پر دھڑے بندی ہونے لگنا نقصان دہ ہے۔ ایسا کرنا فتنہ بھی ہوگا اور بدعت بھی۔
آئیے اس معاملے میں بعض اہل علم کی کچھ نصوص دیکھتے ہیں:


امام شاطبی کی الاعتصام سنت کے ساتھ تمسک اور بدعت وانحراف کے رد کے موضوع پر ایک منفرد ترین تالیف ہے۔ اس میں امام شاطبی فرماتے ہیں:


فان الخلاف من زمان الصحابہ الی الان واقع فی المسائل الاجتھادیہ و اول ما وقع الخلاف فی زمان الخلفاءالراشدین المھدیین ثم فی سائر الصحابہ ثم فی التابعین ولم یعب احد ذلک منھم وبالصحابہ اقتدی من بعدھم فی توسیع الخلاف۔ (الاعتصام: ٨٠٩)


اجتہادی مسائل میں اختلاف صحابہ کے دور سے لے کر آج تک واقع ہوتا آیا ہے۔ سب سے پہلے جو اختلاف ہوا وہ خلفائے راشدین مہدیین کے زمانے میں ہوا پھر صحابہ کے سب ادوار میں رہا۔ پھر تابعین میں ہوا۔ ان میں سے کسی نے بھی اس پر کسی کو معیوب نہ جانا۔ صحابہ کے بعد والوں میں بھی اسی طرز پر اختلاف ہوا اور اس میں توسیع بھی ہوئی۔


امام مناوی یہ وضاحت کرتے ہوئے کہ کہاں اختلاف ناقابل برداشت ہے اور کہاں اس کی اجازت ہے، فرماتے ہیں:
فاصل الدیانات کلھا: التوحید وصفات الباری جل وعز والایمان بالغیب کالجنت والبعث والجزاءوالصراط والحوض والشفاعہ وعذاب القبر۔ وکذلک فروع الدیانات التی یعلم وجوبھا بدلیل مقطوع بہ مثل: الصلاہ والزکات والحج والصوم، وکذلک المناھی الثابتہ بدلیل مقطوع بہ فلا یجوز الاختلاف فی شیءمن ذلک۔ ولا مسوِّغ للاختلاف فیہ اُصلاً۔ ومن خالف فی شیءمن ذلک فھو اما کافر اوضال اعاذنا اﷲ من ذلک ....


واما الذی یسوغ فیہ الاختلاف فھی فروع الدیانات اذا استخرجت احکامھا بامارات الاجتھاد ومعانی الاستنباط .... فھذہ یسوغ فیھا اختلاف العلماءولکل واحد منھم ان یعمل بما یؤدی الیہ اجتھادہ (فوائد الفوائد فی اختلاف القولین لمجتھد واحد۔ الامام المناوی ص ٧١۔ ط۔ دارالصحابہ) [بحوالہ کتاب: الفقہ الغائب مولفہ یاسر محمد العدل۔ مطابع الوفاء۔ المنصورہ۔ مصر]


آسمانی شریعتوں کا اصل محور توحید ہے اور صفات باری تعالیٰ اور ایمان بالغیب مثل جنت، حیات بعد الموت، جزا وسزا، پل صراط، حوض، شفاعت اور عذاب قبر۔ اسی طرح شرعی احکام کی وہ فروعات بھی جن کا وجوب دلیل قطعی سے ثابت ہے مثلاً نماز، زکات، حج اور روزہ۔ اسی طرح وہ محرمات بھی جن کی حرمت دلیل قطعی سے ثابت ہے .... ان میں سے کسی چیز میں بھی اختلاف جائز نہیں۔ ان میں اختلاف کا کوئی جواز سرے سے ہے نہیں۔ جو ان معاملات میں اختلاف کرے وہ یا تو کافر ہے اور یا پھر گمراہ۔ اﷲ تعالیٰ ہمیں اس سے محفوظ رکھے ....


ہاں جس چیز میں اختلاف کی گنجائش ہے وہ ہیں شریعت کی وہ فروعات جن کا استخراج اجتہاد اور استنباط ایسے طریقوں سے کیا جاتا ہے .... چنانچہ اس میں علماءکے اختلاف کرنے کی گنجائش ہے اور ہر ایک کو اس کا اجتہاد جس نتیجہ تک پہنچائے وہ اسی پر عمل کرنے کا مجاز ہے۔


امام ابن تیمیہ فرماتے ہیں:
واما الاختلاف فی الاحکام فاکثر من ان ینضبط ولو کان کلما اختلف مسلمان فی شیءتھاجرا لم یبق بین المسلمین عصمہ ولا اخوہ۔ (فتاوی ابن تیمیہ ٢٤:١٧٣)


مسائل احکام میں تو اس قدر اختلاف ہوا ہے کہ اس کا ضبط میں آنا ممکن نہیں۔ اگر کہیں ایسا ہوتا کہ جب بھی کبھی دو مسلمانوں میں کسی مسئلے کی بابت اختلاف ہو تو ایک دوسرے سے قطع تعلقی اختیار کر لی جاتی تو مسلمانوں میں کسی عصمت یا اخوت کا نام تک باقی نہ رہتا۔


حافظ ابن عبدالبر، جو کہ موطا مالک کی مشہور ترین شرح: التمہید لما فی المؤطامن المعانی والاسانید کے مولف ہیں اور منہج سلف کے ایک بہترین ترجمان مانے جاتے ہیں اپنی کتاب: جامع بیان العلم وفضلہ میں بعض روایات ذکر کرتے ہیں جو کہ ہمارے اس موضوع سے متعلق ہیں۔ اپنی کتاب کے باب (٥٤) بیان مایلزم الناظر فی اختلاف العلماءمیں فرماتے ہیں:


وعن القاسم، قال: لقد اعجبنی قول عمر بن عبدالعزیز۔ رضی اﷲ عنہ۔: ما احب ان اصحاب رسول اﷲ لم یختلفوا، لانہ لو کان قولا واحداً کان الناس فی ضیق، وانھم ائمہ یقتدیٰ بھم، ولو اخذ رجل بقول احدھم کان فی سعہ قال ابوعمر: ھذا فیما کان طریقہ الاجتھاد (کتاب کا صفحہ ٢٦٦) [صحیح جامع بیان العلم وفضلہ۔ تالیف ابی عمر یوسف بن عبدالبر۔ اختصار وتہذیب ابوالاشبال]


قاسم بن محمد سے روایت ہے، کہا: مجھے عمر بن عبدالعزیز کا یہ قول بہت پسند آیا: مجھے ہرگز یہ پسند نہیں کہ صحابہ نے (بعض مسائل میں) آپس کے اندر اختلاف نہ کیا ہوتا۔ کیونکہ ان سے اگر ایک ہی قول مروی ہوا ہوتا تو لوگ تنگی میں رہ جاتے، جبکہ صحابہ امام ہیں جن کی اقتدا ہونی چاہیے۔ چنانچہ کوئی شخص کسی ایک صحابی کا قول اختیار کرلے تو اس کیلئے اس کی گنجائش ہے۔


ابن عبدالبر کہتے ہیں: یہ ان مسائل میں ہوگا جو اجتہاد سے متعلق ہوں۔
وعن اسامہ بن زید قال: سالت القاسم بن محمد عن القراءت خلف الامام فیما لم یجھر فیہ فقال: ان قرات فلک فی رجال من اصحاب رسول اﷲ اسوہ حسنہ، وان لم تقرافلک فی رجال من اصحاب رسول اﷲ اسوہ حسنہ
وعن یحیی بن سعید قال: ما برح اولو الفتوی یفتون، فیحل ھذا، ویحرم ھذا، فلا یری المحرِّم ان المحلل ھلک لتحلیلہ، ولا یری المحلل ان المحرم ھلک لتحریمہ (ص ٣٦٧)


اسامہ بن زید لیثی سے روایت ہے، کہا: میں نے امام قاسم بن محمد سے سری نماز کے اندر قرات خلف الامام کی بابت دریافت کیا۔ فرمایا: اگر قرات کر لو تو بھی صحابہ رسول میں سے کچھ لوگوں کی مثال موجود ہے اور اگر نہ کرو تب بھی صحابہ میں سے کچھ لوگوں کی مثال موجود ہے۔


یحی بن سعید سے روایت ہے، کہا: آج تک ایسا ہوا ہے کہ فتوی دینے والے اہل علم فتوی دیتے ہیں۔ ایک شخص (کسی معاملے میں) حرام ہونے کا فتوی دیتا ہے دوسرا حلال ہونے کا فتوی دیتا ہے۔ نہ تو حرام کہنے والا عالم حلال کہنے والے کو ہلاکت پر جانتا ہے اور نہ ہی حلال کہنے والا حرام قرار دینے والے کوہلاکت میں پڑا ہوا جانتا ہے۔


وقد اختلف اصحاب رسول اﷲ فخطابعضھم بعضا، ونظر بعضھم فی اقاویل بعض وتعقبھا، ولو کان قولھم کلہ صوابا عندھم لما فعلوا ذلک (ص ٣٧٢) [صحیح جامع بیان العلم وفضلہ۔ تالیف ابی عمر یوسف بن عبدالبر۔ اختصار وتہذیب ابوالاشبال]


اصحاب رسول نے بلاشبہ آپس میں (بعض مسائل پر) اختلاف کیا۔ وہ ایک دوسرے کی غلطیوں کی نشاندہی بھی کرتے رہے۔ ایک دوسرے کے اقوال وآراءپر نقد و تبصرہ بھی کرتے رہے۔ ان میں سے سب کے اقوال اگر (بیک وقت) درست ہوتے تو وہ ایسا نہ کرتے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تفرقہ کے فتنہ سے کیسے نمٹا جائے؟


کسی مسئلے کے حل کا یہی طریقہ ہو سکتا ہے کہ اس کی بابت ایک شرعی موقف اپنایا جائے، اسی کی تبلیغ کی جائے اور اسی پر محنت سے کامیابی کی اُمید لگائی جائے۔ اس دنیا میں کسی بھی مسئلے کا حل کسی جادوئی چھڑی سے کر دینا ممکن نہیں۔
اس مسئلہ میں فقہِ سلف اور منہج اہلسنت پر کام نہ ہونے کے باعث یہاں صورت حال کچھ یوں ہو چکی ہے کہ لوگ تفرقہ کی ایک صورت سے نکلتے ہیں تو دوسری میں جا پڑتے ہیں اور دوسری سے نکلتے ہیں تو پہلی میں واپس آجاتے ہیں۔ فہم دین کے معاملے میں توازن اور جامعیت کا حاصل ہوجانا، کسی قوم کے حق میں خدا کی سب سے بڑی نعمت ہو سکتی ہے۔


سورہ المائدہ کی آیت ١٤ ] ومن الذین قالوا انا نصاریٰ اخذنا میثاقہم فنسوا حظا مما ذکروا بہ فاغرینا بینہم العداوہ والبغضاءالی یوم القیامہ۔ وہ لوگ جنہوں نے کہا تھا کہ ہم نصاری ہیں، ہم نے تو ان سے بھی پختہ عہد لیا تھا، مگر ان کو بھی جو سبق یاد کرایا گیا اس کا ایک بڑا حصہ انہوں نے فراموش کر دیا، تب ہم نے ان کے آپس میں قیامت تک کیلئے بغض اور عداوت ڈال دی....[ کے ذیل میں امام ابن تیمیہ کہتے ہیں:


پس جب بھی لوگ اس مشن کے ایک حصے کو چھوڑ دیں جس کا ان کو خدا نے مامو رکیا ہوتا ہے تو ان میں آپس کا بغض اور عداوت آجایا کرتی ہے۔ پھر جب ان میں تفرقہ پڑتا ہے تو وہ فساد اور ہلاکت کا شکار ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس جب وہ مجتمع ہوں تو صلاح وفلاح اور جہانبانی سے سرفراز ہوتے ہیں کیونکہ جماعت رحمت ہے اور تفرقہ عذاب۔ (فتاوی ابن تیمیہ ج ٣ ص ٤٢١)


دین کے اصول اور فروع کا فہم نہ ہونے کے باعث معاملہ یہ ہو جاتا ہے کہ جس چیز کو وحدتِ اُمت کا نسخہ جان لیا جاتا ہے احادیث کی رو سے وہ عین تفرقہ ہوتا ہے۔ رسول اﷲ جس طرز عمل سے خبردار کریں اور جن فرقوں سے اُمت کو متنبہ کریں بلکہ جن فرقوںکو عذاب کی وعید سنائیں ان کے اختلافات پر مٹی ڈال دینا تفرقہ کا حل جان لیا جائے نہ کہ ان کی گمراہی کو رد کیا جانا! یا پھر دوسری طرف فرقہء ناجیہ کو ایک فقہی مذہب پر مجتمع کرتے ہوئے، جو کہ ہرگز شریعت کا مقصد نہیں، لڑائی بھڑائی، محاذ آرائی اور گروہ بندی کی راہ اختیار کر لی جائے!


تفرقہ کی دونوں صورتیں واضح ہو جانے کے بعد ان سے نبرد آزما ہونے کا منہج خودبخود واضح ہو جاتا ہے۔ جہاں تک فرقہ واریت کو ختم کرنے کا تعلق ہے تو آپ اس بات کے مکلف نہیں کہ آپ اس کو ہرحال میں ختم ہی کرکے رہیں۔ اُمت کے بے شمار (بہتر) فرقوں میں بٹ جانے کی پیشین گوئی خود رسول اﷲ نے فرمائی ہے۔ جس طرح کہ اس کے علاوہ اور بھی فتنہ وشر کے کئی واقعات کی آپ نے پیشین گوئی فرمائی ہے۔ ان واقعات کو رونما ہونے سے تو ہم نہیں روک دینے کے البتہ فتنوں کی صورتحال میں اپنا کردار متعین کرنے کے ہم ضرور مکلف ہیں۔ تفرقہ سے نبرد آزما ہونے سے بھی یہی مراد ہے کہ اس میں ہم اپنا وہ کردار ادا کریںجو ہم سے شرعاً مطلوب ہے بغیر اس بات پر انحصار کئے کہ ہم اس فتنہ کو وجود سے ختم کر پائیں گے یا نہیں۔


کسی بھی فتنہ کی بابت شرعی موقف اختیار کرنا اور اس کے عملی تقاضے ادا کرنے میں لگ جانا اس فتنہ کا پھیلاؤ کم کر دینے کا سبب ضرور ہو سکتا ہے۔ البتہ ایک فتنہ کی بابت ایک ایسا موقف اختیار کرنا جو شریعت سے متعارض ہو بذات خود ایک فتنہ ہو سکتا ہے۔ لہٰذا ایسا کرنے سے بہرحال اجتناب ضروری ہے۔
چنانچہ اصل سوال یہ ہونا چاہیے کہ فرقہ واریت کے فتنہ کی بابت ایک مسلمان کا کیا فرض بنتا ہے؟ باقی ہر سوال کا جواب اس کے اندر خود بخود آجائے گا۔
جہاں تک تفرقہ کی پہلی صورت کا تعلق ہے اس کی بابت ہر باسمجھ آدمی پر فرض ہے کہ اُمت کے اندر واقع ہونے والے انحرافات اور گمراہی پر مبنی رحجانات کے آڑے آنے کی حتی الوسع اور باحسن انداز کوشش کرے۔ بدعتی فرقوں کو غلط جانے۔ دین کے مسلمات مانند توحید، خدا کی صفات، آخرت، تقدیر، رسالت، سنت، صحابہ واہل بیت کی حرمت.... کسی چیز پر آنچ آنا برداشت نہ کرے۔ ان مسائل میں اختلاف کو ہلاکت جانے اور ان معاملات میں فرقہء ناجیہ کی راہ سے تمسک رکھے۔ ان معاملات کو ہرگز ہرگز اختلافی مسائل نہ جانے۔

کوئی شخص اگر جہالت یا غلط فہمی کے باعث دین کے مسلمات میں سے کسی امر کی بابت انحراف کی راہ پر چل پڑا ہے تو اس کے ساتھ دوستانہ اور ہمدردانہ انداز میں بحث و گفتگو کرنے میں کوئی بھی حرج نہیں۔ اس کو کوئی اچھی چیز پڑھانا یا سنانا یقیناً مطلوب ہے۔ اس کی سننا اور اس کے شبہات دور کرنا نیکی کا بہترین عمل ہے۔ مگر اس معاملے کو حل کئے بغیر چھوڑ دینا ہرگز درست نہیں۔ ایک انحراف کو ختم کرنے کی کوشش ہونی چاہیے گمراہی کا حتی الامکان سدباب ہونا چاہیے۔ طریقہ بہترین سے بہترین اپنایا جائے مگر اس کام کو ہرگز غیر اہم نہ سمجھا جائے۔


معاشرے میں سمجھداروں کی ایک معقول تعداد اگر اس مشن کو انجام دینے پر تیار ہو جاتی ہے .... اصول دین کی بابت حق کی ہر حال میں اتباع کروانے پر مصر اور باطل کی سرکوبی اور گمراہ فرقوں اور گمراہ نظریوں کا راستہ معاشرے میں مسدود کر دینے پر کمربستہ ہو جاتی ہے تو اس رحجان کے نتیجے میں تفرقہ کی اس پہلی صورت کا سدباب ہونے لگے گا۔ مختصر یہ کہ اسلام کے مسلمات اور بنیادی عقائد کی بابت کسی کے ساتھ کوئی مفاہمت Compromisation نہیں۔ کوئی خوش ہو یا ناراض، کسی فرقے کی اکثریت ہے یا اقلیت .... ایک گمراہی کا صاف صاف رد ہونا چاہیے خواہ کوئی اس پر کتنا ہی سٹپٹائے اور گمراہی کا رد کرنے والے کو کیسے ہی بُرے القاب دے۔ اُمت کے اندر اگر ایسے لوگ نہ ہوتے جو اپنے دور کی گمراہیوں کو اسلام سے چھانٹ کر رکھ دیں تو آج اِس اُمت کا بھی معاذ اﷲ وہ حشر ہو چکا ہوتا جو پہلی اُمتوں کا ہوا۔ گمراہیوں کو اسلام کی سند کبھی اور کسی صورت میں نہیں دی جا سکتی۔ گمراہیوں کو اپنے حال پر ہرگز نہیں چھوڑا جا سکتا اس بات کو یقینی بنانا اس اُمت کی بہترین خدمت ہے۔ یہ اِس اُمت کا اعزاز بھی ہے اور امتیاز بھی کہ اس کا دین خالص اور ہر آلائش سے پاک ہے۔ دین کو خالص اور آلائشوں سے پاک رکھنے کی بہرحال کوئی قیمت ہے اور اس کو ادا کر دینا ہر مصلح پر فرض۔


یقیناً آج کے دور میں اس پر بہت سی محنت ہونے کی ضرورت ہے۔ اساسیات دین میں کئے جانے والے انحرافات و اختلافات پر مٹی ڈال دینا آسان ہے مگر یہ مسئلے کا حل نہیں۔ یہ ایک بُرائی کو ایک اور بُرائی کے ساتھ رد کرنا ہے۔


جہاں تک تفرقہ کی دوسری صورت کا تعلق ہے تو اس کا سدباب اسی صورت ممکن ہے کہ لوگوں میں دین کے اصول اور فروع کی بابت آگہی پیدا کی جائے۔ اہلسنت کے ہاں جو فقہ الاختلاف رائج رہی ہے اس کی سمجھ عام کی جائے۔ صحابہ کے دور سے لے کر بعد کے ادوار تک فقہی اختلاف کو جس تحمل اور بردباری اور وسیع القلبی کے ساتھ برداشت کیا جاتا رہا اور ان امور میں تعصب کو بالائے طاق رکھتے ہوئے جس طرح آراءکے مابین تبادلہ ہوتا اور قربت پیدا کی جاتی رہی اس منہج کی تعلیم عام کی جائے اور اس رحجان کو دین کے طالب علموں اور تحریکی نوجوانوں اور دین پسند عوام میں زیادہ سے زیادہ پروان چڑھایا جائے۔


اس پر بھی اگر سمجھدار ذہنوں کی ایک معقول تعداد آجاتی ہے اور لوگوں کو علمی وفقہی مسائل میں اختلاف کے آداب سکھانے کا بیڑا اٹھا لیتی ہے تو دیندار طبقوں کو ایک بہترین جہت دی جا سکتی ہے۔


تفرقہ کی ان دونوں صورتوں سے نبردآزما ہونے کیلئے علم وفہم کا ایک خاص معیار اور سوچ میں ایک خاص درجے کا توازن درکار ہے۔ اس توازن کے نہ ہونے کے باعث صورتحال یہ ہو گئی ہے کہ جب آپ فرقہ واریت کی مذمت کرتے ہیں اور فقہی مذاہب کے مابین رواداری کی ضرورت پر زور دیتے ہیں تو اس سے یہ سمجھ لیا جاتا ہے کہ اُمت میں پھیلے ہوئے شرک اور کفریہ بدعات اور کچھ کھلی کھلی گمراہیوں کے معاملہ میں بھی شاید آپ غیر جانبدار اور لاتعلق ہیں! یعنی آپ روشن خیال ہیں! اور اگر آپ شرک اور کفریہ بدعات اور کھلی کھلی گمراہیوں کا رد کرتے پائے جائیں تو فرقہ واریت کے مرتکب ٹھہریں! یہ اس بات کی دلیل ہے کہ دین کے اصول اور فروع کی بابت متوازن منہج کا علم قریب قریب مفقود ہے۔ یہ توازن منہج سلف اور اہلسنت کے تحریکی ورثے کا عمیق فہم حاصل کرنے اور اس کو عام کرنے سے ہی آسکتا ہے۔ اس منہج سے آگاہی عام ہونے لگے تو اُمت کے نوجوانوں کو علمی اور تحریکی طور پر ایک متوازن جہت دی جا سکتی ہے۔ ہاں اس پر اگر محنت نہیں ہوتی تو ہر سو غلط فہمیوں کے انبار دکھائی دینا باعث حیرت نہ ہونا چاہیے۔ پھر بے شک آپ جتنی بھی معقول بات کریں اس صورتحال کی کم از کم قیمت آپ کو یہ دینا پڑے گی کہ آپ کہیں کچھ اور سمجھا بالکل کچھ اور جائے۔ بات کے مانے یا نہ مانے جانے کی نوبت تو بعد میں آیا کرتی ہے ابھی تو بات سمجھا لینا بھی شاید دشوار ہو۔ تاثرات کی گرد کو صاف کرنا حد درجہ ناگزیر ہے۔




http://www.eeqaz.com/main/articles/2547.htm
 
Last edited:

ALMAHDI

Banned
چوہدری صاحب، فرقہ واریت کا ایک سبب غلط سلط احادیث اور من گھڑت حوالوں سے کسی کو افضل بنا کر پیش کرنا ہے۔ جھوٹی تفضیل اور مناقب بیان کر کے اسکی منزلیں بڑھانے سے فرقہ واریت بڑھتی ہے گھٹتی نہیں۔ جیسا کہ آپ نے اس تھریڈ پر کیا تھا نیچے آپکی اس پوسٹ کی تصویر لگا رہا ہوں جس میں آپ نے ایک کچی پکی حدیث صریحاً غلط حوالوں سے نقل کی۔ آپکو ماہ صیام میں اپنی اس گمراہ کن اور مکروہ حرکت پر بے دھڑک مسلمانوں سے معافی طلب کرنی چاہیئے۔آپکو یاد ہوگا کہ جب میں نے مذکورہ حدیث کے ضعف کی طرف آپکی توجہ دلوا کر پوچھا کہ کبھی کسی شہر کی بھی چھت ہوئی ہے تو آپ نے صرف ڈسلائیک کرنا کافی سمجھا لیکن بعد از تحقیق اب آپکو اس حدیث کی حقیقت معلوم ہو گئی ہے اور آپ اپنے کیے پر کچھ کچھ شرمندہ لگنے کی کوشش میں مصروف پائے جاتے ہیں۔ اگر فرقہ وارنہ نفرت میں سلگنے کی بجائے آپ نے میرے استدلال پر غور کیکر کے سوچا ہوتا کہ اول تو کبھی کسی شہر پر چھت ہوتی نہیں لیکن بالفرض محال اگر کسی شہر پر چھت ہو بھی تو اُسکے مکین دھوپ کو ترسیں گے، دن میں روشنی کا کیا انتظام ہوگا جبکہ مکہ مدینہ میں واپڈا بھی نہیں ہوتا تھا (بوجوہ مثال یہی شہر ہونگے)۔ اگر آپ اندھوں کی طرح شخصیت پرستی کرتے ہوئے ضعیف حدیثوں پر واہ واہ، سبحان اللہ کرنے کی بجائے سوچتے کہ شہر پر چھت کی مثال گفتگو میں فصاحت و بلاغت کے اعتبار سے ہی ناقص ہے۔ بھلا اس شہر کے مکین کپڑے سکھانے سے لے کر دیگر مادی پاکیزگیوں کیلئے ضروری سورج کی روشنی کے بغیر کیا متبادل اختیار کریں گے تو کبھی بھی عثمان کو کسی شہر کی چھت قرار دی جانے والی حدیث پوسٹ کرتے اور نہ اسکے صحیح ہونے کا یقین کرتے۔ اب آپ شرمندہ ہو کر توبہ طلبی کی بجائے الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے کے مصداق ہمیں ہی پڑ گئے ہیں۔
حیرت یہ بھی ہے آپ ایڈمن سے ہمیں بین کرنے کی التجائیں کر رہے ہیں جبکہ غلط حوالوں سے کچی پکی حدیثیں آپ چھاپ رہے ہیں اور بین آپکو ہونا چاہیئے لہذا میں ایڈمن سے نقلی حوالوں سے احادیث اور رسالتماب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر تہمتیں لگانے والے ممبرز کو ذلیل و رسوا کر کے اس فورم سے نکالنے کی بھر پور درخواست کرتا ہوں کیونکہ آپ سے پہلے ایک دوسرا تکفیری قیصر مرزا رسول اللہ کا مسلک کے عنوان سے ایک تھریڈ کھول کر ایسی ہی ایک حدیث مع نقلی حوالوں لگاتا ہوا رنگے ہاتھوں پکڑا جا چُکا ہے۔
آپکو تو ہمارا مشکور ہونا چاہیے تھا کہ ہم نے آپکو ایک غلط کام کی اشاعت سے منع کیا لیکن آپ مولا علی مشکل کشا علیہ السلام کے اس فرمان کا مصداق ہیں کہ جس پر احسان کرو اسکے شر سے بچو۔

9qT19sI.png


 
Last edited:

Afaq Chaudhry

Chief Minister (5k+ posts)
چوہدری صاحب، فرقہ واریت کا ایک سبب غلط سلط احادیث اور من گھڑت حوالوں سے کسی کو افضل بنا کر پیش کرنا ہے۔ جھوٹی تفضیل اور مناقب بیان کر کے اسکی منزلیں بڑھانے سے فرقہ واریت بڑگتی ہے گھٹتی نہیں۔ جیسا کہ آپ نے اس تھریڈ پر کیا۔ یہاں نیچے آپکی اس پوسٹ کی تصویر لگا رہا ہوں جس میں آپ نے ایک کچی پکی حدیث صریحاً غلط حوالوں سے نقل کی۔ آپکو ماہ صیام میں اپنی اس گمراہ کن اور مکروہ حرکت پر برملا مسلمانوں سے معافی طلب کرنی چاہیئے۔جب میں نے مذکورہ حدیث کے ضعف کی طرف آپکی توجہ دلوا کر پوچھا کہ کبھی کسی شہر کی بھی چھت ہوئی ہے تو آپ نے صرف ڈسلائیک کرنا کافی سمجھا لیکن اب شاید آپکو اس حدیث کی حقیقت معلوم ہو گئی ہے اور آپ اپنے کیے پر کچھ کچھ شرمندہ لگنے کی کوشش میں مصروف پائے جاتے ہیں۔ اگر آپ فرقہ وارنہ نفرت میں سلگنے کی بجائے آپ نے غور کیا ہوتا کہ اگر کسی شہر پر چھت ہوگی تو اُسکے مکین دھوپ کو ترسیں گے، دن میں روشنی کا کیا انتظام ہوگا جبکہ مکہ مدینہ میں واپڈا بھی نہیں ہوتا تھا۔ اگر آپ اندھوں کی طرح شخصیت پرستی کرتے ہوئے ضعیف حدیثوں پر واہ واہ کرنے کی بجائے سوچتے کہ شہر پر چھت کی مثال علم الکلام کے حساب سے ہی ناقص ہے۔ بھلا اس شہر کے مکین کپڑے سکھانے سے لے کر دیگر مادی پاکیزگیوں کیلئے ضروری سورج کی روشنی کے بغیر کیا متبادل اختیار کریں گے تو کبھی بھی عثمان کو کسی شہر کی چھت قرار دی جانے والی حدیث پوسٹ کرتے اور نہ اسکا یقین کرتے۔ اب آپ شرمندہ ہو کر توبہ طلبی کی بجائے الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے کے مصداق ہمیں ہی پڑ گئے ہیں۔
حیرت ہے آپ ایڈمن سے ہمیں بین کرنے کی التجائیں کر رہے ہیں جبکہ غلط حوالوں سے کچی پکی حدیثیں آپ چھاپ رہے ہیں لہذا میں ایڈمن سے نقلی حوالوں سے احادیث اور رسالتماب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر تہمتیں لگانے والے ممبرز کو ذلیل و رسوا کر کے اس فورم سے نکالنے کی بھر پور درخواست کرتا ہوں کیونکہ آپ سے پہلے ایک دوسرا تکفیری قیصر مرز رسول اللہ کا مسلک کے عنوان سے ایک تھریڈ کھول کر ایسی ہی ایک حدیث مع نقلی حوالوں لگاتا رنگے ہاتھوں پکڑا جا چُکا ہے۔
آپکو تو ہمارا مشکور ہونا چاہیے تھا کہ ہم نے آپکو ایک غلط کام کی اشاعت سے منع کیا لیکن آپ مولا علی مشکل کشا علیہ السلام کے اس فرمان کا مصداق ہیں کہ جس پر احسان کرو اسکے شر سے بچو۔





آپ نے دوبارہ اپنی فرقہ وارانہ فطرت کے مطابق زہر پھیلانے کی کوشش کی ہے ور صرف فورم جانتا ہے کہ شر پسند اس فورم پر کون ہیں ، آپ کون ہیں اس دنیا میں فضیلت کے معیار گھٹانے اور بھڑھانے والے ؟؟؟ جن کا مقام الله نے بلند کیا وہ جانتا ہے ، آپ میرے سوال کا جواب دیں جو میں نے پوچھا ہے ، اس تھریڈ میں کوئی اختلاف ہے تو قران اور سنّت سے ثابت کریں کہ وہ غلط ہے ، فرقہ پرست زہر قتل اور مسلمانوں کے لئے فتنہ ، جو اس کے پیروکار اور مسلمانوں کو لڑاتے ہیں وہ اسلام کے دشمن ہو سکتے ہیں خیر خواہ نہیں
یہ میری پوسٹ ہے ، یہ حدیث موجود ، جو غلط ہے وہ میں نے لکھا ہے ، شرمندگی کیسی ، آپ میرے سوال کا جواب دیں ، ورنہ فرقہ واریت کے نام پر زہر پھیلانے سے پرہیز کریں اور میں دوبارہ اپیل کرتا ہوں کہ فورم پر ایسے فتنوں کو بین کیا جائے جو اب گستاخانہ حد تک جا رہے ہیں

________________________________________________________________________

[h=2]Re: ماں کی محبت[/h]

quote_icon.png
Originally Posted by alibaba007
***************************






quote_icon.png
Originally Posted by ALMAHDI
****************************







میں نے اس پر کافی تحقیق کی ہے ، یہاں آپ کی بات درست ہے ، حوالہ غلط ہے ، اس حوالے سے جو حدیث ہے اس پر اکثریت اس کو ضعیف سمجھتی ہے ، اور جس ویب سے اس کو اٹھایا تھا وہ بھی قابل اعتبار نہیں رہی ، بات ختم ، الله سب کو ہدایت دے
__________________________________________________

قرآن میں الله کا واضح فرمان ہے کہ الله کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لو اور آپس تفرقہ مت ڈالو ، یہ الله کا حکم ہے ، آپ فورا توبہ کریں ، اور آج تک جس فرقہ واریت کے جن کی پوجا کر رہے ہیں اس سے اپنے آپ کو نکالیں ، مجھے اور حدیث سے کوئی حوالہ دیں کہ فرقہ پرستی اسلام میں جائز ہے اور اعمال کا حساب کتاب صرف اور صرف اس بات پر ہوگا ؟؟؟؟؟ کوئی سچا مسلمان ایسا سوچ بھی نہیں سکتا ، دوسروں کا ایمان ٹٹولنے والے اپنی تجدید کریں ، میں اڈمن سے ہے گزارش کرتا ہوں کے ایسے ممبران کو مستقل بین کیا جائے جن کی فرقہ واریت کی حوس کس تھریڈ پر پوری نہیں ہوتی اور غیر متعلقہ تھریڈ پر بھی اپنی نفرت سے باز نہیں آتے ، یہ نام بدل بدل کر اس فورم پر آتے ہیں اور اپنی فرقہ ورانہ گفتگو جاری رکھتے ہیں ، ان لوگوں کو نہ الله کا خوف ہے نہ رسولpbuh کی تعلیمات کا ، اس لئے آپ لوگ دوسروں کے ایمان کے فیصلے اس فورم پر کرنے سے پرہیز کریں اور امید کرتا ہوں کہ حسن ظن سے کام لیں گے





 

stranger

Chief Minister (5k+ posts)

علماءو فقہائے اُمت کی غالب ترین اکثریت بشمول حنفی، مالکی، شافعی، حنبلی، ظاہری اور اہل الحدیث وغیرہ وغیرہ ایسے فقہی مسالک کو فرقہء ناجیہ میں شمار کرتی آئی ہے۔ یہ کئی فرقے نہیں دراصل ایک ہی فرقہ ہے اور ان سب کا ایک سے علمی اور شرعی مصادر پر اتفاق ہے۔ علما وفقہائے اُمت کے ہاں صدیوں تک یہ اعتبار قائم رہا ہے۔


kia aap apnay aqaid ki roshni main bata saktay hain ke phir wo 73 firqay konsay hain???? mere saada se sawal ka jawab zaroor dijiay ga....
 


مجھے تو حیرت ہوتی ہے ایسے مسلمانوں پر جو مسلمان کہلانے کی بجائے خود کو فرقہ پرست کہلانے پر ترجیع دیتے ہیں


کیا یہ لوگ الله تعالیٰ کے فرمان کی صریحا خلاف ورزی کے مرتکب نہیں ہوتے ہیں کیونکہ الله تعالیٰ فرماتے ہیں کہ


وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَاتَفَرَّقُوا


اللہ تعالیٰ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور فرقہ بندی میں نہ پڑو


فرقہ پرستوں انتہا پسندوں کی دو قسمیں عموما دیکھنے میں آتی ہیں


ایک وہ جو اسلام پھیلانے کی آڑ میں دہشتگردی کرتے ہیں یا دہشتگردوں کی حمایت کرتے ہیں اور دوسرے وہ جو لبرلزم کی آڑ میں چھپ کر فرقہ پرستی پھیلاتے ہیں


6xxlaw.jpg
j0wj09.jpg





 

ALMAHDI

Banned
آپ نے دوبارہ اپنی فرقہ وارانہ فطرت کے مطابق زہر پھیلانے کی کوشش کی ہے ور صرف فورم جانتا ہے کہ شر پسند اس فورم پر کون ہیں ، آپ کون ہیں اس دنیا میں فضیلت کے معیار گھٹانے اور بھڑھانے والے ؟؟؟ جن کا مقام الله نے بلند کیا وہ جانتا ہے ، آپ میرے سوال کا جواب دیں جو میں نے پوچھا ہے ، اس تھریڈ میں کوئی اختلاف ہے تو قران اور سنّت سے ثابت کریں کہ وہ غلط ہے ، فرقہ پرست زہر قتل اور مسلمانوں کے لئے فتنہ ، جو اس کے پیروکار اور مسلمانوں کو لڑاتے ہیں وہ اسلام کے دشمن ہو سکتے ہیں خیر خواہ نہیں
یہ میری پوسٹ ہے ، یہ حدیث موجود ، جو غلط ہے وہ میں نے لکھا ہے ، شرمندگی کیسی ، آپ میرے سوال کا جواب دیں ، ورنہ فرقہ واریت کے نام پر زہر پھیلانے سے پرہیز کریں اور میں دوبارہ اپیل کرتا ہوں کہ فورم پر ایسے فتنوں کو بین کیا جائے جو اب گستاخانہ حد تک جا رہے ہیں

________________________________________________________________________

Re: ماں کی محبت


quote_icon.png
Originally Posted by alibaba007
***************************






quote_icon.png
Originally Posted by ALMAHDI
****************************
میں نے اس پر کافی تحقیق کی ہے ، یہاں آپ کی بات درست ہے ، حوالہ غلط ہے ، اس حوالے سے جو حدیث ہے اس پر اکثریت اس کو ضعیف سمجھتی ہے ، اور جس ویب سے اس کو اٹھایا تھا وہ بھی قابل اعتبار نہیں رہی ، بات ختم ، الله سب کو ہدایت دے
__________________________________________________

قرآن میں الله کا واضح فرمان ہے کہ الله کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لو اور آپس تفرقہ مت ڈالو ، یہ الله کا حکم ہے ، آپ فورا توبہ کریں ، اور آج تک جس فرقہ واریت کے جن کی پوجا کر رہے ہیں اس سے اپنے آپ کو نکالیں ، مجھے اور حدیث سے کوئی حوالہ دیں کہ فرقہ پرستی اسلام میں جائز ہے اور اعمال کا حساب کتاب صرف اور صرف اس بات پر ہوگا ؟؟؟؟؟ کوئی سچا مسلمان ایسا سوچ بھی نہیں سکتا ، دوسروں کا ایمان ٹٹولنے والے اپنی تجدید کریں ، میں اڈمن سے ہے گزارش کرتا ہوں کے ایسے ممبران کو مستقل بین کیا جائے جن کی فرقہ واریت کی حوس کس تھریڈ پر پوری نہیں ہوتی اور غیر متعلقہ تھریڈ پر بھی اپنی نفرت سے باز نہیں آتے ، یہ نام بدل بدل کر اس فورم پر آتے ہیں اور اپنی فرقہ ورانہ گفتگو جاری رکھتے ہیں ، ان لوگوں کو نہ الله کا خوف ہے نہ رسولpbuh کی تعلیمات کا ، اس لئے آپ لوگ دوسروں کے ایمان کے فیصلے اس فورم پر کرنے سے پرہیز کریں اور امید کرتا ہوں کہ حسن ظن سے کام لیں گے
جناب آپ اگر کچی پکی اور غلط ریفرینسز کے ساتھ مبنی بر فضائل احادیث نقل کرتے ہیں تو ان کی نشاندہی کرنا اس لیے بھی ضروری ہوتا ہے کہ دنیا کو معلوم ہو کہ مختلف مسالکِ اسلام کے درمیان دیگر وجوہات کے ساتھ ساتھ بڑی وجہ یہ من گھڑت روایتیں اور واقعات بھی ہیں جنہیں پھیلا کر ایک گروہ دوسرے مکتب کی تنقیص کرتا چلا آیا ہے لِہذا جواباً اُن فضائل کے نقلی اور بے بنیاد ہونے کی نشاندہی لازم ہو جاتی ہے تاکہ پڑھنے سننے والوں کو تقابل بین الحق و باطل کرنے کا موقع ملے۔
اکثر کہا جاتا ہے کہ ہم اور آپ کون ہوتے ہیں ان کی منزلت طے کرنے والے یہ کام اللہ کا ہے۔ اگر یہ دلیل درست تسلیم کر لی جائے تو پھر کسی غیر متفق علیہ کردار کو متبرک و برگذیدہ ہستی قرار دے کر اسکے فضائل اور منقبت بیان کرنے سے اجتناب برتنا بھی لازم آئے گا۔ پس یہاں بھی معاملہ اللہ پر چھوڑ دیجئے کہ وہی فیصلہ کرے کہ کس کے کیا فضائل اور منزلت ہے اور ہم اپنی زبانیں بند رکھیں۔ لیکن جب آپ کسی کے فضائل بیان کریں گے تو دوسروں کو ان فضائل میں اگر کوئی کھوٹ اور ملاوٹ نظر آتی ہے اور وہ اپنے دعوے کے حق میں ٹھوس شواہد بھی پیش کرتا ہے تو اس نشاندہی کی جذبہ تشکر کے ساتھ حوصلہ افزائی ہونی چاہیئے۔ اس کا ایک فائدہ یہ بھی ہوگا کہ وہ مسلک جو کسی مبینہ محترم کو محترم ماننے سے انکار کرتا ہے اور اس انکار کی وجہ سے قابل گردن زدنی ٹہرایا جاتا ہے اُسکا نکتہ نظر بھی سامنے آئے گا۔ آپکو زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں اسی زیرِ بحث نقطے کو لے لیجئے جس میں آپ نے خود تسلیم کیا کہ آپ نے جو حدیث پیش کی تھی وہ علماء حدیث کے ہاں درست تسلیم نہیں کی جاتی۔ آپ نے بخاری کا جو حوالہ دیا تھا وہ بھی سرے سے غلط تھا تو میری اس نشاندہی پر آپکو اتنا جز بز ہونے کی کوئی ضرورت ہر گز نہیں تھی۔
آخر میں اتنا کہوں گا کہ یا تو تمام منزلتوں اور مراتب طے کرنے کے فیصلے اللہ پر چھوڑ دیجئے اور کسی کی بھی شان و شوکت بیان کرنے سے پرہیز کیجئے یا پھر خود کو آمادہ کیجئے کہ جب ہمارے لیے کسی کی شان و شوکت بیان کرنا از بس ضروری ہے تو اُس میں غلطی کا امکان موجود ہے، پھر اس غلطی کی دلیل و برہان کے ساتھ نشاندہی بھی ہوگی۔ اللہ ہمیں حق پر قائم رکھے اور بھٹکے ہوؤں کو حق شناسی کی توفیق عطا فرمائے۔
 

Afaq Chaudhry

Chief Minister (5k+ posts)
جناب آپ اگر کچی پکی اور غلط ریفرینسز کے ساتھ مبنی بر فضائل احادیث نقل کرتے ہیں تو ان کی نشاندہی کرنا اس لیے بھی ضروری ہوتا ہے کہ دنیا کو معلوم ہو کہ مختلف مسالکِ اسلام کے درمیان دیگر وجوہات کے ساتھ ساتھ بڑی وجہ یہ من گھڑت روایتیں اور واقعات بھی ہیں جنہیں پھیلا کر ایک گروہ دوسرے مکتب کی تنقیص کرتا چلا آیا ہے لِہذا جواباً اُن فضائل کے نقلی اور بے بنیاد ہونے کی نشاندہی لازم ہو جاتی ہے تاکہ پڑھنے سننے والوں کو تقابل بین الحق و باطل کرنے کا موقع ملے۔
اکثر کہا جاتا ہے کہ ہم اور آپ کون ہوتے ہیں ان کی منزلت طے کرنے والے یہ کام اللہ کا ہے۔ اگر یہ دلیل درست تسلیم کر لی جائے تو پھر کسی غیر متفق علیہ کردار کو متبرک و برگذیدہ ہستی قرار دے کر اسکے فضائل اور منقبت بیان کرنے سے اجتناب برتنا بھی لازم آئے گا۔ پس یہاں بھی معاملہ اللہ پر چھوڑ دیجئے کہ وہی فیصلہ کرے کہ کس کے کیا فضائل اور منزلت ہے اور ہم اپنی زبانیں بند رکھیں۔ لیکن جب آپ کسی کے فضائل بیان کریں گے تو دوسروں کو ان فضائل میں اگر کوئی کھوٹ اور ملاوٹ نظر آتی ہے اور وہ اپنے دعوے کے حق میں ٹھوس شواہد بھی پیش کرتا ہے تو اس نشاندہی کی جذبہ تشکر کے ساتھ حوصلہ افزائی ہونی چاہیئے۔ اس کا ایک فائدہ یہ بھی ہوگا کہ وہ مسلک جو کسی مبینہ محترم کو محترم ماننے سے انکار کرتا ہے اور اس انکار کی وجہ سے قابل گردن زدنی ٹہرایا جاتا ہے اُسکا نکتہ نظر بھی سامنے آئے گا۔ آپکو زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں اسی زیرِ بحث نقطے کو لے لیجئے جس میں آپ نے خود تسلیم کیا کہ آپ نے جو حدیث پیش کی تھی وہ علماء حدیث کے ہاں درست تسلیم نہیں کی جاتی۔ آپ نے بخاری کا جو حوالہ دیا تھا وہ بھی سرے سے غلط تھا تو میری اس نشاندہی پر آپکو اتنا جز بز ہونے کی کوئی ضرورت ہر گز نہیں تھی۔
آخر میں اتنا کہوں گا کہ یا تو تمام منزلتوں اور مراتب طے کرنے کے فیصلے اللہ پر چھوڑ دیجئے اور کسی کی بھی شان و شوکت بیان کرنے سے پرہیز کیجئے یا پھر خود کو آمادہ کیجئے کہ جب ہمارے لیے کسی کی شان و شوکت بیان کرنا از بس ضروری ہے تو اُس میں غلطی کا امکان موجود ہے، پھر اس غلطی کی دلیل و برہان کے ساتھ نشاندہی بھی ہوگی۔ اللہ ہمیں حق پر قائم رکھے اور بھٹکے ہوؤں کو حق شناسی کی توفیق عطا فرمائے۔

آپ پھر میری بات کا جواب دے بغیر حق اور باطل کا فیصلہ کرنے لگے ہیں حالانکہ الله اور رسول
pbuhکی تعلیمات موجود ہیں ، آپ میرے سوال کا جواب دیں اور قران اور سنّت رسولpbuh سے کوئی حوالہ دیں کہ اسلام میں فرقہ پرستی کا جواز ہے اور اعمال کا دارو مدار فرقہ وارانہ اختلاف پر ہوگا ؟؟؟؟؟ اس تھریڈ میں جتنے حوالے ہیں قرآن اور سنت pbuhسے ان کو غلط ثابت کریں پھر یا اعتراف کریں کہ مسلمان امّت حق کو چھوڑ کر گمراہی کا راستہ اختیار کر چکی ہے اور سب اختلاف اور فرقہ واریت کے نام پر پوری امّت کو گمراہ کر رہے ہیں ، ١٤٠٠ سال گزر گئے ، لکیر کو پیٹنے ہوئے ، الله جانتا ہے ہم نہیں جانتے ،اس کا منشاء ، اس لئے خوف خدا کریں ، ہم ان لوگوں کی خاک کے برابر بھی نہیں جن کی گستاخیاں لوگ روزانہ کرتے ہیں
 

Mughal1

Chief Minister (5k+ posts)
فرقہ واریت لوگوں میں فرق یعنی تفریق یا تقسیم سے پیدا ہوتی ہے

یہ تقسیم کس بنیاد پر کی جاتی ہے اور کس مقصد کے لئے پیدا کی جاتی ہے اس کا جاننا ضروری ہے

غلط بنیاد یا غلط مقصد کے لئے تفریق غلط ہوتی ہے اور درست بنیاد یا درست مقصد کے لئے تقسیم درست ہوتی ہے
 
Last edited:

Zoq_Elia

Senator (1k+ posts)
فرقہ واریت کیا ہے اور اس سے کیسے بچا جا سکتا ہے

وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا ۚ۔

اور تم سب مل کر حبل اللہ کے ساتھ چپکے رہو (مضبوطی سے پکڑے رکھو) اور تفرقہ میں مت پڑو۔


یقیناً قرآن میں ہدایت ہے۔ قرآن پاک کی اس مشہور آیت میں نہ صرف تفرقہ اختیار کرنے کی ممانعت کی گئی ہے بلکہ اس سے بچاؤ کی واحد ترکیب بھی بتائی گئی ہے کہ کس طرح تفرقہ سے بچا جاسکتا ہے۔ اور وہ واحد راستہ ہے مل کر حبل اللہ کے ساتھ چپک جانا (یعنی مضبوطی سے تھام لینا)۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا اللہ کے پاک رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس امت کو حبل اللہ کے بارے میں بتایا ہے کہ وہ کیا ہے؟ اور حبل اللہ کے ساتھ متمسک ہونے کا طریقہ کیا ہے؟۔ یقیناً اللہ کے پاک رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے امت کی اس بارے میں ھدایت کی ہے اور کسی بات کا ابہام نہیں رکھا۔ اب مسلمانوں پر فرض ہے کہ وہ سوچیں سمجھیں اور غور کریں۔ اور تفرقہ سے بچاؤ کی واحد قرآنی ترکیب پر عمل کریں اور امت مسلمہ کے اتحاد اور اتفاق کا باعث بنیں۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ اللہ کے پاک نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس بارے میں امت کی ھدایت کیلیے کیا فرمایا ہے۔

(1)

حدثني : ‏‏زهير بن حرب ‏وشجاع بن مخلد ‏‏جميعاً ‏، عن ‏إبن علية ‏، ‏قال ‏زهير :‏ ، حدثنا : ‏‏إسماعيل بن إبراهيم ‏، حدثني : ‏‏أبو حيان ‏، حدثني : ‏ ‏يزيد بن حيان ‏‏قال : ‏‏إنطلقت أنا‏ ‏وحصين بن سبرة ‏، وعمر بن مسلم ‏ ‏إلى ‏ ‏زيد بن أرقم ‏فلما جلسنا إليه قال له ‏‏حصين :‏ ‏لقد لقيت يا ‏زيد ‏خيراً كثيراً ‏رأيت رسول الله ‏صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ‏وسمعت حديثه وغزوت معه وصليت خلفه ، لقد لقيت يا ‏‏زيد ‏خيراً كثيراً ، حدثنا : يا زيد ‏ ‏ما سمعت من رسول الله ‏
‏صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ‏، ‏قال : يا إبن أخي والله لقد كبرت سني وقدم عهدي ونسيت بعض الذي كنت ‏ ‏أعي ‏ ‏من رسول الله ‏صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ‏فما حدثتكم فأقبلوا وما لا فلا تكلفونيه ، ثم قال : قام رسول الله ‏ ‏صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ‏يوماًً فينا خطيباً بماء يدعى خماً بين ‏ ‏مكة ‏ ‏والمدينة ‏، ‏فحمد الله وأثنى عليه ووعظ وذكر ، ثم قال : ‏‏أما بعد ألا أيها الناس فإنما أنا بشر يوشك أن يأتي رسول ربي فأجيب ، وأنا تارك فيكم ‏ ‏ثقلين ‏ ‏أولهما كتاب الله فيه الهدى والنور فخذوا بكتاب الله وإستمسكوا به ، فحث على كتاب الله ورغب فيه ، ثم قال : وأهل بيتي ، أذكركم الله في أهل بيتي ، أذكركم الله في أهل بيتي ، أذكركم الله في أهل بيتي ، فقال له ‏ ‏حصين ‏: ‏ومن أهل بيته يا زيد ‏ ‏اليس نساؤه من أهل بيته ، قال : نساؤه من أهل بيته ، ولكن أهل بيته من حرم الصدقة بعده ، قال : ومن هم ، قال : هم آل ‏علي ‏وآل ‏عقيل ‏‏وآل ‏جعفر ‏وآل ‏عباس ‏قال : كل هؤلاء حرم الصدقة ، قال : نعم ‏۔
صیح مسلم، جلد 6، کتاب فضائل صحابہؓ باب فضائل علی کرم اللہ وجہہ
Source

حصین بن سبرۃ کُچھ احباب کے ساتھ حضرت زید بن ارقمؓ کے پاس گئے۔ پس ہم سب اکٹھے اُن کے پاس بیٹھ گئے۔ حصین نے زید بن ارقمؓ سے کہا، ’’ائے زید آپ نے تو بہت زیادہ بھلائی اور نیکی کمائی۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو دیکھا اور اُن سے حدیثیں سُنی اور اُن کے ساتھ غزوات میں شریک ہوئے اور اُن کے پیچھے نماز پڑھی۔ ائے زید آپ نے تو بہت زیادہ نیکی کمائی۔ ائے زید ہمیں خبر دیجیے اُس میں سے جو کُچھ آپ نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و االہ وسلم سے سُنا۔‘‘۔ تو ذید بن ارقمؓ بولے، ’’ائے میرے بھتیجے اللہ کی قسم اب میں بوڑھا ہو گیا ہوں اور بہت عرصہ گزر گیا۔ اور میں نے جو کُچھ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے سُن رکھا تھا اُس میں سے بعض باتیں بھول گیا ہوں۔ پس میں تم سے جو بیان کروں اُسے قبول کرلو اور جو بیان نہ کروں اُس کیلیے مجھے تکلیف مت دینا‘‘۔
پھر فرمایا ایک دن اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مکہ اور مدینہ کے درمیان ایک مقام(وادی) خُم پر پڑاؤ ڈالا اور ہم سے خطاب کیا۔ پس آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اللہ کی حمد بیان کی اور اللہ کے احسانات یاد دلائے اور وعظ و نصیحت کی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا، ’’ ائے لوگو کہ میں بھی بشر ہوں اور قریب ہے کہ مجھے اللہ کا بلاوہ آ جائے اور میں اُسے قبول کر لوں۔ اور میں تمھارے درمیان دو قیمتی ترین چیزیں (ثقلین) چھوڑے جا رہا ہوں۔ اُن میں سے پہلی اللہ کی کتاب ہے۔ پس اُس میں ھدایت اور نور ہے۔ پس اللہ کی کتاب کو تھام لو اور اُس سے متمسک رہو۔‘‘ پس آپ نے کتاب اللہ کی طرف شوق اور رغبت دلائی پھر فرمایا، ’’ اور (دوسری) میرے اھلبیت ہیں۔ میں تمھیں اپنے اھلبیت کے بارے میں اللہ کی یاد دلاتا ہوں، میں تمھیں اپنے اھلبیت کے بارے میں اللہ کی یاد دلاتا ہوں، میں تمھیں اپنے اھلبیت کے بارے میں اللہ کی یاد دلاتا ہوں‘‘۔
پس حصین نے اُن سے پوچھا، ’’ ائے زید اُن (رسول اللہ) کے اھلبیت کون ہیں؟ کیا اُن کی عورتیں اُن کے اھلبیت سے ہیں؟‘‘۔ زیدؓ بولے،’’اُن کی عورتیں اُنکے اھلبیت سے ہیں لیکن اُن کے اھلبیت وہ ہیں جن پر صدقہ حرام ہے۔ اور وہ آل علی، آل عقیل، آل جعفر اور آل عباس ہیں۔ حصین نے بوچھا، ’’ کیا ان سب پر صدقہ حرام ہے؟‘‘ زید نے جواب دیا، ’’ ہاں‘‘۔



أَخْبَرَنَا أَبُو مُحَمَّدٍ هِبَةُ اللَّهِ بْنُ سَهْلِ بْنِ عُمَرَ ، وأَبُو الْقَاسِمِ زَاهِرُ بْنُ طَاهِرٍ ، قَالا : أنا أَبُو عُثْمَانَ الْبَحِيرِيُّ ، أَنْبَأَ أَبُو عَمْرِو بْنُ حَمْدَانَ ، أنا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ يُونُسَ السِّمْنَانِيُّ ، نا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بَزِيعٍ ، نا حَسَّانُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، نا سَعِيدُ بْنُ مَسْرُوقٍ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ حِبَّانَ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ ، قَالَ : دَخَلْنَا عَلَيْهِ ، فَقُلْنَا لَهُ : لَقَدْ رَأَيْتَ خَيْرًا ، صَاحَبْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَصَلَّيْتَ خَلْفَهُ ، فَقَالَ : لَقَدْ رَأَيْتُهُ وَقَدْ خَشِيتُ أَنْ يَكُونَ إِنَّمَا أُخِّرْتُ لِشَرٍّ مَا حَدَّثْتُكُمْ بِهِ فَاقْبَلُوهُ ، وَمَا سَكَتُّ عَنْهُ فَدَعُوهُ ، قَالَ : قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِوَادٍ بَيْنَ مَكَّةَ وَالْمَدِينَةَ يُدْعَى خَمٌّ ، فَخَطَبَ ، فَقَالَ : " إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ ، أُوشِكُ أَنْ أُدْعَى فَأُجِيبَ ، أَلا وَإِنِّي تَارِكٌ فِيكُمُ الثَّقَلَيْنِ أَحَدُهُمَا كِتَابُ اللَّهِ ، حَبْلُ اللَّهِ مَنِ اتَّبَعَهُ كَانَ عَلَى الْهُدَى وَمَنْ تَرَكَهُ كَانَ عَلَى الضَّلالَةِ ، ثُمَّ أَهْلُ بَيْتِي ، ثُمَّ أَهْلُ بَيْتِي ، أُذَكِّرُكُمُ اللَّهَ فِي أَهْلِ بَيْتِي " ، ثَلاثَ مَرَّاتٍ . قَالَ : فَقُلْنَا : مِنْ أَهْلِ بَيْتِهِ ؟ نِسَاؤُهُ ؟ قَالَ : لا ، لأَنَّ الْمَرْأَةَ تَكُونُ مَعَ الرَّجُلِ الْبُرْهَةَ مِنَ الدَّهْرِ ، ثُمَّ يُطَلِّقُهَا فَتَرْجِعُ إِلَى أَبِيهَا ، وَقَوْمِهَا أَهْلُ بَيْتِهِ أَصْلُهُ وَعَصَبَتُهُ الَّذِينَ حُرِمُوا الصَّدَقَةَ بَعْدَهُ ، آلُ عَلِيٍّ ، والْعَبَّاسُ ، وآلُ جَعْفَرٍ ، وآلُ عَقِيلٍ
تاريخ دمشق لابن عساكر حَرْفُ الْخَاءِ ذِكْرُ مِنِ اسْمُهُ عَقِيلٌ عَقِيلُ بْنُ أَبِي طَالِبِ بْنِ عَبْدِ مَنَافٍ أَبُو ...۔ رقم الحديث: 42386
Source

یزید بن حبان سے روایت ہے کہ کہ اُنھوں نے زید بن ارقمؓ سے کہا آپ نے بڑی بھلائی کو دیکھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مصاحبت اختیار کی اوراُن کے پیچھے نماز پڑھی۔ پس زید بن ارقمؓ بولے کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ و االہ وسلم کو دیکھا ہے اور میں اس بات سے ڈرتا ہوں کہ بڑا عرصہ گزر گیا پس میں جو تم سے بیان کروں اُسے قبول کر لو اور جس پر خاموشی اختیار کروں اُس پر مجھ سے مطالبہ نہ کرو۔ پھر فرمایا، ’’اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مکہ اور مدینہ کی ایک درمیانی جگہ ٹھہرے جسے خُم کہا جاتا تھا۔ پس آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے وہاں خطاب کیا اور فرمایا، ’’سوائے اسکے نہیں کہ میں بھی بشر ہوں اور قریب ہے کہ اللہ کی طرف سے میرا بلاوا آجائے اور میں قبول کرلوں۔ اور بے شک میں تمھارے درمیان دو بیش بہا چیزیں (ثقلین) چھوڑے جاتا ہوں۔ اُن دونوں میں سے ایک اللہ کی کتاب ہے جو کہ حبل اللہ ہے۔ جو اُس کی پیروی کرے گا وہ ھدایت پر ہو گا اور جو اُسے چھوڑ سے گا وہ گمراھی پر ہو گا۔۔ پھر میرے اھل بیت ہیں، پھر میرے اھل بیت ہیں۔ میں تمھیں اپنے اھل بیت کے بارے میں اللہ کی یاد دلاتا ہوں۔‘‘ (یزید بن حبان کہتے ہیں کہ) یہ تین بار فرمایا۔ پھر ہم پوچھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اھل بیت کون ہیں؟ کیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی عورتیں؟ زید بن ارقمؓ نے جواب دیا، ’’ نہیں، ایک عورت کُچھ عرصہ تک ایک مرد کے ساتھ ہوتی ہے پھر وہ اُسے طلاق دے دیتا ہے تو وہ اپنے باپ کی طرف لوٹ جاتی ہے۔ آپ کی قوم اور آپ کی اصل آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اھلبیت ہیں جن پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد بھی صدقہ حرام ہے۔ اور وہ آل علی، آل عباس، آل جعفر اور آل عقیل ہیں‘‘۔
(2)

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْمُنْذِرِ الْكُوفِيُّ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ عَطِيَّةَ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ , وَالْأَعْمَشُ ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا ، قَالَا : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " إِنِّي تَارِكٌ فِيكُمْ مَا إِنْ تَمَسَّكْتُمْ بِهِ لَنْ تَضِلُّوا بَعْدِي ، أَحَدُهُمَا أَعْظَمُ مِنَ الْآخَرِ ، كِتَابُ اللَّهِ حَبْلٌ مَمْدُودٌ مِنَ السَّمَاءِ إِلَى الْأَرْضِ ، وَعِتْرَتِي أَهْلُ بَيْتِي , وَلَنْ يَتَفَرَّقَا حَتَّى يَرِدَا عَلَيَّ الْحَوْضَ ، فَانْظُرُوا كَيْفَ تَخْلُفُونِي فِيهِمَا " . قَالَ : هَذَا حَسَنٌ غَرِيبٌ
جامع الترمذي كِتَاب الدَّعَوَاتِ أبوابُ الْمَنَاقِبِ بَاب مَنَاقِبِ أَهْلِ بَيْتِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ علیه و آله وسلم رقم الحديث: 3749
Source



حضرت ابوسعید خدریؓ اور حضرت زید بن ارقمؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا، ’’بے شک میں تمھارے درمیان وہ چھوڑے جاتا ہوں اگر تم ان سے متمسک رہو تو میرے بعد کبھی گمراہ نہیں ہو گے۔ ان میں سے ایک آخری سے عظیم تر ہے۔ (بامحاورہ ترجمہ ہے کہ یہ دونوں ایک دوسرے سے بڑھ کر ہیں)۔ اللہ کی کتاب جو کہ آسمان سے زمین تک پھیلی ہوئی رسی (حبل) ہے۔ اور میری عترت میرے اھل بیت۔ اور یہ دونوں ایک دوسرے سے کبھی جدا نہیں ہوں گے حتٰی کہ اسی طرح (اکٹھے) میرے پاس حوض کوثر پر وارد ہوں گے۔ پس میں دیکھوں گا کہ تم میرے بعد ان دونوں سے کیسا سلوک کرتے ہو‘‘۔ ترمذی کہتے ہیں کہ یہ حدیث حسن غریب ہے۔


حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْكُوفِيُّ ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ الْحَسَنِ هُوَ الْأَنْمَاطِيُّ ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ : رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَجَّتِهِ يَوْمَ عَرَفَةَ وَهُوَ عَلَى نَاقَتِهِ الْقَصْوَاءِ يَخْطُبُ فَسَمِعْتُهُ يَقُولُ : " يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي قَدْ تَرَكْتُ فِيكُمْ مَا إِنْ أَخَذْتُمْ بِهِ لَنْ تَضِلُّوا ، كِتَابَ اللَّهِ وَعِتْرَتِي أَهْلَ بَيْتِي " . قَالَ : وَفِي الْبَابِ عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، وَأَبِي سَعِيدٍ ، وَزَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ ، وَحُذَيْفَةَ بْنِ أَسِيدٍ ، قَالَ : وَهَذَا حَسَنٌ غَرِيبٌ هَذَا الْوَجْهِ ، قَالَ : وَزَيْدُ بْنُ الْحَسَنِ قَدْ رَوَى عَنْهُ سَعِيدُ بْنُ سُلَيْمَانَ وَغَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ
جامع الترمذي كِتَاب الدَّعَوَاتِ أبوابُ الْمَنَاقِبِ باب مناقب اھل بیت رقم الحديث: 3747
Source

حضرت جابر بن عبداللہ انصاریؓ سے روایت ہے۔ کہ انھوں نے حجۃ الوداع میں عرفہ والے دن اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اپنی اُونٹنی پر بیٹھے خطبہ دیتے دیکھا۔ پس میں نے سُنا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرما رہے تھے، ’’اے لوگو! بے شک میں جو تمھارے درمیان چھوڑے جاتا ہوں اسے اگر تم مضبوطی سے پکڑ لو تو میرے بعد کبھی گمراہ نہیں ہوگے۔ وہ اللہ کی کتاب اور میری عترت میرے اھل بیت ہیں‘‘۔ ترمذی کہتے ہیں کہ اس باب میں حضرت ابوذرؓ، حضرت زید بن ارقمؓ اور حذیفہ بن اسید انصاریؓ کی بھی روایات حدیث موجود ہیں۔

(3)

أنَّ النبيَّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم حضَر الشجرةَ بخمٍّ ثم خرَج آخذًا بيدِ عليٍّ فقال: ألستُم تَشهَدونَ أنَّ اللهَ ربُّكم ؟ قالوا: بَلى قال: ألستُم تَشهَدونَ أن اللهَ ورسولَه أولى بكم مِن أنفسِكم وأنَّ اللهَ ورسولَه مولاكم ؟ قالوا: بَلى قال: فمَن كان اللهُ ورسولُه مَولاه فإنَّ هذا مَولاه وقد تركتُ فيكم ما إن أخَذتُم به لن تَضِلُّوا كتابُ اللهِ سببُه بيدِه وسببُه بأيديكم وأهلُ بيتي
الراوي : علي بن أبي طالبؑ | المحدث : البوصيري | المصدر : إتحاف الخيرة المهرة
الصفحة أو الرقم: 7/210 | خلاصة حكم المحدث : سنده صحيح

Source

الراوي : علي بن أبي طالبؑ | المحدث : ابن حجر العسقلاني | المصدر : المطالب العالية
الصفحة أو الرقم: 4/252 | خلاصة حكم المحدث : إسناده صحيح

Source


حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی روایت ہے کہ بے شک نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے وادی خُم میں ایک درخت کے نیچے قیام کیا۔ پھر وہ حضرت علی کا ہاتھ پکڑ کر باہر تشریف لائے پس آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے (صحابہؓ کو) فرمایا، ’’ کیا تم گواھی دیتے ہو کہ بے شک اللہ تمھارا رب ہے؟‘‘ سب نے جواب دیا، ’’ہاں یقیناً‘‘۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا، ’’ کیا تم اس بات کی گواھی دیتے ہو کہ بے شک اللہ اور اُس کا رسولؐ تمھاری جانوں پر تم سے بھی بڑھ کر حق رکھتے ہیں اور بے شک اللہ اور اُس کا رسولؐ تمھارے مولا ہیں؟‘‘۔ تمام صحابہؓ نے عرض کی، ’’ہاں ہم گواھی دیتے ہیں‘‘۔ پس آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا، ’’ پس جس کے اللہ اور اُس کا رسولؐ مولا ہیں پس یہ (علی) بھی اُس کا مولا ہے۔ اور میں تمھارے درمیان وہ چھوڑے جاتا ہوں اگر تم اُسے مضبوطی سے تھام لو تو میرے بعد کبھی گمراہ نہیں ہوگے۔ اللہ کی کتاب جس کا ایک سرا اللہ کے ہاتھ میں ہے اور ایک سرا تمھارے ہاتھ میں اور میرے اھلبیت‘‘۔



أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، قَالَ : حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ حَمَّادٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ ، عَنْ سُلَيْمَانَ ، قَالَ : حَدَّثَنَا حَبِيبُ بْنُ أَبِي ثَابِتٍ ، عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ ، قَالَ : " لَمَّا رَجَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ حَجَّةِ الْوَدَاعِ ، وَنَزَلَ غَدِيرَ خُمٍّ أَمَرَ بَدَوْحَاتٍ فَقُمِمْنَ ، ثُمَّ قَالَ : كَأَنِّي قَدْ دُعِيتُ ، فَأَجَبْتُ ، إِنِّي قَدْ تَرَكْتُ فِيكُمُ الثَّقَلَيْنِ ، أَحَدُهُمَا أَكْبَرُ مِنَ الآخِرِ : كِتَابُ اللَّهِ ، وَعِتْرَتِي أَهْلُ بَيْتِي ، فَانْظُرُوا كَيْفَ تَخْلُفُونِي فِيهِمَا ، فَإِنَّهُمَا لَنْ يَتَفَرَّقَا حَتَّى يَرِدَا عَلَيَّ الْحَوْضَ ، ثُمَّ قَالَ : إِنَّ اللَّهَ مَوْلايَ ، وَأَنَا وَلِيُّ كُلِّ مُؤْمِنٍ ، ثُمَّ أَخَذَ بِيَدِ عَلِيٍّ ، فَقَالَ : مَنْ كُنْتُ وَلِيَّهُ ، فَهَذَا وَلِيُّهُ ، اللَّهُمَّ وَالِ مَنْ وَالاهُ ، وَعَادِ مَنْ عَادَاهُ ، فَقُلْتُ لِزَيْدٍ : سَمِعْتَهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؟ فَقَالَ : مَا كَانَ فِي الدَّوْحَاتِ أَحَدٌ إِلا رَآهُ بِعَيْنَيْهِ ، وَسَمِعَهُ بِأُذُنَيْهِ" ۔
السنن الكبرى للنسائي كِتَابُ : الْمَنَاقِبِ مَنَاقِبُ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُعلیه و آله وسلم فَضَائِلُ عَلِيٍّ کرم اللَّهُ وجههُ
رقم الحديث: 7832، 8145
Source
Source



حضرت زید بن ارقمؓ سے روایت ہے کہ وہ بیان کرتے ہیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و االہ وسلم نے حجۃ الوداع سے واپس ہوئے اور غدیرِ خُم میں پہنچے اور وہاں رکنے کا حکم دیا۔ پس ہم سب وہاں رک گئے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا، ’’میرا بلاوا آ گیا ہے اور میں نے قبول کر لیا ہے۔ بے شک میں تمھارے درمیان دو بھاری چیزیں (ثقلین) چھوڑے جاتا ہوں۔ ان میں سے ایک دوسرے سے بڑی ہے۔ ( با محاورہ ترجمہ: ان میں سے ہر ایک دوسرے سے بڑی ہے) اللہ کی کتاب اور میری عترت میرے اھلبیت۔ پس میں دیکھوں گا کہ تم میرے بعد ان دونوں سے کیا سلوک کرتے ہو۔ پس بے شک یہ دونوں کبھی ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گے۔ حتٰی کہ اسی طرح اکٹھے (میرے پاس) حوض کوثر پر وارد ہوں گے۔ پھر فرمایا، ’’ بے شک اللہ میرا مولا ہے اور میں تمام مومنین کا ولی ہوں۔‘‘ پھر حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا ہاتھ پکڑا اور بلند کیا۔ پس فرمایا، ’’ جس کا میں ولی ہوں پس اُسکا یہ (علی) ولی ہے۔ ائے اللہ محبت رکھ اُس سے جو علی سے محبت رکھے اور دُشمن رکھ اُسے جو علی سے دُشمنی رکھے‘‘۔ پس ابوالطفیلؓ کہتے ہیں کہ میں نے زیدؓ سے پوچھا، ’’ کیا یہ سب آپ نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے خود سنا‘‘ تو زیدؓ نے جواب دیا، ’’وہاں جو بھی موجود تھا اُس نے یہ سب اپنی آنکھوں سے دیکھا اور یہ سب اپنے کانوں سے سُنا‘‘۔


(4)

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ ، ثنا عَمْرُو بْنُ عَوْنٍ الْوَاسِطِيُّ ، ثنا خَالِدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ ، عَنْ أَبِي الضُّحَى ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " إِنِّي تَارِكٌ فِيكُمُ الثَّقَلَيْنِ كِتَابَ اللَّهِ وَعِتْرَتِي أَهْلَ بَيْتِي ، وَإِنَّهُمَا لَنْ يَتَفَرَّقَا حَتَّى يَرِدَا عَلَيَّ الْحَوْضَ "۔
المعجم الكبير للطبراني بَابُ الزَّايِ مَنِ اسْمُهُ زَيْدٌ زَيْدُ بْنُ أَرْقَمَ الأَنْصَارِيُّ يُكْنَى أَبَا ...۔ رقم الحديث: 4842
source



زید بن ارقمؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا، ’’بے شک میں تمھارے درمیان دو گراں بہا چیزیں (ثقلین)، اللہ کی کتاب اور میری عترت میرے اھلبیت، چھوڑے جاتا ہوں۔ اور بے شک یہ دونوں کبھی ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گے حتٰی کہ اسی طرح (اکٹھے) حوض کوثر پر (میرے پاس) وارد ہوں گے‘‘۔



حَدَّثَنَا يَحْيَى ، قَالَ : حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ ، عَنْ أَبِي الضُّحَى ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ ، قَالَ : قَالَ : النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " إِنِّي تَارِكٌ فِيكُمْ مَا إِنْ تَمَسَّكْتُمْ بِهِ لَنْ تَضِلُّوا : كِتَابُ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ ، وَعِتْرَتِي أَهْلُ بَيْتِي ، وَأَنَّهُمَا لَنْ يَتَفَرَّقَا حَتَّى يَرِدَا عَلَى الْحَوْضِ . ۔
المعرفة والتاريخ ليعقوب بن سفيان بَابُ سَعْدٍ أَخْبَارُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ ، وَأَخْبَارُ ...۔ رقم الحديث: 599
Source

حضرت زید بن ارقمؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا، ’’بے شک میں تمھارے درمیان جو چھوڑے جا رہا ہوں اگر تم اس سے تمسک رکھو تو کبھی گمراہ نہیں ہو گے۔ اللہ عزوجل کی کتاب اور میری عترت میرے اھلبیت۔ اور یہ دونوں کبھی ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گے حتٰی کہ اس طرح (اکٹھے) حوض کوثر پر (میرے پاس) وارد ہوں گے‘‘۔


(5)

مَا قَدْ حَدَّثَنَا فَهْدُ بْنُ سُلَيْمَانَ ، قَالَ : حَدَّثَنَا أَبُو غَسَّانَ مَالِكُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ النَّهْدِيُّ ، قَالَ : ثَنَا إِسْرَائِيلُ بْنُ يُونُسَ , عَنْ عُثْمَانَ بْنِ الْمُغِيرَةِ , عَنْ عَلِيِّ بْنِ رَبِيعَةَ الأَسَدِيِّ ، قَالَ : لَقِيتُ زَيْدَ بْن الأَرْقَمِ وَهُوَ دَاخِلٌ عَلَى الْمُخْتَارِ أَوْ خَارِجٌ , فَقُلْتُ : مَا حَدِيثٌ بَلَغَنِي عَنْكَ ؟ سَمِعْتَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، يَقُولُ :" إِنِّي تَارِكٌ فِيكُمُ الثَّقَلَيْنِ : كِتَابَ اللَّهِ وَعِتْرَتِي ؟ " قَالَ : نَعَمْ . . ۔
مشكل الآثار للطحاوي :رقم الحديث 2962
مسند أحمد بن حنبل مُسْنَدُ الْعَشَرَةِ الْمُبَشَّرِينَ بِالْجَنَّةِ ... تتمة مسند الكوفيين حدِيثُ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى ...۔ رقم الحديث: 18885
Source
Source


علی بن ربیعۃ الاسدیؒ کہتے ہیں کہ میں زید بن ارقمؓ سے ملا۔ وہ آ رہے تھے یا شاید جا رہے تھے۔ پس میں نے اُن سے پوچھا کہ ایک حدیث آپ کی نسبت سے مجھ تک پہنچی ہے کہ آپ نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو فرماتے سُنا، ’’ بے شک میں تمھارے درمیان دو قیمتی ترین چیزیں (ثقلین) چھوڑے جاتا ہوں۔ اللہ کی کتاب اور میری عترت (میرے اھلبیت)‘‘۔ ذیدؓ نے کہا، ’’ہاں میں نے سُنا ہے‘‘۔


(6)

عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ ، قَالَ : لَمَّا ثَقُلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَرَضِهِ وَالْبَيْتُ غَاصٌّ بِمَنْ فِيهِ قَالَ : " ادْعُوا لِيَ الْحَسَنَ وَالْحُسَيْنَ " فَدَعَوْتُهُمَا فَجَعَلَ يُلْثِمُهُمَا حَتَّى أُغْمِيَ عَلَيْهِ ، قَالَ : فَجَعَلَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَرْفَعُهُمَا عَنْ وَجْهِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : فَفَتَحَ عَيْنَيْهِ ، فَقَالَ : " دَعْهُمَا يَتَمَتَّعَانِ مِنِّي ، وَأَتَمَتَّعُ مِنْهُمَا فَإِنَّهُ سَيُصِيبَهُمَا بَعْدِي أَثَرَةٌ " ، ثُمَّ قَالَ : " يَا أَيُّهَا النَّاسُ ، إِنِّي خَلَّفْتُ فِيكُمْ كِتَابَ اللَّهِ ، وَسُنَّتِي وَعِتْرَتِي أَهْلَ بَيْتِي ، فَالْمُضَيِّعُ لِكِتَابِ اللَّهِ كَالْمُضَيِّعِ لِسُنَّتِي ، وَالْمُضَيِّعُ لِسُنَّتِي كَالْمُضَيِّعِ لِعِتْرَتِي ، أَمَا إِنَّ ذَلِكَ لَنْ يَفْتَرِقَا حَتَّى أَلْقَاهُ عَلَى الْحَوْضِ " . ۔
مسند زيد كِتَابُ الْفَرَائِضِ بَابٌ رقم الحديث: 644
Source

حضرت زید بن علیؑ اپنے والد علی بن حسینؑ سے اور وہ اپنے والد حسین بن علیؑ سے اور وہ حضرت علی علیھم السلام سے روایت کرتے ہیں کہ جب نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر اپنے مرض کی شدت تھی اور آپ کا گھر وہاں موجود حاضرین سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ پس آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا، ’’حسن اور حسین کو میرے پاس لاؤ‘‘۔ پس اُن دونوں کو آپؐ کے پاس لایا گیا۔ پس آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے دونوں کو خوب بوسے دیے۔ حتٰی کہ آپ کو غش آ گیا۔ پس حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے دونوں شہزادوں کو آپؐ کے چہرے سے دور کیا اور اُوپر اُٹھا لیا۔ پس آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی آنکھیں کھولیں اور فرمایا، ’’ان دونوں کو مجھ سے فیض یاب ہو لینے دو اور مجھے ان دونوں سے جی بھر کر مل لینے دو۔ پس بے شک یہ دونوں میرے بعد بہت سختی اور مصیبتیں دیکھیں گے‘‘۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا، ’’ اے لوگو: بے شک میں تمھارے درمیان چھوڑے جاتا ہوں اللہ کی کتاب اور میری سُنت اور میری عترت میرے اھلبیت۔ پس اُس نے کتاب اللہ کو کھو دیا جس نے میری سُنت کو چھوڑ دیا اور اُس نے میری سُنت کو کھو دیا جس نے میری عترت کو چھوڑ دیا۔ بے شک یہ ایک دوسرے سے کبھی جدا نہیں ہوں گے حتٰی کہ حوض کوثر پر مجھ سے اسی طرح اکٹھے ملیں گے ‘‘۔


(7)

حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ الزُّبَيْرِيُّ ، حَدَّثَنَا شَرِيكٌ ، عَنِ الرُّكَيْنِ ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ حَسَّانَ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " إِنِّي تَارِكٌ فِيكُمْ خَلِيفَتَيْنِ كِتَابُ اللَّهِ وَأَهْلُ بَيْتِي ، وَإِنَّهُمَا لَنْ يَتَفَرَّقَا حَتَّى يَرِدَا عَلَيَّ الْحَوْضَ جَمِيعًا "۔
مسند أحمد بن حنبل مُسْنَدُ الْعَشَرَةِ الْمُبَشَّرِينَ بِالْجَنَّةِ ... مُسْنَدُ الْأَنْصَارِ رقم الحديث: 21114
Source

حضرت زید بن ثابتؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و االہ وسلم نے ارشاد فرمایا، ُُ ’’بے شک میں تمھارے درمیان دو خلیفہ (خلیفتین) چھوڑے جاتا ہوں۔ اللہ کی کتاب اور میری عترت میرے اھلبیت۔ اور یہ دونوں کبھی ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گے حتٰی کہ اسی طرح اکٹھے (میرے پاس) حوض کوثر پر وارد ہوں گے‘‘۔


حَدَّثَنَا الْأَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ ، حَدَّثَنَا شَرِيكٌ ، عَنِ الرُّكَيْنِ ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ حَسَّانَ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " إِنِّي تَارِكٌ فِيكُمْ خَلِيفَتَيْنِ كِتَابُ اللَّهِ ، حَبْلٌ مَمْدُودٌ مَا بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ أَوْ مَا بَيْنَ السَّمَاءِ إِلَى الْأَرْضِ ، وَعِتْرَتِي أَهْلُ بَيْتِي ، وَإِنَّهُمَا لَنْ يَتَفَرَّقَا حَتَّى يَرِدَا عَلَيَّ الْحَوْضَ "۔
مسند أحمد بن حنبل مُسْنَدُ الْعَشَرَةِ الْمُبَشَّرِينَ بِالْجَنَّةِ ... مُسْنَدُ الْأَنْصَارِ رقم الحديث: 21043
فضائل الصحابة لأحمد بن حنبل أَخْبَارُ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طالب ۔ رقم الحديث: 888
Source
Source


حضرت زید بن ثابتؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و االہ وسلم نے ارشاد فرمایا، ’’بے شک میں تمھارے درمیان دو خلیفہ (خلیفتین) چھوڑے جاتا ہوں۔ اللہ کی کتاب جو کہ آسمان اور زمین کے درمیان لٹکی ہوئی رسی (حبل) ہےاور میری عترت میرے اھلبیت۔ اور یہ دونوں کبھی ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گے حتٰی کہ اسی طرح اکٹھے (میرے پاس) حوض کوثر پر وارد ہوں گے‘‘۔

cov.png

Untitled.png

حدیث ثقلین پر شیخ شعیب الارناوط کی تحقیق پر ایک نظر


شیخ شعیب الارناوط کا شمار اہلسنت کے مشہور علمائے رجال میں ہوتا ہے۔ اور کئی کتب میں مذکورہ اسناد پر انہوں نے تحقیق کی ہے۔

انہی میں مسند احمد بھی شامل ہے

مسند احمد کے جلد ۳۵، صفحہ ۴۵٦؛ پر ایک روایت آتی ہے کہ

زید بن ثابتؓ نے نبی پاک سے نقل کیا کہ وہ فرماتے ہیں کہ میں تم میں ۲ خلیفہ چھوڑے جاتا ہوں: اللہ کی کتاب جو کہ ایک رسی ہے زمین و آسمان کو ملائے ہوئے، اور میرے عترت اہلبیت۔ یہ ہر گز جدا نہیں ہوں گے جب تک حوض پر نہ آ جائیں

عربی متن یوں ہے

۔21578 - حَدَّثَنَا الْأَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ، حَدَّثَنَا شَرِيكٌ، عَنِ الرُّكَيْنِ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ حَسَّانَ، عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: “إِنِّي تَارِكٌ فِيكُمْ خَلِيفَتَيْنِ: كِتَابُ اللهِ، حَبْلٌ مَمْدُودٌ مَا بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ، أَوْ مَا بَيْنَ السَّمَاءِ إِلَى الْأَرْضِ، وَعِتْرَتِي أَهْلُ بَيْتِي، وَإِنَّهُمَا لَنْ يَتَفَرَّقَا حَتَّى يَرِدَا عَلَيَّ الْحَوْضَ

شیخ اس حدیث پر اپنی رائے کچھ یوں دیتے ہیں

۔(1) حديث صحيح بشواهده دون قوله: “وإنهما لن يتفرقا حتى يردا عَليَّ الحوضَ“۔

کہ حدیث اپنے شواہد کی روشنی میں صحیح ہے سوائے اس حصہ کہ: اور یہ ہرگز جدا نہ ہوں گے جب تک حوض پر نہ آ جائیں

اس بات سے قطع نظر کہ اس روایت کو شیخ البانی نے اپنی صحيح الجامع الصغير وزياداته، جلد ۱، صفحہ ۴۸۲، حدیث ۲۴۵۸؛ پر صحیح قرار دیتے ہیں، اور شیخ حمزہ احمد زین اپنی مسند احمد کی تحقیق کے جلد ۱٦، صفحہ ۲۸؛ پر سند کو حسن قرار دیتے ہیں، نیز حافظ ہیثمی اپنی مجمع الزوائد کے جلد ۱، صفحہ ۱۷۰؛ پر راویان حدیث کو ثقہ، اور جلد ۹، صفحہ ۱٦۲؛ پر سند کو جید قرار دیتے ہیں

اگر ہم شیخ شعیب ہی کی تحقیق کو مد نظر رکھیں، تو ان کا یہ قول کہ اس حصے کا شاہد نہیں کہ یہ حوض پر آنے تک ساتھ رہیں گے؛ جب ہم خود انہی کی ایک تحقیق شدہ ایک اور کتاب، العواصم و القواصم، جلد ۱، صفحہ ۱۷۸؛ پر نظر کرتے ہیں، تو موصوف فسوی کی کتاب، المعرفۃ و التاریخ کے جلد ۱، صفحہ ۵۳٦؛ کی حدیث کو صحیح قرار دیتے ہیں جس کے الفاظ یوں ہیں کہ

زید بن ارقمؓ نے نبی پاک سے نقل کیا کہ آپ نے کہا کہ میں تم میں چھوڑے جاتا ہوں کہ جن سے اگر تم تمسک رکھو، تو ہر گز گمراہ نہ ہو؛ اللہ کی کتاب اور میری عترت اہلبیت۔ اور یہ ہر گز جدا نہ ہوں گے جب تک حوض پر نہ آ جائیں

عربی متن یوں ہے

حدثنا يحيى قال : حدثنا جرير عن الحسن بن عبيد اللهعن أبي الضحى عن زيد بن أرقم قال : قال النبي صل الله عليه وسلم : إني تاريك فيكم ما إن تمسكتم به لن تضلوا كتاب الله عز وجل وعترتي أهل بيتي وإنهما لن يتفرقا حتى يردا علي الحوض

اب ذرا الفاظ کی مماثلت دیکھیے۔ شیخ نے کہا تھا

حديث صحيح بشواهده دون قوله: “وإنهما لن يتفرقا حتى يردا عَليَّ الحوضَ“۔

اور جس روایت کو وہ خود صحیح قرار دیتے ہیں، اس میں الفاظ ملاحظہ ہوں

وإنهما لن يتفرقا حتى يردا علي الحوض

گویا، شیخ الارناوط کا یہ کہنا کہ کہ اس جملے کا کوئی شاہد نہیں، درست نہیں
انکی ہی تسلیم کردہ ایک اور مستند روایت میں بھی یہ جملہ موجود ہے۔

al-maarifa-wa-tareekh1.gif

al-maarifa-wa-tareekh2.gif

awasim.gif

fasw.gif



نوٹ: اگر شیخ شعیب الارناوط نے صرف اس جملے إِنَّهُمَا لَنْ يَتَفَرَّقَا حَتَّى يَرِدَا عَلَيَّ الْحَوْضَ جَمِيعًا کے بارے میں یہ کہا ہوتا کہ اس کا کوئی شاھد نہیں (دیکھیے پہلا سکین) تو شائد اُنکی بات ٹھیک ہوتی۔ کیونکہ لفظ جمیعاً کے ساتھ یہ جملہ صرف اِسی روایت میں آیا ہے لیکن شیخ نے دوسری جگہ بھی یہی کہا ہے جہاں یہ جملہ لفظ جمیعاً کے بغیر وارد ہوا ہے اور یہ ایک غلطی ہے۔



إِنَّي تاركٌ فيكم خليفتينِ : كتابُ اللهِ حبلٌ ممدودٌ ما بينَ السماءِ والأرْضِ ، وعترتي أهلُ بيتي ، و إِنَّهما لن يتفرقا حتى يرَِدا عَلَيَّ الحوْضَ
الراوي : زيد بن ثابتؓ | المحدث : الألباني | المصدر : صحيح الجامع
الصفحة أو الرقم: 2457 | خلاصة حكم المحدث : صحيح

Source

زید بن ثابتؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا، ’’بے شک میں تمھارے درمیان دو خلیفہ چھوڑے جاتا ہوں۔ اللہ کی کتاب جو ایک آسمان اور زمین تک پھیلی ہوئی رسی (حبل) ہے اور میری عترت میرے اھلبیت۔ اور یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے حتٰی کہ حوض کوثر پر وارد ہوں گے‘‘۔

Untitled.png

1.png

قال رسولُ اللهِ إني تارِكٌ فيكم الخَلِيفَتَيْنِ من بَعْدِي كتابَ اللهِ وعِتْرَتِي أَهْلَ بَيْتِي وإنهما لن يَتَفَرَّقا حتى يَرِدَا عَلَىَّ الحَوْضَ
الراوي : زيد بن ثابت | المحدث : الألباني | المصدر : تخريج كتاب السنة
الصفحة أو الرقم: 754 | خلاصة حكم المحدث : صحيح

Source


زید بن ثابتؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا، ’’بے شک میں اپنے بعد تمھارے درمیان دو خلیفہ چھوڑے جاتا ہوں۔ اللہ کی کتاب اور میری عترت میرے اھلبیت۔ اور یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے حتٰی کہ حوض کوثر پر وارد ہوں گے‘‘۔



إنِّي تاركٌ فيكم خليفتين كتابَ اللهِ عزَّ وجلَّ حبلٌ ممدودٌ ما بينَ السَّماءِ والأرضِ أو ما بينَ السَّماءِ إلى الأرضِ وعِترتي أهلَ بيتي وإنَّهما لن يفتَرِقا حتَّى يَرِدا عليَّ الحوضَ
الراوي : زيد بن ثابتؓ | المحدث : الهيثمي | المصدر : مجمع الزوائد
الصفحة أو الرقم: 9/165 | خلاصة حكم المحدث : إسناده جيد

Source




إني تركتُ فيكم خليفتينِ كتابَ اللهِ وأهلَ بيتي وإنهما لن يتفرَّقا حتى يرِدا علَىَّ الحوضَ
الراوي : زيد بن ثابتؓ | المحدث : الهيثمي | المصدر : مجمع الزوائد
الصفحة أو الرقم: 1/175 | خلاصة حكم المحدث : رجاله ثقات

Source


یہ حدیث بصیغہ خلیفتین دوسری کتب حدیث میں بھی موجود ہے دیکھیے یہ لنک
یہ حدیث بصیغہ ثقلین دوسری کتب حدیث میں دیکھنے کیلیے اس لنک پر کلک کیجیے۔

پس تمام ممبران کو چند اہم نقاط پر غور کرنے کی دعوت ہے۔

جتنی احادیث میں نے یہاں درج کیں ہیں یہ خیال رکھا ہے کہ وہ سند کے اعتبار سے صحیح یا حسن ہوں۔

یہ حدیث متعدد صحابہ کرامؓ سے منقول ہے۔ کم از کم 25 صحابہؓ سے روایت ہوئی ہے۔

یہ حدیث اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے متعدد مقامات پر ارشاد فرمائی۔ مثلاً یہاں جو احادیث درج کیں ہیں اُن ہی سے واضح ہے کہ یہ حدیث حج کے دوران یوم عرفہ کو، حج سے واپسی پر غدیر خُم کے مقام پر اور مرض الموت کے دوران اپنے حجرہ میں بھی ارشاد فرمائی گئی۔ اسکے علاوہ بھی متعدد مقامات پر اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے یہ حدیث ارشاد فرمائی۔

دوران حج اور واپسی پر غدیرِ خُم کے مقام پر یہ حدیث ایک لاکھ سے زیادہ صحابہؓ کو مخاطب کرکے ارشاد فرمائی۔

ان احادیث سے اور دوسری صحیح احادیث سے واضح ہے کہ حبل اللہ سے مراد کتاب اللہ ہے۔

ان احادیث میں ہی اس بات کا بھی جواب ہے کہ حبل اللہ کو مضبوطی سے کیسے تھاما جا سکتا ہے؟ اور وہ صرف اور صرف اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اھلبیت کے ساتھ تمسک رکھنے سے ہی ممکن ہے۔ کیونکہ اُنھیں کے بارے میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے خبر دی ہے کہ میرے یہ اھلبیت کبھی بھی حبل اللہ سے جدا نہ ہوں گے۔ حتٰی کہ حوض کوثر پر بھی یوں ہی اکٹھے وارد ہوں گے۔

اب جو پورے قرآن کا حقیقی علم (تاویل) نہیں رکھتا وہ کتاب اللہ (حبل اللہ) سے جدا ہے۔ کیونکہ اگر وہ ایک آیت کے حقیقی علم سے بھی ناواقف ہے۔ وہ اُس آیت سے جدا ہے۔

جس کا عمل مکمل طور پر قرآن کے مطابق نہیں وہ بھی قرآن سے جدا ہے۔ پس اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد یہی اھلبیت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہی ایسی ہستیاں ہیں جن کا خُلق قرآن ہے۔

قرآن خود نہیں بولتا۔ پس ممکن ہے کہ لوگ اس کی آیات کا غلط مطلب نکالیں۔ اور غلط رنگ دیں۔ پس یہ اھلبیت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہی ہیں جو قرآن کی حقیقت سے واقف ہیں اور وہی قرآن کا مطلب بیان کریں گے۔

اھلبیت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہی اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سُنت سے کامل واقف ہیں۔ اور اُس کے صحیح مفہوم سے آشنا ہیں۔

پس حبل اللہ کو مضبوطی سے، بغیر اھلبیت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے تمسک رکھے، نہیں تھاما جا سکتا۔

آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے تمام صحابہؓ سمیت پوری امت کو قرآن اور اپنے اھلبیت کے ساتھ متمسک ہونے کا حکم دیا اور ان دونوں کو ثقلین قرار دیا اور اپنے بعد ثقلین سے تمسک رکھنے کو ہی گمراھی سے بچاؤ کا ذریعہ بتایا۔ اور قرآن نے اسی بات کو تفرقہ سے بچاؤ کا واحد راستہ قرار دیا۔

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے قرآن اور اپنے اھلبیت کو ثقلین قرار دیا۔ مطلب قرآن ثقل (گراں بہا) ہے اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اھلبیت بھی ثقل (گراں بہا) ہیں دونوں ہی برابر کی اہمیت کے حامل ہیں اور دونوں ہی اہمیت میں ہم پلہ ہیں۔

پس قرآن اسلیے ہے کہ اُسکا علم حاصل کرکے اُسکی پیروی کی جائے۔ اور اھلبیت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اسلیے ہیں کہ وہ قرآن کی باتیں کھول کھول کر واضح بیان کریں۔ کیونکہ وہ ہی اسکی تاویل سے آگاہ ہیں۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اھلبیت کی پیروی واجب ہے کیونکہ وہ وہی حُکم دیتے ہیں جو قرآن میں موجود ہے۔

پس آسان الفاظ میں امت کے اتحاد کا واحد ذریعہ مسلمانوں کا مل کر اھلبیت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے متمسک ہو جانا ہے۔ اور تفرقہ کا وہی باعث ہے جو اھلبیت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو چھوڑ دے یا اُن کو وہ اہمیت نہ دے جس کا حکم اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے دیا ہے۔ حالانکہ تمسک بالثقلین کا حُکم تو سب سے پہلے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے بلا تخصیص اپنے تمام صحابہؓ کو دیا تھا۔

حضرت امام مھدی علیہ السلام بھی اھلبیت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے ہوں گے۔

پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پردہ کرنے کے بعد اھلبیت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے تمسک رکھے بغیر کتاب اللہ (حبل اللہ) سے متمسک ہونے کا دعوٰی کرنے والا اپنے دعوٰی میں جھوٹا ہے۔


ممبران سے گزارش ہے کہ میں جو کُچھ جانتا تھا اور سمجھتا تھا دیانت داری سے آپ کے سامنے رکھا ہے۔ اگر آپ میں سے کوئی بھی میری بات میں کوئی سقم یا کمی پائے تو قرآن و احادیث صحیحہ کو اپنی دلیل بنا کر بات کرے۔ اسطرح میرے علم میں بھی اضافہ ہو گا۔ اور اللہ تعالٰی اُس کو اس نیک کاوش کا اجر بھی دے گا۔ اور میں بھی اُسکا مشکور ہوں گا۔

اللھم صلی علی محمد و آل محمد

 
Last edited:

karachiwala

Prime Minister (20k+ posts)
آسان زبان میں میں پانچ فیصد آبادی کا پچانوے فیصد آبادی پر اپنا مسلک زبردستی مسلط کرنے کا نام ہے۔ اس کیلیئے پانچ میل کی پوسٹ کی کیا ضرورت ہے؟ اتنی لمبی جوابی تمہید کا مطلب ہی یہ ہے کہ آسان الفاظ نہیں لہذا اتنا زیادہ لکھو کہ لوگ پڑھ نا سکیں۔
 

Zoq_Elia

Senator (1k+ posts)
آسان زبان میں میں پانچ فیصد آبادی کا پچانوے فیصد آبادی پر اپنا مسلک زبردستی مسلط کرنے کا نام ہے۔ اس کیلیئے پانچ میل کی پوسٹ کی کیا ضرورت ہے؟ اتنی لمبی جوابی تمہید کا مطلب ہی یہ ہے کہ آسان الفاظ نہیں لہذا اتنا زیادہ لکھو کہ لوگ پڑھ نا سکیں۔
میں نے جو حق بات محسوس کی وہ بیان کردی۔ حق بات کا تعلق قرآن اور احادیث صحیحہ سے ہوتا ہے جو میں نے مکمل ریفرنس کے ساتھ پیش کر دیں ہیں۔ حق بات کا تعلق 5 فیصد یا 95 فیصد سے نہیں۔ میں نے کُھلی دعوت دی ہے کہ اس موضوع پر میری اس پوسٹ میں جو ممبر سُقم یا کمی محسوس کرے وہ مہربانی کرکے قرآن و صحیح احادیث کی مدد سے اپنا موقف بیان کرے اور ہمارے علم میں بھی اضافہ کرے۔ آپ کو پوسٹ اسلیے لمبی لگ رہی ہے کیونکہ میں نے ممبران کی آسانی کیلیے احادیث کی عربی اور محدثین کی حدیث کے بارے میں رائے بھی درج کی ہے۔ آپ اگر ایک نشست میں اتنا نہیں پڑھ سکتے تو وقفے وقفے سے پڑھ لیں۔ جیسا کہ میں نے یہ پوسٹ بھی کئی نشستوں میں تحریر کی ہے۔ باقی اگر آپ غور کریں تو میری پوسٹ محترم چوھدری صاحب کی پوسٹ کے قریب قریب ہے۔ بات جتنی اہم ہو اُسے اُتنا ہی وضاحت سے بیان کرنا چاہیے۔ اس حساب سے تو میری یہ پوسٹ بہت ہی مختصر ہے۔
 
Last edited: