Awan S
Chief Minister (5k+ posts)
شاہد بھائی میں صرف قانونی طور پر بات کر رہا ہوں - جن لوگوں نے ووٹ دیا وہ پنجاب ہاؤس میں قید نہیں تھے ووٹ دوسری پارٹی کے لوگوں نے ووٹ دیا اور انہیں پرکشش عہدوں کی لالچ خان صاحب نے بھی دی - کیا چار سیٹوں والی ق لیگ کو پنجاب کے وزیر اعلی کی پیشکش نہیں تھی ؟ کیا ایم قیو ایم کو گورنر شپ تک آفر نہیں کی گئی ؟ وہ پیپلز پارٹی کے ساتھ اسلئے گئے کیونکے ان کے سارے مسلے تھے ہی پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت کے ساتھ نہ کہ مرکزی حکومت کے ساتھ - جہاں تک اپوزیشن کی ملاقاتوں کی بات ہے تو ایاز امیر پی ٹی آئی کا سپپورٹر ہے اور وہ طویل عرصہ فارن آفس میں رہا بقول اس کے جب بھی کوئی بیرونی اہلکار آتے ہیں وہ حکومت اپوزیشن سب سے ملتے ہیں اس میں کوئی ایسی بات ہی نہیں کہ ہم اسے سازش سے جوڑیں - باقی چودھری شجاعت اس وقت حکومت کا اتحادی تھا اس کا بیان ریکارڈ پر ہے کہ اپنی طویل سیاسی زندگی میں میں نے پہلی بار دیکھا ہے پیسہ نہیں چلا عہدے بانٹے گئے ہیں دونوں طرف سے - جو حالات اس وقت تحریک انصاف کے تھے دس سیٹوں جیسی پارٹی رہ گئی تھی سب نے اس ڈوبتے جہاز سے چھلانگ ہی لگانی تھی - یہ سیاست دان کروڑ پتی ہیں اور زیادہ تر ارب پتی ان کے پاس پیسے کی کوئی کمی نہیں ہے یہ عہدوں پر مرتے ہیں اس پروٹوکول اور اس طاقت پر جو ممبر یا وزیر کو ملتی ہے پیسے بھی وہ بنا لیتے ہیں جب عہدے ملتے ہیں مگر بندر بانٹ عہدوں پر ہوتی ہے -اگر پیسوں پر بھی فرض کیا مان لیں ہوئی تو اس کا ثبوت نہیں ہوتا - پیسے دے کر تو لوگ ٹکٹ بھی لیتے ہیں الیکشن پر کروڑوں روپے بھی خرچ کرتے ہیں پیسے کا عمل دخل سیاست سے ختم نہیں کیا جا سکتا لیکن تحریک عدم اعتماد کو یہ کہتے ہوئے خارج نہیں کیا جا سکتا ورنہ اتنا آسان راستہ تو کوئی بھی اپنا سکتا ہے دنیا بھر میں کہ سپیکر کوئی بھی الزام لگا کر تحریک عدم اعتماد خارج کر دے - اگر الزامات لگائے ہیں تو عدالت میں ثبوت پیش کرو اگر الزامات درست ہوئے تو حکومت بھال ہو جائے گی - نواز کی حکومت ترانوے میں صدر نے ختم کی اس نے عہدہ چھوڑ دیا اور سپریم کورٹ میں کیس کر دیا - کیس وہ جیت گیا اور حکومت بھال ہو گئی - تحریک انصاف کو بھی کمیشن کی ضد چھوڑ کے عدالت میں کیس داخل کرنا چاہئے تھا ثبوتوں کے ساتھ پھر بھلے عدالت تحقیقات کا جو بھی طریقہ اختیار کرتی جے آئی ٹی بناتی یا کمیشن یہ اس پر چھوڑ دیتے -میری باتیں یک طرفہ نہیں ہیں قانون کے عین مطابق ہیں -اعوان بھائی۔ ون سائیڈڈ بات نہ کریں۔ غیر جانبدار تبصرہ کریں۔
کیا اسٹیبلشمنٹ اور اپوزیشن نے جو کیا وہ آئینی عمل تھا؟ تحریک انصاف کے ۲۱ ارکان کو سندھ ہاؤس میں رکھ کر اور انہیں لوٹے بنا کر؟
رہا سائفر کا مسئلہ تو ایک سادہ سا سوال ہے۔ کل اگر انڈیا ایک ایک ارب روپئہ دے کر ن لیگ کے ۲۵ ارکان خرید لے اور ان سے کسی خاص مقصد کے لئے ووٹ دینے کو کہے تو آپ کے پاس اسے روکنے کا کیا حل ہے۔ یہ تو آپ جانتے ہیں کہ یہ ارکان تو دس دس کروڑ میں اپنی ماں بیچنے کو بھی تیار ہوتے ہیں۔
سائفر میں واضح طور پر اسٹیبلشمنٹ کو کہا گیا تھا کہ عمران خان کو نکالو۔ سیکورٹی کونسل اور پارلیمنٹ میں بھی پیش کیا گیا۔ لیکن اپوزیشن نے پارلیمنٹ میں اس پر بحث کرنے سے انکار کر دیا۔ نور عالم، راجہ ریاض اور کئی دوسرے منحرف ارکان امریکی سفارت خانے جا رہے تھے جو کہ پہلے کبھی نہی ہوا تھا۔ تو ایسے میں سپیکر کے پاس فل اتھارٹی ہے کہ وہ وہی کرے جو اس نے کیا۔ سپریم کورٹ تو اپنے آقاؤں کی غلام ہے اور ہمیشہ سے ہے۔ نہ ہوتی تو ان کے کہنے پر گیلانی اور نواز شریف کو نہ نکالتی۔ یہ سپریم کورٹ ہی کی ججمنٹ تھی کہ سپریم کورٹ سپیکر کی رولنگز پراپنی رولنگ نہی دے سکتی۔
ویسے میرے خیال میں ڈپٹی سپیکر نے ایک غلطی کی تھی۔ اسے عدم اعتماد کو ریجیکٹ نہی ڈیفر کرنا چاہیئے تھا۔ کہتا کہ میں سپریم کورٹ کو اس سائفر پر کمیشن بنا کر تحقیق کرنے کے لئے لکھ رہا ہوں کہ دو ہفتے میں اس پر جواب دے اور عدم اعتماد پر ووٹنگ یا عدم اعتماد کو رد کرنا اس کمیشن کی فائنڈنگز پر منحصر ہوگا۔