ملزم کو عدالت کے حکم پر ڈاکٹرز کے بورڈ کے پاس لے جا کر طبی معائنہ کروایا۔ڈاکٹرز کی رپورٹ کے مطابق ملزم کے جسم پر تشدد کا کوئی نشان نہیں ہے۔
تفصیلات کے مطابق اسلام آباد پولیس نے اداروں کے خلاف اشتعال انگیز بیانات دینے اور ان کے سربراہوں کے خلاف بغاوت پر اکسانے سمیت 10 سنگین نوعیت کے مقدمات میں گرفتار شہباز گل پر مبینہ تشدد کے حوالے سے سماجی رابطوں کی ویب ساءٹ ٹویٹر پر پاپنے پیغام میں لکھا کہ: ملزم کو عدالت کے حکم پر ڈاکٹرز کے بورڈ کے پاس لے جا کر طبی معائنہ کروایا۔ ڈاکٹرز کی رپورٹ کے مطابق ملزم کے جسم پر تشدد کا کوئی نشان نہیں ہے۔جیسا کہ تصاویر میں نظر آرہا ہے ملزم بالکل ہشاش بشاش اور جسمانی طور پر فٹ ہے۔
ایک اور ٹویٹ میں لکھا کہ جھوٹی ہمدردی حاصل کرنے کے لیے ملزمان کی جانب سے پراپیگنڈہ کیا جا رہا ہے ۔پولیس اس کیس سے منسلک تمام افراد کو قانون کے مطابق تفتیش میں شامل کرے گی۔تفتیش کی تفصیلات پولیس فائل کا حصہ ہیں اور معزز عدالت کے سامنے پیش کی جائیں گی۔تفتیش کے دوران بے شمار انکشافات سامنے آئے ہیں۔
سوشل میڈیا صارفین نے اسلام آباد پولیس کے بیان پر شدید ردعمل کا اظہار کیا۔ چیءرمین تحریک انصاف عمران خان کے فوکل پرسن حسان خان نیازی نے اسلام آباد پولیس کے ٹویٹ کے جواب میں لکھا کہ: یہ کیسی سستی پولیس بنی ہوءی ہے، آخری دفعہ شہباز گل کا میڈیکل کل صبح 6 بجے کیا گیا، میڈیکل آج ہونا چاہیے تھا تاکہ پورے پاکستان کو پتہ چل جاتا کہ شہباز گل پر تشدد ہوا ہے یا نہیں۔
سینءر صحافی رضوان احمد غلزءی نے ٹویٹ کرتے ہوءے لکھا کہ: بھری عدالت میں شہباز گل نے اپنی قمیض اٹھا کر تشدد کے نشانات دکھائے، عدالت میں موجود لوگ اس بات کے گواہ ہیں۔ معلوم نہیں کون سچا ہے اور کون جھوٹا۔
ایڈووکیٹ عبدالمجید ماہر نے ٹویٹ کرتے ہوءے لکھا کہ: اسلام آباد پولیس بہتر ہے اپنا نام ن لیگی گلوبٹ فورس رکھ لیں اور ٹویٹر کے مریم اورنگزیب کی خدمات حاصل کرلیں، فضول میں ایسی بی تکی باتیں کرکے پولیس کے کردار کو مشکوک نا بنائیں۔
تحریک انصاف کے کارکن وقاص احمد نے لکھا کہ: لگتا ہے ن لیگ نے اپنا سارا میڈیا سیل اسلام آباد پولیس کے ہینڈل پر بٹھا دیا ہے جتنا آج کل یہ ایکٹو ہوا پڑاہے۔
ایک سوشل میڈیا انفلوینسر تنویر احمد تنولی نے ٹویٹ کرتے ہوءے لکھا کہ: آپ کو پتہ ہے آپ دارالحکومت کی پولیس ہو ؟ آپ کو یہ بھی پتہ ہے کہ آپ کو مثالی پولیس ہونا چاہیے؟ چلو جیسے آپ کی مرضی جیسا آپ کو اچھا لگے ویسے بنو۔ موجودہ مثال سے لوگ آپ پہ بے حد افسوس کر رہے ہیں کہ دارالحکومت کی پولیس کو انٹرنیشنل معیار کے متقاضی ہونا چاہیے تھا۔
سابق وفاقی وزیر چوہدری فواد حسین نے ٹویٹ کرتے ہوءے لکھا کہ: عدالت کے سامنے شہباز گل نے اپنے زخم دکھائے اور بتایا کہ نہ تو اس کا کوءی میڈیکل ہوا اور نہ ہی کسی ڈاکٹر کو بلوایا گیا ، بے شرمی کی بھی کوءی انتہا ہوتی ہے۔
ایک سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ میاں سعید ایڈووکیٹ نے اسلام آباد پولیس کو جوابی ٹویٹ میں لکھا کہ: ان کو آپ نے دوران ٹرائل کورٹ میں ثابت کرنا ہے، جو آپ آدھے سے کم بھی ثابت نہیں کر پاءو گے ، دوران تفتیش پولیس کسٹڈی میں ملزم کا اعتراف معنی نہیں رکھتا ، یہ بات آپ بھی جانتے ہیں!