اسلام آباد پولیس نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے پیغام دیا کہ اطلاعات کے مطابق محکموں کو بدنام کرنے کی منظم مہم کا آغاز کیا گیا ہے۔ہر عہدے کے افسران کو نشانہ بنایا جارہا ہے تاکہ اداروں کی بدنامی کی جاسکے۔
اسلام آباد پولیس کے ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ تمام خواتین قابل احترام ہیں لیکن کچھ کو اس مہم میں استعمال کیا جا سکتا ہے ۔ایسے مذموم ہتھکنڈے غیر ملکی انٹیلیجنس ادارے ماضی میں استعمال کرتے رہے ہیں۔
ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ تمام افسران کو ہدایت کی جاتی ہے کہ کسی بھی ایسی چال سے بچنے کے لیے معاملات کو شفاف رکھیں۔تمام دفاتر، تھانہ جات اور حوالات میں کیمرے ٹھیک رکھیں۔
اسلام آباد پولیس کے اس ٹویٹ پر سوالات اٹھنے لگے۔
صحافی ثاقب بشیر کا کہنا تھا کہ رات بارہ بجے وزیر داخلہ کی پریس کانفرنس اب اسلام آباد پولیس کی غیر معمولی پریس ریلیز ۔۔ ؟
وسیم عباسی نے تبصرہ کیا کہ پہلے وزیر داخلہ اور اب اسلام آباد پولیس کئ غیر معمولی پریس ریکیز۔۔ آخر ہوا کیا ہے؟؟
فرخ حبیب کا کہنا تھا کہ اس ٹویٹ کا مطلب چوری اور سینہ سینہ زوری ہے چور کی داڑھی میں تنکا
ایک سوشل میڈیا صارف نے لکھا کہ ملک میں کچھ نہ کچھ عجیب چل رہا ہے رات 12 کانفرنس اور پولیس اپنے افیسرز کو وارن کر رہی ہے
اسلام الدین ساجد نے لکھا کہ اگر پولیس نے کچھ غلط نہیں کیا تو خوف کی کوئی ضرورت نہیں لیکن ٹویٹ کرنے کی ضرورت کیوں پڑی ؟؟
وی لاگر سعید بلوچ نے تبصرہ کیا کہ اللّٰہ خیر کرے وزیر داخلہ کے بعد اسلام آباد پولیس کی انتہائی مشکوک اور غیر معمولی پریس جاری ہو گئی ہے، لگتا ہے جو بلنڈر اس مکس اچار حکومت اور ریاستی اداروں سے سرزد ہوا ہے وہ معمولی ہرگز نہیں ہے جس کی اتنی شدومد سے پیش بندی کی جا رہی ہے
سائرہ بانو نے لکھا کہ محکموں کو بدنام۔۔؟ پہلے کونسی نیک نامی سمیٹی ہوئ ہے
وسیم اعجاز نے تبصرہ کیا کہ رانا ثنا اللہ کی رات گئے ایمرجنسی پریس کانفرنس اور اب اسلام آباد پولیس کا اپنے اہلکاروں کو آفیشل کمیونیکشن کی بجائے سوشل میڈیا پر ہدایت نامہ ان افواہوں کو تقویت دے رہیں ہیں کہ حکومت / پولیس سے کوئی بڑا کانٹ ہو گیا ہے جس کو کور آپ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے