جو کچھ اپنی آنکھوں کے سامنے ہوتا دیکھ رہا ہوں اس سے مایوس ہوں کیونکہ سارا نظام بکھر گیا ہے عدلیہ فتنہ خان کے سوشل میڈیا کے دباؤ میں اچکی ہے چھ ججز کے معاملے پر فل کورٹ کا فیصلہ انہوں نے مسترد کردیا انکوائری کمیشن نہیں بننے دیا جسٹس ر تصدق حسین جیلانی کو مجبوراً کمیشن کی سربراہی سے پیچھے ہٹنا پڑا۔ریاست کے اداروں کی بھی مکمل ناکام نظر آئی امید تھی کہ عام انتخابات کے بعد ملک میں سیاسی و معاشی استحکام آئے گا دہشت گردی اور امن وامان کے مسائل حل ہونگے مگر ایسا کچھ نہیں ہوا دہشت گردی بڑھ گئی لاقانونیت بدامنی عروج پر ہے مقامی اور غیر ملکی سرمایہ کار خوف زدہ ہیں مارکیٹ میں بزنس ٹھپ ہورہا ہے سوشل اور قومی میڈیا پر ایک افراتفری کا ماحول نظر آتا ہے ۔۔سوال یہ ہے کہ اس نظام کی ناکامی کا ذمہ دار کون ہے ؟کیونکہ چیزیں تیری سے بکھر رہی ہیں سارے ادارے عدلیہ اور حکومت ناکام نظر آرہے ہیں ۔۔یاد رکھیں تاریخ یہ سب معاف نہیں کرے گی بس یہ وقت کی بات ہے لاوا پھٹنے کو ہے کیونکہ 25 کروڑ عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکا ہے جس دن یہ عوامی لاوا پھٹ گیا تو یاد رکھیں نہ تو کوئی ادارہ بچے گا نہ ہی یہ نظام واپس آئے گا اس سے پہلے کہ دیر ہوجائے تمام سٹیک ہولڈرز ہوش کے ناخن لیں۔۔۔ملک اور عوام کا سوچیں۔۔
ایک چیز واضح طور کلیئر کردوں کہ میرا کسی سیاسی جماعت ،حکومت یا کسی گروپ سے کوئی تعلق نہیں مجھے کئی بار کئی عہدے آفر کیے گئے مگر میں نے ہمیشہ انکار کیا میں بس ایک عام آدمی اور صحافی ہوں جو کہ پورا ٹیکس دیتا ہے اس لیے جو میری موجودہ حالات پر سوچ تھی وہ بیان کردی سب کچھ نوشتہ دیوار ہے مگر یوتھیا بریگیڈ نے گالم گلوچ شروع کردی اور جو گالیاں وہ مجھے دے رہے ہیں اپنے والدین کو دیں جنھوں نے ان کو پیدا کیا مگر ان کی تربیت نہیں کی غلاظت بکنے سے کچھ نہیں ہوگا ۔گالم گلوچ بریگیڈ کا سربراہ فسادی خان جیل میں ہے جب وہ حکومت میں تھا تو اس نے چار سالوں میں کون سا ملک سنوار دیا تھا؟وہ تباہی و بربادی لیکر آیا اور جن لوگوں نے انصاف دینا لوگون کو تحفظ دینا وہ آج خود تحفظ اور انصاف مانگ رہے ہیں اس تناظر میں کہا تھا کہ نظام بکھر رہا پے اور میں نے کسی کو گالی دی نہ ہی غلاظت پرمبنی گفتگو کی جو یہ یوتھیاز کررہے ہیں اس سے اندازہ بھی ہوتا ہے کہ یہ لوگ کس قسم کے والدین کی اولاد ہیں۔