غلاموں ، اب سُدھر جاو ۔
تحریر:جانی
جنوری ۱۶، ۲۰۱۹۔
یہ اس وقت کی بات ہے جب مشرف حکومت اپنی آخری سانسیں لے رہی تھی،۔۔اورمشرف نے لال مسجد پر چڑھائی کردی تھی۔۔اتفاق سے میں اسلام آباد میں ہی تھا۔اپنے ایک کزن کے ہاں۔۔جو ایک سرکاری محکمے میں کام کرتے ہیں۔
میں اگر ملک سے باہر ہوتا ہوں تو شلوار قمیض کا ایک جوڑا الماری میں رکھتا ہوں، مگر پہنتا تب ہوں جب وطن واپسی کا پروگرام ہو۔ وجہ۔۔ جہاز میں سفر ذرا آسان رہتا ہے۔ پتلون وغیرہ کے مقابلے میں۔۔مطلب ملک کے اندر پینٹ شرٹ جینز وغیرہ قریب نہیں آنے دیتا تو ملک سے باہر شلوار قمیض۔۔
ہوا یوں کہ میں اپنے موبائل فون میں کچھ سیٹنگ وغیرہ میں مصرُوف تھا، کہ وہ اچانک سے بند ہوگیا، جو میں نے موبائل زون سے نیا نیالیا تھا، ۔ ۔ جب وہ کافی منتوں سماجتوں اور کوشش و جتنوں کے بعد بھی نہ کھلا، تو ان کی قریبی شاخ جانے کا فیصلہ کیا۔۔ جو کہ بلیو ایئریا میں واقع تھا۔۔
میں وہاں پہنچا،۔ اپنی شلوار قمیض، بگھڑے بال وغیرہ کے ساتھ۔۔کاونٹر سے ایک ٹکٹ لیا اور خاموشی سے اچھے بچوں کی طرح ایک جانب کرسی پر بیٹھ گیا، اپنی باری کے انتظارمیں۔۔
کچھ دیر بعد میری باری آئی اور میں کاونٹر پہنچا، جہاں لڑکے لڑکیا ں کام میں کم اور گپ شپ میں زیادہ مصروف تھے۔۔یہاں یہ بتادوں کہ میری پیدائش و پرورش بیرون ملک کی تھی، اس لیئے میری اردو تھوڑی کمزور تھی۔۔اور میں یہی سوچ رہا تھا کہ انہیں اپنا مسئلہ کیسے بیان کروں۔۔
خیر۔۔ میں نے سلام سے ابتدا کی جس کا جواب ۔۔کیا ہے بولیں ۔۔میں ملا۔
اپنی کہانی بیان کی اور اپنا اس وقت کے چھیاسٹھ ہزار والا فون اس سٹاف کے میمبرکے ہاتھ میں پکڑا دیا۔۔اس نے پہلے فون کو اور پھر مجھے دیکھا۔۔شاید سوچ رہا تھا کہ کہیں سے اُڑایا ہے یا تحفہ ملا ہے، ۔ پھر مجھے انتظار میں بیٹھنے کو کہا۔
کچھ دیر بعد اس نے مجھے بُلایا اور یہ بدخبری سُنائی کہ کیونکہ میں نے اپنا فون باہر کسی ریڑھی والے سے کھلوایا ہے اس لیئے اس کی وارنٹی ختم ہوگئی ہے، اور وہ میری کوئی مدد نہیں کرسکتے ہیں۔۔ یہ سُننا تھا کہ ، میری کھوپڑی گھوم گئی ،۔۔اس وقت مجھے غصے نے بلکہ جھنجھلاہٹ نے اپنی لپیٹ میں لے لیا، کہ شایدمیں اپنی بات کو اردو میں صحیح سے بیان نہیں کرسکا تھا۔۔تو میں نے انگریزی میں بولنا شروع کردیا۔۔
ہم دونوں میں سے ایک یقینی طور پر احمق ہے ، اور میں اتنا جانتا ہوں کہ وہ میں نہیں، اسلیئے میرا وقت برباد مت کرو، اور میری کسی ذمےدارشخص سے بات کراو۔
یہ سُننا تھا کہ اس کا ایک ساتھی اس کی دفاع میں کھود پڑا، اور کہا۔۔تمیز سے بات کریں۔۔
میں نے کہا۔۔ یہ فون میں نے حال ہی میں لیا ہے، ۔اور میں ساری عمر اس قسم کے الیکٹرونک آلات سے کھیلتا آیا ہوں، تو مجھے نہیں لگتا کہ میں اتنا بےوقوف ہوں کہ یہ فون میں کسی گلی کے مستری کے پاس لے جاونگا۔یہ فون بالکل صحیح حالت میں ہے، اور میں نے اسے نہیں کھلوایا۔۔
میں اتنی اونچی آواز میں بولے جارہا تھا کہ ، اندر سے ان کے ریجینل مینیجر نے برآمد ہوتے ہوئے مجھ سے میری روداد سنی اور پھر جب وہ سمجھ گیا کہ یہ بندہ جان چھوڑنے والا نہیں، تو تماشے سے بچنے کے لیئے، مجھے اپنے ساتھ اپنے دفتر لے گئے۔۔ اور پوچھا، چائے چلے گی یا کافی۔۔ میں نے کہا پہلے چائے، اور اگر انہوں نے دماغ زیادہ خراب کیا ، تو کافی بھی پی لیں گے۔۔ کہانی کو مختصر کرتے ہوئے۔۔میرا فون اگلے آدھے گھنٹے میں بن کر واپس میرے ہاتھ میں تھا۔۔
جاتے ہوئے جہاں مینیجر کا شکریہ ادا کیا۔۔ وہیں اپنے کاونٹر والے دوست کو اتنا ضرور کہا کہ۔۔ آج میری انگریزی کا سہارا اگر میں نہ لیتا، تو تم لوگوں نے میرا کام نہیں کرنا تھا۔۔چلو اچھا ہے، اسطرح تمہیں ایک سبق تو ملا کہ، کھبی بھی کتاب کے معیار کا اس کے کور یا جلد سے اندازہ مت لگانا۔۔اور اگر کوئی عاجزی سے پیش آئے تو ویسے ہی پیش آنا، نہ کہ فرعون بن جانا۔۔
اپنے ایک دوست کی آپ بیتی اپنے الفاظ میں بیان کرنے کا مقصد تھا۔۔کہ۔ کس قدر غلامانہ سوچ رکھتے ہیں ۔ہمارے اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگ بھی۔۔ جب دو فقرے کانوں پر انگریزی کے پڑے ۔ توجیسے کسی نے جادو کردیا ہو۔۔او یرا اپنی زبان کی، اپنے لوگوں کی اور ان کے لباس کی بھی قدر کرنا سیکھیں۔۔ یا ساری عمر احساس کمتری میں ہی رہنا ہے۔۔
ابھی چند دن قبل پرویز مشرف کو سنا یہ کہتے ہوئے کہ ، عمران خان کو اپنے لباس میں بہتری لانی چاہیئے جب وہ بیرون ملک دوروں پر جائیں۔۔ یعنی اپنے آقاوں کے آگے ان جیسا لباس پہنیں۔۔ او بھاڑ میں جائیں ۔۔ سارے سٹائلش اور حرامخور لیڈر، جنہوں نے اس ملک کو رسوائی اور قرضوں کے مرض کے علاوہ کچھ نہ دیا۔۔
عمران خان نے زندگی کا ایک بڑا عرصہ مغرب میں گزارہ، کیا انہیں مغربی لباس پہننا نہیں آتا جو آپ انہیں سکھا رہے ہو۔۔ او بھئی ۔۔ وہ ہمارے لیئے ایسا کررہے ہیں۔۔ تاکہ لوگ
اسے پہچانیں، اور اس کی عزت کریں، نہ کہ اسے ذلت دیں۔
جانیjani
تحریر:جانی
جنوری ۱۶، ۲۰۱۹۔
یہ اس وقت کی بات ہے جب مشرف حکومت اپنی آخری سانسیں لے رہی تھی،۔۔اورمشرف نے لال مسجد پر چڑھائی کردی تھی۔۔اتفاق سے میں اسلام آباد میں ہی تھا۔اپنے ایک کزن کے ہاں۔۔جو ایک سرکاری محکمے میں کام کرتے ہیں۔
میں اگر ملک سے باہر ہوتا ہوں تو شلوار قمیض کا ایک جوڑا الماری میں رکھتا ہوں، مگر پہنتا تب ہوں جب وطن واپسی کا پروگرام ہو۔ وجہ۔۔ جہاز میں سفر ذرا آسان رہتا ہے۔ پتلون وغیرہ کے مقابلے میں۔۔مطلب ملک کے اندر پینٹ شرٹ جینز وغیرہ قریب نہیں آنے دیتا تو ملک سے باہر شلوار قمیض۔۔
ہوا یوں کہ میں اپنے موبائل فون میں کچھ سیٹنگ وغیرہ میں مصرُوف تھا، کہ وہ اچانک سے بند ہوگیا، جو میں نے موبائل زون سے نیا نیالیا تھا، ۔ ۔ جب وہ کافی منتوں سماجتوں اور کوشش و جتنوں کے بعد بھی نہ کھلا، تو ان کی قریبی شاخ جانے کا فیصلہ کیا۔۔ جو کہ بلیو ایئریا میں واقع تھا۔۔
میں وہاں پہنچا،۔ اپنی شلوار قمیض، بگھڑے بال وغیرہ کے ساتھ۔۔کاونٹر سے ایک ٹکٹ لیا اور خاموشی سے اچھے بچوں کی طرح ایک جانب کرسی پر بیٹھ گیا، اپنی باری کے انتظارمیں۔۔
کچھ دیر بعد میری باری آئی اور میں کاونٹر پہنچا، جہاں لڑکے لڑکیا ں کام میں کم اور گپ شپ میں زیادہ مصروف تھے۔۔یہاں یہ بتادوں کہ میری پیدائش و پرورش بیرون ملک کی تھی، اس لیئے میری اردو تھوڑی کمزور تھی۔۔اور میں یہی سوچ رہا تھا کہ انہیں اپنا مسئلہ کیسے بیان کروں۔۔
خیر۔۔ میں نے سلام سے ابتدا کی جس کا جواب ۔۔کیا ہے بولیں ۔۔میں ملا۔
اپنی کہانی بیان کی اور اپنا اس وقت کے چھیاسٹھ ہزار والا فون اس سٹاف کے میمبرکے ہاتھ میں پکڑا دیا۔۔اس نے پہلے فون کو اور پھر مجھے دیکھا۔۔شاید سوچ رہا تھا کہ کہیں سے اُڑایا ہے یا تحفہ ملا ہے، ۔ پھر مجھے انتظار میں بیٹھنے کو کہا۔
کچھ دیر بعد اس نے مجھے بُلایا اور یہ بدخبری سُنائی کہ کیونکہ میں نے اپنا فون باہر کسی ریڑھی والے سے کھلوایا ہے اس لیئے اس کی وارنٹی ختم ہوگئی ہے، اور وہ میری کوئی مدد نہیں کرسکتے ہیں۔۔ یہ سُننا تھا کہ ، میری کھوپڑی گھوم گئی ،۔۔اس وقت مجھے غصے نے بلکہ جھنجھلاہٹ نے اپنی لپیٹ میں لے لیا، کہ شایدمیں اپنی بات کو اردو میں صحیح سے بیان نہیں کرسکا تھا۔۔تو میں نے انگریزی میں بولنا شروع کردیا۔۔
ہم دونوں میں سے ایک یقینی طور پر احمق ہے ، اور میں اتنا جانتا ہوں کہ وہ میں نہیں، اسلیئے میرا وقت برباد مت کرو، اور میری کسی ذمےدارشخص سے بات کراو۔
یہ سُننا تھا کہ اس کا ایک ساتھی اس کی دفاع میں کھود پڑا، اور کہا۔۔تمیز سے بات کریں۔۔
میں نے کہا۔۔ یہ فون میں نے حال ہی میں لیا ہے، ۔اور میں ساری عمر اس قسم کے الیکٹرونک آلات سے کھیلتا آیا ہوں، تو مجھے نہیں لگتا کہ میں اتنا بےوقوف ہوں کہ یہ فون میں کسی گلی کے مستری کے پاس لے جاونگا۔یہ فون بالکل صحیح حالت میں ہے، اور میں نے اسے نہیں کھلوایا۔۔
میں اتنی اونچی آواز میں بولے جارہا تھا کہ ، اندر سے ان کے ریجینل مینیجر نے برآمد ہوتے ہوئے مجھ سے میری روداد سنی اور پھر جب وہ سمجھ گیا کہ یہ بندہ جان چھوڑنے والا نہیں، تو تماشے سے بچنے کے لیئے، مجھے اپنے ساتھ اپنے دفتر لے گئے۔۔ اور پوچھا، چائے چلے گی یا کافی۔۔ میں نے کہا پہلے چائے، اور اگر انہوں نے دماغ زیادہ خراب کیا ، تو کافی بھی پی لیں گے۔۔ کہانی کو مختصر کرتے ہوئے۔۔میرا فون اگلے آدھے گھنٹے میں بن کر واپس میرے ہاتھ میں تھا۔۔
جاتے ہوئے جہاں مینیجر کا شکریہ ادا کیا۔۔ وہیں اپنے کاونٹر والے دوست کو اتنا ضرور کہا کہ۔۔ آج میری انگریزی کا سہارا اگر میں نہ لیتا، تو تم لوگوں نے میرا کام نہیں کرنا تھا۔۔چلو اچھا ہے، اسطرح تمہیں ایک سبق تو ملا کہ، کھبی بھی کتاب کے معیار کا اس کے کور یا جلد سے اندازہ مت لگانا۔۔اور اگر کوئی عاجزی سے پیش آئے تو ویسے ہی پیش آنا، نہ کہ فرعون بن جانا۔۔
اپنے ایک دوست کی آپ بیتی اپنے الفاظ میں بیان کرنے کا مقصد تھا۔۔کہ۔ کس قدر غلامانہ سوچ رکھتے ہیں ۔ہمارے اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگ بھی۔۔ جب دو فقرے کانوں پر انگریزی کے پڑے ۔ توجیسے کسی نے جادو کردیا ہو۔۔او یرا اپنی زبان کی، اپنے لوگوں کی اور ان کے لباس کی بھی قدر کرنا سیکھیں۔۔ یا ساری عمر احساس کمتری میں ہی رہنا ہے۔۔
ابھی چند دن قبل پرویز مشرف کو سنا یہ کہتے ہوئے کہ ، عمران خان کو اپنے لباس میں بہتری لانی چاہیئے جب وہ بیرون ملک دوروں پر جائیں۔۔ یعنی اپنے آقاوں کے آگے ان جیسا لباس پہنیں۔۔ او بھاڑ میں جائیں ۔۔ سارے سٹائلش اور حرامخور لیڈر، جنہوں نے اس ملک کو رسوائی اور قرضوں کے مرض کے علاوہ کچھ نہ دیا۔۔
عمران خان نے زندگی کا ایک بڑا عرصہ مغرب میں گزارہ، کیا انہیں مغربی لباس پہننا نہیں آتا جو آپ انہیں سکھا رہے ہو۔۔ او بھئی ۔۔ وہ ہمارے لیئے ایسا کررہے ہیں۔۔ تاکہ لوگ
اسے پہچانیں، اور اس کی عزت کریں، نہ کہ اسے ذلت دیں۔
جانیjani