عوام کی مشکلات

Yaldarum

Politcal Worker (100+ posts)
ب تک حدیث سمجھنے سمجھانے کا یہ کام علماء کے ہاتھ میں رہا۔ عوام اسی طریقے سے دین سمجھتے رہے گمراہی سے بچے رہے۔کسی عالم نے دین پر عمل اور اسکی فہم کیلئے مطولات حدیث عوام کے ہاتھ میں نہیں دیں بلکہ انہیں ان احادیث سے اخذ کرکے دین سمجھایا ۔ اس طرح گمراہی کا دروازہ بند رہا اور علمی مباحث علماء کے مابین رہے۔جب پوری کتب حدیث کے تراجم کرکے عوام کے ہاتھ میں دے دئے گئے تو شروع ہوا یہ دور جسکی بھیانک ترین شکل اب سامنے آگئی۔

لوگوں کو احادیث کے نہ تو مطالب سمجھ آسکے نہ مفاہیم،نہ وہ تعارض کو سمجھ سکے نہ تطبیق،نہ انہیں ناسخ کا علم نہ منسوخ کا۔اذہان انکے البتہ ضرور الجھ گئے۔ حدیث پر بحث وتنقید اور ایسی احادیث جو انکی سمجھ سے بالاتر تھیں ان پر مطلع ہونےکا دروازہ انکے لئےکھول دیا گیا جسکا بند رہنا ہی انکے لئے نافع تھا۔انکے لئے نفع مند تھا تو صرف ان احادیث پر مطلع ہونا تھا جنکا تعلق اخلاق اور رقاق کے موضوعات سے تھا ۔ یہ غلط روش ہمارے ہاں فتنہ انکار حدیث کے دور اول کا سبب بنی۔

عصری تعلیم یافتگان نے احادیث کے ظاہر کو پکڑا اور اول اول کچھ باتوں کو خلاف عقل قرار دے کر انکا انکار کیا کچھ میں انہیں مخالفت قرآن نظر آئی اور یہ سلسلہ بڑھتے بڑھتے مطلق انکار تک جاپہنچا۔یہ لوگ نہ اصول حدیث سے واقف تھے نہ عربیت سے اور نہ عرب معاشرے سے۔بس اپنے دماغ سے پڑھتے گئے اور اور انکار کرتے گئے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ عوام اور فیسبکی طبقہ مبادیات علم حدیث سے قطعا ناواقف ہے۔جو لوگ حدیث کی موٹی موٹی اصطلاحات نہیں جانتے۔امر نہی وقائع سنت عادیہ اور شرعیہ جیسے بنیادی امور سے نا آشنا ہیں انکے سامنے دقیق مسائل رکھ کر انہیں جج بھی بنا دیا گیا ہے۔گویا بندر کے ہاتھ میں ماچس دیدی گئی ہے ۔اب جو طوفان بدتمیزی برپا ہے وہ سب کے سامنےہے۔

جو لوگ فتنہ پھیلانا چاہتے ہیں انہوں نے بھی یہ آسان میدان چن لیا ہے۔یہ اس کام کیلئے منبرومحراب استعمال کرتے تو نمازیوں سے جوتے کھاتے۔ اسلئے اب بھی ان میں جو صاحبان منبر ہیں مسجد میں نفاق اوڑھے رہتے ہیں۔اگر کتاب لکھتے تو تحقیق کا جوکھم بھی اٹھانا پڑتا اور ایک ایڈیشن مشکل سے نکلتا وہ دستخطوں کے ساتھ مفت بٹتا ۔ اس لیے فیس بک پر آبیٹھےیہاں بات کا نہ کوئی اصول ہے نہ ضابطہ۔جو جواب مانگے بلاک کردو۔جو بحث چھیڑے جواب میں بکواس چھیڑدو جسے جومرضی کہہ دو آزادی ہے ۔اور پڑھنے والا طبقہ وہ ہے جو باقی ہرمعاملے میں عقل و تحقیق کے اصولوں پر قائم ہے سوائے دین کے معاملے کے۔یہاں اسکی سوچ الگ ہے۔

آپ مجھے بتائیے کیا فیس بک پر کوئی ایساآدمی جو علم طب اور سائنس کے مبادیات سے ناآشنا ہو’ ان علوم کی باریکیوں اور انتہائی درجے کے مسائل پر بحث یا رائے زنی کرتا ہے؟اور اگر کرتا ہوتو اسے کیا کہا جاتا ہے؟اللہ تعالی نے کتاب کو ذریعہ علم اور استاذ کو معلم بنایا ہے جبکہ یہاں اصرار ہے دونوں کے بغیر علم کی منتہاء کو پہنچنا ہے۔ یہی کمی فتنے اور کنفیوزین کی بنیاد ہے جنہوں نے علم حدیث کا نورانی قاعدہ نہیں پڑھا وہ بخاری شریف کے بارے میں آراء دیتے ہیں۔فیسبک ضرورذریعہ علم ہے مگر ضابطے سے یہاں عامی اپنی ضرورت کے مسائل معلوم کرے اور علماء اپنے دائرے میں مباحثہ کریں، ہر علم وفن کا مبتدی ابتداء سے ارتقاء کا آغاز کرے اور منتہی ہر ایک کو اسکی استعداد کے مطابق سیراب کریں تو تب ہی فائدہ ہوسکتا ہے۔

وہ لوگ کتنے بڑے مجرم ہیں امت کے جو وضواور نماز کے بنیادی مسائل سے ناآشنا نوجوانوں کو علم کے متنازعہ پہلو دکھا کر انکا ایمان لوٹ رہے ہیں۔اور وہ نوجوان کتنے نادان ہیں جو علم کے اس مسلم اصول کونظرانداز کرکے گمراہی کے گڑھے میں گر رہے ہیں۔اگر کوئی واقعی شوق رکھتا ہے کہ ان دقیق مسائل میں رائے زنی کریں تو بسم اللہ آئے مبادیات سیکھے اصول جانے اور بات کرے اور اگر انہی مفکرین کے پیچھے چل کر اسلاف امت پر بکواس بازی کرنی ہے تو شوق سے کرے لیکن اس میں دین و دنیا دونوں کا نقصان ہے۔اللہ ہمیں سمجھ عطا فرمائے۔
 
Last edited by a moderator:

Moula Jutt

Minister (2k+ posts)
اتنی لمبی تحریر میں آپ نے یہ تو کہہ دیا کہ جب تک احادیث عالموں کے ھاتھ میں رھی اسلام محفوظ رھا۔
لیکن یہ بتانا بھول گئے کہ اسلام کا ریپ کرنے والے بھی کچھ اپنے آپ کو ملا یا عالم کہتے تھے اور ھیں ۔جو احادیث کی روشنی میں اپنی مرضی کا اسلام پڑھاتے پڑھاتے اس میں تفرقہ بازی پیدا کر کر کے اس مقام پر لے آئے ھیں کہ آج مسلمان ایک دوسرے کو کافر کہ کر گردنیں کاٹ رھے ھیں