عمران خان کے دو رخ، سماجی اور سیاسی

Syed Anwer Mahmood

MPA (400+ posts)
تاریخ: 20 جون 2017


29vc5fl.jpg


عمران خان کے دو رخ، سماجی اور سیاسی
سید انور محمود

چیمپئز ٹرافی کےفائنل سے ایک روز پہلے پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان اور موجودہ سیاستدان ، پاکستان تحریک انصاف کے چیرمین عمران خان نے جیت کے لئے سرفراز احمد کو پہلے بیٹنگ کرنے کا مشورہ دیا تھا ۔سابق کپتان کا کہناتھاکہ پاکستان کی طاقت اس کی بولنگ ہے،اس لئے اسے پہلے بیٹنگ کرکے بڑا ٹارگٹ سیٹ کرنا چاہیے۔ اتفاق کی بات ہے کہ فائنل کا ٹاس بھارت نے جیتا اور بھارتی کرکٹ ٹیم کے کپتان ویرات کوہلی نے پاکستان کو پہلے بیٹنگ کرنے کو کہا، کرکٹ کے ماہرین کا کہنا تھا بھارتی کپتان کا یہ فیصلہ غلط تھا اور پاکستان کے سابق کپتان اور 1992 کے ورلڈکپ کے فاتح عمران خان ایسا ہی چاہتے تھے ۔بھارت کو اپنے غلط فیصلے کی سزا ملی اور پاکستانی شاہینوں نے شاندار بیٹنگ، بولنگ، فیلڈنگ سے بھارت کو 180رنز کی عبرتناک شکست دی اور چیمپئز ٹرافی پاکستان لے آئے۔اس شاندار جیت کے بعد ایک بات جو سامنے آئی وہ یہ ہے کہ آج بھی کرکٹ میں عمران خان کے مشورئے کامیابی کی کنجی ہیں۔

ورلڈکپ کے فاتح بننے سے پہلےعمران خان نے اپنی والدہ کے کینسر کے موزی مرض کی وجہ سے مرنے پرعام اور غریب لوگوں کےلیے ایک کینسر ہسپتال بنانے کا سوچا اور وہ لاہورمیں ایک کینسر ہسپتال بنانے میں کامیاب ہوگئےاوراب ایک کراچی اور ایک پشاور میں کینسر ہسپتال عمران خان کی قیادت میں زیر تعمیر ہیں۔ آکسفورڈ کے تعلیم یافتہ عمران خان تعلیم کی اہمیت سے بھی بہت اچھی طرح واقف ہیں لہذا انہوں نمل کالج کی تعمیر 2006میں شروع کی اور کالج کا افتتاح سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے 2008 میں کیا۔ نمل کالج کے ساتھ بریڈفورڈ یونیورسٹی آف لندن کاالحاق ہے جس کی بدولت طلباپاکستان ہی میں بریڈ فورڈ یونیورسٹی کی ڈگری نمل کالج سے حاصل کرنے کے قابل ہوئے۔ پاکستان کے عوام عمران خان کی ان سماجی خدمات کی بہت قدر کرتے ہیں۔ پاکستان میں سماجی خدمات کے حوالے سے مرحوم عبدالستار ایدھی اور ڈاکٹر ادیب رضوی کے بعد سب سے زیادہ سماجی خدمات عمران خان کی ہی نظر آتی ہیں۔

عمران خان سماجی رہنما کے علاوہ اب پاکستان کے ایک بڑئے سیاسی رہنما بھی بن چکے ہیں، انکی سیاسی جماعت اس وقت پاکستان کی قومی اسمبلی میں تیسرئے نمبر پر ہے، صوبہ خیبر پختونخوا میں انکی جماعت تحریک انصاف نے جماعت اسلامی کو ملاکر حکومت بھی بنائی ہوئی ہے۔عمران خان نے 25 اپریل، 1996 کو تحریک انصاف قائم کرکے سیاسی میدان میں قدم رکھا ایک عرصے تک سیاست میں ان کو کوئی کامیابی نہیں ملی، سابق صدر جنرل پرویز مشرف کا بھی ساتھ دیا بعد میں ان کی مخالفت شروع کردی۔ 2002 کے انتخابات میں تحریک انصاف کو پہلی مرتبہ قومی اسمبلی کی صرف ایک سیٹ ملی تھی، کامیاب ہونے والے خود عمران خان تھے، اس وقت کہا جاتا تھا کہ یہ جنرل پرویز مشرف کی مہربانی تھی۔عمران خان نے 2008 کے انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا جو ان کی ایک سیاسی غلطی تھی۔ اکتوبر2011 میں لاہور میں ہونے والے ایک جلسہ عام کی کامیابی سے ان کی سیاسی زندگی کا ایک نیا باب شروع ہوا جس میں تحریک انصاف عوامی مقبولیت حاصل کرنے لگی۔ مئی 2013 کے انتخابات میں عمران خان اپنی توقع سے بہت کم نشستیں حاصل کر پائے، البتہ خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومت حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔ یہ وہ موقع تھا ،جب عمران خان اپنے صوبہ میں گڈ گورننس کی نئی مثال قائم کرکے اور خیبر پختونخوا کو ایک ترقی یافتہ صوبہ بنا کر ثابت کر سکتے تھے کہ اگر انہیں پاکستان کی حکومت مل جائے تو وہ اسے ترقی یافتہ اور خوش حال ملک بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔ لیکن عمران خان اس میں ناکام رہے اور چار سال بعد بھی وہ اپنے صوبے کومثالی نہ بناسکے۔

پاکستان ایک عرصے سے دہشتگردی کا شکار ہے، پاکستان میں سب سے زیادہ دہشتگردی طالبان دہشتگردوں نے کی ہے اب تک 70 ہزار سے زیادہ پاکستانی دہشتگردی کا شکار ہوئے ہیں۔ 11مئی 2013 کے انتخابات سے قبل عمران خان بار بار یہ مطالبہ کررہے تھے کہ طالبان سے مذاکرات کیے جایں۔طالبان نےمذاکرات کے لیے عمران خان کو ہی اپنا نمایندہ قرار دئے دیا تھا، طالبان کے اس اعلان سے پوری پاکستانی قوم کو یہ معلوم ہوگیا تھاکہ خان صاحب طالبان کے پکے ہمدرد ہیں۔2013 میں عمران خان مذاکرات اور طالبان کےدفتر کا راگ الاپ رہے تھے، ان کا کہنا تھا کہ طالبان سے مذاکرات کےلیے اس کا ایک دفتر ہونا ضروری ہے۔ آپریشن ضرب عضب سےپہلے تک عمران خان مسلسل لوگوں کو یہ کہہ کر گمراہ کرتے رہے کہ نو سال میں کچھ نہیں ہوااور پچاس ہزار افراد مارئے گے اس لیے مذاکرات ہی وہ راستہ ہے جس سے امن آسکتا ہے۔ آپریشن ضرب عضب کے بعد بھی طالبان سے عمران خان کی ہمدردیاں ختم نہیں ہویں، لہذا تحریک انصاف کی خیبرپختونخوا حکومت نے 2016-17 کے صوبائی بجٹ میں 30 کروڑ روپے کی خطیررقم دارالعلوم حقانیہ کےلیے مختص کی ہے جس کے سربراہ مولانا سمیع الحق ہیں جو بڑئے فخر سے اپنے آپ کو طالبان کا باپ کہتے ہیں۔عمران خان نے بڑئے کمزور انداز میں اس فیصلے کا دفاع ایک ٹی وی انٹرویو میں یہ کہتے ہوئے کیا کہ ’’اس سے انتہا پسندی پر قابو پانے میں مدد ملے گی‘‘۔

کہا جاتا ہے کہ اکیس سال سے عمران خان کی اصل سیاست کا مقصد یہ ہے کہ وہ قومی اسمبلی میں اکثریت حاصل کرکے ملک کے وزیراعظم بن جایں، لیکن گذشتہ چار سال میں ان کی اور ان کی جماعت کی مصروفیات دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہےکہ ایسا شاید 2018 کے انتخابات میں بھی نہ ہوپائے۔سوال کیا جاسکتا ہے کہ ایسا کیوں؟ جواب یہ ہے کہ’’ گذشتہ چارسال میں عمران خان نے 2014 میں اسلام آباد میں دھرنا دیا جس کی وجہ انہوں نے انتخابات میں دھاندلی بتائی لیکن 126 دن کے دھرنے کے باوجود عمران خان کچھ حاصل نہ کرپائے، جب 16 دسمبر کو پشاور کے آرمی اسکول میں دہشتگردی ہوئی اور 132 بچے شہید ہوئے تو انہوں نے دھرنا ختم کیا۔ سال 2016 میں وہ 2 نومبر کو پاناما لیکس کو بنیاد بناکر اسلام آباد کو لاک ڈاون کرنا چاہتے تھے ، پورا پاکستان پریشان تھا کہ یکم نومبر کو سپریم کورٹ کے ایکشن کے باعث وہ اسلام آباد کو بند نہ کرسکے۔لاہورمیں 5 مارچ کو ہونے والے ”پاکستان سُپر لیگ“ کے فائنل کو انہوں نے ’پاگل پن‘ قرار دیا، اور فائنل ہونے کے بعد انہوں نے غیر ملکی کھلاڑیوں کو ’پھٹیچر‘ کا خطاب دئے ڈالا، جس کے بعدپورئے ملک میں ان کے اس بیان کی مذمت کی گئی۔عمران خان مانیں یا مانیں وہ لاہور میں پی ایس ایل کے فائنل کے انعقاد کی مخالفت کرکے اور قذافی اسٹیڈئم نہ جاکر بدترین سیاسی غلطی کرگئے جس کا نتیجہ 2018 کے انتخابات میں انکو ملے گا‘‘۔

آجکل عمران خان اپنی جماعت میں پیپلز پارٹی کے لوٹوں کا استقبال کررہے ہیں، اورشاید وہ سمجھتے ہیں کہ 2018 کے انتخابات میں یہ لوٹے انکے کام آینگے ۔ لیکن یہ سارے کرپٹ لوٹے ہیں ۔ فردوس عاشق اعوان اور پیپلز پارٹی کے دوسرئے لوٹوں کو تحریک انصاف میں شامل کرنا ثابت کرتا ہے کہ عمران خان نواز شریف یا آصف علی زرداری کے طرز سیاست کو اپنا رہے ہیں۔ فردوس عاشق اعوان کسی بھی جماعت میں ہوں وہ ہر سیاسی جماعت میں شدت سے اپنی موجودگی کا احساس دلاتی ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت کے بعد بھی وہ ایسا ہی کریں گی جس سے نہ صرف تحریک انصاف کی خواتین سیاسی کارکن بلکہ عمران خان کے قریبی ساتھی بھی ان سے ناخوش ہو سکتے ہیں۔

بات صرف اتنی ہے کہ عمران خان کے دو رخ ہیں ایک سماجی دوسرا سیاسی، سماجی رہنما کے طور پر وہ ایک کامیاب انسان ہیں، پوری قوم ان کی مشکور ہے لیکن سیاستدان کے طور پر وہ مکمل ناکام ہیں، انکی ناکامی اس طرح بھی ظاہر ہوتی ہے کہ وہ اپنے موقف کو بہت جلدی بدل لیتے ہیں جس کی وجہ سے لوگ انہیں’ یو ٹرن خان ‘ بھی کہتے ہیں، اپنی پارٹی کے وہ رہنما کم ڈکٹیٹر زیادہ لگتے ہیں۔ وہ سیاست میں آنا نہیں چاھتے تھے جس کا اظہار بھی سیاست میں آنے سے قبل انہوں نے کیا تھا، لیکن شاید وزیراعظم بننے کی خواہش انہیں سیاست میں لے آئی۔

 

GreenMaple

Prime Minister (20k+ posts)
تو پھر آپ کی منطق سے تو لوٹا کلکٹر نواز، زرداری اور فضلو کامیاب سیاستدان ٹھہرے جن کی آج کل کتے والی ہو رہی ہے
 

desan

President (40k+ posts)
You have to thank Khan for coming into politics to help increase the size of your Lifafas!!!
 
Last edited:

eye-eye-PTI

Chief Minister (5k+ posts)
تمھارے جیسے چول اور خبطی بابوں کی زہر اگلتی قلم سے عمران خان کو کوئی خاص فرق نہیں پڑنے والا

تم سے بڑھ کے اور بھی چمچے کڑچھے اس ملک میں موجود ہیں جو عمران خان کی سیاست کو ہدف بناتے ہیں

تمہاری اطلاع کے لئے عرض ہے یہ عمران خان ہی کی حکومت ہے جس نے ملک کے سب سے تباہ حال صوبے میں مثالی پولیس بنا کے امن قائم کیا اور اسکی تعریف خبطی بابوں کے علاوہ ملک کا ہر شخص کر رہا ہے حتی کہ عمران خان کے سیاسی مخالفین بھی

یہ عمران خان کی ہی حکومت ہے جس نے سب سے زیادہ تعلیم پر زور دیا اور صوبے میں سب سے زیادہ بجٹ تعلیم پر خرچ کیا

یہ عمران خان ہی کی حکومت ہے جس نے صوبے میں ملک کا سب سے بہترین بلدیاتی نظام دیا اور اقتدار کو حقیقی معنوں میں نچلی سطح تک منتقل کیا ، آج پورے صوبے میں ضلعی حکومتیں گاؤں کی سطح تک ترقیاتی کام خود کروا رہی ہیں نہ کے لوگ ایم پی اے ایم این ایز کا طواف کر رہے ہیں

یہ عمران خان ہی کی حکومت ہے جس نے ایک صوبے میں ایک ارب درخت لگانے کا بلین ٹری سونامی منصوبہ شروع کیا جس میں ٨٠ کروڑو سے زیادہ درخت لگائے جا چکے ہیں اور نون لیگ، پیپل پالٹی اور خبطی بابوں کے علاوہ پوری دنیا اسکی معترف ہے ، خیبر پختونخواہ حکومت کو اس ضمن میں بون چیلنج کانفرنس میں سرٹیفکیٹ بھی ملا ہے

یہ عمران ہی کی حکومت ہے جو صوبے بھر میں بارھویں جماعت تک تعلیم اور کتابیں مفت فراہم کر رہی ہے

اسی عمران خان کی حکومت میں تعلیمی اصلاحات کی بدولت ایک لاکھ سے زیادہ بچے پرائویٹ سکولوں سے سرکاری سکولوں میں داخل ہوۓ ہیں

اسی عمران خان کی حکومت نے صوبے بھر کے تمام سکولوں میں قرآن کی تعلیم لازمی قرار دی ہے اور چھٹی سے لے کر دسویں تک قران کو ترجمے سے پڑھانا لازمی قرار دیا ہے

اسی عمران خان کی حکومت نے پورے صوبے میں ہیلتھ ریفارمز کی بدولت سرکاری ہسپتالوں کا میعار بلند کیا ہے اور پورے صوبے کو صحت انصاف کارڈ جاری کرنے کا کام شروع کر دیا ہے جس میں ہر خاندان کو سالانہ پانچ لاکھ چالیس ہزار روپے تک کی امداد دی جائے گی جس سے وہ اپنی مرضی کے کسی بھی پرائیویٹ یا سرکاری ہسپتال سے علاج کروا سکیں گے

اسی عمران خان کی حکومت نے ابتدائی طور پر تین سو چھپن مائیکرو ہائڈرو ڈیمز بنا کے پن بجلی کے منصوبے شروع کرنے کا اعلان کیا تھا جس سے خیبر پختونخواہ کے دور دراز علاقوں میں بلا تعطل، سستی اور صاف بجلی کی فراہمی یقینی بنانی تھی ، اس منصوبے کی کامیابی کو دیکھ کر ایشیائی ترقیاتی بینک کے تعاون سے اب ان ڈیمز کی تعداد ایک ہزار کی جا رہی ہے

اسی عمران خان کی حکومت نے صوبے میں سیاحت کو فروغ دینے کے لئے خاطر خواہ کام کئے ہیں اور پاکستان بھر سے سیاحوں کے علاوہ بیرون ملک سے بھی لوگ پاکستان آ رہے ہیں

اسی عمران خان کی حکومت کی زبردست ہیلتھ ریفارمز کی بدولت یورپ ، امریکہ اور عرب دنیا سے ڈاکٹرز نوکریاں چھوڑ کے پشاور آ چکے ہیں

اسی عمران خان نے پورے صوبے میں تعلیم کے بعد سب سے زیادہ بجٹ صحت کو دیا ہے

چار سالوں میں خیبر پختونخواہ میں عمران خان کی حکومت نے جتنا کام کیا ہے اتنا پچھلے ساٹھ سالوں میں کسی بھی حکومت نے نہیں کیا

اسی سیاسی عمران خان نے پورے ملک میں دھاندلی کو بے نقاب کیا تھا اور ایسا صرف اور صرف دھرنے کی وجہ سے ممکن ہوا تھا

آج یہی عمران خان اپنی انتھک محنت اور کوششوں کے بعد ملک کے سب سے بڑے ڈاکو کو پٹہ ڈال کے احتساب کے کٹہرے میں لے آیا ہے ، فکر نہ کرو انشاءاللہ یہی عمران خان صحافتی طوائفوں کے اڈے تباہ کرے اور تمام لفافوں کو جیلوں میں بھیجے گا

خدا کا خوف کرو ، ویسے تو جھوٹ بولنے سے باز نہیں آتے کم از کم رمضان میں ہی آ جاؤ

عمران وزیر اعظم بنے یا نہ بنے لیکن کچھ خبطی بابے پاگل ضرور ہو جائیں گے اور ان کا علاج بھی عمران خان کے بنائے ہوۓ ہسپتالوں میں ہی ہو گا
 
Last edited:

patriot

Minister (2k+ posts)
آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ دھرنے کا نتیجہ کچھ نہیں نکلا ؟ کیا دھرنے کی وجہ سے الیکشن میں دھاندلی کی تحقیقات نہیں ہوئی ؟
عمران خان کی وجہ سے آج شریف خاندان کی پیشیاں ہو رہی ہیں ۔ کرپشن نمبر ون ایشو بن چکا ہے ۔
لیکن آپ کی نظر میں وہ پھر بھی ناکام ہے ۔
الطاف حسین کامیاب ہے شائد ۔

 

dingdong

Banned
Yeh baba Bhi Apnay keeeray ke hathon yang hai aakhir Iska bhonkna IK parr hi kion hota hai Yeh qabarr mai tangain latkaa karr bhi Apna ratab Halal karta hai IK naay Iski kis ko .... kiya hai jo yeh usko mashwray bhi daita hai aur bhonkta hamesha IK aur PTI ke khilaf hai Lafafi Naswar frosh ki trah
 

dingdong

Banned
Iss Peer e fartoot kaa Keera isko sirff IK ke wastay tang karta hai Yeh laaanttti baba saaray mashwray apni ..... ke yaar ko kion daita
 

dingdong

Banned
Yeh Baba Khabti honay ke saath saath andha aur behra bhi hai iss Laaanti ko KPK ki tabdeeli sirff 4 saal wali nazar nahi aati isko dardd zah jo uthta hai woh sirff IK aur PTI ke khilaf uthta ai tooo kon mai khamkhwah
 

jee_nee_us

Chief Minister (5k+ posts)
There are only two agreeable things in this otherwise a trash piece of radical opinions.


Imran khan's insistence on having talks with talibans

Imran khan welcoming trash from peoples party and I believe PTI will suffer an irreversible dmage from likes of firdos ashiq and imtiaz safdar waraich.
 

gorgias

Chief Minister (5k+ posts)
محمود صاحب کی ایک بات بالکل درست ہے کہ وہ سیاست میں نہیں آنا چاہتا تھا لیکن شوکت خانم کے قیام کے بعد بے نظیر اور نواز شریف نے جس طریقے سے عمران خان کی کردار کشی اور شوکت خانم کے خلاف مہم چلائی اسے مجبوراً سیاست میں آنا پڑا کہ دونوں کا مقابلہ سیاست میں آئے بغیر نہیں ہو سکتا تھا۔ اور یہ تو پھر عالمگیر حقیقت ہے کہ جب کوئی سیاست میں آئے تو موقع ملنے پر وہ وزیر اعظم بھی بنتا ہے اب یہ تو نہیں ہو سکتا کہ کوئی پارٹی لیدر میجارٹی سے اسمبلی میں آئے لیکن اعلان کر دے کہ میں وزیر اعظم بنتا ہوں اور نہ ہی میری پارتی حکومت میں آئے گی۔

لیکن یہ بھی ریکارڈ پر ہے کہ عمران خان کئی بار یہ کہہ چکا ہے کہ شائد وہ کبھی وزیر اعظم نہ بن سکے۔ اگر نون والے یہ پروپگنڈا کرنے کہ عمران خان کو وزیر اعظم بننے کا شوق ہے تو وہ سیاسی حریف ہیں وہ کہہ سکتے ہیں لیکن فاضل کالم نگار بڑے متوازن آدمی ہیں ان سے ایسی توقع کم از کم میں نہیں کرتا تھا۔
محمود صاحب کی بات کہ وہ کامیاب سوشل ورکر ہے لیکن ناکام سیاست دان۔ اس سے ہمارے اس المیے کا پتا چلتا ہے کہ ہماری سیاست میں وہی کامیاب ہے جو بے ایمان، بدمعاش دھوکے باز اور چور ہے۔
 

Night_Hawk

Siasat.pk - Blogger
لفافوں کے لئیے خبطی ہونا پڑتا ہے۔
کیسے کیسے لوگ لفافوں کے لئیے کیا کچھ نہیں کرتے۔


 

bhutt-dari

Senator (1k+ posts)
there is a third dimension as well, which is, ilzaam khan, accusations and spread of false claims, and has never brought any
evidence, i.e., where is NS corruption ? only talking to win the next elections, i hope never.
 

Syed Anwer Mahmood

MPA (400+ posts)
محمود صاحب کی ایک بات بالکل درست ہے کہ وہ سیاست میں نہیں آنا چاہتا تھا لیکن شوکت خانم کے قیام کے بعد بے نظیر اور نواز شریف نے جس طریقے سے عمران خان کی کردار کشی اور شوکت خانم کے خلاف مہم چلائی اسے مجبوراً سیاست میں آنا پڑا کہ دونوں کا مقابلہ سیاست میں آئے بغیر نہیں ہو سکتا تھا۔ اور یہ تو پھر عالمگیر حقیقت ہے کہ جب کوئی سیاست میں آئے تو موقع ملنے پر وہ وزیر اعظم بھی بنتا ہے اب یہ تو نہیں ہو سکتا کہ کوئی پارٹی لیدر میجارٹی سے اسمبلی میں آئے لیکن اعلان کر دے کہ میں وزیر اعظم بنتا ہوں اور نہ ہی میری پارتی حکومت میں آئے گی۔

لیکن یہ بھی ریکارڈ پر ہے کہ عمران خان کئی بار یہ کہہ چکا ہے کہ شائد وہ کبھی وزیر اعظم نہ بن سکے۔ اگر نون والے یہ پروپگنڈا کرنے کہ عمران خان کو وزیر اعظم بننے کا شوق ہے تو وہ سیاسی حریف ہیں وہ کہہ سکتے ہیں لیکن فاضل کالم نگار بڑے متوازن آدمی ہیں ان سے ایسی توقع کم از کم میں نہیں کرتا تھا۔
محمود صاحب کی بات کہ وہ کامیاب سوشل ورکر ہے لیکن ناکام سیاست دان۔ اس سے ہمارے اس المیے کا پتا چلتا ہے کہ ہماری سیاست میں وہی کامیاب ہے جو بے ایمان، بدمعاش دھوکے باز اور چور ہے۔
آپکا بہت شکریہ تمیز سے تبصرہ کرنے کا۔سب سے پہلے میں معذرت چاہتا ہوں کہ آپکو میرئے کالم میں عمران خان کے حوالے سے بہت سی باتیں پسند نہیں آیں۔ پہلی بات یہ کہ خان صاحب پر قطعی یہ قدغن نہیں ہے کہ وہ وزیر اعظم نہیں بن سکتے اور میں نے کہیں ایسا لکھا بھی نہیں ہے، میں نے لکھا ہے کہ ’’گذشتہ چار سال میں ان کی اور ان کی جماعت کی مصروفیات دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہےکہ ایسا شاید 2018 کے انتخابات میں بھی نہ ہوپائے‘‘۔ پہلی بات میں نے کوئی پیشن گوئی نہیں کی ’شاید‘ کا لفظ استمال کیا ہے اور پھر میں نے خود ہی ایک سوال اٹھایا کہ ایسا کیوں؟ اس کے جواب میں بہت سی وجوہات لکھی ہیں، جو ہوئیں ہیں، مثلاً ”پاکستان سُپر لیگ“ کے فائنل کو انہوں نے ’پاگل پن‘ قرار دیا، اور فائنل ہونے کے بعد انہوں نے غیر ملکی کھلاڑیوں کو ’پھٹیچر‘ کا خطاب دئے ڈالا، جس کے بعدپورئے ملک میں ان کے اس بیان کی مذمت کی گئی‘‘۔صوبائی بجٹ میں 30 کروڑ روپے کی خطیررقم دارالعلوم حقانیہ کےلیے مختص کی ہے جس کے سربراہ مولانا سمیع الحق ہیں جو بڑئے فخر سے اپنے آپ کو طالبان کا باپ کہتے ہیں۔عمران خان نے بڑئے کمزور انداز میں اس فیصلے کا دفاع ایک ٹی وی انٹرویو میں یہ کہتے ہوئے کیا کہ ’’اس سے انتہا پسندی پر قابو پانے میں مدد ملے گی‘‘۔

عمران خان کو تحریک انصاف میں پیپلز پارٹی کے لوٹے لانے کوئی ضرورت نہیں ہے، پاکستان میں بہت لوگ موجود ہیں لیکن جناب خان صاحب اپنا رویہ درست کریں اور لوگوں کی عزت کریں۔ اور بھائی اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو پھر جو وہ کررہے ہیں صیح ہوگا۔ یقین کریں آدھی پیپلز پارٹی نے بھٹوصاحب کو کہا کہ ’کوثر نیازی‘ کو پارٹی میں شریک نہ کریں لیکن بھٹو صاحب نہ مانے اور جیسے ہی جنرل ضیاء نے بھٹو سے اقتدار چھینا کوثر نیازی چوتھے دن جنرل ضیاء کے دربار میں تھا۔ اب بھی اگر آپ سمجھتے ہیں کہ پیپلز پارٹی کے لوٹے عمران خان کو فائدہ پہنچاینگے تو صرف دعا کی جاسکتی ہے۔

میں کسی نئے مضمون میں لکھنا چاہ رہا تھا مگر اب یہاں لکھ دیتا ہوں کہ ’’ پاناما پیپرز میں نواز شریف ایک بدعنوان رہنما ثابت ہوچکے ہیں اور انکا جانا ضروری ہوگیا تھا، لیکن چمک اپنا کام کر گئی اور دو اور تین کا فیصلہ نواز شریف کو بچاگیا، اورآجکل جو نورا کشتی جے آئی ٹی اور مسلم لیگ کے درمیان چل رہی وہ پہلے سے طے شدہ ہے۔۔۔۔۔ اس پاناما پیپرز کیس کے بعد سیاسی طور پر نواز شریف بہت کمزور ہوگے ہیں ، عمران خان ایک اچھے اور مظبوط امیدوار ہوتے 2018 میں لیکن عمران خان روز اپنا موقف بدل لیتے ہیں جس کا فائدہ 2018 میں نواز شریف کو پہنچے گا۔عمران خان کا مسلہ یہ ہے کہ وہ نواز شریف کے ساتھ سیاست ایسے کررہے جیسے کرکٹ کھیل رہے ہوں، باقی زرداری سے تو پورئے سندھ کے لوگ پریشان ہیں، رہی ایم کیو ایم وہ اپنی طاقت کھوچکی ہے۔ اس لیے عمران خان کو چاہیے کہ اپنی سیاست کے بارئے عوام سے رائے لے۔
باقی آپکے زریعے اس فورم پر جو عمران کے متوالے ہیں اور مجھے گالیاں دئے رہے ہیں ان کو میری بہت ساری دعایں۔
آپکے تبصرئے کا ایک بار پھر شکریہ۔

 

patriot

Minister (2k+ posts)
آپ کی اس بات میں وزن ہے کہ پیپلز پارٹی کے ناکام لوگوں کو قبول کر کے تحریک کو نقصان ہو سکتا ہے لیکن اچھے کیریکٹر والے شریف لوگ پاکستانی سیاست کے جوہڑ میں داخل ہونے سے ڈرتے ہیں اور مذید یہ کہ ہماری عوام ابھی اتنی باشعور نہیں ہوئی کہ کسی نظریے کو ووٹ کریں۔ آج بھی لوگ اپنے علاقے کے با اثر اشخاص کو ہی منتخب کر کے اسمبلیوں میں ببھیجتے ہیں بعد میں چاہے پانچ سال ان کو گالیاں دیتے رہیں ۔ ۔۔۔۔۔۔ پی ایس ایل کے فائنل کے متعلق خان صاحب نے کہا تھا کہ اگر تو انٹرنیشل کرکٹ کو لانے کے لیئے کروا رہے ہیں تو یہ پاگل پن ہے کیونکہ اتنی سکیوریٹی میں میچ کروانے سے دنیا کو یہ تاثر جائے گا کہ پاکستان محفوظ نہیں ہے ۔ اب اس میں کیا غلط تھا؟ اگر کروانا ہی تھا اور ملک محفوظ تھا تو تمام پی ایس ایل کیوں نہیں؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ طالبان سے مزاکرات دوسری پآرٹیاں بھی کرنا چاہ رہی تھیں اور یہ بات صحیح ہے کہ تحریک اس میں پیش پیش تھی ۔ آپ کو ماننا پڑے گا کہ ان مزاکرات کے نتیجے میں طالبان میں آپس میں پھوٹ پڑ گئی اور خانہ جنگی شروع ہو گئی جس کا فائدہ آخر حکومت کو ہوا ۔ ۔۔۔ آپ چیزوں کو اس زاویہ سے دیکھنے کی بھی کوشش کریں ۔ شکریہ ۔
 

gorgias

Chief Minister (5k+ posts)
آپکا بہت شکریہ تمیز سے تبصرہ کرنے کا۔سب سے پہلے میں معذرت چاہتا ہوں کہ آپکو میرئے کالم میں عمران خان کے حوالے سے بہت سی باتیں پسند نہیں آیں۔ پہلی بات یہ کہ خان صاحب پر قطعی یہ قدغن نہیں ہے کہ وہ وزیر اعظم نہیں بن سکتے اور میں نے کہیں ایسا لکھا بھی نہیں ہے، میں نے لکھا ہے کہ ’’گذشتہ چار سال میں ان کی اور ان کی جماعت کی مصروفیات دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہےکہ ایسا شاید 2018 کے انتخابات میں بھی نہ ہوپائے‘‘۔ پہلی بات میں نے کوئی پیشن گوئی نہیں کی ’شاید‘ کا لفظ استمال کیا ہے اور پھر میں نے خود ہی ایک سوال اٹھایا کہ ایسا کیوں؟ اس کے جواب میں بہت سی وجوہات لکھی ہیں، جو ہوئیں ہیں، مثلاً ”پاکستان سُپر لیگ“ کے فائنل کو انہوں نے ’پاگل پن‘ قرار دیا، اور فائنل ہونے کے بعد انہوں نے غیر ملکی کھلاڑیوں کو ’پھٹیچر‘ کا خطاب دئے ڈالا، جس کے بعدپورئے ملک میں ان کے اس بیان کی مذمت کی گئی‘‘۔صوبائی بجٹ میں 30 کروڑ روپے کی خطیررقم دارالعلوم حقانیہ کےلیے مختص کی ہے جس کے سربراہ مولانا سمیع الحق ہیں جو بڑئے فخر سے اپنے آپ کو طالبان کا باپ کہتے ہیں۔عمران خان نے بڑئے کمزور انداز میں اس فیصلے کا دفاع ایک ٹی وی انٹرویو میں یہ کہتے ہوئے کیا کہ ’’اس سے انتہا پسندی پر قابو پانے میں مدد ملے گی‘‘۔

عمران خان کو تحریک انصاف میں پیپلز پارٹی کے لوٹے لانے کوئی ضرورت نہیں ہے، پاکستان میں بہت لوگ موجود ہیں لیکن جناب خان صاحب اپنا رویہ درست کریں اور لوگوں کی عزت کریں۔ اور بھائی اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو پھر جو وہ کررہے ہیں صیح ہوگا۔ یقین کریں آدھی پیپلز پارٹی نے بھٹوصاحب کو کہا کہ ’کوثر نیازی‘ کو پارٹی میں شریک نہ کریں لیکن بھٹو صاحب نہ مانے اور جیسے ہی جنرل ضیاء نے بھٹو سے اقتدار چھینا کوثر نیازی چوتھے دن جنرل ضیاء کے دربار میں تھا۔ اب بھی اگر آپ سمجھتے ہیں کہ پیپلز پارٹی کے لوٹے عمران خان کو فائدہ پہنچاینگے تو صرف دعا کی جاسکتی ہے۔

میں کسی نئے مضمون میں لکھنا چاہ رہا تھا مگر اب یہاں لکھ دیتا ہوں کہ ’’ پاناما پیپرز میں نواز شریف ایک بدعنوان رہنما ثابت ہوچکے ہیں اور انکا جانا ضروری ہوگیا تھا، لیکن چمک اپنا کام کر گئی اور دو اور تین کا فیصلہ نواز شریف کو بچاگیا، اورآجکل جو نورا کشتی جے آئی ٹی اور مسلم لیگ کے درمیان چل رہی وہ پہلے سے طے شدہ ہے۔۔۔۔۔ اس پاناما پیپرز کیس کے بعد سیاسی طور پر نواز شریف بہت کمزور ہوگے ہیں ، عمران خان ایک اچھے اور مظبوط امیدوار ہوتے 2018 میں لیکن عمران خان روز اپنا موقف بدل لیتے ہیں جس کا فائدہ 2018 میں نواز شریف کو پہنچے گا۔عمران خان کا مسلہ یہ ہے کہ وہ نواز شریف کے ساتھ سیاست ایسے کررہے جیسے کرکٹ کھیل رہے ہوں، باقی زرداری سے تو پورئے سندھ کے لوگ پریشان ہیں، رہی ایم کیو ایم وہ اپنی طاقت کھوچکی ہے۔ اس لیے عمران خان کو چاہیے کہ اپنی سیاست کے بارئے عوام سے رائے لے۔
باقی آپکے زریعے اس فورم پر جو عمران کے متوالے ہیں اور مجھے گالیاں دئے رہے ہیں ان کو میری بہت ساری دعایں۔
آپکے تبصرئے کا ایک بار پھر شکریہ۔


جواب کا بہت شکریہ۔ میں نے آپ کے کالم بہت کم پڑھے ہیں لیکن آپ کی رائے میں ایک توازن موجود ہوتا ہے۔باقی اختلاف رائے تو ہوتا ہے اور ہونا چاہیے کہ اسی سے سوچ اور شعور کی راہیں کھلتی ہیں۔ ہماری سیاست کی بد قسمتی ہے کہ ہم لوگ اپنے محبوب سیاسی لیڈر کو نعوذ باللہ پیغمبر سمجھ لیتے ہیں اور ان کے خلاف کوئی بات برداشت نہیں کرتے۔ یہ کلچر ختم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہم بغیر کسی عصبیت میں آئے اچھے حکمران منتخب کر سکیں۔اب یہاں تو حالت یہ ہے کہ نواز شریف چور ہے زرداری ڈاکو ہے لیکن ووٹ اسی کو دینا ہے۔ایسے میں تو ملک ترقی نہیں کر سکتا۔سر ونسٹنٹ چرچل نے جنگ عظیم جیتی لیکن جنگ کے فوراً بعد ہونے والے انتخابات میں شکست سے دوچار ہوا۔ کسی نے برطانوی شہری سے پوچھا آپ نے چرچل کو ووٹ کیوں نہیں دیے۔ وہ بولا برطانیہ کی تعمیر نو کے بارے میں چرچل سے زیادہ اچھی پالیسی اس کے مخالف کی تھی اس لیے ہم نے انہیں ووٹ دیا ہمارے نزدیک چرچل نہیں برطانیہ اہم ہے۔
جب تک ہم میں یہ جذبہ پیدا نہیں ہوگا ہم عظیم قوم نہیں بن سکتے۔

ذاتی طور پر میرا خیال ہے کہ نواز شریف اور زرداری اس قوم کے لیے ناسور ہیں اور دونوں ہی ملک کو لوٹنے میں مصروف ہیں۔ کے پی میں عمران کی حکومت ہے اور بہت سے لوگوں کے نزدیک پی ٹی آئی کی کارکردگی مثالی نہیں۔ لیکن ایسا نہیں۔ عمران کی پالیسیاں شارٹ ٹرم نہیں۔ بلین ٹری میں لگائے گئے پودے اب بمشکل دو دو فٹ بڑے ہوئے ہیں پشاور کے نواحی علاقے زنگلی میں جہاں پہلے ایک صحرا تھا بھوری مٹی کے ڈھیر تھے اب وہاں سبزہ ہی سبزہ ہے لیکن ابھی بھی اسے میچور ہونے میں کافی وقت لگے گا۔ تعلیمی اصطلاحات کے نتائج آنے میں بھی بہت وقت لگے گا ہسپتالوں اور صحت کے شعبے میں اصلاحات۔ پولیس کو بہتری کی طرف لے جانے میں اہم قدم یہ تھا کہ اس میں سرکاری مداخلت ختم کی جائے وہ ختم ہو گئی اب مزید ٹریننگ وغیرہ ہو رہی ہے انشا اللہ اور بھی بہتری آجائے گی، میں پشاور میں رہتا ہوں مجھے ایم ایم اے اور اے این پی کے دور سے زیادہ اس حکومت میں کافی بہتری نظر آرہی ہے۔

جہاں تک پیپلز پارٹی کے لوگوں کی بات ہے۔ اس سے اس حد تک اتفاق ہے کہ جو لوگ پی ٹی آئی میں آرہے ہیں وہ کیسے لوگ ہین۔ میں فردوس عاشق، نذر گوندل اور راجا ریاض جیسے لوگو ں کی پی ٹی آئی میں آمد سے خوش نہیں۔ لیکن نور عالم خان ایک اچھا اضافہ ہے کہ اس کی جنرل ریپوٹیشن بہت اچھی ہے اپنے علاقے میں قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھا جاتاہے۔

کرکٹ کی بات یوں ہے کہ عمران نے کبھی پی ایس ایل کی مخالفت نہیں کی۔ وہ اس وقت سے علاقائی کرکٹ کی بات کرتا تھا جب ڈیپارٹمنٹل کرکٹ عروج پر تھی۔ پی آئی اے کی ٹیم چیمپیئن ہوتی تھی۔ حبیب بینک، الائڈ بینک، واپڈا ریلوے سوئی گیس کی کرکٹ ٹیمیں تھیں اور یہ اپنے پلیئرز کو بہت اچھا پیکج دیتے تھے۔ ایسے میں عمران خان اور ماجد خان پی آئی اے کی ٹیم چھوڑ کر لاہور کی ٹیم میں چلے گئے اور لاہور کو پہلی بار ویلز کپ کے فائینل تک پہنچایا۔ اب بھی عمران کا یہ کہنا ہے کہ کرکٹ کو زندگی صرف علاقائی ٹیمیں دے سکتی ہیں۔ عمران نے صرف فایئنل میچ کی لاہور میں کھیلنے کی مخالفت کی تھی کیوں کہ ان دنوں ملک میں ایک بار پھر دہشت گردی کی ایک لہر اُٹھی تھی۔ ایسے میں اگر خدا نخواستہ کچھ ہو جاتا تو کرکٹ پاکستان سے ایک طویل عرصے کے لیے رخصت ہو جاتی۔ اب اگر آپ جیسا ذمہ دار شخص بھی اسپروپیگنڈے کاحصہ بن جائیں کہ عمران خان سرے سے پی ایس ایل کے خلاف ہے تو بات کچھ بنتی نہیں۔ اہم تو سوشل میڈیا پر دل کی بھڑاس نکالتے ہیں لیکن آپ اوپینیئن میکر ہیں۔آپ رائے عامہ بناتے بھی ہیں اور بگاڑتے بھی ہیں اس لیے آپ پر زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔
اسی طرح ریلوکٹے اور پھٹیچر پر سیاسی مخالفین خصوصاً نون لیگ والے زیادہ گرم ہوئے لیکن کسی کرکٹر نے اس پر کوئی بات نہیں کی کیوں کہ وہ سمجھتے تھے کہ اس کا کیا مطلب ہے

جہاں تک اس آبزرویشن کا تعلق ہے۔ کہ عمران کو سیاست نہیں آتی۔ تو اسی سچائی نے تو نواز اور زرداری کی کرپشن کو اہم ایشو بنایا اور نواز شریف جو تین نسلوں کےاحتساب کا راگ الاپتے نہیں تھکتے پہلی بار گھسیٹ کر عدالت میں لائے گئے ہیں۔ اگر اب بھی قوم نواز شریف کو ووٹ دیتی ہے تو پھر اس قوم پر عذاب نازل نہ ہونے کی کوئی وجہ نہیں۔

اس فورم پر میرے دوستوں نے آپ کے لیے اچھےالفاظ استعمال نہیں کیے اس پر میں آپ سے معذرت کرتا ہوں۔
 
Last edited:

gorgias

Chief Minister (5k+ posts)
آپکا بہت شکریہ تمیز سے تبصرہ کرنے کا۔سب سے پہلے میں معذرت چاہتا ہوں کہ آپکو میرئے کالم میں عمران خان کے حوالے سے بہت سی باتیں پسند نہیں آیں۔ پہلی بات یہ کہ خان صاحب پر قطعی یہ قدغن نہیں ہے کہ وہ وزیر اعظم نہیں بن سکتے اور میں نے کہیں ایسا لکھا بھی نہیں ہے، میں نے لکھا ہے کہ ’’گذشتہ چار سال میں ان کی اور ان کی جماعت کی مصروفیات دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہےکہ ایسا شاید 2018 کے انتخابات میں بھی نہ ہوپائے‘‘۔ پہلی بات میں نے کوئی پیشن گوئی نہیں کی ’شاید‘ کا لفظ استمال کیا ہے اور پھر میں نے خود ہی ایک سوال اٹھایا کہ ایسا کیوں؟ اس کے جواب میں بہت سی وجوہات لکھی ہیں، جو ہوئیں ہیں، مثلاً ”پاکستان سُپر لیگ“ کے فائنل کو انہوں نے ’پاگل پن‘ قرار دیا، اور فائنل ہونے کے بعد انہوں نے غیر ملکی کھلاڑیوں کو ’پھٹیچر‘ کا خطاب دئے ڈالا، جس کے بعدپورئے ملک میں ان کے اس بیان کی مذمت کی گئی‘‘۔صوبائی بجٹ میں 30 کروڑ روپے کی خطیررقم دارالعلوم حقانیہ کےلیے مختص کی ہے جس کے سربراہ مولانا سمیع الحق ہیں جو بڑئے فخر سے اپنے آپ کو طالبان کا باپ کہتے ہیں۔عمران خان نے بڑئے کمزور انداز میں اس فیصلے کا دفاع ایک ٹی وی انٹرویو میں یہ کہتے ہوئے کیا کہ ’’اس سے انتہا پسندی پر قابو پانے میں مدد ملے گی‘‘۔

عمران خان کو تحریک انصاف میں پیپلز پارٹی کے لوٹے لانے کوئی ضرورت نہیں ہے، پاکستان میں بہت لوگ موجود ہیں لیکن جناب خان صاحب اپنا رویہ درست کریں اور لوگوں کی عزت کریں۔ اور بھائی اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو پھر جو وہ کررہے ہیں صیح ہوگا۔ یقین کریں آدھی پیپلز پارٹی نے بھٹوصاحب کو کہا کہ ’کوثر نیازی‘ کو پارٹی میں شریک نہ کریں لیکن بھٹو صاحب نہ مانے اور جیسے ہی جنرل ضیاء نے بھٹو سے اقتدار چھینا کوثر نیازی چوتھے دن جنرل ضیاء کے دربار میں تھا۔ اب بھی اگر آپ سمجھتے ہیں کہ پیپلز پارٹی کے لوٹے عمران خان کو فائدہ پہنچاینگے تو صرف دعا کی جاسکتی ہے۔

میں کسی نئے مضمون میں لکھنا چاہ رہا تھا مگر اب یہاں لکھ دیتا ہوں کہ ’’ پاناما پیپرز میں نواز شریف ایک بدعنوان رہنما ثابت ہوچکے ہیں اور انکا جانا ضروری ہوگیا تھا، لیکن چمک اپنا کام کر گئی اور دو اور تین کا فیصلہ نواز شریف کو بچاگیا، اورآجکل جو نورا کشتی جے آئی ٹی اور مسلم لیگ کے درمیان چل رہی وہ پہلے سے طے شدہ ہے۔۔۔۔۔ اس پاناما پیپرز کیس کے بعد سیاسی طور پر نواز شریف بہت کمزور ہوگے ہیں ، عمران خان ایک اچھے اور مظبوط امیدوار ہوتے 2018 میں لیکن عمران خان روز اپنا موقف بدل لیتے ہیں جس کا فائدہ 2018 میں نواز شریف کو پہنچے گا۔عمران خان کا مسلہ یہ ہے کہ وہ نواز شریف کے ساتھ سیاست ایسے کررہے جیسے کرکٹ کھیل رہے ہوں، باقی زرداری سے تو پورئے سندھ کے لوگ پریشان ہیں، رہی ایم کیو ایم وہ اپنی طاقت کھوچکی ہے۔ اس لیے عمران خان کو چاہیے کہ اپنی سیاست کے بارئے عوام سے رائے لے۔
باقی آپکے زریعے اس فورم پر جو عمران کے متوالے ہیں اور مجھے گالیاں دئے رہے ہیں ان کو میری بہت ساری دعایں۔
آپکے تبصرئے کا ایک بار پھر شکریہ۔


آپ کا بہت شکریہ کہ آپ نے مجھے اس قابل سمجھا کہ میری پوسٹ کا جواب دیا۔

 

Back
Top