Pakistani1947
Chief Minister (5k+ posts)
آج کل طرح طرح کے فتنے مسلمانوں کو قرآن اور حدیث سے دور کرنے کے لئے غیر مسلم اداروں کی جانب سے اٹھاۓ جا رہے ہیں - غیر مسلموں کی پوری کوشش ہے کہ کسی طرح مسلمانوں کے دلوں میں قرآن اور احادیث کی کتابوں خاص طور پر صحاح ستہ کتابوں کے بارے کنفیوژن کا شکار کریں اور ان میں سے ایسی باتیں ڈھونڈ کر نکالی جائیں جو ایک عام مسلمان کو کنفیوژ کر دے - بدقسمتی سے اس گھناونی سازش میں شیعہ برادری بھی شامل ہو گئی ہے میں نے کچھ دن پہلے ایک تھریڈ "قرآن الله کی کتاب ہے" شروع کیا تھا جس میں ثابت کیا تھا کہ چونکہ شیعہ مہذب کا کوئی بنیادی اختلافی عقیدہ قرآن سے ثابت نہیں ہوتا تو وہ اس قرآن کے بارے میں جو کہ ہر مسلمان کے گھر میں موجود ہے ، مسلمانوں میں شبہات پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں - کیونکہ ان کا عقیدہ ہے کہ وہ قرآن جو رسول الله ﷺ پر نازل ہوا تھا وہ صرف ان کے جعلی آئمہ کے پاس محفوظ ہے - مزید پڑھئیے
قرآن کے بعد اب شیعہ برادری نے مسلمانوں کی مستند ترین کتاب "صحیح بخاری" کو نشانہ بنایا ہے اور ڈھونڈ کر ایسی حدیث لائے ہیں جس کا متن پڑھ کر ایک عام سادہ مسلمان پریشان ہو جاتا ہے
شیعہ برادری نے جو حدیث پیش کی ہے اس کے آخری متن میں کہا گیا ہے کہ رسول الله ﷺ ایک موقعہ پر خود کشی کرنے پر آمادہ ہو گۓ تھے - آگے مضمون میں اس حدیث پر علماء کی جرح سے یہ ثابت کیا ہے کے حدیث کا وہ حصہ جس میں خود کشی کا ذکر ہے اس میں اسناد کے لحاظ سے سلسلہ ٹوٹا ہوا ہے - اس سے پہلے کہ میں اس حدیث کا تنقیدی جائزہ علماء کی رائے کے مطابق بیان کروں نیچے بیان کی گئی صرف ایک آیت اور صرف ایک حدیث ہی زیر بحث حدیث کے متن کے ضعیف حصے کا رد کر دے گی - انشاءالله - تمام مسلمانوں کا متفقہ اصول ہے کہ جو حدیث قرآن سے ٹکراۓ وہ رد کی جا ۓ گی
(Qur'an 2:195) وَلَا تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ
اور اپنے آپ کو اپنے ہاتھوں ہلاکت میں نہ ڈالو
میں نے ذکوان سے سنا، وہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث بیان کرتے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے پہاڑ سے اپنے آپ کو گرا کر خودکشی کر لی وہ جہنم کی آگ میں ہو گا اور اس میں ہمیشہ پڑا رہے گا اور جس نے زہر پی کر خودکشی کر لی وہ زہر اس کے ساتھ میں ہو گا اور جہنم کی آگ میں وہ اسے اسی طرح ہمیشہ پیتا رہے گا اور جس نے لوہے کے کسی ہتھیار سے خودکشی کر لی تو اس کا ہتھیار اس کے ساتھ میں ہو گا اور جہنم کی آگ میں ہمیشہ کے لیے وہ اسے اپنے پیٹ میں مارتا رہے گا۔
صحیح بخاری - 5778 - Islam360
صحیح بخاری کی حدیث نمبر ٦٩٨٢ حدیث کتاب خواب کی تعبیر میں ، پہلی چیز جو بذریہ وحی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آئی تھی، کے باب میں روایت کے متعلقہ عربی الفاظ درج ذیل ہیں
قَالَ الزُّهْرِيُّ فَأَخْبَرَنِي عُرْوَةُ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَنَّهَا قَالَتْ : ... وَفَتَرَ الْوَحْيُ فَتْرَةً حَتَّى حَزِنَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيمَا بَلَغَنَا حُزْنًا غَدَا مِنْهُ مِرَارًا كَيْ يَتَرَدَّى مِنْ رُءُوسِ شَوَاهِقِ الْجِبَالِ ، فَكُلَّمَا أَوْفَى بِذِرْوَةِ جَبَلٍ لِكَيْ يُلْقِيَ مِنْهُ نَفْسَهُ تَبَدَّى لَهُ جِبْرِيلُ فَقَالَ يَا مُحَمَّدُ إِنَّكَ رَسُولُ اللَّهِ حَقًّا ، فَيَسْكُنُ لِذَلِكَ جَأْشُهُ ، وَتَقِرُّ نَفْسُهُ ، فَيَرْجِعُ ؛ فَإِذَا طَالَتْ عَلَيْهِ فَتْرَةُ الْوَحْيِ غَدَا لِمِثْلِ ذَلِكَ ، فَإِذَا أَوْفَى بِذِرْوَةِ جَبَلٍ تَبَدَّى لَهُ جِبْرِيلُ فَقَالَ لَهُ مِثْلَ ذَلِكَ " .
مکمل حدیث عربی متن اور مکمل ترجمہ کے ساتھ جاننے کے لئے یہاں کلک کریں
اور وحی کا سلسلہ کٹ گیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی وجہ سے اتنا غم تھا کہ آپ نے کئی مرتبہ پہاڑ کی بلند چوٹی سے اپنے آپ کو گرا دینا چاہا لیکن جب بھی آپ کسی پہاڑ کی چوٹی پر چڑھے تاکہ اس پر سے اپنے آپ کو گرا دیں تو جبرائیل علیہ السلام آپ کے سامنے آ گئے اور کہا کہ یا محمد! آپ یقیناً اللہ کے رسول ہیں۔ اس سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سکون ہوتا اور آپ واپس آ جاتے لیکن جب وحی زیادہ دنوں تک رکی رہی تو آپ نے ایک مرتبہ اور ایسا ارادہ کیا لیکن جب پہاڑ کی چوٹی پر چڑھے تو جبرائیل علیہ السلام سامنے آئے اور اسی طرح کی بات پھر کہی
Sahih Bukhari – 6982 – islam360
یہ اضافی الفاظ (جو وحی کے خاتمے کی بات کرتا ہے اور نبی خودکشی پر غور کررہے ہیں) ‘عائشہ رضی اللہ عنہا کے الفاظ نہیں ہیں۔ بلکہ یہ الزہری کے الفاظ ہیں جو تابیعین میں سے تھے اور اس واقعہ کے ہم عصر نہیں تھے۔ انہوں نے یہ بیان نہیں کیا کہ کسی صحابی نے اسے بتایا کہ۔ لہذا انہوں نے روایت میں یہ بیان کیا کہ "فِيمَا بَلَغَنَا " ،ترجمہ، "ان اطلاعات کے مطابق جو ہم تک پہنچی ہیں۔"
ابن حجر – رحمه الله کہتے ہیں۔ مزید یہ کہ ، "ان اطلاعات کے مطابق جو ہم تک پہنچی ہیں" کے الفاظ الزہری کے ہیں۔ ان الفاظ کا کیا مطلب ہے: ایک بات جو ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں سنی وہ یہ کہانی ہے۔ یہ الزہری نے کہانیوں میں سے ایک ہے جو اس نے سنی ، اور یہ مُتّصِل نہیں ہے (یعنی ، اس کے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مابین روایت کا کوئی منسلک سلسلہ نہیں ہے)۔ الكرماني نے کہا: ایسا ہی معاملہ ظاہر ہوتا ہے۔
" فتح الباري " ( 12 / 359 ) .
أبو شامة المقدسي – رحمه الله کہتے ہیں۔
یہ الزہری یا کسی اور کے الفاظ ہیں ، حضرت ‘عائشہ’ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا کے نہیں ۔ اور اللہ بہتر جانتا ہے۔ اس لئے کہ اس نے "ان اطلاعات کے مطابق جو ہمارے پاس پہنچی ہے" کہا تھا ، اور حضرت ‘عائشہ’ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا سے اس معاملے میں ایسی کوئی بات روایت نہیں ہوئی ۔
" شرح الحديث المقتفى في مبعث النبي المصطفى " ( ص 177 ) .
الزہری کی وہ اطلاعات جن میں وہ کہتے ہیں کہ "ان اطلاعات کے مطابق جو ہم تک پہنچی ہیں" قابل قبول نہیں ہیں ، کیونکہ ان کی روایت کا سلسلہ شروع سے ہی ٹوٹا ہوا ہے۔ لہذا وہ معلق خبروں کی طرح ہیں۔ ایک ایسی رپورٹ جس میں اسناد کے آغاز سے ہی ایک یا زیادہ راوی خارج کردیئے گئے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ امام بخاری کی کتاب میں اس طرح کی معلق اطلاعات کا تذکرہ ہونا اس کا ثبوت یہ نہیں ہے کہ وہ ان کی نظر میں صحیح ہیں ، یا یہ کہا جاۓ کہ "اس کو بخاری نے روایت کیا ہے۔ ”، کیونکہ جس کی اطلاع اس کے بارے میں کہی جاسکتی ہے وہ وہی رپورٹ ہے جو اس نے ایک مکمل اسناد کے ساتھ بیان کیا ہے۔
شیخ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔
البخاری کی طرف منسوب ہونا ، یہ کہتے ہوئے کہ "بخاری نے اسے بیان کیا ہے" گویا یہ صحیح حدیث ہے، ایک سنگین غلطی ہے ، کیونکہ اس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ واقعہ' بخاری کی شرائط کے مطابق ہے اور یہ کہ، أستغفر الله، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آپ کو کسی پہاڑی چوٹی سے نیچے پھینکنا چاہا۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔ بلکہ بخاری نے اس کا ذکر حدیث کے آخر میں کیا
یہ اضافی روایت احمد نے بھی نقل کیا ہے (6 / 232-233)؛اور أبو نعيم ( الدلائل ) ( ص 68 - 69 ) میں ، اور البيهقي نے ( الدلائل ) ( 1 / 393 - 395 ) میں ، بذریعہ عبد الرزاق' معمر سے ۔
اسی اسناد کے ذریعہ یہ مسلم نے بھی بیان کیا ہے (1/98) ، لیکن انہوں نےان اضافی الفاظ کو بیان نہیں کیا۔ بلکہ انہوں نے ابن شہاب سے یونس کا بیان نقل کیا ، جس میں یہ اضافی مواد موجود نہیں ہے۔ مسلم اور احمد (6/223) نے بھی ‘عقیل بن خالد کے توسط سے روایت کیا ہے کہ ابن شہاب نے کہا… اس اضافی روایت کے بغیر۔ اسے بخاری نے صحیح کے آغاز میں ‘عقیل’ سے بھی روایت کیا ہے۔
میں [شیخ البانی] کہتا ہوں: مذکورہ بالا سے ہم یہ نتیجہ اخذ کرسکتے ہیں کہ اس اضافی مواد میں دو مسئلہ ہیں۔
پہلا یہ کہ معمر واحد ہے جس نے بیان کیا۔ اسے یونس اور عقیل نے روایت نہیں کیا۔ لہذا اس کو "شاذة" عجیب سمجھا جاتا ہے۔
دوسرا یہ کہ یہ مرسل ہے [یعنی صحابی راویوں کی زنجیر سے غائب ہے] یہی مسلہ ہے۔ وہ جو "ہمارے پاس پہنچنے والی خبروں کے مطابق" کہتا ہے وہ الزہری ہے ، جیسا کہ سیاق و سباق سے واضح ہے اور جیسا کہ الفاتح میں حفیظ نے بیان کیا ہے۔
میں کہتا ہوں: یہ وہ بات ہے جس پر ڈاکٹر البوطي [کتاب کے مصنف ہیں جس پر یہاں شیخ البانی تنقید کررہے ہیں] کو احساس نہیں ہوا ، کیوں کہ وہ اس سے لاعلم تھے ، لہذا ان کا خیال تھا کہ صحیح البخاری میں ہر ایک حرف مصنف کی صداقت کی شرائط کو پورا کرتا ہے۔ شاید انہوں نےتسلسل کے ساتھ اسناد والی حدیثوں اور معلق احادیث میں فرق نہ کیا ہو اور انہوں نے ان احادیث، جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نبی تک پاس واپس جانے والے ایک مکمل سلسلہ روایت کے ساتھ تھیں اور معلق کے درمیان فرق نہیں کیا تھا۔ ، جو بخاری نے اتفاقی طور پر ، حضرت ‘عائشہ’ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا کے اس اضافی قول کو نقل کیا ، جس کے آخر میں یہ مرسل اضافت ظاہر ہوتی ہے۔
یہ واضح رہے کہ یہ اضافی مواد راویوں کی کسی مکمل زنجیر کے ذریعہ بیان نہیں کیا گیا تھا جسے صحیح سمجھا گیا ، جیسا کہ میں نے سلسلة الأحاديث الضعيفة ، نمبر..4858 میں بیان کیا ہے۔ اس کے علاوہ میں نے "مختصري لصحيح البخاري" میں اپنے تبصروں میں اس کا بھی حوالہ دیا۔
اقتباس۔ "دفاع عن الحديث النبوي" (40-41)
نتیجہ (Conclusion):
وہ رپورٹ جس میں کہا گیا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مشن کے ابتدائی مراحل کے دوران وحی میں تاخیر ہونے کی وجہ سے خود کشی کرنے کا سوچا تھا اور اضافی مواد جو بخاری میں ہے لیکن بخاری کے معیار پر پورا نہیں اترتا اس حصہ کو الصحیح کے زمرے میں نہیں سمجھا جاسکتا۔ خود بخاری رحم (اللہ علیہ نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ یہ الزہری کے الفاظ تھے اور کسی اور کے نہیں ، اور یہ ایسی بات تھی جو انہوں نے بغیر کسی سند کے سنا تھا ، اور یہ درست نہیں ہے۔ ہم نے حدیث کے کچھ دوسرے نسخوں کا تذکرہ کیا ہے ،وہ سب اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ یہ کہانی اس کے راویوں کی زنجیر میں یا اس کے متن میں صحیح نہیں ہے۔
ماخوز
قرآن کے بعد اب شیعہ برادری نے مسلمانوں کی مستند ترین کتاب "صحیح بخاری" کو نشانہ بنایا ہے اور ڈھونڈ کر ایسی حدیث لائے ہیں جس کا متن پڑھ کر ایک عام سادہ مسلمان پریشان ہو جاتا ہے
بخاری وہ شخص ہے جس نے اپنی کتاب کے دیباچے میں رسول پاک صلی الله علیہ والہ وسلم سے خود کشی منسوب کی
اور بخاری ناصبیوں کے ہاں صحیح ترین محدث ہے
لخ لعنت اس پر اور اس کے ماننے والوں پر
شیعہ برادری نے جو حدیث پیش کی ہے اس کے آخری متن میں کہا گیا ہے کہ رسول الله ﷺ ایک موقعہ پر خود کشی کرنے پر آمادہ ہو گۓ تھے - آگے مضمون میں اس حدیث پر علماء کی جرح سے یہ ثابت کیا ہے کے حدیث کا وہ حصہ جس میں خود کشی کا ذکر ہے اس میں اسناد کے لحاظ سے سلسلہ ٹوٹا ہوا ہے - اس سے پہلے کہ میں اس حدیث کا تنقیدی جائزہ علماء کی رائے کے مطابق بیان کروں نیچے بیان کی گئی صرف ایک آیت اور صرف ایک حدیث ہی زیر بحث حدیث کے متن کے ضعیف حصے کا رد کر دے گی - انشاءالله - تمام مسلمانوں کا متفقہ اصول ہے کہ جو حدیث قرآن سے ٹکراۓ وہ رد کی جا ۓ گی
(Qur'an 2:195) وَلَا تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ
اور اپنے آپ کو اپنے ہاتھوں ہلاکت میں نہ ڈالو
میں نے ذکوان سے سنا، وہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث بیان کرتے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے پہاڑ سے اپنے آپ کو گرا کر خودکشی کر لی وہ جہنم کی آگ میں ہو گا اور اس میں ہمیشہ پڑا رہے گا اور جس نے زہر پی کر خودکشی کر لی وہ زہر اس کے ساتھ میں ہو گا اور جہنم کی آگ میں وہ اسے اسی طرح ہمیشہ پیتا رہے گا اور جس نے لوہے کے کسی ہتھیار سے خودکشی کر لی تو اس کا ہتھیار اس کے ساتھ میں ہو گا اور جہنم کی آگ میں ہمیشہ کے لیے وہ اسے اپنے پیٹ میں مارتا رہے گا۔
صحیح بخاری - 5778 - Islam360
صحیح بخاری کی حدیث نمبر ٦٩٨٢ حدیث کتاب خواب کی تعبیر میں ، پہلی چیز جو بذریہ وحی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آئی تھی، کے باب میں روایت کے متعلقہ عربی الفاظ درج ذیل ہیں
قَالَ الزُّهْرِيُّ فَأَخْبَرَنِي عُرْوَةُ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَنَّهَا قَالَتْ : ... وَفَتَرَ الْوَحْيُ فَتْرَةً حَتَّى حَزِنَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيمَا بَلَغَنَا حُزْنًا غَدَا مِنْهُ مِرَارًا كَيْ يَتَرَدَّى مِنْ رُءُوسِ شَوَاهِقِ الْجِبَالِ ، فَكُلَّمَا أَوْفَى بِذِرْوَةِ جَبَلٍ لِكَيْ يُلْقِيَ مِنْهُ نَفْسَهُ تَبَدَّى لَهُ جِبْرِيلُ فَقَالَ يَا مُحَمَّدُ إِنَّكَ رَسُولُ اللَّهِ حَقًّا ، فَيَسْكُنُ لِذَلِكَ جَأْشُهُ ، وَتَقِرُّ نَفْسُهُ ، فَيَرْجِعُ ؛ فَإِذَا طَالَتْ عَلَيْهِ فَتْرَةُ الْوَحْيِ غَدَا لِمِثْلِ ذَلِكَ ، فَإِذَا أَوْفَى بِذِرْوَةِ جَبَلٍ تَبَدَّى لَهُ جِبْرِيلُ فَقَالَ لَهُ مِثْلَ ذَلِكَ " .
مکمل حدیث عربی متن اور مکمل ترجمہ کے ساتھ جاننے کے لئے یہاں کلک کریں
اور وحی کا سلسلہ کٹ گیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی وجہ سے اتنا غم تھا کہ آپ نے کئی مرتبہ پہاڑ کی بلند چوٹی سے اپنے آپ کو گرا دینا چاہا لیکن جب بھی آپ کسی پہاڑ کی چوٹی پر چڑھے تاکہ اس پر سے اپنے آپ کو گرا دیں تو جبرائیل علیہ السلام آپ کے سامنے آ گئے اور کہا کہ یا محمد! آپ یقیناً اللہ کے رسول ہیں۔ اس سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سکون ہوتا اور آپ واپس آ جاتے لیکن جب وحی زیادہ دنوں تک رکی رہی تو آپ نے ایک مرتبہ اور ایسا ارادہ کیا لیکن جب پہاڑ کی چوٹی پر چڑھے تو جبرائیل علیہ السلام سامنے آئے اور اسی طرح کی بات پھر کہی
Sahih Bukhari – 6982 – islam360
یہ اضافی الفاظ (جو وحی کے خاتمے کی بات کرتا ہے اور نبی خودکشی پر غور کررہے ہیں) ‘عائشہ رضی اللہ عنہا کے الفاظ نہیں ہیں۔ بلکہ یہ الزہری کے الفاظ ہیں جو تابیعین میں سے تھے اور اس واقعہ کے ہم عصر نہیں تھے۔ انہوں نے یہ بیان نہیں کیا کہ کسی صحابی نے اسے بتایا کہ۔ لہذا انہوں نے روایت میں یہ بیان کیا کہ "فِيمَا بَلَغَنَا " ،ترجمہ، "ان اطلاعات کے مطابق جو ہم تک پہنچی ہیں۔"
ابن حجر – رحمه الله کہتے ہیں۔ مزید یہ کہ ، "ان اطلاعات کے مطابق جو ہم تک پہنچی ہیں" کے الفاظ الزہری کے ہیں۔ ان الفاظ کا کیا مطلب ہے: ایک بات جو ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں سنی وہ یہ کہانی ہے۔ یہ الزہری نے کہانیوں میں سے ایک ہے جو اس نے سنی ، اور یہ مُتّصِل نہیں ہے (یعنی ، اس کے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مابین روایت کا کوئی منسلک سلسلہ نہیں ہے)۔ الكرماني نے کہا: ایسا ہی معاملہ ظاہر ہوتا ہے۔
" فتح الباري " ( 12 / 359 ) .
أبو شامة المقدسي – رحمه الله کہتے ہیں۔
یہ الزہری یا کسی اور کے الفاظ ہیں ، حضرت ‘عائشہ’ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا کے نہیں ۔ اور اللہ بہتر جانتا ہے۔ اس لئے کہ اس نے "ان اطلاعات کے مطابق جو ہمارے پاس پہنچی ہے" کہا تھا ، اور حضرت ‘عائشہ’ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا سے اس معاملے میں ایسی کوئی بات روایت نہیں ہوئی ۔
" شرح الحديث المقتفى في مبعث النبي المصطفى " ( ص 177 ) .
الزہری کی وہ اطلاعات جن میں وہ کہتے ہیں کہ "ان اطلاعات کے مطابق جو ہم تک پہنچی ہیں" قابل قبول نہیں ہیں ، کیونکہ ان کی روایت کا سلسلہ شروع سے ہی ٹوٹا ہوا ہے۔ لہذا وہ معلق خبروں کی طرح ہیں۔ ایک ایسی رپورٹ جس میں اسناد کے آغاز سے ہی ایک یا زیادہ راوی خارج کردیئے گئے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ امام بخاری کی کتاب میں اس طرح کی معلق اطلاعات کا تذکرہ ہونا اس کا ثبوت یہ نہیں ہے کہ وہ ان کی نظر میں صحیح ہیں ، یا یہ کہا جاۓ کہ "اس کو بخاری نے روایت کیا ہے۔ ”، کیونکہ جس کی اطلاع اس کے بارے میں کہی جاسکتی ہے وہ وہی رپورٹ ہے جو اس نے ایک مکمل اسناد کے ساتھ بیان کیا ہے۔
شیخ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔
البخاری کی طرف منسوب ہونا ، یہ کہتے ہوئے کہ "بخاری نے اسے بیان کیا ہے" گویا یہ صحیح حدیث ہے، ایک سنگین غلطی ہے ، کیونکہ اس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ واقعہ' بخاری کی شرائط کے مطابق ہے اور یہ کہ، أستغفر الله، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آپ کو کسی پہاڑی چوٹی سے نیچے پھینکنا چاہا۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔ بلکہ بخاری نے اس کا ذکر حدیث کے آخر میں کیا
یہ اضافی روایت احمد نے بھی نقل کیا ہے (6 / 232-233)؛اور أبو نعيم ( الدلائل ) ( ص 68 - 69 ) میں ، اور البيهقي نے ( الدلائل ) ( 1 / 393 - 395 ) میں ، بذریعہ عبد الرزاق' معمر سے ۔
اسی اسناد کے ذریعہ یہ مسلم نے بھی بیان کیا ہے (1/98) ، لیکن انہوں نےان اضافی الفاظ کو بیان نہیں کیا۔ بلکہ انہوں نے ابن شہاب سے یونس کا بیان نقل کیا ، جس میں یہ اضافی مواد موجود نہیں ہے۔ مسلم اور احمد (6/223) نے بھی ‘عقیل بن خالد کے توسط سے روایت کیا ہے کہ ابن شہاب نے کہا… اس اضافی روایت کے بغیر۔ اسے بخاری نے صحیح کے آغاز میں ‘عقیل’ سے بھی روایت کیا ہے۔
میں [شیخ البانی] کہتا ہوں: مذکورہ بالا سے ہم یہ نتیجہ اخذ کرسکتے ہیں کہ اس اضافی مواد میں دو مسئلہ ہیں۔
پہلا یہ کہ معمر واحد ہے جس نے بیان کیا۔ اسے یونس اور عقیل نے روایت نہیں کیا۔ لہذا اس کو "شاذة" عجیب سمجھا جاتا ہے۔
دوسرا یہ کہ یہ مرسل ہے [یعنی صحابی راویوں کی زنجیر سے غائب ہے] یہی مسلہ ہے۔ وہ جو "ہمارے پاس پہنچنے والی خبروں کے مطابق" کہتا ہے وہ الزہری ہے ، جیسا کہ سیاق و سباق سے واضح ہے اور جیسا کہ الفاتح میں حفیظ نے بیان کیا ہے۔
میں کہتا ہوں: یہ وہ بات ہے جس پر ڈاکٹر البوطي [کتاب کے مصنف ہیں جس پر یہاں شیخ البانی تنقید کررہے ہیں] کو احساس نہیں ہوا ، کیوں کہ وہ اس سے لاعلم تھے ، لہذا ان کا خیال تھا کہ صحیح البخاری میں ہر ایک حرف مصنف کی صداقت کی شرائط کو پورا کرتا ہے۔ شاید انہوں نےتسلسل کے ساتھ اسناد والی حدیثوں اور معلق احادیث میں فرق نہ کیا ہو اور انہوں نے ان احادیث، جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نبی تک پاس واپس جانے والے ایک مکمل سلسلہ روایت کے ساتھ تھیں اور معلق کے درمیان فرق نہیں کیا تھا۔ ، جو بخاری نے اتفاقی طور پر ، حضرت ‘عائشہ’ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا کے اس اضافی قول کو نقل کیا ، جس کے آخر میں یہ مرسل اضافت ظاہر ہوتی ہے۔
یہ واضح رہے کہ یہ اضافی مواد راویوں کی کسی مکمل زنجیر کے ذریعہ بیان نہیں کیا گیا تھا جسے صحیح سمجھا گیا ، جیسا کہ میں نے سلسلة الأحاديث الضعيفة ، نمبر..4858 میں بیان کیا ہے۔ اس کے علاوہ میں نے "مختصري لصحيح البخاري" میں اپنے تبصروں میں اس کا بھی حوالہ دیا۔
اقتباس۔ "دفاع عن الحديث النبوي" (40-41)
نتیجہ (Conclusion):
وہ رپورٹ جس میں کہا گیا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مشن کے ابتدائی مراحل کے دوران وحی میں تاخیر ہونے کی وجہ سے خود کشی کرنے کا سوچا تھا اور اضافی مواد جو بخاری میں ہے لیکن بخاری کے معیار پر پورا نہیں اترتا اس حصہ کو الصحیح کے زمرے میں نہیں سمجھا جاسکتا۔ خود بخاری رحم (اللہ علیہ نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ یہ الزہری کے الفاظ تھے اور کسی اور کے نہیں ، اور یہ ایسی بات تھی جو انہوں نے بغیر کسی سند کے سنا تھا ، اور یہ درست نہیں ہے۔ ہم نے حدیث کے کچھ دوسرے نسخوں کا تذکرہ کیا ہے ،وہ سب اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ یہ کہانی اس کے راویوں کی زنجیر میں یا اس کے متن میں صحیح نہیں ہے۔
ماخوز
- Featured Thumbs
- https://i.ibb.co/BGcYC02/Sahih-bukhari.jpg
Last edited: