saveranadeem6
Voter (50+ posts)
:13::13:مینار پاکستان کے سائے تلے تحریک انصاف لاہور کے کارکنوں نے اپنے اس یادگار اور تاریخی جلسے کی یاد میں یوم انقلاب منایا ہے جس نے واقی تحریک انصاف کو ملکی سیاست میں موجودہ اہم مقام دلانے میں مرکزی کردار ادا کیا ہے۔ پچھلے برس 30 اکتوبر سے قبل سیاسی تجزیہ نگار، ناقدین اور سیاسی حریف سبھی اس بات کو موننے کے لیے قطعا تیار نہ تھے کہ تحریک انصاف اتنا بڑا جلسہ کرنے میں کامیاب ہوگی البتہ تحریک انصاف نے وہ کردکھایا تھا جس کی شائد عمران خان کو بھی توقع نہیں تھی۔ اس لیے 30 اکتوبر کا دن تحریک انصاف کی سیاسی زندگی میں اہم موڑ کے طور پر ہمیشہ یاد کیا جاتا رہے گا تاہم یہی وہ موڑ تھا جہاں پر رک کر، سمجھداری اور ہوشمندی سے صحیح فیصلے کرلیے جاتو تو آج ایک سال بعد تحریک انصاف اس مقام پر پہنچ چکی ہوتی کہ پاکستان کی موجودہ سیاسی جماعتوں میں سے کسی کے بس میں نہیں تھا کہ وہ اس سونامی کا مقابلہ کرپاتی۔ مینار پاکستان کے اس تاریخی جلسہ کے بعد یہ بات زبان زد عام ہوگئی کہ پڑھے لکھے دیانت دار اور محب وطن افراد کو تحریک انصاف کا امیدوار بنایا گیا تو عوام ان کا ساتھ دیں گے۔
جلسہ لاہور کی کامیابی کے عوامل، پس منظر اور اس کی اصل روح کو سمجھنے کی اس وقت اشد ضرورت تھی اور اگر ان عوامل کا جائزہ لے کر حکمت عملی اختیار کی جاتی تو یقینا آج صورت حال یکسر مختلف ہوتی اور جن چینلنجز کا آج تحریک انصاف کو سامنا کرنا پڑ رہا ہے ان کا نام و نشان تک نہ ہوتا۔ عمران خان اور ان کے ساتھی اس بات کو مانیں یا نا مانیں مگر یہ حقیقت ہے کہ پچھلے برس مینار پاکستان پر تاریخی جلسے کی کامیابی میں کسی لغاری، بوسن، قریشی، مخدوم، ٹوانے، پراچے، ترین، خان، قصوری، ٹمن، بھٹی، سردار، سندھو یا کسی سرمایہ دار اور جاگیردار وڈیرے کی کاوش اور جدوجہد شامل نہیں تھی اور نہ ہی سابقہ حکومتوں میں اقتدار و اختیار کے مزے لوٹ کر اپنی تجوریاں بھرنے والوں کا کوئی عمل دخل تھا بلکہ ان وڈیروں اور اشرافیہ کے ستائے ہوئے جلسی میں امڈ آئے تھے اور اسی مجمع نے دوسرے شہروں میں مقیم پریشان حال پاکستانیوں کو امید کی کرن دکھا دی۔ ہر بڑے شہر میں تحریک انصاف نے بڑے بڑے جلسے کیے اور ملک میں ایک بڑی سیاسی قوت کے طور پر تسلیم کی جانے لگی۔
پھر کیا ہوا ۔۔۔۔!لوٹوں نے تحریک انصاف کا رخ کیا اور عمران خان سمیت سبھی کی ایسی مت ماری گئی کہ کسی کو سمجھ نہ آیا اور کسی نے نہ سوچا کہ بھئ انھی لوٹوں اور لٹیروں سے تنگ اور ستائے ہوئے عام نے ملک میں حقیقی تبدیلی کی غرض سے تحریک انصاف کو عوامی پذیرائی بخشی ہے لہذا ان کی شمولیت کسی وقتی فائدے کا باعث تو بن سکتی ہے مگر تحریک انصاف کی اس انفرادیت اور انقلابیت کو ختم کردے گی جس کا ڈھنڈورا وہ پچھلے 16 برسوں سے پیٹ رہی ہے۔ آنا فاناٗ لوٹوں کو وائس چیئرمین اور پارٹی صدارت کے عہدوں سے نواز دیا گیا اور سالہا سال سے جدوجہد کرنے والے منہ تکتے رہ گئے۔
1996ء میں عمران خان نے تحریک انصاف بنائی تو 1997ء کے عام انتخابات میں کوئی ایک بھی نشست نہ جیت سکے۔ 2002ء کے عام انتخابات میں بھی تحریک انصاف کو پورے ملک میں بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا البتہ عمران خان اپنے آبائی حلقہ میانوالی سے قومی اسمبلی کی نشست جیتنے میں کامیاب ہوگئے۔ 2007ء کے عام انتخابات کا بائیکاٹ کرنے کے بعد عمران خان نے ملک کی دو بڑء سیاسی جماعتوں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے خلاف ایسی بھرپور مہم چلائی کہ مردہ تحریک انصاف میںجان پڑگئی۔ پیپلز پارٹی اور اس کی اتحادی جماعتوں کی حکومت نے کرپشن، بد انتظامی اور نا اہلی کی انتہا کردی جس کا براہ راست فائدہ عمران خان کو پہنچا کیونکہ مسلم لیگ (ن) کے بارے میں عمومی تاثر یہ پیدا ہوچکا تھا کہ وہ فرینڈلی اپوزیشن کا کردار ادا کرکے پنجاب حکومت کو مزے لوٹنا چاہتی تھی۔
مہنگائی، بے روزگاری، بدترین لوڈ شیڈنگ اور بد امنی نے عام کی چیخیں نکلوادیں اور آئے روز عدالتوں میں حکمرانوں ، ان کے بیٹوں اور عزیز و اقارب کی کرپشن کے مقدمات نے حکمرانوں کے خلاف ایسی نفرت کو جنم دیا کہ تبدیلی کا نعرہ ہر پاکستانی کی زبان پر آگیا اور عمران خان کو تبدیلی کی علامت کے طور پر سمجھا جانے لگا۔ یہی وہ عامل تھے جو عوام کو جوق در جوق عمران خان کے جلسوں میں لے آئے اور عمران خاننے سونامی کا نعرہ عوامی بنادیا۔
پھر یکدم سونامی کو بریکیں لگ گئیں۔ لوٹوں کی بڑی تعداد میں درآمد کے بعد اختلافات کے باوجود عمران خان پر انگلی نہ اٹھانے والوں کو موقع میسر آگیا اور آزمائے ہوئے چہروں کی مدد سے تبدیلی لانے کا عمل ہدف تنقید بن گیا۔ اس بحث میں پارٹی کارکن اور قائدین الجھتے ہی چلے گئے اور آج تلک الجھے ہوئے ہیں۔ تحریک انصاف کے پرانے کارکن مایوسی کا شکار ہوئے اور وسیع پیمانے پر گروہ بندیوں نے جنم لیا جس کا نتیجہ پارٹی کے انتخابات میں خطرناک حد تک سامنے آنے کا امکان ہے۔ کیونکہ اس وقت عملی طور پر تحریک انصاف کی تبدیلی کے شفاف نعرے کو آلودہ کیا ہے وہ بھی اپنے اپنے مفادات کے تحت اپنا سودا بیچنے میں مصروف ہیں تاکہ جہاں زیادہ فائدہ نظر آئے وہاں کی راہ لیں۔۔۔
اس ساری صورت حال کا دیانت داری کے ساتھ جائزہ لیا جائے تو واضح طور پر نظر آتا ہے کہ مشرف اور سابقہ ادوار میں اقتدار کے مزے لوٹنے والوں کی کثیر تعداد کو شامل کرنے کے عاقبت نا اندیش فیصلے نے نہ صرف پارٹی کے مخلص اور پرانے کارکنوں کو مایوس کیا ہے بلکہ ان مفاد پرستوں کے بھاگ جانے کی صورت میں تحریک انصاف کو شدید نقصان پہنچنے کا اندیشہ بھی موجود ہے۔ بانی اراکین شیریں مزاری اور ایڈمرل (ر) جاوید اقبال راہیں جدا کرچکے ہیں اور نئے آنے والوں میں سے افتخار گیلانی جا چکے اور خواجہ محمد خان ہوتی جانے والے ہیں اور جاوید ہاشمی اور ان کے ساتھ آنے والے تذبذب کا شکار ہیں جبکہ دوسریجانب شاہ محمود قریشی کے بارے میں تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے خود ایک نجی محفل میں فرمایا کہ وہ وزیرستان ڈرون حملوں کے خلاف مرچ کرنے کے حق میں نہیں تھے اور نہیں جانا چاہتے تھے یعنی بد اعتمادی پیدا ہوچکی اور اس بد اعتمادی کا نتیجہ کچھ بھی سامنے آسکتا ہے۔
اس لحاظ سے سونامی کا یہ پہلا سال غلط فیصلوں کی بناء پر تحریک انصاف کے لئے بھاری ثابت ہوا ہے کیونکہ غلط فیصلوں کی قیمت بہر حال چکانا پڑتی ہے۔ کئی پرانے اور مخلص تحریک انصاف کے دوستوں سے بات چیت ہوتی ہے تو وہ اس امید کا اظہار کرتے ہیں کہ بے شک غلط فیصلے ہوچکے مگر ٹکٹوں کی تقسیم کے موقع پر کسی مفاد پرست کو ٹکٹ نہیں دیا جائے گا۔ یہ امید ماضی اور موجودہ حالات کے پیش نظر تو خوش فہمی محسوس ہوتی ہے مگر حقیقت یہی ہے کہ اس کے سوا عمران خانکے پاس اور کوئی راستہ نہیں ہے عوام پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن) اور دیگر جماعتوں کو تبھی مسترد کریں گے جب واقعی حقیقی تبدیلی لیڈر شپ میدان میں اتاری جائے گی اور اس لسٹ میں لٹیروں کے نام شامل نہیں ہوں گے، یہ ایک اور اہم فیصلے کا موڑ ہوگا وگرنہ سونامی کا سفر گمانامی تک جانے میں دیر نہیں لگے گی۔
- Featured Thumbs
- http://img.youtube.com/vi/ZW_F-_WWF6A/0.jpg