عشق

PAINDO

Siasat.pk - Blogger
f56gwztkmjjk8ibc3s8d.jpg
۔۔۔



عشق

عشق عاشق عاشقی معشوق معشوقہ یہ تمام الفاظ تو آپ نے سنے ہونگے اور انکو سنتے ہی انسان کے ذہن میں ان دیکھے سے کردار ابھرنے لگتے ہیں یا پھر کچھ نام خواہ شیری فرہاد ، لیلٰی مجنوں، ہیر رانجھا،سسی پُنوں، سوہنی مہینوال یا پھر مرزا صاحبہ ہی کیوں نا ہوں

خاص کر صوفیانہ انداز فکر میں اس لفظ کا استعمال بہت زیادہ ہوتا رہا ہے عطار رومی سے لیکر سلطان با ہُو ،میاں محمد بخش ،بھلے شاہ تک نے اپنی شاعری میں عشق کو مرکزی مقام دیا ہے

یہاں توجہ طلب بات یہ ہے کہ شاعری کا محور بھی کچھ ایسے کردار ہی رہے ہیں جن کا اوپر ذکر ہو چکا ہے


اس بات کو سمجھنے کے لئے آئے میں آپ کو لے چلتا ہوں آپ کے لڑکپن کے زمانے میں جب عشق لفظ سے بھی شائد ہچکچاہٹ سی محسوس ہوتی ہوگی
جب پہلی مرتبہ اس نے شرماتے اور ہوئے آپ کی طرف دیکھا ہوگا عجیب بجلیاں سی گر پڑی ہونگی دل و دماغ میں دل کی دھڑکن بڑی گہری محسوس ہوئی ہوگی وہ آنکھیں دہنس کر رہ گئی ہونگی رگ دل میں یہ تھی شائد عشق کی ابتدا {محبت کی نہیں جی ہا ں عشق کی ** پھر کبھی اک ملاقات کا دن بھی مقرر ہوا ہوگا طے پانے کے بعد وقت رک سا گیا ہو گا اس دوران ناجانے کتنی کتنی مرتبہ کبھی کپڑوں کبھی بالوں کبھی اپنے لحجے اور اور کبھی خشبووں کو پرکھا ہوگا کبھی لفظوں کو ترتیب اور کبھی آئنے میں خود کو دیکھ کر مسکرائے ہو گے وقت سے گھنٹوں پہلے تمام ضروری کام نپٹا دئیے ہونگےکہیں جھوٹ بولنا پڑا ہوگا اور کہیں وعدہ خلافی کی ہوگی وقت جیسے جیسے قریب ہوتا جا رہا ہوگا دھڑکنیں تیزاور چہرے کی سرخی بڑہتی گئی ہوگی نا جانے کتنی مرتبہ خود کو آئنے میں دیکھا ہوگا اگر کوئی ہمراز ہوتا تو مشورہ کرنا بھی عین فرض سمجھا ہوگا خدا خدا کرکے وصل کی وہ گھڑی آن پہنچی ہو گی وقت مختصر ہوگا {اس لمحے کو اک لمحے کلئے ذرا محسوس ضرور کیجیے گا** ملاقات کا یقین نہیں آ رہا ہوگا سب کچھ خواب سا لگ رہا ہوگا سرور و کرب کا فیصلہ کرنا مشکل ہوگا


جاری ہے
 
Last edited:

A.Ali.T

Minister (2k+ posts)
عشق میں ہم تمہیں کیا بتایئں کس قدر چوٹ کھاے ہوے ہیں
موت نے ہم کو مارا ہے اور ہم زندگی کے ستاے ہوے ہیں
 

PAINDO

Siasat.pk - Blogger
اے عشق تو نے اکثر قوموں کو کھا کے چھوڑا
جس گھر سے سر اٹھایا اس کو بٹھا کے چھوڑا
رایوں کے راج چھینے شاہوں کے تاج چھینے
گردن کشوں کو اکثر نیچا دکھا کے چھوڑا
فرہاد کوہ کن کی لی تو نے جان شیریں
اور قیس عامری کو مجنوں بنا کے چھوڑا
یعقوب سے بشر کو دی تو نے ناصبوری
یوسف سے پارسا پر بہتان لگا کے چھوڑا
عقل و خرد نے تجھ سے کچھ چپقلش جہاں کی
عقل و خرد کا تو نے خاکہ اڑا کے چھوڑا
افسانہ تیرا رنگین، روداد تیری دلکش
شعر و سخن کا تو نے جادو بنا کے چھوڑا
اک دسترس سے تیری حالی بچا ہوا تھا
اس کے بھی دل پہ آخر چرکا لگا کے چھوڑا
 

Back
Top