PAINDO
Siasat.pk - Blogger
عشق
عشق عاشق عاشقی معشوق معشوقہ یہ تمام الفاظ تو آپ نے سنے ہونگے اور انکو سنتے ہی انسان کے ذہن میں ان دیکھے سے کردار ابھرنے لگتے ہیں یا پھر کچھ نام خواہ شیری فرہاد ، لیلٰی مجنوں، ہیر رانجھا،سسی پُنوں، سوہنی مہینوال یا پھر مرزا صاحبہ ہی کیوں نا ہوں
خاص کر صوفیانہ انداز فکر میں اس لفظ کا استعمال بہت زیادہ ہوتا رہا ہے عطار رومی سے لیکر سلطان با ہُو ،میاں محمد بخش ،بھلے شاہ تک نے اپنی شاعری میں عشق کو مرکزی مقام دیا ہے
یہاں توجہ طلب بات یہ ہے کہ شاعری کا محور بھی کچھ ایسے کردار ہی رہے ہیں جن کا اوپر ذکر ہو چکا ہے
اس بات کو سمجھنے کے لئے آئے میں آپ کو لے چلتا ہوں آپ کے لڑکپن کے زمانے میں جب عشق لفظ سے بھی شائد ہچکچاہٹ سی محسوس ہوتی ہوگی
جب پہلی مرتبہ اس نے شرماتے اور ہوئے آپ کی طرف دیکھا ہوگا عجیب بجلیاں سی گر پڑی ہونگی دل و دماغ میں دل کی دھڑکن بڑی گہری محسوس ہوئی ہوگی وہ آنکھیں دہنس کر رہ گئی ہونگی رگ دل میں یہ تھی شائد عشق کی ابتدا {محبت کی نہیں جی ہا ں عشق کی ** پھر کبھی اک ملاقات کا دن بھی مقرر ہوا ہوگا طے پانے کے بعد وقت رک سا گیا ہو گا اس دوران ناجانے کتنی کتنی مرتبہ کبھی کپڑوں کبھی بالوں کبھی اپنے لحجے اور اور کبھی خشبووں کو پرکھا ہوگا کبھی لفظوں کو ترتیب اور کبھی آئنے میں خود کو دیکھ کر مسکرائے ہو گے وقت سے گھنٹوں پہلے تمام ضروری کام نپٹا دئیے ہونگےکہیں جھوٹ بولنا پڑا ہوگا اور کہیں وعدہ خلافی کی ہوگی وقت جیسے جیسے قریب ہوتا جا رہا ہوگا دھڑکنیں تیزاور چہرے کی سرخی بڑہتی گئی ہوگی نا جانے کتنی مرتبہ خود کو آئنے میں دیکھا ہوگا اگر کوئی ہمراز ہوتا تو مشورہ کرنا بھی عین فرض سمجھا ہوگا خدا خدا کرکے وصل کی وہ گھڑی آن پہنچی ہو گی وقت مختصر ہوگا {اس لمحے کو اک لمحے کلئے ذرا محسوس ضرور کیجیے گا** ملاقات کا یقین نہیں آ رہا ہوگا سب کچھ خواب سا لگ رہا ہوگا سرور و کرب کا فیصلہ کرنا مشکل ہوگا
جاری ہے
Last edited: