maksyed
Siasat.pk - Blogger
عمران خان کے خلاف قلمی تاجر
توفیق بٹ
کیمبرج یونیورسٹی کے ایک سروے کے مطابق پاکستان میں 77 فی صد لوگ نظام کی تبدیلی چاہتے ہیں اور 61 فی صد لوگ تبدیلی کی صورت میں عمران خان کو برسر اقتدار دیکھنا چاہتے ہیں۔ مختلف ایجنسیوں اور اداروں کی جانب سے کئے جانے والے سروے کس قدر حقائق پر مبنی ہوتے ہیں اس حوالے سے میری کوئی تحقیق نہیں ہے مگر ہر انسان کا اپنا اپنا مشاہدہ بھی ہوتا ہے اور وہ ارد گرد کے حالات کے مطابق ہوتا ہے۔ کسی ذاتی مفاد یا کسی بھی اور وجہ سے زبانی یا تحریری طور پر تو اس مشاہدے میں ڈنڈی ماری جا سکتی ہے مگر اصل بات سے دل واقف ہوتا ہے سو آج اگر کچھ قلمی تاجر تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کی ذاتی یا سیاسی لحاظ سے کردار کشی پر مقرر ہوئے ہیں تو میرے خیال میں اس سے عمران خان کو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ لیکن کسی لمحے ان قلمی تاجروں کا ضمیر جاگ گیا تو دل ہی دل میں شرمندہ ضرور ہوں گے کہ پاکستان کے عوام کے جذبات سے انہوں نے کھیلا اور یہ کھیل وہ کوئی آج سے نہیں کھیل رہے۔ عوام کے بجائے ہمیشہ اہل اقتدار کی انہوں نے سپورٹ کی، کبھی تقریری تو کبھی تحریری صورت میں۔ لفافے کے عوض چند جملے لکھ دئیے۔ کسی عزیز کی نوکری کے عوض پورا کالم تحریر کر دیا۔ پلاٹ کے عوض چند کالم اور اگر کسی صاحب اقتدار نے فل پیکج طے کر لیا تو پھر جب تک وہ اقتدار میں رہا اُسی کے گن گاتے رہے بلکہ طبلہ اور باجا بھی اُسی کا بجاتے رہے۔ تکلیف دہ معاملہ اُن کے لئے یہ ہے کہ عمران خان ایک کنجوس آدمی ہے، فی الحال کسی کو ایک بوتل تک پیش نہیں کر سکتا لفافہ پلاٹ، پرمٹ یا نوکریاں دنیا تو دور کی بات ہے۔ تو پھر یہ بے چارے قلمی تاجر کیوں نہ ان اہل اقتدار کی خیر مانگیں، اُن کی مالش کریں، اُن کے گن گائیں اور جھولیاں اٹھا اٹھا کر انہیں دعائیں دیں جو ان کی جھولیاں بھرتے رہتے ہیں؟
.... اس بات میں کوئی شک نہیں اور یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی یا کسی سروے کی محتاج نہیں کہ پاکستان میں لوگ جنم جنم کی میلی سیاسی جماعتوں اور اُن کے بادشاہ سلامتوں سے اب نجات چاہتے ہیں۔ لوگوں نے انہیں کوئی ایک بار نہیں آزمایا، کئی کئی بار ڈنگ کھائے ہیں۔ اِن کی بڑھکوں اِن کے نعروں سے متاثر ہو کر انہیں ووٹ ہی نہیں نوٹ بھی دئیے ہیں۔ مگر نتیجہ کیا نکلا؟ ہر بار عوام کے جذبات سے یہ کھیلتے رہے اور پاکستان کی عزت سے بھی .... ہر بار پاکستان کو قبرستان بنانے میں کوئی کسر اُنہوں نے نہیں چھوڑی .... سو بیسیوں خرابیوں کے باوجود میڈیا کے اس کمال سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے کہ لوگوں کو اُس نے شعور بخشا۔ سوچنے سمجھنے پرکھنے کی صلاحیت دی اور ہمت بھی عطا کی کہ اپنے اور اپنے ملک کے حقوق غصب کرنے والوں کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوں۔ یہی تبدیلی ہے جو کسی بڑے انقلاب کا باعث نہ بھی بنے تو یہ جو کچھ بڑے بڑے سیاسی عذاب مستقل طور پر اس ملک اور اس کے بے بس و بے کس عوام سے چمٹے ہوئے ہیں اِن سے چھٹکارا ضرور دلا دے گی اور اگر تبدیلی کا یہ عمل اسی انداز میں جاری رہا یعنی عوام تبدیل ہو گئے تہ پھو سالہا سال سے اس ملک پر قابض حکمران بھی ضرور تبدیل ہو جائیں گے کہ یہ کسی انسان کا نہیں قرآن کا فیصلہ ہے جیسی قوم ہو گی ویسے ہی اُس کے حکمران بھی ہوں گے
.... جہاں تک سوال عمران خان کا ہے تو ظاہر ہے وہ فرشتہ نہیں مگر گزشتہ کچھ برسوں سے جس انداز میں پاکستان اور اہل پاکستان کے دکھوں کے خلاف اُس نے آواز اٹھائی اُُس سے کم از کم پاکستان کے سیاستدانوں سے مکمل طور پر مایوس ہونے والے کو امید کی ایک منفی سی کرن ضرور دکھائی دی اور پھر ایجنسیوں اور امریکہ کی چھتری کے بغیر جس دلیرانہ انداز میں اُس نے جدوجہد کی اُس سے امید کی منفی سی یہ کرن آج لوگوں کو ایک سورج کی مانند دکھائی دینے لگی ہے تو ظاہر ہے اس سے اُن سیاستدانوں کو تو ضرور تکلیف ہو گی جو اس ملک اور اس کے عوام کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اندھیروں میں دیکھنا چاہتے ہیں کیونکہ جو واردات اندھیرے میں ڈالی جا سکتی ہے سورج کی روشنی میں اُس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ سو آج یہ سیاسی وارداتیے نہ صرف خود عمران خان کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوئے ہیں بلکہ اپنے قلم کاروں کا معاوضہ بڑھا کر اُنہیں بھی تیز کر دیا ہے مگر یہ ساری باتیں عمران خان کے سوچنے کی نہیں ہیں اسے ان ساری باتوں سے بالاتر ہو کر آگے بڑھنا ہے۔ اُس کے سوچنے کی بات صرف یہ ہے کہ ان دنوں اس سے جو امیدیں وابستہ کی جا رہی ہیں پوری نہ ہو سکیں تو پھر پاکستان اور اس کے عوام کے پاس پیچھے یا آگے کیا رہ جائے گا؟ تین شعر دیکھئے
بظاہر شان و شوکت سے کھڑے ہیں
سب اندر سے مگر ٹوٹے پڑے ہیں
میں اُن ہاتھوں کو بھی پہچانتا ہوں
کہ جن ہاتھوں پہ دستانے چڑھے ہیں
اندھیرے میں اُجالے کا نشاں ہیں
یہ جگنو آفتابوں سے بڑے ہیں
توفیق بٹ
کیمبرج یونیورسٹی کے ایک سروے کے مطابق پاکستان میں 77 فی صد لوگ نظام کی تبدیلی چاہتے ہیں اور 61 فی صد لوگ تبدیلی کی صورت میں عمران خان کو برسر اقتدار دیکھنا چاہتے ہیں۔ مختلف ایجنسیوں اور اداروں کی جانب سے کئے جانے والے سروے کس قدر حقائق پر مبنی ہوتے ہیں اس حوالے سے میری کوئی تحقیق نہیں ہے مگر ہر انسان کا اپنا اپنا مشاہدہ بھی ہوتا ہے اور وہ ارد گرد کے حالات کے مطابق ہوتا ہے۔ کسی ذاتی مفاد یا کسی بھی اور وجہ سے زبانی یا تحریری طور پر تو اس مشاہدے میں ڈنڈی ماری جا سکتی ہے مگر اصل بات سے دل واقف ہوتا ہے سو آج اگر کچھ قلمی تاجر تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کی ذاتی یا سیاسی لحاظ سے کردار کشی پر مقرر ہوئے ہیں تو میرے خیال میں اس سے عمران خان کو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ لیکن کسی لمحے ان قلمی تاجروں کا ضمیر جاگ گیا تو دل ہی دل میں شرمندہ ضرور ہوں گے کہ پاکستان کے عوام کے جذبات سے انہوں نے کھیلا اور یہ کھیل وہ کوئی آج سے نہیں کھیل رہے۔ عوام کے بجائے ہمیشہ اہل اقتدار کی انہوں نے سپورٹ کی، کبھی تقریری تو کبھی تحریری صورت میں۔ لفافے کے عوض چند جملے لکھ دئیے۔ کسی عزیز کی نوکری کے عوض پورا کالم تحریر کر دیا۔ پلاٹ کے عوض چند کالم اور اگر کسی صاحب اقتدار نے فل پیکج طے کر لیا تو پھر جب تک وہ اقتدار میں رہا اُسی کے گن گاتے رہے بلکہ طبلہ اور باجا بھی اُسی کا بجاتے رہے۔ تکلیف دہ معاملہ اُن کے لئے یہ ہے کہ عمران خان ایک کنجوس آدمی ہے، فی الحال کسی کو ایک بوتل تک پیش نہیں کر سکتا لفافہ پلاٹ، پرمٹ یا نوکریاں دنیا تو دور کی بات ہے۔ تو پھر یہ بے چارے قلمی تاجر کیوں نہ ان اہل اقتدار کی خیر مانگیں، اُن کی مالش کریں، اُن کے گن گائیں اور جھولیاں اٹھا اٹھا کر انہیں دعائیں دیں جو ان کی جھولیاں بھرتے رہتے ہیں؟
.... اس بات میں کوئی شک نہیں اور یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی یا کسی سروے کی محتاج نہیں کہ پاکستان میں لوگ جنم جنم کی میلی سیاسی جماعتوں اور اُن کے بادشاہ سلامتوں سے اب نجات چاہتے ہیں۔ لوگوں نے انہیں کوئی ایک بار نہیں آزمایا، کئی کئی بار ڈنگ کھائے ہیں۔ اِن کی بڑھکوں اِن کے نعروں سے متاثر ہو کر انہیں ووٹ ہی نہیں نوٹ بھی دئیے ہیں۔ مگر نتیجہ کیا نکلا؟ ہر بار عوام کے جذبات سے یہ کھیلتے رہے اور پاکستان کی عزت سے بھی .... ہر بار پاکستان کو قبرستان بنانے میں کوئی کسر اُنہوں نے نہیں چھوڑی .... سو بیسیوں خرابیوں کے باوجود میڈیا کے اس کمال سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے کہ لوگوں کو اُس نے شعور بخشا۔ سوچنے سمجھنے پرکھنے کی صلاحیت دی اور ہمت بھی عطا کی کہ اپنے اور اپنے ملک کے حقوق غصب کرنے والوں کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوں۔ یہی تبدیلی ہے جو کسی بڑے انقلاب کا باعث نہ بھی بنے تو یہ جو کچھ بڑے بڑے سیاسی عذاب مستقل طور پر اس ملک اور اس کے بے بس و بے کس عوام سے چمٹے ہوئے ہیں اِن سے چھٹکارا ضرور دلا دے گی اور اگر تبدیلی کا یہ عمل اسی انداز میں جاری رہا یعنی عوام تبدیل ہو گئے تہ پھو سالہا سال سے اس ملک پر قابض حکمران بھی ضرور تبدیل ہو جائیں گے کہ یہ کسی انسان کا نہیں قرآن کا فیصلہ ہے جیسی قوم ہو گی ویسے ہی اُس کے حکمران بھی ہوں گے
.... جہاں تک سوال عمران خان کا ہے تو ظاہر ہے وہ فرشتہ نہیں مگر گزشتہ کچھ برسوں سے جس انداز میں پاکستان اور اہل پاکستان کے دکھوں کے خلاف اُس نے آواز اٹھائی اُُس سے کم از کم پاکستان کے سیاستدانوں سے مکمل طور پر مایوس ہونے والے کو امید کی ایک منفی سی کرن ضرور دکھائی دی اور پھر ایجنسیوں اور امریکہ کی چھتری کے بغیر جس دلیرانہ انداز میں اُس نے جدوجہد کی اُس سے امید کی منفی سی یہ کرن آج لوگوں کو ایک سورج کی مانند دکھائی دینے لگی ہے تو ظاہر ہے اس سے اُن سیاستدانوں کو تو ضرور تکلیف ہو گی جو اس ملک اور اس کے عوام کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اندھیروں میں دیکھنا چاہتے ہیں کیونکہ جو واردات اندھیرے میں ڈالی جا سکتی ہے سورج کی روشنی میں اُس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ سو آج یہ سیاسی وارداتیے نہ صرف خود عمران خان کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوئے ہیں بلکہ اپنے قلم کاروں کا معاوضہ بڑھا کر اُنہیں بھی تیز کر دیا ہے مگر یہ ساری باتیں عمران خان کے سوچنے کی نہیں ہیں اسے ان ساری باتوں سے بالاتر ہو کر آگے بڑھنا ہے۔ اُس کے سوچنے کی بات صرف یہ ہے کہ ان دنوں اس سے جو امیدیں وابستہ کی جا رہی ہیں پوری نہ ہو سکیں تو پھر پاکستان اور اس کے عوام کے پاس پیچھے یا آگے کیا رہ جائے گا؟ تین شعر دیکھئے
بظاہر شان و شوکت سے کھڑے ہیں
سب اندر سے مگر ٹوٹے پڑے ہیں
میں اُن ہاتھوں کو بھی پہچانتا ہوں
کہ جن ہاتھوں پہ دستانے چڑھے ہیں
اندھیرے میں اُجالے کا نشاں ہیں
یہ جگنو آفتابوں سے بڑے ہیں