عید مبارک طالب حسین
وسعت اللہ خان بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی
شہید طالب حسین جنھہوں نےہزارہ ٹاؤن کوئٹہ پر حملہ آور ہونے والے تکفیری خود کش حملہ آور کو روک کر اور اپنی جان کی قربانی دےکرسینکڑوں لوگوں کی جان بچائی۔ ہمارا سلام اس بلوچ کو!۔ |
ایک وضاحت ابتدا میں ہی کردوں کہ طالب حسین کو میں ذاتی طور پر نہیں جانتا۔ میرا اندازہ ہے کہ طالب حسین واجبی پڑھا لکھا تھا اور اس کی تنخواہ دس سے بارہ ہزار روپے کے درمیان ہونی چاہیے ۔
طالب حسین غیر شادی شدہ تھا کہ عیال دار؟ اسے سیاست و حالات ِ حاضرہ سے کتنی دلچسپی تھی، وہ کس مسلک کا ماننے والا تھا یا نہیں تھا، اس رمضان میں اس نے کتنے روزے رکھے یا چھوڑے، کتنی نمازیں پڑھیں یا قضا کر دیں۔مجھے ککھ پتہ نہیں۔
پر اتنا ضرور جانتا ہوں کہ طالب حسین یکم جنوری انیس سو تہتر کو پیدا ہوئے۔ اس اعتبار سے چاند رات تک اس کی عمر قریباً 42 برس ضرور تھی۔
چاند رات کو جب اس ملک کے جزوقتی وزیرِاعظم اپنے اہلِ خانہ کے ہمراہ حرمین میں اس خدا کی حمد و ثنا میں مصروف تھے جس نے وزیرِاعظم سمیت ہم سب کو پیدا کیا، اس وقت طالب حسین کوئٹہ میں تھا۔وہ کبھی عمرے پر گیا یا نہیں مجھے نہیں معلوم۔
چاند رات کو جب صدرِ مملکت ممنون حسین مختلف مسلمان ممالک کے سربراہوں کو عید کی ٹیلی فونی مبارک باد دے رہے تھے تو طالب حسین کوئٹہ کی ریلوے ہاؤسنگ سوسائٹی کے گیٹ کے آس پاس تھا۔
چاند رات کو جب بّری فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف کا کوئی معتمد اردلی صاحب کی کڑک وردی ہینگر سے لٹکا کر چمکیلے بوٹ الماری کے نچلے خانے میں رکھ رہا ہوگا تاکہ صاحب صبح ہی صبح شمالی وزیرستان میں جوانوں کے ساتھ عید کا دن گذارنے کے لیے بروقت تیار ہو سکیں اس وقت غالباً طالب حسین کوئٹہ کی ریلوے ہاؤسنگ سوسائٹی کے مین گیٹ پر اپنے سٹول پر پہلو بدلتے ہوئے یہ حساب لگا رہا ہوگا کہ اسے اپنی وردی دھلائے کتنے روز ہوئے اور کھردرے بوٹوں پر آخری بار پالش کب کی تھی۔
چاند رات کو جب آصف زرداری اس سوچ میں غرق ہوں گے کہ خود کو ، پارٹی کو اور صوبائی حکومت کو بچانے کے لیے انھیں کتنا اور جھکنا یا سینہ تاننا ہے۔اس وقت طالب حسین نے شاید اپنے چہرے پے ہاتھ پھیرتے ہوئے سوچا ہو کہ ڈیوٹی ختم ہوتے ہی پہلا کام یہ کرے گا کہ اپنی مونچھوں اور داڑھی کی زرا تراش خراش کر لے کیونکہ صبح عید بھی تو ہے۔
چاند رات کو جب ریلوے ہاؤسنگ سوسائٹی کے مکین سودا سلف لا چکے ہوں گے، لڑکیاں بالیاں نئی چوڑیاں سنبھال کے مہندی لگوانے کے لیے پڑوس والی باجی کے پاس جانے کا سوچ رہی ہوں گی۔ایف سی ہیڈ کوارٹر کوئٹہ میں چند گھنٹے بعد کسی دور دراز بے خبر عید کی تیاریوں میں مشغول علاقے میں عید سرپرائز آپریشن کی منصوبہ بندی مکمل ہو رہی ہوگی اس وقت شاہد طالب حسین ریلوے ہاؤسنگ سوسائٹی کے گیٹ پر ہر آنے جانے والے کو بے خیالی سے تک رہا ہوگا کیونکہ سب جانے پہچانے ہی تو تھے۔
عین ممکن ہے کہ ملک کے ہر گوشے کی طرح اس عید گاہ کے امام صاحب بھی صبح کی تیاری میں مصروف ہوں اور بالوں میں خضاب لگانے کے بعد عطر کی شیشی سرہانے کی تپائی پر رکھ رہے ہوں جس وقت ایک انجانے چہرے کو گیٹ پر دیکھ کر طالب حسین کی آنکھوں میں ایک سوالیہ نشان ابھرا ہو۔
عین ممکن ہے جب طالب حسین اس مشکوک انجانے کو ریلوے ہاؤسنگ سوسائٹی کے اندر جانے کی اجازت دینے سے انکاری ہو اس وقت سینکڑوں شہروں اور قصبات میں بہت سے تاجر زیرِ لب مسکراتے ہوئے حساب کتاب کے اس کھاتے کی کیلکو لیٹر پر حتمی گنتی کر رہے ہوں جس کا تعلق رمضان کی دونوں ہاتھوں سے جمع ہونے والی غیر معمولی لوٹ سے ہے۔
ہو سکتا ہے جب ریلوے ہاؤسنگ سوسائٹی کے مین گیٹ پر اس انجانے شخص سے ہاتھا پائی کرتے ہوئے طالب حسین کی جیب سے شناختی کارڈ گرا ہو اور پھر انجانے شخص سے لپٹتے ہوئے طالب حسین بھی دھماکے سے اڑ گیا ہو، کہیں کوئی عورت یہ سوچ رہی ہو کہ صبح طالب حسین کے لیے ایسا کیا بناؤں جو اسے بچپن سے پسند ہے؟
کل نمازِ عید کے بعد کوئٹہ میں ریلوے ہاؤسنگ سوسائٹی کے سیکورٹی گارڈ طالب حسین کی نمازِ جنازہ ادا کر دی گئی۔۔۔
جو شخص طالب حسین کو اپنے ساتھ اوپر لے گیا اس کی ماں کے انتظار کی بروزِ عید کیا کیفیت رہی ہوگی ۔ اس بارے میں کم ازکم آج کے دن میں نہیں سوچنا چاہتا۔
طالب حسین تمہیں میری طرف سے بہت بہت عید مبارک۔