عمران خان کا یوٹرن والا بیان اور میڈیا
چار روز قبل نوازشریف نے احتساب عدالت میں یہ جواب جمع کروایا کہ ان کو قومی اسمبلی میں کی گئی تقریر پر استثنیٰ دیا جائے اور اس کی بابت کوئی سوال جواب نہ کیا جائے۔ یہ ایک بہت بڑا یوٹرن تھا کیونکہ پانامہ لیکس اور ذرائع سے زائد آمدن کے کیس میں یہ تقریر بہت اہم تھی کیونکہ اس تقریر میں ہر چیز کا باقاعدہ اعتراف کیا گیا تھا جس کو بعد میں ثابت نہ کر سکنے کی وجہ سے اس پر یوٹرن لینا پڑا
اگلے ہی روز احتساب عدالت میں قطری خط پر بھی یوٹرن لے لیا جو دراصل پورے پانامہ کیس کی ریڑھ کی ہڈی تھا۔ یہ وہی قطری خط تھا، جس پر نون لیگی وزراء اور کرائے کے دلال صبح شام پریس کانفرنسیں کیا کرتے تھے اور جے آئی ٹی سے کہتے تھے کہ اگر قطری شہزادے کا بیان ریکارڈ نہ کیا گیا تو ہم یہ سمجھیں گے کہ یہ ہمارے خلاف انتقامی کاروائی ہو رہی ہے۔
اسی قطری خط کو لے کر لفافہ صحافیوں اور اینکروں نے وہ جھوٹ کے مینار تعمیر کیے تھے کہ خدا کی پناہ ۔۔ مگر نوازشریف نے اس قطری خط سے ہی لاتعلقی کا اظہار کر دیا، جس کو ایک سال پہلے تک منی ٹریل کہا جاتا تھا۔
پھر اسی عرصے کے دوران وزیراعظم کے معاونِ خصوصی شہزاد اکبر نے پریس کانفرنس کر کے یہ دھماکہ کر دیا کہ لندن میں کلثوم نواز کے نام پر بھی جائیدادیں نکل آئی ہیں اور یہ کیس نیب کو بھجوایا جا رہا ہے۔
یعنی اندازہ کیجیے کہ یہ تین کس قدر بڑے واقعات اور انکشافات ہیں لیکن نون لیگی سیاستدانوں، کرائے کے لبرلز، لفافہ صحافیوں اور ٹٹ پونجیے انیکرز نے کیسے ان سب باتوں کو گول کر کے عمران خان کے یوٹرن والے بیان پر بندوقیں تان لیں۔
عمران خان کا بیان ایک خاص پس منظر میں تھا لیکن اس کو غلط رپورٹ کیا گیا اور یہ کوئی پہلی دفعہ نہیں ہوا بلکہ جب بھی عمران خان صحافیوں سے ملاقات کرتے ہیں، اس ملاقات میں صحافیوں کی جانب سے کوئی نہ کوئی نیا شوشہ چھوڑا جاتا ہے۔ ننگی صحافت کی یہ بدترین مثال ہے اور ایسا ہی ایک واقعہ فرانس کے وزیراعظم کے فون سے متعلق بھی ہو چکا ہے جہاں تیس کے قریب سینیر صحافی و اینکر پرسن مل کر بھی ایک چیز ڈھنگ سے رپورٹ نہ کر سکے۔
اس بےضرر سے بیان کو لے کر اتنا ہنگامہ کیا گیا کہ تین اہم ترین واقعات اس کی گرد میں دب گئے۔ کیا عمران خان کا ایک بیان نوازشریف کے ہل میٹل کیس، العزیزیہ کیس اور کلثوم نواز کے نام پر نکلنے والی نئی جائیدادوں سے زیادہ اہم تھا ؟؟؟؟ شریف خاندان نے پاکستان کو بےدردی کے ساتھ لوٹا ہے اور اب ان چوروں کا احتساب ہو رہا ہے، ہم کو مکمل یکسوئی کے ساتھ ان چوروں کے احتساب پر توجہ دینی چاہیے لیکن یہاں الٹا صحافی اور اینکر حضرات ہی چوروں کی رکھوالی کر رہے ہیں۔ یقین کیجیے کہ اگر یہی سلسلہ جاری رہا تو پاکستان میں صحافت اور دلالی میں کوئی فرق نہیں رہ جائے گا۔ ہمارے ہاں چند ایک محبِ وطن لوگوں کو چھوڑ کر بقایا صحافی اور اینکرز طوائفیں بن چکی ہیں۔
ابھی بھی وقت ہے کہ ہم صحیح رپورٹنگ کریں اور عوام کو درست خبریں دیں کیونکہ یہ جنگ عمران خان اور نوزشریف کی نہیں بلکہ برسوں سے عوام کا خون چوسنے والی سٹیٹس کو اور پہلی مرتبہ اپنے حقوق کے لیے کھڑے ہونے والی نوجوان نسل کے درمیان ہے۔ ہم کو ہر حال میں اس سٹیٹسکو کو توڑنا ہے اور اسی سٹیٹس کے ملبے کے نیچے سے برامد ہو گیا نیا پاکستان۔۔۔۔۔!!۔
تحریر و تجزیہ: عاشور بابا
چار روز قبل نوازشریف نے احتساب عدالت میں یہ جواب جمع کروایا کہ ان کو قومی اسمبلی میں کی گئی تقریر پر استثنیٰ دیا جائے اور اس کی بابت کوئی سوال جواب نہ کیا جائے۔ یہ ایک بہت بڑا یوٹرن تھا کیونکہ پانامہ لیکس اور ذرائع سے زائد آمدن کے کیس میں یہ تقریر بہت اہم تھی کیونکہ اس تقریر میں ہر چیز کا باقاعدہ اعتراف کیا گیا تھا جس کو بعد میں ثابت نہ کر سکنے کی وجہ سے اس پر یوٹرن لینا پڑا
اگلے ہی روز احتساب عدالت میں قطری خط پر بھی یوٹرن لے لیا جو دراصل پورے پانامہ کیس کی ریڑھ کی ہڈی تھا۔ یہ وہی قطری خط تھا، جس پر نون لیگی وزراء اور کرائے کے دلال صبح شام پریس کانفرنسیں کیا کرتے تھے اور جے آئی ٹی سے کہتے تھے کہ اگر قطری شہزادے کا بیان ریکارڈ نہ کیا گیا تو ہم یہ سمجھیں گے کہ یہ ہمارے خلاف انتقامی کاروائی ہو رہی ہے۔
اسی قطری خط کو لے کر لفافہ صحافیوں اور اینکروں نے وہ جھوٹ کے مینار تعمیر کیے تھے کہ خدا کی پناہ ۔۔ مگر نوازشریف نے اس قطری خط سے ہی لاتعلقی کا اظہار کر دیا، جس کو ایک سال پہلے تک منی ٹریل کہا جاتا تھا۔
پھر اسی عرصے کے دوران وزیراعظم کے معاونِ خصوصی شہزاد اکبر نے پریس کانفرنس کر کے یہ دھماکہ کر دیا کہ لندن میں کلثوم نواز کے نام پر بھی جائیدادیں نکل آئی ہیں اور یہ کیس نیب کو بھجوایا جا رہا ہے۔
یعنی اندازہ کیجیے کہ یہ تین کس قدر بڑے واقعات اور انکشافات ہیں لیکن نون لیگی سیاستدانوں، کرائے کے لبرلز، لفافہ صحافیوں اور ٹٹ پونجیے انیکرز نے کیسے ان سب باتوں کو گول کر کے عمران خان کے یوٹرن والے بیان پر بندوقیں تان لیں۔
عمران خان کا بیان ایک خاص پس منظر میں تھا لیکن اس کو غلط رپورٹ کیا گیا اور یہ کوئی پہلی دفعہ نہیں ہوا بلکہ جب بھی عمران خان صحافیوں سے ملاقات کرتے ہیں، اس ملاقات میں صحافیوں کی جانب سے کوئی نہ کوئی نیا شوشہ چھوڑا جاتا ہے۔ ننگی صحافت کی یہ بدترین مثال ہے اور ایسا ہی ایک واقعہ فرانس کے وزیراعظم کے فون سے متعلق بھی ہو چکا ہے جہاں تیس کے قریب سینیر صحافی و اینکر پرسن مل کر بھی ایک چیز ڈھنگ سے رپورٹ نہ کر سکے۔
اس بےضرر سے بیان کو لے کر اتنا ہنگامہ کیا گیا کہ تین اہم ترین واقعات اس کی گرد میں دب گئے۔ کیا عمران خان کا ایک بیان نوازشریف کے ہل میٹل کیس، العزیزیہ کیس اور کلثوم نواز کے نام پر نکلنے والی نئی جائیدادوں سے زیادہ اہم تھا ؟؟؟؟ شریف خاندان نے پاکستان کو بےدردی کے ساتھ لوٹا ہے اور اب ان چوروں کا احتساب ہو رہا ہے، ہم کو مکمل یکسوئی کے ساتھ ان چوروں کے احتساب پر توجہ دینی چاہیے لیکن یہاں الٹا صحافی اور اینکر حضرات ہی چوروں کی رکھوالی کر رہے ہیں۔ یقین کیجیے کہ اگر یہی سلسلہ جاری رہا تو پاکستان میں صحافت اور دلالی میں کوئی فرق نہیں رہ جائے گا۔ ہمارے ہاں چند ایک محبِ وطن لوگوں کو چھوڑ کر بقایا صحافی اور اینکرز طوائفیں بن چکی ہیں۔
ابھی بھی وقت ہے کہ ہم صحیح رپورٹنگ کریں اور عوام کو درست خبریں دیں کیونکہ یہ جنگ عمران خان اور نوزشریف کی نہیں بلکہ برسوں سے عوام کا خون چوسنے والی سٹیٹس کو اور پہلی مرتبہ اپنے حقوق کے لیے کھڑے ہونے والی نوجوان نسل کے درمیان ہے۔ ہم کو ہر حال میں اس سٹیٹسکو کو توڑنا ہے اور اسی سٹیٹس کے ملبے کے نیچے سے برامد ہو گیا نیا پاکستان۔۔۔۔۔!!۔
تحریر و تجزیہ: عاشور بابا