ملک قرضوں پر نہیں ٹیکسوں پر چلے گا
عمران خان صاحب نے الیکشن سے پہلے بڑھک ماری تھی کہ وہ حکومت میں آنے کے بعد آئی ایم ایف کے پاس نہیں جایئں گے . ایسا دعوا کوئی بھی عقل مند انسان نہیں کر سکتا ، اس لئے نہیں کہ پاکستانی قوم آئی ایم ایف کے بغیر گزارا نہیں کر سکتی بلکے اس لئے کہ دعوا کرنا بذات خود ایک بہت بڑا بوجھ ہے . اس لئے عقل مند انسان کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے کا دعوا نہیں کرتے بلکے اس طرح سے کہتے ہیں کہ ہم یہ کام کرنے کے لئے اپنی پوری توجہ صرف کریں گے وغیرہ وغیرہ
خیر خان صاحب نے دعوا کر لیا ، پھر پرائم منسٹر بنے اور بجٹ کا مرحلہ آیا . اب خسارہ پورا کرنا تھا تو خان صاحب نے خسارے کو ٹیکس کے پیسے سے پورا کرنے کی ٹھانی
سب جانتے ہیں کہ پاکستان کی معیشت انتہائی بری حالت میں ہے اس پر نئے سے نئے ٹیکس . . . .! یعنی غریب کے لئے مصیبت در مصیبت
اب چونکہ ٹیکس اکٹھا کرنا بھی آسان کام نہ تھا ، لہٰذا بجٹ کا خسارہ پورا کرنے کے لئے آئی ایم کے پاس پھر جانا پڑا ، گویا خان صاحب نے اس معاملے میں سو جوتے اور سو پیاز بھی کھائے ہیں
نوٹ : ٹیکس چاہے امیروں پر لگایا جائے لیکن امیر لوگ اپنی مصنوعات کی قیمت بڑھا کر پیسہ غریب سے ہی وصول کرتے ہیں . ہم نے خود دیکھا ہے کہ ٹیکس کا بہانہ بنا کر قیمتیں بڑھائی گئیں ہیں
.
ہم سوچتے تھے کہ خاں صاحب کی اولین ترجیح ملک میں روزگار کے مواقے پیدا کرنے ، اور غربا کی قوت خرید بڑھانے پر ہو گی اور اس طرح سے پاکستان خود انحصاری کی طرف جائے گا اور پھر آئی ایم ایف اور دوسرے استحصالی اداروں سے جان چھوٹ جائے گی . اس کام میں اگر پانچ دس سال بھی لگ جاتے تو خیر تھی .لیکن خاں صاحب نے اپنے بڑے بول کو بچاتے ہوئے انتہائی بیوقوفانہ پولسیاں بنائی اور عوام کو پھائے لگا دیا
رئیل اسٹیٹ : لاہور کے مضافات میں پچاس ارب ڈالر کا پروجیکٹ
پاکستان میں اکثر لوگ اپنے بچوں کو سمجھاتے ہیں کہ پتر ! اپنا مکان بنا لینا ، ڈال روٹی چلتی رہتی ہے . .. لہٰذا پاکستانی عوام کی اولین پسند پلاٹوں میں پیسہ لگانا چاہتی ہے ، یا پھر شادی بیاہ میں پیسہ خرچ کرتی ہے کہ برادری میں عزت بنی رہے
عوام کی اسی ذہنیت کو دیکھتے ہوئے ہاؤسنگ سکیمیں بنی اور ان میں لوگوں نے بے تحاشا بیسہ لگایا . اس وقت صورت حال یہ ہے کہ شہر میں روزگار کے مواقے ہوں نہ ہو لیکن خریدنے کو پلاٹ ضرور موجود ہیں . گویا رئیل اسٹیٹ لبا لب بھر چکی ہے جب کہ دیگر انڈسٹریز بوند بوند کو ترس رہیں ہیں
یہاں میں مولا علی علیہ السلام کے ایک قول کا حوالہ دینا چاہوں گا کہ کوئی بھی چیز اگر ایک حد سے زیادہ بڑھ جائے تو زہر ہے
اس لئے ہم بجا طور پر کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان میں رئیل اسٹیٹ ملکی معیشت کے لئے زہر قاتل بنتا جا رہا ہے . کئی لوگ کاروبار میں پیسہ لگانا چاہتے ہیں لیکن کاروبار کرنے کا موقع نہیں ، لہٰذا انہیں نا چاہتے ہوئے بھی رئیل اسٹیٹ میں پیسہ لگانا پڑتا ہے
اب اگر خان صاحب کا طرز عمل دیکھیں تو ان کی ساری توجہ رئیل اسٹیٹ پر ہی مرکوز ہے ، لاہور کے مضافات میں نیا شہر ، کراچی کے قریب کوئی جزیرہ آباد کیا جائے گا . . . . صاف ظاہر ہے کہ خاں صاحب ٹی وی پر بحریہ ٹاؤن کے اشتہارات دیکھ کر وجد میں آ جاتے ہیں . اور اس طرح کے احمقانہ فیصلے صادر کرتے ہیں