کہا جاتا ہے ایک تصویر ایک ہزار الفاظ کے برابر ہوتی ہے۔ افغانستان پر طالبان کے قبضے کی تصاویر میں سے یہ سب سے
جاذب نظر تصویر ہے: سینکڑوں افغان شہری امریکہ کے فوجی جہاز میں کابل سے فرار ہو رہے ہیں
اس تصویر میں زیادہ تر مرد، کچھ عورتیں اور بچے کیمرے کی جانب دیکھ رہے ہیں۔ ان کے چہرے کے تاثرات پریشانی اور ممکنہ سکون کی ملی جلی تصویر پیش کر رہے ہیں۔
یہ تصویر امریکہ کی دفاعی تجزیے کی ویب سائٹ ’ڈیفنس ون‘ (Defense One) نے حاصل کی ہے۔ بی بی سی نے اس کے اصلی ہونے کی تصدیق نہیں کی ہے۔
ڈیفنس ون نے ایک امریکی اہلکار کے حوالے سے لکھا ہے کہ اتوار کے روز گھبرائے ہوئے افغان شہری جہاز کے ریمپ پر چڑھ گئے۔ جہاز کے عملے نے فیصلہ کیا کہ انھیں جہاز سے اتارنے سے بہتر ہے کہ جہاز کو اڑا لیا جائے۔
فوجی جہاز سی 17 گلوب ماسٹر میں 640 افراد سوار ہیں۔ اس ساخت کے جہاز میں پہلے کبھی اتنے مسافروں کو نہیں بٹھایا گیا ہے۔
ایک جہاز میں اتنے مسافروں کو بٹھانے کا یہ ریکارڈ تو نہیں ہے لیکن اس کی جانب ایک قدم ہے۔ اس سے پہلے اسرائیل 1991 میں بوئنگ 747 طیارے میں 1000 یہودی تارکین وطن کو افریقی ملک ایتھوپیا سے نکال کر لایا تھا۔
ڈیفنس ون نے امریکی اہلکار کے حوالے سے لکھا کہ امریکہ نے ایسی کئی فلائٹس کے ذریعے سینکڑوں افغان شہریوں کو کابل سے قطر پہنچایا ہے۔
پینٹاگون نے سرکاری طور پر اس تصویر کو جاری نہیں کیا ہے۔ یہ تصویر پیر کے روز کابل ایئرپورٹ کی ان تصاویر کے برعکس ہے جہاں طالبان کی آمد سے گھبرائے ہوئے افغان شہری کابل کے ہوائی اڈے میں گھس آئے ہیں۔
پیر کے روز سامنے انے والی تصویر اور ویڈیو میں کابل ایئرپورٹ پر سینکڑوں افغان شہری ایسے ہی ایک امریکی طیارے کے ساتھ بھاگتے ہوئے نظر آئے تھے۔ ان میں سے بعض نے طیارے کے ساتھ لٹک کر ملک سے فرار ہونے کو ترجیح دی اور مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق طیارے کے ساتھ
لٹکنے والے کم از کم دو افراد طیارے سے گر کر ہلاک ہوگئے۔
کئی لوگ امریکی طیارے میں افغان شہریوں کو لے جانے کے اقدام کا خیر مقدم کریں گے لیکن جتنے لوگ افغانستان کو چھوڑنا چاہتے ہیں یہ تعداد سمندر میں ایک قطرے کی مانند ہے۔
اقوام متحدہ کے ادارے برائے مہاجرین نے مختلف ممالک سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ پناہ کے طلبگار افغان شہریوں کو ملک بدر نہ کریں۔
ایک اندازے کے مطابق رواں سال میں افغانستان کے اندر پانچ لاکھ سے زیادہ افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔
افغانستان میں یو این ایچ سی آر کی نمائندہ کیرولین وان برن نے امریکی چینل سی این این کو بتایا کہ ہر ہفتے 20 سے 30 ہزار افغان شہری ملک سے فرار ہو رہے ہیں۔ حکومتی اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ ایک لاکھ 20 ہزار افراد کابل منتقل ہو چکے ہیں۔
افغانستان کو چھوڑنے والوں میں ایسے افراد بھی شامل ہیں جنہوں نے مغربی ممالک کی افواج کے ساتھ کام کیا ہے۔ ان میں زیادہ تر وہ ہیں جنھوں نے مترجم کے طور پر کام کیا تھا۔ لیکن طالبان کے پہلے دور میں عورتوں کے ساتھ جو سلوک روا رکھا گیا اور لوگوں کو دی جانے والی وحشیانہ سزاؤں کی وجہ سے لوگ ان سے ڈر رہے ہیں۔
اگست کے شروع میں وائٹ ہاؤس نے ہزاروں ایسے افغان شہریوں کو امریکہ میں بسانے کے منصوبے کا اعلان کیا تھا جن کا امریکہ سے کوئی تعلق تھا۔ صدر جو بائیڈن نے افغان مہاجرین کے لیے 500 ملین ڈالر کی امداد کا اعلان کیا تھا۔
امریکہ ابھی تک 2000 افغان شہریوں کو خصوصی امیگریشن ویزہ کے تحت افغانستان سے باہر منتقل کر چکا ہے۔ امریکہ کئی ہزار مزید افغان شہریوں کو افغانستان سے باہر منتقل کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔
دوسرے ممالک بھی امریکہ کی مدد کر رہے ہیں۔ جرمن چانسلر اینگلا میرکل نے اپنی پارٹی کے لیڈروں کو بتایا ہے کہ جرمنی کو 10 ہزار لوگوں اور ڈھائی ہزار سپورٹ سٹاف کو افغانستان سے نکالنا ہوگا۔
برطانیہ کے وزیر خارجہ ڈومینک راب نے بی بی سی بریک فاسٹ کو بتایا کہ برطانیہ نے اتوار کے روز تک 150 برطانوی شہریوں کو افغانستان سے نکالا ہے۔ برطانیہ نے پچھلے ہفتے 289 افغان شہریوں کو افغانستان سے نکالا تھا اور اگلے چوبیس گھنٹوں میں کئی سو اور لوگوں کو افغانستان سے نکالا جائے گا۔
افغانستان میں جو ہنگامہ برپا ہے اس نے یورپ میں مہاجرین کے ایک اور بحران کا خطرہ پیدا کر دیا ہے۔ اس کی ایک واضح مثال ترکی ہے جس نے ایران کے ساتھ اپنی طویل سرحد پر دیوار بنانا شروع کر دی ہے۔