رستم
کہیں ایک شعر پڑھا تھا، شائد راجہ محمودآباد کا تھا، یا کسی اور راجہ کا، مگر تھا بہت ہی مزیدار اور آج کی صورت حال کے عین مطابق،
فرما گئے ہیں،،کودا یوں کوئی گھرمیں تیرے دھم سے نہ ہوگا ۔۔۔جو کام کیا ہم نے ،وہ رستم سے نہ ہوگا
واقعی جناب طاہرالقادری صاحب اور عمران خان صاحب پاکستانی سیاست بلکہ یوں کہیں کہ نواز شریف صاحب کی سیاست میں کچھ ایسے دھم سے کودے ہیں کہ یہ کام رستم بھی کرتا تو شائد ایسا دھمادھم نہ کرپاتا،،
پاکستان کی سیاست اس وقت دو واضح دھڑوںمیں تقسیم ہوکر جنگ کررہی ہے، ایک وہ سیاستدان ہیں جو مفاہمت کے تحت ایک پلان بنا کر ملک کو باری باری ،،دو شاہوں ،،کے خاندان میں پابند رکھنے کی خواہش رکھتے ہیں،،اور دوسرا دھڑا ان سیاستدانوں کا ہے ،جنہیں اس پلان سے باہر کردیا گیا ہے،یہ سمجھیں کہ پاکستان میں اقتدار کی دوڑ او ر اسکے نتیجے میں ملنے والی بے پناہ مراعات سے باہر
کس کی جیت ہونے والی ہے؟ آنے والا وقت ہی بتائے گا،
مگر اس دھرنے اور لانگ مارچ سے ایک اچھی بات یہ ہوئی کہ قوم کو اپنے لیڈروں کی اصلیت کا پتہ چل گیا ہے کہ
پاکستانی قوم کے استحصال میں کیسے کیسے لوگ شامل ہیں، اور اس خون نچوڑ نظام کو سہارا دینے والے کیسے کیسے بزرگ ہیں،سب سامنے آ گئے ہیں
عمران خان اور جناب طاہر القادری کے نظام میں اصلاح کے مطالبہ پر مستحکم رہنے کی وجہ سے فوج جیسے طاقتور ادارے سے حکومت وقت نے مدد مانگی ہے کہ وہ آگے آئے ،اور فریقین کے مصالحتی مذاکرات کی نگرانی کرے،اور جائز مطالبات کو قانونی طریقہ سے رو بہ عمل لانے میں مدد دے
یہ ایک اچھی بات ہے،،جو لوگ جمہوریت کے چمپئن بن کر فوج کے ملوث کرنے پر شور مچا رہے ہیں،وہ یا تو احمق ہیں یا وطن دشمن،،،سوچنا چاہئے کہ کیا فوج پاکستانی ادارہ نہیں ہے، اگر کسی مشکل میں اس سے مدد لی جارہی ہے تو کیا برآئی ہے؟
بہرحال حکومت ہو،عوام ہوں یا فوج،،انہیں سوچ لینا چاہئے قوموں کو بہت زیادہ مواقع نہیں ملا کرتے
طاہرالقادری اور عمران خان کو چاہئے کہ بالکل جائز مطالبات پیش کریں
نواز شریف صاحب کو چاہئے کہ جائز مطالبات فورا" مان لیں،اور ملک میں حقیقی جمہوریت قائم کریں
اور فوج کو چاہئے کہ جب اس سے امداد طالب کر ہی لی گئی ہے ،تو جائز بات کو جائز قرار دے، اور فریقین میں سے جو نہ مانیں، ان سے آئین اور قانون کی روشنی میں ، نبٹے جانے میں مدد دے
منہ زور
،2014-08-29
پاکستان کی سیاست اس وقت دو واضح دھڑوںمیں تقسیم ہوکر جنگ کررہی ہے، ایک وہ سیاستدان ہیں جو مفاہمت کے تحت ایک پلان بنا کر ملک کو باری باری ،،دو شاہوں ،،کے خاندان میں پابند رکھنے کی خواہش رکھتے ہیں،،اور دوسرا دھڑا ان سیاستدانوں کا ہے ،جنہیں اس پلان سے باہر کردیا گیا ہے،یہ سمجھیں کہ پاکستان میں اقتدار کی دوڑ او ر اسکے نتیجے میں ملنے والی بے پناہ مراعات سے باہر
کس کی جیت ہونے والی ہے؟ آنے والا وقت ہی بتائے گا،
مگر اس دھرنے اور لانگ مارچ سے ایک اچھی بات یہ ہوئی کہ قوم کو اپنے لیڈروں کی اصلیت کا پتہ چل گیا ہے کہ
پاکستانی قوم کے استحصال میں کیسے کیسے لوگ شامل ہیں، اور اس خون نچوڑ نظام کو سہارا دینے والے کیسے کیسے بزرگ ہیں،سب سامنے آ گئے ہیں
عمران خان اور جناب طاہر القادری کے نظام میں اصلاح کے مطالبہ پر مستحکم رہنے کی وجہ سے فوج جیسے طاقتور ادارے سے حکومت وقت نے مدد مانگی ہے کہ وہ آگے آئے ،اور فریقین کے مصالحتی مذاکرات کی نگرانی کرے،اور جائز مطالبات کو قانونی طریقہ سے رو بہ عمل لانے میں مدد دے
یہ ایک اچھی بات ہے،،جو لوگ جمہوریت کے چمپئن بن کر فوج کے ملوث کرنے پر شور مچا رہے ہیں،وہ یا تو احمق ہیں یا وطن دشمن،،،سوچنا چاہئے کہ کیا فوج پاکستانی ادارہ نہیں ہے، اگر کسی مشکل میں اس سے مدد لی جارہی ہے تو کیا برآئی ہے؟
بہرحال حکومت ہو،عوام ہوں یا فوج،،انہیں سوچ لینا چاہئے قوموں کو بہت زیادہ مواقع نہیں ملا کرتے
طاہرالقادری اور عمران خان کو چاہئے کہ بالکل جائز مطالبات پیش کریں
نواز شریف صاحب کو چاہئے کہ جائز مطالبات فورا" مان لیں،اور ملک میں حقیقی جمہوریت قائم کریں
اور فوج کو چاہئے کہ جب اس سے امداد طالب کر ہی لی گئی ہے ،تو جائز بات کو جائز قرار دے، اور فریقین میں سے جو نہ مانیں، ان سے آئین اور قانون کی روشنی میں ، نبٹے جانے میں مدد دے
منہ زور
،2014-08-29