Ahmed Jawad
MPA (400+ posts)
اگلا راونڈ
کوئی کہتا ہے سیاست میں ٹائمنگ ہی سارا کچھ ہوتی ہے ،ٹائمنگ کی بنیاد پر کیا عجیب و غریب سازشی تھیوریاں تیار ہوتی ہیں، اب اصلی اور بڑی تبدیلی والا نومبر ہی دیکھ لیجئے، تبدیلی والا نومبر ہو اور اسلام آبادمیں دھرنا نہ ہو۔
دھرنے سے پہلے ایک ماحول بنانا بھی ضروری ہے۔ مولوی فضل الرحمن سارا پاکستان گھوم کر اسلام آباد آگیا ، کسی نے روکا تک نہیں ، عمران خان کے لانگ مارچ میں توڈنڈے، گولیاں اور دھواں تھا۔ سارا میڈیا کہتا رہا کہ مولوی نہ ایسے آیا ہے نہ ایسے جائے گا، مولوی کے دھرنے کے عین درمیان تاجروں اور ایف بی آر کے مذاکرات ہوتے ہیں جس میں ایف بی آر شرائط مان لیتا ہے۔آخر تاجروں کو عین دھرنے کے بیچ خوش کرنا کیوں ضروری تھا ۔ کالم لکھے جاتے ہیں کہ جو کہتا تھا میں سب کو رلاوں گا اسکے رونے کے دن آگئے ہیں۔ بہت کچھ ہونے والا ہے، پھر اچانک نواز شریف مرنے والا ہوجاتا ہے اسکی میڈیکل رپورٹس میں کیا بات تھی، عجیب بات ہے ۲۵ نومبر کو ایک گمنام سائل عدالت عظمی کے سامنے ریٹائرمنٹ سے چاردن پہلے ایک درخواست کرتا ہے، اور وہ درخواست اگلے دن یعنی ۲۶ نومبر کو سماعت کے لئے مقرر ہوتی ہے۔ لیکن درخواست دائر ہونے سے بھی ایک دن پہلے ۲۴ نومبر کو مولوی ڈیزل دو دن کے نوٹس پر ایک آل پارٹیز کانفرنس کال کرتا ہے، ٹھیک اسی دن جب عدالت سماعت میں ہوگی اور بحران ساری قوم پر آشکار ہوتا ہے، آل پارٹیز کانفرنس میں سماعت کے آغاز میں ہی اعلان ہوتا ہے کہ اس بحران سے نکلنے کا راستہ انتخابات ہیں۔کیا مولوی اور اپوزیشن کو ۲۴ نومبر کو اس بحران کا علم تھا جو۲۵ نومبر والی درخواست سے شروع ہوا۔ اگر علم تھا تو اس سارے عمل میں کون لوگ شریک تھے۔ آرمی چیف کی توسیع کی سمری رستے میں دو دفعہ بدل جاتی ہے۔ ۲۷ نومبر کو ایک سینئر موسٹ جرنیل کی جگہ اسکا جونیئر چیف آف جوائنٹ سٹاف بنتا ہے۔ ۲۸ کو فیصلہ آتا ہے، اسکے ساتھ ہی کوئی ۱۵۰ بیورو کریٹس بدلے جاتے ہیں۔ واجد ضیا جو شریف خاندان کا ملازم نہیں ایف آئی اے کا ڈی جی لگتا ہے۔کیا ایف آئی اے کے ڈی جی پر بھی کوئی شک تھا۔ ۲۹ کو سینئر موسٹ جرنیل استعفی دے دیتا ہے۔ ججز کی تقرری کے لئے پارلیمنٹری کمیٹی کی شرط لگتی ہے۔کھیل میں وقفے کا اعلان۔ ابھی کچھ کھیل باقی ہے
کیا مافیا فیل ہوگیا ہے۔کیا بیوروکریسی سے شرفا کو پاک کرنے کا عمل شروع ہوگیا ہے۔کیاٹیکس سے بھاگنے والا پنجابی تاجر، جیو، لبرلز،شریف خاندان، نیشنلسٹ اور مولوی مل کر کچھ نہیں اکھاڑسکے۔ اگر ایسا ہے تو یہ ہی وہ دن تھا جس سے شریف خاندان، مولوی،اور اسٹیٹس کو ڈرتے تھے، ان کو پہلی شکست ہوگئ ہے۔ تخت لاہور کے پیچ نکل گئے ہیں، اسکو دوبارہ کھڑا کرنے میں کچھ دن لگیں گے، پیپلز پارٹی کنفیوز تھوڑی سائڈ پر کھڑی ہے، عدلیہ کی بچھائی گئی بارودی سرنگیں ابھی رستے میں ہیں۔ عمران اور باجوہ زخمی ہیں لیکن کھڑے ہیں، مافیا خون آلود ہے اور نیچے گر گیا ہے۔ہم نے الیکشن سے ایک دن بعد کہا تھا کہ عمران خان کو بےروزگار بہت تنگ کریں گے
لیکن یہ مافیا بھی ہرکولیس کی کہانی میں بارہ سروں والی بلا کی طرح ہے۔ جس سر کو کچلو گے وہ دوبارہ اگ جائگا۔ کہتے ہیں کہ آخری سر کو کاٹنے کے لئے ہرکولیس کو اپنے غصے پر قابو پانا ضروری تھا۔
اس کھیل کےاندرونی کردار سمجھنے تو آسان ہیں ، بیرونی کرداروں میں کون کون ہیں، کیا چین بھی ناراض ہے۔ کیا امریکہ اور بھارت ملکر۔ سارے کھیل کے مین آف دی میچ انڈین میڈیا ، ڈان اور جیو ہیں جو فوج اور قوم کی غیرت ۔بیدار کرنے میں کامیاب رہے ہیں کہ آخر ہو کیا ہورہا ہے
اب آگے اتنے مسائل نہیں اگر ہرکولیس اپنے غصے پر قابو پالے
www.bolnews.com
کوئی کہتا ہے سیاست میں ٹائمنگ ہی سارا کچھ ہوتی ہے ،ٹائمنگ کی بنیاد پر کیا عجیب و غریب سازشی تھیوریاں تیار ہوتی ہیں، اب اصلی اور بڑی تبدیلی والا نومبر ہی دیکھ لیجئے، تبدیلی والا نومبر ہو اور اسلام آبادمیں دھرنا نہ ہو۔
دھرنے سے پہلے ایک ماحول بنانا بھی ضروری ہے۔ مولوی فضل الرحمن سارا پاکستان گھوم کر اسلام آباد آگیا ، کسی نے روکا تک نہیں ، عمران خان کے لانگ مارچ میں توڈنڈے، گولیاں اور دھواں تھا۔ سارا میڈیا کہتا رہا کہ مولوی نہ ایسے آیا ہے نہ ایسے جائے گا، مولوی کے دھرنے کے عین درمیان تاجروں اور ایف بی آر کے مذاکرات ہوتے ہیں جس میں ایف بی آر شرائط مان لیتا ہے۔آخر تاجروں کو عین دھرنے کے بیچ خوش کرنا کیوں ضروری تھا ۔ کالم لکھے جاتے ہیں کہ جو کہتا تھا میں سب کو رلاوں گا اسکے رونے کے دن آگئے ہیں۔ بہت کچھ ہونے والا ہے، پھر اچانک نواز شریف مرنے والا ہوجاتا ہے اسکی میڈیکل رپورٹس میں کیا بات تھی، عجیب بات ہے ۲۵ نومبر کو ایک گمنام سائل عدالت عظمی کے سامنے ریٹائرمنٹ سے چاردن پہلے ایک درخواست کرتا ہے، اور وہ درخواست اگلے دن یعنی ۲۶ نومبر کو سماعت کے لئے مقرر ہوتی ہے۔ لیکن درخواست دائر ہونے سے بھی ایک دن پہلے ۲۴ نومبر کو مولوی ڈیزل دو دن کے نوٹس پر ایک آل پارٹیز کانفرنس کال کرتا ہے، ٹھیک اسی دن جب عدالت سماعت میں ہوگی اور بحران ساری قوم پر آشکار ہوتا ہے، آل پارٹیز کانفرنس میں سماعت کے آغاز میں ہی اعلان ہوتا ہے کہ اس بحران سے نکلنے کا راستہ انتخابات ہیں۔کیا مولوی اور اپوزیشن کو ۲۴ نومبر کو اس بحران کا علم تھا جو۲۵ نومبر والی درخواست سے شروع ہوا۔ اگر علم تھا تو اس سارے عمل میں کون لوگ شریک تھے۔ آرمی چیف کی توسیع کی سمری رستے میں دو دفعہ بدل جاتی ہے۔ ۲۷ نومبر کو ایک سینئر موسٹ جرنیل کی جگہ اسکا جونیئر چیف آف جوائنٹ سٹاف بنتا ہے۔ ۲۸ کو فیصلہ آتا ہے، اسکے ساتھ ہی کوئی ۱۵۰ بیورو کریٹس بدلے جاتے ہیں۔ واجد ضیا جو شریف خاندان کا ملازم نہیں ایف آئی اے کا ڈی جی لگتا ہے۔کیا ایف آئی اے کے ڈی جی پر بھی کوئی شک تھا۔ ۲۹ کو سینئر موسٹ جرنیل استعفی دے دیتا ہے۔ ججز کی تقرری کے لئے پارلیمنٹری کمیٹی کی شرط لگتی ہے۔کھیل میں وقفے کا اعلان۔ ابھی کچھ کھیل باقی ہے
کیا مافیا فیل ہوگیا ہے۔کیا بیوروکریسی سے شرفا کو پاک کرنے کا عمل شروع ہوگیا ہے۔کیاٹیکس سے بھاگنے والا پنجابی تاجر، جیو، لبرلز،شریف خاندان، نیشنلسٹ اور مولوی مل کر کچھ نہیں اکھاڑسکے۔ اگر ایسا ہے تو یہ ہی وہ دن تھا جس سے شریف خاندان، مولوی،اور اسٹیٹس کو ڈرتے تھے، ان کو پہلی شکست ہوگئ ہے۔ تخت لاہور کے پیچ نکل گئے ہیں، اسکو دوبارہ کھڑا کرنے میں کچھ دن لگیں گے، پیپلز پارٹی کنفیوز تھوڑی سائڈ پر کھڑی ہے، عدلیہ کی بچھائی گئی بارودی سرنگیں ابھی رستے میں ہیں۔ عمران اور باجوہ زخمی ہیں لیکن کھڑے ہیں، مافیا خون آلود ہے اور نیچے گر گیا ہے۔ہم نے الیکشن سے ایک دن بعد کہا تھا کہ عمران خان کو بےروزگار بہت تنگ کریں گے
لیکن یہ مافیا بھی ہرکولیس کی کہانی میں بارہ سروں والی بلا کی طرح ہے۔ جس سر کو کچلو گے وہ دوبارہ اگ جائگا۔ کہتے ہیں کہ آخری سر کو کاٹنے کے لئے ہرکولیس کو اپنے غصے پر قابو پانا ضروری تھا۔
اس کھیل کےاندرونی کردار سمجھنے تو آسان ہیں ، بیرونی کرداروں میں کون کون ہیں، کیا چین بھی ناراض ہے۔ کیا امریکہ اور بھارت ملکر۔ سارے کھیل کے مین آف دی میچ انڈین میڈیا ، ڈان اور جیو ہیں جو فوج اور قوم کی غیرت ۔بیدار کرنے میں کامیاب رہے ہیں کہ آخر ہو کیا ہورہا ہے
اب آگے اتنے مسائل نہیں اگر ہرکولیس اپنے غصے پر قابو پالے

JUI (F) Leader calls for alla parties conference on November 26
Jamiat Ulema-e-Islam-Fazl (JUI-F) chief Fazlur Rahman has called all parties conference (APC) of the opposition parties on November 26.
Last edited by a moderator: