موجود حکومت کے مقابلے میں عمران خان کی خارجہ پالیسی پر نظر دوڑائیں تو پاکستان ایک پراعتماد ملک معلوم ہوتا تھا، یہ ان کی سیاست کی غیر معمولی کامیابی ہے کی انہوں نے امریکہ کو ایبسلوٹلی ناٹ کہا اور اسی کے قانون ساز ادارے عمران خان کے حق میں قرار داد منظور کرتے ہیں، انہوں نے پوری دنیا میں جرات کے ساتھ مسلمانوں کے خلاف مذہبی امتیاز کا مقدمہ لڑا اور اقوام متحدہ نے 15 مارچ کو ہر سال اسلاموفوبیا کے خلاف لڑائی کا دن مقرر کر دیا، انہوں نے روس کے ساتھ تعلقات بڑھائے، افغانستان پر وہ مؤقف اختیار کیا جو موجودہ حکومت کو ماننا پڑ رہا ہے، بھارت نے پاکستا پر سرجیکل سٹرائیک کی تو خود بھارت کی سرجری ہو گئی، پاکستان نے ناصرف بھارت کا جہاز گرایا بلکہ پائلٹ واپس کرکے خود کو امن کا عملبردار بھی ثابت کیا۔ یہ سب کچھ اس لیے ممکن ہو سکا کیونکہ عمران خان کو عوامی حمایت حاصل تھی۔
عمران خان کے بعد حکومت میں لایا گیا گروہ سیاست کاراں آئی ایم ایف سے ادھار لینے یا دوستوں سے پیسے مانگنے کو ہی خارجہ پالیسی سمجھنے لگا ہے۔ پاکستان میں سیاسی عدم استحکام نے رہی سہی کسر پوری کر دی ہے۔ دنیا کا ہر سفارتکار بتاتا ہے کہ ملکوں کی خارجہ پالیسی ملکوں کے اندرونی نظام کے استحکام سے جڑی ہوتی ہے، یہ بات بس پاکستان کو ہی سمجھ نہیں آ رہی۔
دنیا دیکھ رہی ہے کہ معدنیات کا قانون ہو یا چولستان میں نہروں کی تعمیر، پی آئی اے کی نجکاری ہو یا ملک میں سفارتکاری وفاقی حکومت کچھ نہیں کر پا رہی، سیاسی طور پر یہ حکومت اپنے ہی ملک میں اجنبی ہو چکی ہے، بامعنی خارجہ پالیسی تو دور کی بات چھوٹے موٹے کام بھی اس سے نہیں ہو پا رہے، یہ صورتحال پاکستان کے آگے بڑھنے میں رکاوٹ بن رہی ہے، اس صورتحال سے نکلنے کا آسان اور واحد حل عمران خان کی سیاست میں واپسی ہے۔ ان کی رہائی دنیا کو پاکستان میں سیاسی استحکام کا تاثر دے گی، ان کو جیل میں رکھ کر حکومت خود بند گلی میں قید ہوتی جا رہی ہے، حبیب اکرم
Last edited: