روس، افغانستان کی طالبان حکومت کو باضابطہ طور پر تسلیم کرنے والا دنیا کا پہلا ملک بن گیا ہے۔ روس کے اس اہم فیصلے کو بین الاقوامی سطح پر بڑی تبدیلی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، جو طالبان حکومت کی عالمی سطح پر تنہائی کے خاتمے کی طرف ایک نمایاں قدم ہے۔
خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق افغانستان کے لیے روس کے خصوصی نمائندے ضمیر کابلوف نے روسی سرکاری خبر رساں ایجنسی ’ریا نووستی‘ کو بتایا کہ ماسکو نے امارتِ اسلامیہ افغانستان کو باضابطہ طور پر تسلیم کر لیا ہے۔ اس تصدیق کے بعد، طالبان حکومت کو عالمی سطح پر پہلی بار رسمی طور پر کسی ریاست کی جانب سے تسلیم کیے جانے کا اعزاز حاصل ہوا ہے۔
https://twitter.com/x/status/1940824370089545839
روسی وزارت خارجہ کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ کابل سے نئے سفیر کی اسناد قبول کیے جانے کے بعد یہ اعلان کیا گیا۔ بیان میں مزید کہا گیا کہ "اس اقدام سے ہمارے ممالک کے درمیان مختلف شعبوں میں تعمیری دو طرفہ تعاون کو فروغ ملے گا۔"
افغان وزارت خارجہ نے بھی اس پیش رفت کی تصدیق کی ہے۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ (سابقہ ٹوئٹر) پر جاری کردہ بیان میں بتایا گیا کہ روس کے سفیر دمتری ژرنوف نے طالبان حکومت کے وزیر خارجہ مولوی امیر خان متقی سے ملاقات کی، اور اس ملاقات کے دوران روس کی حکومت کا باضابطہ فیصلہ افغان حکام تک پہنچایا۔
یاد رہے کہ طالبان نے اگست 2021 میں افغانستان کا کنٹرول سنبھالا تھا، جب امریکا اور نیٹو افواج 20 سالہ جنگ کے بعد افراتفری کے عالم میں ملک چھوڑ کر چلی گئیں۔ اس وقت سے اب تک کسی بھی ملک نے طالبان حکومت کو باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کیا تھا، اگرچہ چین، پاکستان، ازبکستان اور متحدہ عرب امارات نے کابل میں سفارتی نمائندگی برقرار رکھی ہوئی ہے، جسے اکثر تسلیم کرنے کی سمت ایک علامتی قدم تصور کیا جاتا رہا ہے۔
روس کی جانب سے طالبان حکومت کو تسلیم کیے جانے کا فیصلہ طالبان کے لیے بین الاقوامی سطح پر ایک بڑا سفارتی سنگ میل سمجھا جا رہا ہے۔ اس فیصلے سے دونوں ممالک کے درمیان اقتصادی، سیکیورٹی اور علاقائی تعاون کو مزید تقویت ملنے کی توقع ہے۔
واشنگٹن اور مغربی دنیا کی نظر میں یہ پیش رفت خاص اہمیت رکھتی ہے، جہاں امریکا نے نہ صرف افغان مرکزی بینک کے اربوں ڈالر کے اثاثے منجمد کر رکھے ہیں بلکہ طالبان کے کئی رہنماؤں پر پابندیاں بھی عائد کر رکھی ہیں۔ ان اقدامات کے نتیجے میں افغانستان کا مالیاتی نظام عالمی بینکاری نظام سے تقریباً کٹ چکا ہے۔
قابلِ ذکر ہے کہ رواں سال اپریل 2025 میں روس کی اعلیٰ عدالت نے طالبان پر دہشت گرد تنظیم کی حیثیت سے عائد پابندی کو معطل کر دیا تھا، جسے اس وقت طالبان کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے عمل کا آغاز قرار دیا گیا تھا۔
حالیہ دنوں میں داعش خراسان کے خلاف مشترکہ سیکیورٹی مفادات نے بھی روس اور طالبان کو ایک دوسرے کے قریب لانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
اس تاریخی پیش رفت پر تبصرہ کرتے ہوئے افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی نے روس کے فیصلے کو "دلیرانہ قدم" قرار دیا۔ انہوں نے ایک ویڈیو پیغام میں کہا:
"یہ فیصلہ دوسروں کے لیے مثال بنے گا۔ اب جب کہ تسلیم کرنے کا عمل شروع ہو چکا ہے، روس سب سے آگے ہے۔"